ہم کہاں جارہے ہیں
ہمارے ملک میں صحت کا معیار دن بہ دن گرتا جا رہا ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔۔۔
ہمارے ملک میں صحت کا معیار دن بہ دن گرتا جا رہا ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلا یہ کہ نا تو ہم لوگ انفرادی طور پر حفظان صحت کا خیال رکھتے ہیں (جس میں اپنے ذاتی جسم کی صحت اور اپنے گھر، گلی کی صفائی ستھرائی کی طرف بھی کم توجہ دیتے ہیں) اور نا ہی حکومت کی طرف سے حفظان صحت کی تدابیر کی جاتی ہے۔ اول تو بجٹ میں اس مد میں نہایت قلیل رقومات رکھی جاتی ہیں اور جو بھی رقومات رکھی جاتی ہیں وہ رشوت کی نذرہوجاتی ہیں۔ ابھی کچھ ہی مہینے ہوئے کہ کراچی میں پانی صحیح نہیں آ رہا تھا (جو کہ اب بھی صحیح نہیں آرہا ہے)، تو ہمیں بتایا گیا کہ پانی میں کلورین بالکل نہیں یا کم مقدار میں ڈالی جارہی ہے۔ معلوم ہوا کہ اس کے لیے بجٹ میں پیسے تو ڈالے گئے تھے، لیکن خود کلورین نہیں ڈالی گئی۔ صحیح پانی نہ آنے کی وجہ سے بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ پھر یہ بھی عقدہ کھلا کہ جو کلورین کم مقدار میں ڈالی گئی تھی، اس میں بھی ملاوٹ تھی۔
ملاوٹ کی برکتوں سے توہم کئی سال سے فیض یاب ہورہے ہیں۔ خیر پہلے تو اس کے بارے میں کچھ سنی سنائی باتیں ہوتی تھیں، لیکن آج کل ٹی وی چینل جیتی جاگتی ملاوٹ دکھا رہے ہیں، لیکن جس دن وہ پروگرام دکھائے جاتے ہیں، اس دن ہمارے حکام بالا کا ٹی وی دیکھنے کا ناغہ ہوتا ہے، اس لیے انھیں معلوم ہی نہیں ہے کہ ملک میں چیزوں میں ملاوٹ ہو رہی ہے۔ دیگر یہ کہ ان 'حکام بالا' کو جو بھی چیزیں بازار سے ملتی ہیں، ان میں ملاوٹ نہیں ہوتی۔ کس چیز میں کس چیز کی ملاوٹ ہوتی ہے، یہ ایک لمبی داستان ہے۔ اور تو اور جو خون بلڈ بینکوں سے مل رہا ہے، اس میں بھی ملاوٹ ہوتی ہے۔ ایک صاحب نے دوسرے سے پوچھا کہ اگر اس کا کوئی پیارا اسپتال میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہو اور ڈاکٹر اسے کوئی دوا لانے کو کہتا ہے اور جب وہ اسٹور پر پہنچتا ہے تو اسے بتایا جاتا ہے کہ یہ دوا ملکی ہے اور یہ دوا غیر ملکی ہے، تو وہ کون سی دوا خریدے گا؟ اس نے کہا، غیر ملکی۔ اب اس بات کی وجہ میں کیا بتاؤں، آپ خود سمجھدار ہیں۔ کیا صحت کے حکام کو یہ نہیں معلوم کہ بازار میں ملاوٹ شدہ دوائیں اور خون بک رہا ہے؟ آپ کو یاد ہوگا کہ پچھلے سال پانی کی ایک بیماری نیگلیریا پھوٹ پڑی تھی، جس کی وجہ تھی خراب پانی۔ اس سے کئی اموات ہوئیں، لیکن اس بیماری کو روکنے کے لیے نہ تو پانی کو صاف کیا گیا اور نا ہی کوئی اور حفاظتی تدابیر کی گئیں۔
ہم لوگ اپنے گھروں کو تو آراستہ کرنے پر لاکھوں خرچ کرتے ہیں، اچھے اور قیمتی کپڑے پہنتے ہیں، لیکن اپنی گلی محلے میں حفظان صحت پر ایک روپیہ بھی خرچ کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ مانا کہ گلیوں اور سڑکوں کی صفائی حکومت کا کام ہے، لیکن کچھ فرض ہمارا بھی بنتا ہے کہ اگر اپنی ہی گلی میں کہیں کوئی پانی کی پائپ لائن ٹوٹی ہوئی ہے اور اس سے کثیر پانی بہہ کر گلی میں پھیل بھی رہا ہے، جو گندگی کا باعث بن رہا ہے اور اس کے بہنے کی وجہ سے ہمارے اپنے گھروں میں بھی پانی کی رسد متاثر ہوسکتی ہے، لیکن ہم متعلقہ محکمے کے دفتر کو اس سے آگاہ بھی نہیں کرتے۔ بلدیاتی نظام (جس میں عوام کے نمایندے ہوں) اور سرکاری کنٹرول میں ایک آنکھ مچولی چل رہی ہوتی ہے۔ کیونکہ اس نظام کے لیے انتخابات کرانے میں بھی حکومتی اور مخالف دھڑوں کے درمیاں کشمکش چلتی رہتی ہے، جس کی وجہ سے وہ نظام تسلسل سے نہیں چلتا۔
یہ نظام تو وہ ہے جو انگریزوں نے انیسویں صدی میں رائج کیا تھا اور تقسیم تک باقاعدہ تسلسل سے چلتا رہا، جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ غیر سیاسی بنیادوں پر ہوتا تھا۔ اس میں اچھے اچھے لوگ جن کی کوئی سیاسی وابستگی نہیں ہوتی تھی، منتخب ہو کر آتے تھے اور وہ لوگ بلا امتیاز اپنے اپنے علاقوں میں صفائی، حفظان صحت اور دیگر بھلائی کے کام کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے ہمارے شہر کے کنوؤں میں ہر سال باقاعدگی سے پوٹاشیم پرمینگنیٹ ڈالا جاتا تھا اور اس کے ڈالنے سے پہلے لوگوں کو آگاہ کیا جاتا تھا کہ اس سے پانی میں اس کا رنگ آجائے گا، لیکن وہ رنگ مضر صحت نہیں ہوگا۔ ہمارے اسکولوں میں موسم خزاں سے پہلے بلدیہ کی طرف سے ملیریا سے بچنے کے لیے کونین کی گولیاں بچوں کو کھلائی جاتی تھیں، جو زہر جیسی کڑوی ہوتی تھی اور ہم اسکول سے بھاگ بھی جاتے تھے، لیکن دوسرے، تیسرے دن بھی ضرور کھلائی جاتی تھی، اس سے مفرنہیں ہوتا تھا۔ کہاں گم ہوگئے وہ لوگ؟
جیسا کہ اوپر عرض کیا ہے، انگریزوں نے اس نظام کو غیر سیاسی رکھا اور باقاعدگی سے ہر 5 سال بعد اس کے انتخابات ہوتے تھے۔ لیکن ہمارے حکمرانوں نے اس نظام کو گھر کی لونڈی بنادیا۔ ایک صاحب نے اسے بنیادی جمہوریت کا نام دے کر اپنے آپ کو ''چنوایا''، دوسرے صاحبان نے اپنے لیے ''مثبت'' نتائج لانے کے لیے انتخابات کے لیے ٹال مٹول کا راستہ اختیار کیا۔ عجیب بات یہ ہے انگریزوں والے نظام میں گو وہ صوبائی دائرہ اختیار میں تھا، پورے ہندستان میں قواعد و ضوابط یکساں تھے۔ اب ہمارا ہر صوبہ اپنے سیاسی مقاصد پانے کے لیے اپنی مرضی سے قواعد و ضوابط بنا رہا ہے۔ لگتا ایسا ہے کہ یہ قصہ ایسا ہوگیا ہے جیسے اندھوں کا ایک ہاتھ ایک ہاتھی پر گیا اور ہر اندھا ہاتھی کے جسم کے کسی نہ کسی حصے کو ہاتھ لگا کر کہتا تھا کہ ہاتھی ایسا ہوتا ہے۔ البتہ سب صوبے اب اس بات پر متحد ہوگئے ہیں کہ انتخابات سیاسیی جماعتوں کی بنیاد پر ہی ہوں گے۔ ویسے صحیح بھی ہے، کیونکہ اب ہمارے ملک میں ہر آدمی دانستہ یا غیر دانستہ طور پر سیاسی ہو چکا ہے، اگر ویسے نہیں تو ٹی وی کے ٹاک شو دیکھ کر ہی۔ البتہ یہ طے ہے کہ اس پوری کتھا میں عوام کے بھلے کا کوئی ذکر خیر نہیں ہے۔
بات کہاں سے کہاں چلی گئی، لیکن مقصد یہ تھا کہ ہم لوگ نہ تو انفرادی طور پر اور نہ ہی اجتماعی طور پر اس بات کی پرواہ کرتے ہیں کہ ہماری صحت کیوں گرتی جارہی ہے؟ جب کہ دنیا کے 10 ممالک ایسے ہیں جو اپنے عوام کی صحت پر بھی دفاع کے برابر اہمیت دیتے ہیں اور ان کے بوڑھے بزرگ بھی اچھی صحت رکھتے ہیں اور لمبی عمریں پاتے ہیں، لیکن افسوس کی بات ہے کہ ان ممالک کی فہرست میں ایک بھی مسلمان ملک نہیں ہے۔ بلکہ ہم تو پولیو کے قطرے پلانا بھی کار گناہ سمجھتے ہیں۔ وہ ممالک ہیں سوئٹزرلینڈ، اٹلی، جاپان، آئی لینڈ، اسپین، فرانس، آسٹریلیا، سویڈن، اسرائیل اور ناروے۔ پتہ نہیں ہمیں کب فرصت ملے گی کہ اپنے لوگوں کی جسمانی اور ذہنی صحت صحیح کرنے کی؟ ویسے ہم لوگوں نے بھی بیماریاں خریدنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پان، گٹکا، چھالیہ، کچی شراب، تمباکو وغیرہ۔ مزے کی بات ہے کہ سگریٹ کے پیکٹوں پر لکھا ہوتا ہے کہ یہ مضر صحت ہے۔ اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا۔
ملاوٹ کی برکتوں سے توہم کئی سال سے فیض یاب ہورہے ہیں۔ خیر پہلے تو اس کے بارے میں کچھ سنی سنائی باتیں ہوتی تھیں، لیکن آج کل ٹی وی چینل جیتی جاگتی ملاوٹ دکھا رہے ہیں، لیکن جس دن وہ پروگرام دکھائے جاتے ہیں، اس دن ہمارے حکام بالا کا ٹی وی دیکھنے کا ناغہ ہوتا ہے، اس لیے انھیں معلوم ہی نہیں ہے کہ ملک میں چیزوں میں ملاوٹ ہو رہی ہے۔ دیگر یہ کہ ان 'حکام بالا' کو جو بھی چیزیں بازار سے ملتی ہیں، ان میں ملاوٹ نہیں ہوتی۔ کس چیز میں کس چیز کی ملاوٹ ہوتی ہے، یہ ایک لمبی داستان ہے۔ اور تو اور جو خون بلڈ بینکوں سے مل رہا ہے، اس میں بھی ملاوٹ ہوتی ہے۔ ایک صاحب نے دوسرے سے پوچھا کہ اگر اس کا کوئی پیارا اسپتال میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہو اور ڈاکٹر اسے کوئی دوا لانے کو کہتا ہے اور جب وہ اسٹور پر پہنچتا ہے تو اسے بتایا جاتا ہے کہ یہ دوا ملکی ہے اور یہ دوا غیر ملکی ہے، تو وہ کون سی دوا خریدے گا؟ اس نے کہا، غیر ملکی۔ اب اس بات کی وجہ میں کیا بتاؤں، آپ خود سمجھدار ہیں۔ کیا صحت کے حکام کو یہ نہیں معلوم کہ بازار میں ملاوٹ شدہ دوائیں اور خون بک رہا ہے؟ آپ کو یاد ہوگا کہ پچھلے سال پانی کی ایک بیماری نیگلیریا پھوٹ پڑی تھی، جس کی وجہ تھی خراب پانی۔ اس سے کئی اموات ہوئیں، لیکن اس بیماری کو روکنے کے لیے نہ تو پانی کو صاف کیا گیا اور نا ہی کوئی اور حفاظتی تدابیر کی گئیں۔
ہم لوگ اپنے گھروں کو تو آراستہ کرنے پر لاکھوں خرچ کرتے ہیں، اچھے اور قیمتی کپڑے پہنتے ہیں، لیکن اپنی گلی محلے میں حفظان صحت پر ایک روپیہ بھی خرچ کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ مانا کہ گلیوں اور سڑکوں کی صفائی حکومت کا کام ہے، لیکن کچھ فرض ہمارا بھی بنتا ہے کہ اگر اپنی ہی گلی میں کہیں کوئی پانی کی پائپ لائن ٹوٹی ہوئی ہے اور اس سے کثیر پانی بہہ کر گلی میں پھیل بھی رہا ہے، جو گندگی کا باعث بن رہا ہے اور اس کے بہنے کی وجہ سے ہمارے اپنے گھروں میں بھی پانی کی رسد متاثر ہوسکتی ہے، لیکن ہم متعلقہ محکمے کے دفتر کو اس سے آگاہ بھی نہیں کرتے۔ بلدیاتی نظام (جس میں عوام کے نمایندے ہوں) اور سرکاری کنٹرول میں ایک آنکھ مچولی چل رہی ہوتی ہے۔ کیونکہ اس نظام کے لیے انتخابات کرانے میں بھی حکومتی اور مخالف دھڑوں کے درمیاں کشمکش چلتی رہتی ہے، جس کی وجہ سے وہ نظام تسلسل سے نہیں چلتا۔
یہ نظام تو وہ ہے جو انگریزوں نے انیسویں صدی میں رائج کیا تھا اور تقسیم تک باقاعدہ تسلسل سے چلتا رہا، جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ غیر سیاسی بنیادوں پر ہوتا تھا۔ اس میں اچھے اچھے لوگ جن کی کوئی سیاسی وابستگی نہیں ہوتی تھی، منتخب ہو کر آتے تھے اور وہ لوگ بلا امتیاز اپنے اپنے علاقوں میں صفائی، حفظان صحت اور دیگر بھلائی کے کام کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے ہمارے شہر کے کنوؤں میں ہر سال باقاعدگی سے پوٹاشیم پرمینگنیٹ ڈالا جاتا تھا اور اس کے ڈالنے سے پہلے لوگوں کو آگاہ کیا جاتا تھا کہ اس سے پانی میں اس کا رنگ آجائے گا، لیکن وہ رنگ مضر صحت نہیں ہوگا۔ ہمارے اسکولوں میں موسم خزاں سے پہلے بلدیہ کی طرف سے ملیریا سے بچنے کے لیے کونین کی گولیاں بچوں کو کھلائی جاتی تھیں، جو زہر جیسی کڑوی ہوتی تھی اور ہم اسکول سے بھاگ بھی جاتے تھے، لیکن دوسرے، تیسرے دن بھی ضرور کھلائی جاتی تھی، اس سے مفرنہیں ہوتا تھا۔ کہاں گم ہوگئے وہ لوگ؟
جیسا کہ اوپر عرض کیا ہے، انگریزوں نے اس نظام کو غیر سیاسی رکھا اور باقاعدگی سے ہر 5 سال بعد اس کے انتخابات ہوتے تھے۔ لیکن ہمارے حکمرانوں نے اس نظام کو گھر کی لونڈی بنادیا۔ ایک صاحب نے اسے بنیادی جمہوریت کا نام دے کر اپنے آپ کو ''چنوایا''، دوسرے صاحبان نے اپنے لیے ''مثبت'' نتائج لانے کے لیے انتخابات کے لیے ٹال مٹول کا راستہ اختیار کیا۔ عجیب بات یہ ہے انگریزوں والے نظام میں گو وہ صوبائی دائرہ اختیار میں تھا، پورے ہندستان میں قواعد و ضوابط یکساں تھے۔ اب ہمارا ہر صوبہ اپنے سیاسی مقاصد پانے کے لیے اپنی مرضی سے قواعد و ضوابط بنا رہا ہے۔ لگتا ایسا ہے کہ یہ قصہ ایسا ہوگیا ہے جیسے اندھوں کا ایک ہاتھ ایک ہاتھی پر گیا اور ہر اندھا ہاتھی کے جسم کے کسی نہ کسی حصے کو ہاتھ لگا کر کہتا تھا کہ ہاتھی ایسا ہوتا ہے۔ البتہ سب صوبے اب اس بات پر متحد ہوگئے ہیں کہ انتخابات سیاسیی جماعتوں کی بنیاد پر ہی ہوں گے۔ ویسے صحیح بھی ہے، کیونکہ اب ہمارے ملک میں ہر آدمی دانستہ یا غیر دانستہ طور پر سیاسی ہو چکا ہے، اگر ویسے نہیں تو ٹی وی کے ٹاک شو دیکھ کر ہی۔ البتہ یہ طے ہے کہ اس پوری کتھا میں عوام کے بھلے کا کوئی ذکر خیر نہیں ہے۔
بات کہاں سے کہاں چلی گئی، لیکن مقصد یہ تھا کہ ہم لوگ نہ تو انفرادی طور پر اور نہ ہی اجتماعی طور پر اس بات کی پرواہ کرتے ہیں کہ ہماری صحت کیوں گرتی جارہی ہے؟ جب کہ دنیا کے 10 ممالک ایسے ہیں جو اپنے عوام کی صحت پر بھی دفاع کے برابر اہمیت دیتے ہیں اور ان کے بوڑھے بزرگ بھی اچھی صحت رکھتے ہیں اور لمبی عمریں پاتے ہیں، لیکن افسوس کی بات ہے کہ ان ممالک کی فہرست میں ایک بھی مسلمان ملک نہیں ہے۔ بلکہ ہم تو پولیو کے قطرے پلانا بھی کار گناہ سمجھتے ہیں۔ وہ ممالک ہیں سوئٹزرلینڈ، اٹلی، جاپان، آئی لینڈ، اسپین، فرانس، آسٹریلیا، سویڈن، اسرائیل اور ناروے۔ پتہ نہیں ہمیں کب فرصت ملے گی کہ اپنے لوگوں کی جسمانی اور ذہنی صحت صحیح کرنے کی؟ ویسے ہم لوگوں نے بھی بیماریاں خریدنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پان، گٹکا، چھالیہ، کچی شراب، تمباکو وغیرہ۔ مزے کی بات ہے کہ سگریٹ کے پیکٹوں پر لکھا ہوتا ہے کہ یہ مضر صحت ہے۔ اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا۔