کراچی کی ساحلی بستی میں ملک کی سب سے بڑی پینٹنگ بنادی گئی

نیبر ہوڈ پروگرام کے تحت سڑک کی تزئین میں عزیزنے برش سے دیواروں پرسمندری حیات اورکشتیوں کی اشکال بناکرسب کودنگ کردیا

عبدالعزیزکودیوارپرماہی گیروں کی بستی اورسمندرسے روزی کمانے کے مراحل کی تصویری کہانی پینٹ کرنیکی ذمے داری دی گئی

ابراہیم حیدری کے رہائشی اور ماہی گیروں کی کشتیوں پر نقش و نگار بنانے والے بوٹ آرٹسٹ عبدالعزیز نے کراچی نیبر ہوڈ امپروومنٹ پروگرام کے تحت ابراہیم حیدری کو جانے والی سڑک کے اطراف تعمیر کی جانے والی دیواروں پر پاکستان کی سب سے بڑی پینٹنگ کو اپنے فن سے چار چاند لگادیے۔

عبدالعزیز عام دنوں میں کشتیوں پر رنگ و روغن اور نقش و نگار بنانے کا کام کرتے ہیں اور پیدائشی طور پر فنی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں 50 سالہ عبدالعزیز پیدائشی فنکار ہیں اور چھوٹی عمر سے برش اور پینٹ سے کھیل رہے ہیں۔

انھوں نے یہ کام اپنے مشاہدے سے سیکھا اور وقت نے ان کا فن نکھار دیا، کراچی نیبر ہوڈ امپروومنٹ پروگرام کے تحت سڑک کی تعمیر اور اطراف کی تزئین و آرائش کا کام شروع ہوا تو عبدالعزیز نے طویل دیواروں کو خوبصورت بنانے کے لیے اپنی خدمات پیش کیں اور جب ان کے برش سے دیواروں پر خوبصورت سمندری حیات اور کشتیوں کی اشکال ابھر کر سامنے آئیں تو دیکھنے والے دنگ رہ گئے عبدالعزیز کو اب پوری دیوار پر ماہی گیروں کی بستی اور سمندر سے روزی کمانے کے مراحل کی تصویری کہانی پینٹ کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے جو وہ مہارت سے نبھارہے ہیں عبدالعزیز کی بنائی گئی پینٹنگ پاکستان کی سب سے بڑی پینٹنگ ہونے کے ساتھ سمندری حیات اور ماہی گیری سے متعلق دنیا کی وسیع ترین پینٹنگ کا بھی اعزاز رکھتی ہے جسے پیپلز ایکوریم کا نام دیا گیا ہے۔

عبدالعزیز پیپلز ایکوریم کی طرح کراچی کی تمام بدنما اور سیاسی نعروں اور اشتہاروں سے آلودہ دیواروں کو بھی خوبصورت بنانے کی خواہش رکھتے ہیں ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے عبدالعزیز نے کہاکہ اگر انہیں موقع ملا تو وہ اپنے فن کی بدولت کراچی کی ان دیواروں سے نفرت اور لسانیت پر مبنی نعروں کو کھرچ پھینکیں گے اور دیواروں کو اتائی اشتہاروں سے پاک کرکے ان پر دیدہ زیب پینٹنگز بنادیں گے اس مقصد کے لیے انھیں سرکاری سرپرستی کی ضرورت ہے۔

کشتیوں پرنقش شکارکی بندش کے ایام میں بناتاہوں،عزیز

عبدالعزیز کا کہنا ہے کہ وہ ماہی گیری پر پابندی کے دنوں میں کشتیوں پر نقش و نگار بنانے اور پینٹ کا کام کرتے ہیں جو شکار پر پابندی ختم ہوتے ہی بند ہوجاتا ہے اور وہ اپنے شاگردوں سمیت روزگار کے لیے مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں عبدالعزیر گزربسر کے لیے دکانوں کے سائن بورڈ اشتہار اور سینریاں بناتے ہیں۔

انہیں کوئی بھی تصویر دی جائے تو اسے کسی بھی سائز میں بنانے کا ہنر رکھتے ہیں، عبدالعزیز اپنے روزگار کے ساتھ اپنے شاگردوں کے روزگار کے لیے بھی فکر مند ہیں اور چاہتے ہیں کہ شہر میں انھیں دیواروں پر پینٹنگ بنانے کا موقع ملے تو اپنے شوق کی تکمیل کے ساتھ اپنے اور اپنے شاگردوں کیلیے روزگار بھی کماسکیں گے، سمندری حیات کی شکلیں، کشتیوں اور ماہی گیروں کے رہن سہن کے مناظر عبدالعزیز کے ذہن پر نقش ہیں اور وہ بغیر کسی ڈرائنگ کے اپنے ذہن پر نقش مناظر کو دیواروں پر پینٹ کررہے ہیں، عبدالعزیز پندرہ بیس منٹ میں بڑے سائز کی مچھلیاں بناسکتے ہیں۔


ابراہیم حیدری کے مکانوں پرماہی گیروں کی طرززندگی کےفن پارے بنائے جائیں گے

شرجیل بلوچ نے بتایا کہ اس تجربہ کو بڑھاتے ہوئے ابراہیم حیدری کی مقامی آبادی میں بھی رہائشی محلے کے مکانات پر سفیدی کرائی گئی ہے اور ان پر سمندری حیات کے تحفظ اور ماہی گیروں کی طرز زندگی سے متعلق پینٹنگ بنائی جائے گی اور رہائشی محلے میں دیواروں کا نچلا حصہ سفید چھوڑا جائے گا تاکہ سماجی رویوں اور عادات کو پائیدار بنیاد پر تبدیل کیا جاسکے اس کے ساتھ ہی رہائشی آبادی میں کچرے دان بھی رکھے جارہے ہیں۔

فٹ بال گراؤنڈ کی وسیع دیوار پرپینٹنگ بچوں سے بنوائی جائے گی

شرجیل بلوچ نے بتایا کہ ابراہیم حیدری کی مقامی آبادی میں ایک اور تجربہ فٹ بال گراؤنڈ کی وسیع دیوار پر بھی پینٹنگ بناکر کیا جارہا ہے لیکن اس پینٹنگ کی انفرادیت یہ ہے کہ اس دیوار پر ڈرائنگ کا خاکہ بناکر مقامی آبادی کے بچوں سے پینٹنگ میں رنگ بھروائے جائیں گے تاکہ ان میں احساس ملکیت پیدا کیا جاسکے۔

تصاویرکامقصدسمندری حیات سے متعلق شعوراجاگرکرناہے

ابراہیم حیدری کو جانے والے راستے پر بنائی گئی بلند و طویل دیواروں پر سمندری حیات کی تصاویر بنانے کا مقصد کمیونٹی اور گزرنے والوں میں سمندری حیات کے تحفظ سے متعلق شعور اجاگر کرنا ہے، ان دیواروں پر بنائی جانے والی پینٹنگز نے مقامی آبادی کے سماجی ریوں پر گہرا اثر مرتب کیا ہے۔

مقامی آرٹسٹ شرجیل بلوچ کے مطابق ان دو دیواروں کا مجموعی ایریا 13ہزار اسکوائر فٹ ہے ہر ایک دیوار ساڑھے 6 ہزار اسکوائر فٹ پر محیط ہے ان دیواروں پر جب پینٹنگ نہیں بنائی گئی تو ان پر سماجی رویوں کا اظہار کیا جارہا تھا جس کا جو دل چاہتا لکھ دیتا سیاسی نعرے لکھے جانے لگے یا پھر پان کی پیک تھوک دی جاتی لیکن جب سے سمندری حیات سے متعلق پینٹنگ بنائی گئی ہے اس پر کسی نے نہ تھوکا اور نہ ہی کچھ تحریر کیا یہ سماجی رویوں میں بدلاؤ کی علامت ہے جس سے ثابت ہوتا ہی کہ صاف ستھرا ماحول دیا جائے ۔

 
Load Next Story