قوم بند گلی میں کیوں

ملکی سیاست نے بڑی کروٹ لی ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زمینی حقائق سے سیاست کی کایا پلٹ گئی ہے


Editorial December 15, 2020
ملکی سیاست نے بڑی کروٹ لی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زمینی حقائق سے سیاست کی کایا پلٹ گئی ہے

ملکی سیاست نے بڑی کروٹ لی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زمینی حقائق سے سیاست کی کایا پلٹ گئی ہے، کیسی ہوا چلی ہے کہ سارا جنگل کا جنگل ہرا ہوگیا، ذہن بدل گئے، زمینی حقائق نے نئی دنیا بسا لی ہے، تاریخ نے نیا ورق الٹ لیا، اہم سوالات سر اٹھا رہے ہیں، سنگین صورتحال ہے، حقیقت فیکٹس سے دامن چھڑا کر نئی فکشن کے پہلو میں چھپنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے، معیشت، مہنگائی اور بیروزگاری کے چیلنجز نے زندگی کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔

مسائل اور چیلنجز قوم کے سامنے ایستادہ ہیں، پہلے آتی تھی حال دل پہ ہنسی، اب کسی بات پر نہیں آتی، ہر شخص اپنے آپ سے سوال پوچھ رہا ہے کہ زمین و آسمان وہی ہیں، افلاک، رات دن وہی ہیں، ماحول وہی ہے البتہ ماحولیات نے دنیا بھر میں کہرام برپا کر دیا ہے، آب و ہوا اور گل و بلبل وہی ہیں، عوام کے مسائل وہی ہیں، کچھ بھی نہیں بدلا تو آخر کیا بات ہے کہ جمہوریت بند گلی میں ہے، یہ بند گلی کہاں ہے، اس کا والی وارث کون ہے، پہلے ایک تاریک سرنگ کا سنتے تھے، جس کے آخری سرے پر روشنی کی کرن دکھائی دیتی تھی، کہتے تھے، ایک ننھی سی کرن اور اندھیرے کا غرور۔ اب اس کا بھی ذکر کم کم ہوتا ہے۔

میڈیا کی آزادی کا سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے، لوگ کہتے ہیں کہ پہلے پارلیمنٹ کی بالادستی کی باتیں ہوتی تھیں، وہ لوگ کہاں چلے گئے، عدالتوں میں پرانے سارے مقدمات اسی انداز سے چل رہے ہیں، قانون سازی کا عمل جاری ہے، جمہوری عمل چل رہا ہے، ہاں کچھ فرق آیا ہے تو وہ سیاست دوراں کا ہے، وقت کی نئی ہوا چلی ہے، فرسودہ خیالات کا دم گھٹ گیا ہے، تازہ ہوا بہار کے دل کا ملال لے گئی، نقادان وقت سوچوں میں گم ہیں، ان کا کہنا ہے کہ مسائل زندہ ہیں، مسائل کے حل کرنیوالے زندگی کی دوڑ میں شاید پیچھے رہ گئے۔

سیاست ڈیجیٹالائزڈ ہوگئی ہے، زمانے کے انداز بدلے گئے، نیا راگ ہے ساز بدلے گئے، ہوسکتا ہے سیاست کی نئی کیمسٹری نے آداب سیاست بھی بدل ڈالے ہوں، کسی دانا نے تو ویسے بھی کہا تھا کہ جمہوریت تو ناقص ترین طرز حکومت ہے مگر جو نظام ہائے حکومت چل رہے ہیں ان میں یہی سب سے بہتر ہے، لیکن یہ سوالات 72 سال سے پہلے دن کی طرح فلسفیوں سے بھی حل نہ ہوئے تھے۔

آج قوم پھر سے جمہوریت، پارلیمنٹ، انتخابی اصلاحات، معیشت، سفارت، تجارت، صحافت، سیاحت، ثقافت، تہذیب، اخلاق اور عالمگیریت کے سوالات میں الجھی ہوئی ہے، اس کی خاموشی طوفان کا پتا دیتی ہے، اور طوفان کا کیا ہے، اس قوم نے جو طوفان دیکھے ہیں اور جو خود برپا کیے ہیں، ان کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ آج کے سب سے بڑے طوفان کا نام ہے ''کورونا وائرس'' جس کا طبل جنگ ارباب اختیار بجا چکے ہیں، ہم اس وائرس کی دوسری ہولناک لہر کی زد میں ہیں، ہلاکتوں کا شمار نہیں، دنیا کے طاقتور ممالک اس کے سامنے لاچار ہوگئے ہیں۔

اس کی ویکسین بڑی کوششوں اور انتظار کے بعد متاثرہ ملکوں میں تقسیم ہونے کو جا رہی ہے، مگر اقوام متحدہ نے خبردار کر دیا ہے کہ دنیا اس مسئلہ پر بھی قوم پرستی میں مبتلا ہے، ہماری وزارت صحت کی کوشش ہے کہ عوام پہلے جیسے جذبہ مزاحمت کا مظاہرہ کریں، اور ماسک، سماجی فاصلہ اور ہجوم سے دور رہنے کا مظاہرہ کرکے اس وبا کو شکست دینے کا اعادہ کریں، مگر اس کا ابھی انتظار کرنا ہوگا، کیونکہ جلسے ختم ہونگے تب ہی ہجوم اور کیسز میں ہولناک اضافے کا معمہ اپنے انجام کو پہنچے گا۔

اسی بات پر ملکی تجزیہ کار اور دانشور، فرنٹ لائن مسیحا اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاست دان اپنے اختلافات ختم کریں، کورونا کی پیدا کردہ تباہ کن اور دردناک صورتحال کا ازالہ کرنے کی کوشش کریں، ایک قومی جذبہ کے ساتھ مل بیٹھ کر کورونا کے خلاف ہنگامی جنگ کا اعلان کریں، پھر زندگی نے مہلت دی تو جمہوریت کی بقا کی جنگ کا میدان سجائیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ عوام ایک عجیب بحران میں مبتلا ہیں، یہ بحران غیبی نہیں ہے۔

بلکہ ہم نے خود اپنی سیاسی تدابیر، پارلیمانی روایات اور فکری آزادی سے پیدا کیا ہے، کسی نے ہمیں اس بحران میں گرفتار نہیں کیا ہے، حقیقت کو تسلیم کرنے میں ہی عافیت ہے، معیشت کو پرامن دور میں ہی سنبھالا دیا جاسکتا ہے، جب اپوزیشن اور حکومت جمہوری سوچ اور رواداری کے ساتھ ایک ہم آہنگی کی فضا پیدا کریگی تو از خود معاملات افہام و تفہیم تک چلے جائیں گے، خطے کی صورتحال کی تفہیم کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں، بھارت کیا کچھ جتن نہیں کر رہا، اس کی جعلسازیوں کی سزا خود اسے بھی مل رہی ہے لیکن یہ بھی تو دیکھئے کہ کشمیر کے عوام کس جرأت اور استقامت کے ساتھ جموں وکشمیر کی وادی میں ٹوٹل لاک ڈاؤن کی اذیت برداشت کر رہے ہیں۔

ہم نے تو اسمارٹ لاک ڈاؤن کی بھی پرواہ نہیں کی، سیاسی خطرات اب بھی منڈلا رہے ہیں، لیکن سیاسی سٹیک ہولڈرز میں صورتحال کی سنگینی کا ابھی ادراک پیدا نہیں ہوا، حکمرانوں کا بھی موڈ جارحانہ offensive ہے، خدا معلوم وہ لمحہ کب آئے گا جب اپوزیشن اور حکومت ایک ہولناک لڑائی سے بالاتر ہوکر قوم کو سکھ کا سانس لینے کی مہلت دے گی، قوم کو بس اسی مہلت کا انتظار ہے، مگر دنیا بہت سے دیگر کار جاں دراز کی طرف توجہ مبذول کیے ہوئے ہے، اس جانب ہمیں بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

دنیا کہتی ہے کہ سیاسی پولارائزیشن نے دنیا میں لیڈر شپ کا سوال ابھارا ہے، عوام ایک فکری بحران کا شکار ہیں، ان کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ کس حکمران کی سوچ کو مان لیں، ادھر عوام کے بارے میں ریسرچ سامنے آئی ہے کہ سارے حکمراں ایک ہی انداز عمل رکھتے ہیں، ان کا فوکس عوام کی فلاح و بہبود نہیں، اسی لیے وہ اس فکری حصار میں گرفتار ہیں کہ کیا کریں، آج ان کی سوچ یہ ہے کہ ''ہم حکمرانوں کے بغیر ہی خوش ہیں '' انھیں اللہ خوش رکھے، یہ انداز فکر مشرق و مغرب میں یکساں مقبول ہے۔

صدر ٹرمپ کے انداز سیاست نے امریکا کی سیاست اور عوامی زندگی کو جو دھچکے اور صدمے پہنچائے ہیں اس پر تو ایک طویل نشست کی ضرورت ہوگی لیکن دنیا اپنے لیڈروں سے سخت ناخوش ہے، ان پر اعتماد میں کمی آئی ہے، بہت بڑے نام ور دانشور بھی اس بات پر متفق ہیں کہ طرز حکومت کی اہمیت اب کچھ نہیں، اصل بات فوکس کرنے اور عوام کو اپنی سیاست کا مرکز نگاہ بنانا ہے، اس میں پوری عالمی سیاست اور سربراہی ناکام نظر آتی ہے، مودی نے بھارتی جمہوریت اور سیکولرازم کا کس بربریت سے ستیاناس مارا ہے، فرانس جو فلسفیوں اور دانش وروں کی آماج گاہ تھا آج نبیؐ برحق کی شان میں گستاخی پر کمر بستہ ہے جب کہ مذہبی عصبیت اور مسلمان دشمنی میں فرانس کی گم گشتہ فلسفیانہ میراث کو فراموش کرچکا ہے۔

پاکستانی سیاست دانوں کو کہنہ سیاست کے راستوں کو چھوڑنا پڑیگا، ہماری قوم ابھی تک سیاسی منزل پر پہنچنے کی کوشش میں کئی سانحوں کا شکار ہوچکی ہے، وہ آج بھی منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے کی قوالی سنا سنا کر خود کو بھی ہلکان کرچکی ہے اور تاریخ کے مورخ کو بھی دل گرفتہ کرنے کا سامان کر رہی ہے، آج کی دنیا میں وہی قوم سر اٹھا کر چلنے کے قابل ہوگی جو مستحکم معیشت پر بھروسہ کرتی ہے، فوجی طاقت اسی معاشی قوت کا استعارہ اور ایک اضافی طاقت ہے، لیکن اس حقیقت کی کلید ہمیں دور حاضر کے سیاسی تجربات سے حاصل نہیں ہوگی۔

قومی شناخت کے حصول کے لیے ہمیں کاسہ ٔ گدائی کو حقارت سے ٹھوکر مارنا ہوگی، قرض کی مئے پینے کی عادت چھوڑنا پڑیگی، عالمی مالیاتی اداروں اور دیگر ڈونرز کے دروازے پر جھکے رہنے کا خیال دل سے نکالنا پڑیگا۔ دنیا میں سیاست بند گلی میں چلی گئی ہے، ماسوائے دنیا کے چند ممالک کے اکثر مسائل میں گرفتار ہیں، ایک جدید تحقیق میں آیا ہے کہ بڑے ملکوں کے عوام ایک طرح کی تنہائی میں گرفتار ہیں، ان میں اکیلے پن کا احساس پیدا ہونے لگا ہے، اس بیماری کا ایک سبب سیاسی نظام کی کمزوری اور لیڈروں کی پیدا کردہ بے مروتی ہے۔

ایک وقت تھا جب پاکستان میں ایسے باکمال سیاسی اور اقتصادی دانش ور پیدا ہوتے تھے جن کی قدر دنیا میں ہوتی تھی، لیکن رفتہ رفتہ وہ کسی اور کی ہستی کا ساماں ہوگئے، ہمیں کراچی شہر ملا تھا اسے بھی ہم نے کچرے اور ٹرانسپورٹ، منشیات، اور غربت و غیر انسانی صورتحال کی نذر کر دیا، دنیا ہمیں گندے شہروں کے باسیوں میں اول نمبر پر رکھنے لگی ہے، اور اس پر کسی کو دکھ نہیں ہوتا۔

اب بھی وقت ہے کہ ہمارے رہنما احساس زیاں کرلیں، ایسی سیاست کا کیا فائدہ جو برسہا برس کی تپسیا کے بعد بھی وطن عزیز کے22 کروڑ عوام کو جینے کا حق نہ دے سکے، انھیں آسودگی، مساوات اور آزادی کی بیش بہا نعمتیں نہ دے سکے۔ ایسے ریاستی ستون دے سکے جن پر قوم کو ناز ہو اور نئی نسل شان سے سر اٹھاکر چلے، ایسا کل بھی ہو سکتا ہے۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں جمہوریت کو اس کی روایتوں اور اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے زندگی کا سفر طے کرنا ہوگا۔ وقت آگیا ہے کہ ہمارا شمار بھی ان جمہوری ملکوں میں نہایت فخر کے ساتھ ہو جن کی شناخت ہی بس یہی ہو کہ:

اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر

خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں