لوٹی ہوئی دولت بچانے کے لیے

حکومت کا میڈیا سیل اس قدر پھسپھسا ہے کہ وہ سوائے آئیں بائیں شائیں کرنے کے کچھ کہہ نہیں سکتا حالانکہ کہنے کو بہت کچھ ہے

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

ISLAMABAD:
اپوزیشن اور حکومت کے درمیان جو شدید محاذ آرائی جاری ہے، اس کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ حکومت مضبوط ہے، اسے اپوزیشن سوائے جھوٹے پروپیگنڈے کے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی ہے، دوسرے یہ کہ انتہائی منظم اور جارحانہ پروپیگنڈے سے رائے عامہ کو متاثرکیا جا سکتاہے۔

حکومت کا میڈیا سیل اس قدر پھسپھسا ہے کہ وہ سوائے آئیں بائیں شائیں کرنے کے کچھ کہہ نہیں سکتا حالانکہ حکومت کے لیے کہنے کو بہت کچھ ہے، صرف دس سال تک کرپشن کا جو سلسلہ چلتا رہا، اس پر برسوں بات کی جا سکتی ہے۔ حکومت اس حوالے سے بار بار وہ اعداد و شمار پیش کر سکتی ہے جو نیب کی اربوں روپوں کی ریکوری کے حوالے سے میڈیا میں آ رہے ہیں۔

ویسے بھی دس برسکے دوران اربوں روپے ادھر سے اُدھر ہو گئے لیکن پی ٹی آئی حکومت کا میڈیا سیل اس قدر نکما ہے کہ وہ زبان بند کیے بیٹھا ہے اور اپوزیشن دھڑلے سے اس تیزی سے جھوٹا پروپیگنڈا کر رہی ہے کہ عام آدمی اس سے متاثر ہو رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اپوزیشن کے اس جارحانہ پروپیگنڈے اور الزام تراشیوں کا جواب دینے کی ذمے داری جن وزرا اور مشیران کو دی گئی ہے ، وہ اس طوفانی پروپیگنڈے کا مقابلہ نہیں کر سکتے ۔

یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ پچھلے دس سالوں میں اربوں روپوں کی کرپشن ہوئی ہے، وہ رقم غریب محنت کش عوام کی محنت کی کمائی ہے اور اس کی برآمدگی کے لیے لڑنا اس ملک کے ہر شریف آدمی کا کام ہے۔ ادھر ہماری اپوزیشن حکومت کو گرانے کے لیے جلسوں پر جلسے اور بڑے بڑے جلوس نکال کر کورونا کو کھلی دعوت دے رہی ہے۔ ہزاروں افراد ہجوموں سے متاثر ہو کر کورونا میں مبتلا ہو کر جانوں سے جا رہے ہیں لیکن اقتدارکی لڑائی میں کسی کو کچھ دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ یہ صورتحال بہت سنگین ہے۔ بالادست طاقتوں کو فوری اس کا نوٹس لینا چاہیے۔


اپوزیشن کی تحریک کے پیچھے صرف ایک مقصد ہے، وہ یہ ہے کہ حکومت کو گرایا جائے تاکہ احتساب کے سلسلے کو روک دیا جائے۔ اس مقصد کے لیے اپوزیشن نے جن ایام کا انتخاب کیا ہے، وہ درست نہیں کیونکہ ہر طرف کورونا کی وباء پھیلی ہوئی ہے۔ بلاشبہ ہمارے سسٹم میں اقتدار کی بڑی اہمیت ہوتی ہے لیکن اگر اقتدار جماعتی اور ذاتی مفادات کے لیے استعمال ہو تو یہ قابل مذمت ہو جاتا ہے اور بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اقتدار ذاتی اور جماعتی مفادات کے لیے کھلے عام استعمال ہو رہا ہے۔

پاکستان کی سیاست میں بہت ساری سیاسی پارٹیاں آئیں اور گئیں لیکن ان کی سیاست سے کبھی یہ اندازہ نہیں ہوا کہ یہ ایمرجنسی اوڑھ کر آئی ہیں لیکن ہماری پی ڈی ایم اتنی ایمرجنسی میں آئی ہے کہ کوئی ایک کام سنجیدہ نظر نہیں آیا اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس کی پیدائش ہی ایمرجنسی میں ہوئی ہے۔ سیاسی پارٹیاں اطمینان سے عوام کے سامنے اپنا منشور پیش کرتی ہیں اور اس منشور کو لے کر عوام کے سامنے جاتی ہیں، عوام منشور کو دیکھ کر اپنی ایک رائے قائم کرتے ہیں ، یہ ایک طویل عمل ہوتا ہے لیکن پی ڈی ایم کی عجلت پسندی اور ایمرجنسی سے یوں لگ رہا ہے کہ اس کے لیے اقتدار کی حسین پری کھڑی ہوئی ہے اور وہ بغیر کسی توقف کے اسے جھپٹنے کے لیے بے قرار ہیں۔

پی ڈی ایم کی اس عجلت پسندی سے یہی بات ظاہر ہو رہی ہے کہ وہ جلد سے جلد اقتدار جھپٹ لینا چاہتی ہے ، کیونکہ اسے ڈر ہے کہ کہیں نیب کے مقدمات حتمی مراحلے میں داخل ہوکر ان کی سیاست ہی ختم نہ کردیں۔

ہماری پی ڈی ایم کی ایمرجنسی کا حال یہ ہے کہ اس نے 13 تاریخ اپنے انقلاب کی تاریخ طے کی ہے۔ شاہد انھیں لگتا ہے کہ اس تاریخ کو جو انقلابی کارروائی ہوگی، اس کے فوری بعد وزیر اعظم عمران خان اپنے گھر چلے جائیں گے اور ان کی جگہ یہ اپوزیشن والے، عمران خان کی جگہ لیں گے۔ یہ جو جلد بازی ہو رہی ہے اس کا واحد مقصد عوام کو یہ باورکرانا ہے منتقلیٔ اقتدار کا سارا کام ہو گیا ہے، اب صرف اپوزیشن لیڈروں کا حلف اٹھانا باقی رہ گیا ہے۔ ہمارا کالم چھپنے تک یہ تاریخ گزر جائے گی اور پاکستانی تاریخ کا وہ معجزہ پیش آ جائے گا جس کے مطابق عمران خان اپنے گھر چلے جائیں گے اور اقتداری تاریخ کی وہ حکومت حلف اٹھا لے گی جو ایک پیر پر کھڑی ہوئی ہے۔

ہم نے بے شمار حکومتوں کو اقتدار سے باہر نکلتے اور نئی جماعتوں کو اقتدار میں آتے دیکھا، لیکن جو کچھ اب دیکھ رہے ہیں وہ نہ کبھی دیکھا اور نہ کبھی دیکھنے کی امید ہے۔حکومت بنانے کی جتنی بھی کوشش کی جائے، کتنی ہی ایمرجنسی ہو جائے، یہ بیل تیرہ تک منڈھے چڑھنے والی نہیں۔
Load Next Story