سیاسی اختلاف پر ذاتی لڑائی کیوں

یہاں کوئی بھی حکمران آجائے، ہونی وہی مہنگائی، بیروزگاری ہے، پھر ہم اس سب کےلیے اپنے رشتوں سے کیوں لڑیں؟

ہم نے ان لیڈروں کے پیچھے اپنی زندگی کیوں اجیرن کر رکھی ہے؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

لڑائی جھگڑے، مارکٹائی اور ڈانٹ ڈپٹ سے ہم سب کو جتنا دور رہنا چاہیے ہم اتنا ہی ان مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اگرچہ روزمرہ زندگی میں ان مسائل کو نظر انداز کرکے ہنسی خوشی رہا جاسکتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کچھ لوگوں کو بات کا بتنگڑ بنانے میں مزا بھی خوب آتا ہے۔

دل چاہا تو کسی کے خلاف پوسٹ لگادی، کوئی اسٹیٹس اپ ڈیٹ کردیا، بچوں کو غصے سے ایک چپت لگادی۔ اسکول میں استاد ہوئے تو مولا بخش کا سہارا لے لیا۔ دفتر میں ہوئے تو کولیگز کے ساتھ بحث پر اتر آئے اور باس ہوئے تو ماتحتوں کی کلاس لے لی۔

یہ سب لوگوں کی بات نہیں لیکن ہم میں سے اکثر لوگ اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کےلیے گویا تیار ہی بیٹھے ہوئے ہیں۔ کسی نے اینٹ اٹھائی ہم نے پتھر دے مارا۔ اور یوں ہی بات آگے سے آگے بڑھتی چلی گئی۔ بڑے بوڑھے یہ کہتے ہیں کہ جہاں برتن ہوتے ہیں وہاں بجتے تو ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کوئی اپنی غلطی تسلیم کرنے کو بھی تیار نہیں ہوتا اور خالی پانڈے کی طرح بجتا ہی رہتا ہے لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ لوگ مختلف سیاسی جماعتوں کی خاطر بھی لڑنے مرنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔

اب بات سے بات چلی تو یہ ہمارے محلے کی بات ہے کہ شیخ صاحب اور ان کی برادری گجر خاندان سے اس لیے نہیں بولتی کہ انھوں نے ووٹ ن لیگ کو دیا تھا اور گجروں کو ن لیگ کی برائی کسی صورت بھی منظور نہیں۔ اسی طرح سے مختلف افراد جو بچپن سے ایک ہی سیاسی جماعت کے ساتھ ہیں، ان کی ہمدردیاں مرتے دم تک اسی جماعت کے ساتھ رہتی ہیں۔ جبکہ ایسا ہونا نہیں چاہیے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ آپ کا ذہن بس اسی پارٹی کی اچھائی کو دیکھتا ہے اور اختلاف رائے کو قبول نہیں کرتا۔ شخصیت پرستی کا یہ سحر سندھ میں بھی نظر آتا ہے جہاں اب تک بھٹو زندہ ہے، حالانکہ وہاں معاشی اور معاشرتی پسماندگی کی کوئی حد نہیں، لیکن ایک نعرے پر سب فدا ہونے کو تیار بیٹھے ہیں۔

ایک جماعت کا جلسہ ہورہا ہے تو مخالفین کہتے ہیں کہ یہ کیا کرلیں گے، اس سے بڑا جلسہ تو ہماری جماعت کا تھا۔ یعنی ہمارے ذہن اتنے بند ہوچکے ہیں کہ جہاں تربیت، ترقی، تغیر اور گنجائش کا کوئی گزر ہی نہیں ہے۔ ماضی میں ایک حد تک یہ بات مانی جاسکتی تھی کہ چلیں بھٹو کی شخصیت کرشماتی لیڈر کی تھی، بے نظیر عوامی لیڈر تھیں، تو ان شخصیات سے متاثر ہونا سمجھ میں بھی آتا ہے۔ لیکن اب جب سیاسی قیادت کا فقدان نظر آتا ہے کہ ایک طرف ایک جماعت زبردستی اپنے نااہل وارثین کو سیاست کا وارث بنانے کےلیے بھی ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے تو دوسری جانب دوسری جماعتیں بھی پیچھے نہیں اور انھیں وزارتوں کے حصول کا چسکا لگا ہوا ہے۔ اب سوال صرف اتنا ہے کہ عوام کو ان کے اقتدار میں رہنے یا جانے سے کیا فائدہ ہے؟ ظاہر ہے کہ کچھ نہیں۔ تو آخر ہم نے ان لیڈروں کے پیچھے اپنی زندگی کیوں اجیرن کر رکھی ہے؟


سچ پوچھیے تو نہ ہی عمران خان نے کسی کا پیٹ بھرنا ہے اور نہ ہی شریف خاندان نے لوٹی ہوئی دولت واپس کرنی ہے۔ نہ ہی مولانا فضل الرحمان نے اپنی قیادت سے کسی مظلوم کی دادرسی کردینی ہے۔ کیونکہ ان کی اپنی عمرو عیار والی زنبیلیں بھریں گی تو کسی اور کا سوچیں گے ناں؟

واصف علی واصف کے پاس ایک مرتبہ ایک دوست آیا۔ انھوں نے اس کےلیے چائے منگوائی۔ وہ بولا میں بڑا پریشان ہوں، ملک کے حالات بہت خراب ہیں۔ واصف صاحب نے پوچھا کہ حالات تم نے خراب کیے ہیں؟ وہ شخص کہنے لگا کہ نہیں۔ انھوں نے کہا کہ تم ٹھیک کرسکتے ہو؟ وہ بولا نہیں۔ تو انھوں نے کہا ''فیر چا پی''۔

یعنی ہم نے صرف فضول کی ٹینشن اور پریشانیاں پالی ہوئی ہیں کہ نواز شریف کےلیے گردن کٹانی ہے، بے نظیر کےلیے لڑ مر جانا ہے، عمران خان پر تنقید کرنی ہے، سوشل میڈیا پر جنگیں لڑنی ہیں اور پی ٹی آئی کا دفاع کرنا ہے۔ اس کو تو بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ ہی کہہ سکتے ہیں۔ عوام کو صرف اپنی روٹی سے غرض ہوتی ہے۔

یہاں کوئی بھی حکمران آجائے، ہونی وہی مہنگائی، وہی بیروزگاری ہے۔ وہی پریشانی اور وہی اذیت ہے۔ تو ہم اس سب کےلیے اپنے رشتوں سے کیوں لڑیں؟ کیوں نہ اس سیاسی بساط کو اپنے پیاروں، محلے داروں سے بات کرتے ہوئے لیپٹ ہی دیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story