ماحولیاتی تبدیلیوں سے مقابلہ چین کی جانب سے نئے اقدامات کا اعلان
پیرس معاہدے پر عمل کرتے ہوئے چین کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں 65 فیصد تک کم کرے گا
چینی صدر شی جن پھنگ نے ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کےلیے عالمی برادری میں اتحاد کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے نئے انتظام و انصرام کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ وہ گزشتہ روز (12 دسمبر کو) ''کلائمیٹ ایمبیشن سمّٹ'' سے خطاب کررہے تھے۔
وہ ویڈیو لنک کے ذریعے اس اجلاس میں شریک تھے۔ سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے صدر شی جن پھنگ نے کہا کہ پچھلے پانچ سال میں ماحولیاتی تحفظ سے متعلق ''پیرس معاہدے'' پر عمل درآمد کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے جسے عالمی برادری کی طرف سے بھرپور حمایت اور تعاون حاصل ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت، بین الاقوامی صورتِ حال میں بہت تیزی سے تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں، کووڈ 19 کی وبا نے انسان اور فطرت کے درمیان تعلق کے حوالے سے سوچ کو بیدار کیا ہے اور عالمی ماحولیاتی انتظام و انصرام پر زیادہ توجہ دی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین نے ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے پیرس معاہدے کے اہداف حاصل کرنے کےلیے اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے اور اس معاہدے کو عملی جامہ پہنانے کےلیے بے حد سرگرمی سے عمل درآمد کیا ہے۔
شی جن پھنگ نے تین نکات تجویز کیے: اوّل، ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کےلیے عالمی برادری متحد ہو جبکہ چین اس ضمن میں پیرس معاہدے میں زیادہ سے زیادہ ممالک کی شرکت، شراکت اور خدمات کا خیرمقدم کرتاہے؛ دوم، ماحولیاتی انتظام و انصرام کا نیا نظام تشکیل دیا جائے اور تمام ممالک اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق متعلقہ اقدامات اختیار کریں جبکہ ترقی یافتہ ممالک کو ترقی پذیر ممالک کےلیے فنڈز، ٹیکنالوجی اور صلاحیت بڑھانے میں مدد کرنی چاہیے؛ سوم، ماحول دوست طرز زندگی کو عام کیا جائے اور ماحول دوست ترقی کا نیا نمونہ تشکیل دیا جائے۔
چینی صدر شی جن پھنگ نے اعلان کیا کہ چین 2030 تک اپنی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کی ہر اکائی (یونٹ) کےلیے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج 2005 کے مقابلے میں 65 فیصد کم کرے گا۔ غیر رکازی (نان فوسل) ذرائع سے حاصل شدہ توانائی، بنیادی توانائی کی کھپت کا تقریباً 25 فیصد بنے گی، جنگلات کے ذخائر میں 2005 کے مقابلے میں 6 ارب مکعب میٹرز کا اضافہ کیا جائے گا جبکہ ہوا کی طاقت (وِنڈ پاور) سے حاصل کردہ توانائی اور شمسی توانائی کی مجموعی صلاحیت 1.2 ارب کلو واٹ سے زیادہ ہوگی۔
خطاب کے اختتام پر شی جن پھنگ نے کہاکہ کرہ ارض بنی نوع انسان کا مشترکہ اور واحد گھرہے۔ آئیے پیرس معاہدے کو عمل میں لائیں اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے مقابلے میں ایک نئے سفر کا آغاز کریں۔
وہ ویڈیو لنک کے ذریعے اس اجلاس میں شریک تھے۔ سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے صدر شی جن پھنگ نے کہا کہ پچھلے پانچ سال میں ماحولیاتی تحفظ سے متعلق ''پیرس معاہدے'' پر عمل درآمد کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے جسے عالمی برادری کی طرف سے بھرپور حمایت اور تعاون حاصل ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت، بین الاقوامی صورتِ حال میں بہت تیزی سے تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں، کووڈ 19 کی وبا نے انسان اور فطرت کے درمیان تعلق کے حوالے سے سوچ کو بیدار کیا ہے اور عالمی ماحولیاتی انتظام و انصرام پر زیادہ توجہ دی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین نے ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے پیرس معاہدے کے اہداف حاصل کرنے کےلیے اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے اور اس معاہدے کو عملی جامہ پہنانے کےلیے بے حد سرگرمی سے عمل درآمد کیا ہے۔
شی جن پھنگ نے تین نکات تجویز کیے: اوّل، ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کےلیے عالمی برادری متحد ہو جبکہ چین اس ضمن میں پیرس معاہدے میں زیادہ سے زیادہ ممالک کی شرکت، شراکت اور خدمات کا خیرمقدم کرتاہے؛ دوم، ماحولیاتی انتظام و انصرام کا نیا نظام تشکیل دیا جائے اور تمام ممالک اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق متعلقہ اقدامات اختیار کریں جبکہ ترقی یافتہ ممالک کو ترقی پذیر ممالک کےلیے فنڈز، ٹیکنالوجی اور صلاحیت بڑھانے میں مدد کرنی چاہیے؛ سوم، ماحول دوست طرز زندگی کو عام کیا جائے اور ماحول دوست ترقی کا نیا نمونہ تشکیل دیا جائے۔
چینی صدر شی جن پھنگ نے اعلان کیا کہ چین 2030 تک اپنی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کی ہر اکائی (یونٹ) کےلیے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج 2005 کے مقابلے میں 65 فیصد کم کرے گا۔ غیر رکازی (نان فوسل) ذرائع سے حاصل شدہ توانائی، بنیادی توانائی کی کھپت کا تقریباً 25 فیصد بنے گی، جنگلات کے ذخائر میں 2005 کے مقابلے میں 6 ارب مکعب میٹرز کا اضافہ کیا جائے گا جبکہ ہوا کی طاقت (وِنڈ پاور) سے حاصل کردہ توانائی اور شمسی توانائی کی مجموعی صلاحیت 1.2 ارب کلو واٹ سے زیادہ ہوگی۔
خطاب کے اختتام پر شی جن پھنگ نے کہاکہ کرہ ارض بنی نوع انسان کا مشترکہ اور واحد گھرہے۔ آئیے پیرس معاہدے کو عمل میں لائیں اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے مقابلے میں ایک نئے سفر کا آغاز کریں۔