کرائسٹ چرچ کے ’’بھوت‘‘

2015 کے دورہ نیوزی لینڈ کے دوران حارث سہیل کو کرائسٹ چرچ کے ہوٹل میں مبینہ طور پر بھوتوں نے تنگ کیا تھا


Saleem Khaliq December 14, 2020
حارث سہیل 5 سال بعد دوبارہ نیہوزی لینڈ کے دورے پر قومی ٹیم کے ساتھ ہیں فوٹو: فائل

آدھی رات کا وقت تھا کہ اچانک بیڈ زور زور سے ہلنے لگا، وہ گھبرا کر اٹھ گیا مگریہ سلسلہ نہ رک سکا، ٹھنڈے موسم میں بھی اس کے پسینے چھوٹ گئے اور وہ فوراً کمرہ چھوڑ کر بھاگا اور ساتھی کے کمرے پر زور زور سے دستک دینے لگا، جس نے اس کی یہ حالت دیکھی تو اندر لے جا کر پانی پلایا، اوسان بحال ہونے پر اس نے اپنے کمرے میں ''بھوت'' کی موجودگی کا ذکرکیا۔

ٹیم کے دیگر سینئر افراد کو بھی بلایا گیا، ڈاکٹر نے معائنے کے بعد اسے صحتمند قرار دے دیا مگر یہ واقعہ اس کرکٹر کے اعصاب پر سوار ہو گیا اور وہ اگلے دن ٹریننگ کر سکا نہ بعد میں ایک وارم اپ میچ میں بھی شرکت نہ کی،کرائسٹ چرچ کے ریجس لیٹیمار ہوٹل میں یہ واقعہ پاکستانی کھلاڑی حارث سہیل کے ساتھ پیش آیا تھا جب ٹیم 2015 میں ورلڈ کپ سے قبل نیوزی لینڈ گئی تھی، گوکہ ہوٹل والوں نے اس بات سے انکار کیا کہ واقعی کمرے میں کوئی بھوت تھا لیکن اس کے اثرات حارث پر برسوں برقرار رہے۔

وہ ہوٹل روم میں اکیلے نہیں رہتے تھے، ٹورز پر اگر اہل خانہ کو ساتھ رکھنے کی اجازت نہ ہوتی تو بھی ان کی اہلیہ کو خصوصی استثنیٰ دیا جاتا، البتہ اس بار صورتحال مختلف رہی اور پورے اسکواڈ کو14 روز تک کرائسٹ چرچ میں قرنطینہ کرنا پڑا، ان میں حارث سہیل بھی شامل تھے، وہ اکیلے رہے اس کا مطلب ہے کہ ماضی کے اس ناخوشگوار واقعے سے پیچھا چھڑا چکے ہیں۔ ایک صحافی میں تجسس بہت زیادہ ہوتا ہے میں نے اسی لیے 2015میں نیوزی لینڈ جانے والے مذکورہ اسکواڈ کے ایک سینئر رکن سے اس حوالے سے بات کی تھی۔

حارث سہیل نے اسے حقیقی واقعہ قرار دیتے ہوئے بتایا تھا کہ مذکورہ ہوٹل میں ان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا تھا، اچانک کمرے میں بیڈ ہلنے لگتا، لائٹس خود بخود آن آف ہوتیں، باتھ روم میں شاور اور نل خود کھل کر بند ہو جاتے لیکن انھوں نے ذکر کسی نے نہیں کیا کیونکہ دیگر کھلاڑی بھی پریشان ہوتے اور وہ خود بھی مذاق کا نشانہ بن جاتے، اب ایک بار پھر پاکستانی ٹیم نیوزی لینڈ کے دورے پر ہے، سامنا بھوت سے بھی بڑے دشمن کورونا سے ہے جس نے پوری دنیا کو لپیٹ میں لے لیا، وہ بھی نظر نہیں آتا، کرائسٹ چرچ پہنچتے ہی کئی کرکٹرز کو اس ان دیکھے دشمن نے اپنے بس میں کر لیا جس کی وجہ سے پورے اسکواڈ کودو ہفتے اکیلے اپنے کمروں میں قید تنہائی بھگتنا پڑی،اس بار بسترکسی بھوت نے ہلایا تو نہیں مگر انسان نے صاف بھی نہ کیا، دو ہفتے تک بیڈ شیٹ تبدیل ہوئی نہ باتھ روم کی صفائی ہوئی، کھانا ڈبوں میں ملا، اس ذہنی اذیت سے نکل کر کھلاڑی اب نیوزی لینڈ میں خوب انجوائے کر رہے ہیں، گھومنے پھرنے کی تصویریں پی سی بی اکثر بھیج دیتا ہے۔

ساتھ ٹریننگ کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا مگر اس دوران بابر اعظم کی انجری بڑا جھٹکا ہے، وہ ٹی20 سیریز سے باہرہو گئے ہیں، نائب کپتان شاداب خان کی فٹنس بھی اچھی نہیں، کپتان کی طرح امام الحق کا بھی انگوٹھا ٹوٹ گیا،ٹیم اب فٹنس مسائل میں الجھی نظر آ رہی ہے،ہمیں یہ بات بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ پلیئرز کو ٹریننگ اور مقامی کنڈیشنز سے ہم آہنگی کیلیے ایک ہفتے سے کچھ زائد وقت ہی ملا ہے، جس میں بھرپور تیاریاں ممکن نہیں لگتیں، نیوزی لینڈ کی ٹیم ویسٹ انڈیز کو آؤٹ کلاس کر کے مکمل فارم میں ہے۔

اس لیے یہ سیریز ہمارے لیے سخت امتحان ثابت ہو گی، البتہ ہیڈکوچ مصباح الحق کا یہ بیان جراتمندانہ ہے کہ ''ہم قرنطینہ کی سختیوں کو اپنی کارکردگی کا جواز بنا کرپیش نہیں کریں گے''۔ پاکستان اور ویسٹ انڈیز کی بولنگ میں بھی بہت فرق ہے، ہمارے پاس ورلڈکلاس نوجوان پیسرز موجود ہیں جو کیویز کو قابو کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، بس ڈر بیٹنگ لائن کا ہے جو ذرا سی تیز اور باؤنسی پچ پر ہی ڈگمگا جاتی ہے،بابر کی انجری نے مسائل مزید بڑھا دیے ہیں، ٹیم کی بہتر کارکردگی کیلیے بیٹسمینوں کی جانب سے ذمہ دارانہ کا مظاہرہ ضروری ہے، شکر ہے اس بار ٹیم کا وہاں کسی بھوت سے توسامنا نہیں ہوا لیکن میں یہ سوچ رہا تھا کہ ایسی ان دیکھی قوتیں تو قذافی اسٹیڈیم میں بھی کم نہیں ہیں، وہاں بھی جو جائے اسے سب سے پہلے طاقت کا نشہ کنٹرول کر لیتا ہے۔

وہ اپنے سامنے کسی کو کچھ نہیں سمجھتا، دوستوں سے بھی دور بھاگنے لگتا ہے،ذہن میں بس یہ سوچ ہوتی ہے کہ اپنی نوکری بچاؤں، میں کئی ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو پی سی بی کی ملازمت سے پہلے بڑے اصول پسند اور سچے بنتے تھے مگر پھر قذافی اسٹیڈیم جاتے ہی وہی ان دیکھی قوت ان پر حاوی ہو گئی، اب تو وہ اپنے آگے کسی کو کچھ سمجھتے ہی نہیں ہیں، یہ طاقت کا نشہ ہی تو ہے جس کے سامنے لوگ اربوں روپے دینے والے اسٹیک ہولڈرز اور فرنچائزز سے بھی نقصان کا سوچے بغیر لڑ پڑتے ہیں، جو بھی خلاف بات کرے وہ انھیں دشمن لگنے لگتا ہے، اسے مختلف طریقوں سے نقصان بھی پہنچایا جاتا ہے، مگر اچھی بات یہ ہے کہ قذافی اسٹیڈیم والے مسائل نوکری ختم ہوتے ہی پیچھا چھوڑ دیتے ہیں۔

پھر انسان کے قدم زمین پر آجاتے ہیں، دروازے سے باہر آتے ہی اسے اندازہ ہوتا ہے کہ جس طاقت کے بل بوتے پر وہ اکڑ رہا تھا وہ عارضی تھی لیکن یہ قوت بھی عجیب ہے فوراً نئے آنے والوں کو اپنے بس میں کر لیتی ہے، چہرہ تبدیل لیکن وہی غرور وتکبر نئے لوگوں میں بھی آ جاتا ہے، یہی بات مسئلے کی جڑ ہے جب تک اس ان دیکھے طاقت کے بھوت سے پیچھا نہ چھڑایا گیا مسائل برقراررہیں گے،آج اب نام اٹھا کر دیکھ لیں پچھلے بورڈ میں جو لوگ اکڑ اکڑ کر چلتے تھے اب کہاں ہیں، ان کے ایک جملے پر بریکنگ نیوز چلتی تھی آج ٹکرز تک نہیں دیے جاتے، اخبارات 6کالمی بیانات لگاتے تھے اب سنگل کالم بھی جگہ نہیں دیتے، افسوس لوگ سبق نہیں سیکھتے یہ جائیں گے نئے لوگ آ کر ایسا ہی کریں گے، جب تک کوئی چیک اینڈ بیلنس نہ ہو ایسا ہی ہوتا رہے گا، طاقتور لوگوں کے ذہنوں پر سوار ہونے والا یہ بھوت پیچھا چھوڑنے والا نہیں لگتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں