پاکستانی نژاد جرمن ماہر جینیات آصفہ اختر
وہ میکس پلانک یونیورسٹی کی نائب صدر بننے والی پہلی خاتون ہیں
گذشتہ دنوں پاکستانی نژاد ماہر حیاتیات وجینیات ڈاکٹر آصفہ اختر کو جرمنی کی مشہور زمانہ میکس پلانک یونیورسٹی کے شعبۂ حیاتیات کی نائب صدر منتخب کیا گیا۔ 19 فروری 1971ء کو کراچی میں آنکھ کھولنے والی ڈاکٹر آصفہ اختر نے کروموسوم ریگولیشن کے شعبے میں نمایاں خدمات انجام دیں۔
ان کی اسی مہارت کو پیش نظر رکھتے ہوئے انھیں یہ اہم ذمہ داری سونپ گئی اور یوں ان کی خدمات کا اعتراف بھی کیا گیا ہے، یہ امر بطور پاکستانی ہمارے لیے بھی ایک اعزاز ہے کہ پہلی بار کوئی پاکستانی ماہر جرمنی میں اس مرتبے تک پہنچنے میں کام یاب ہوا۔ یہی نہیں بلکہ وہ مجموعی طور پر بھی وہ پہلی خاتون ہیں، جو وہاں اس مسند تک پہنچی ہیں۔
ڈاکٹر آصفہ اختر نے ابتدائی تعلیم کراچی سے حاصل کرنے کے بعد لندن سے بیالوجی میں 'بی ایس سی' کیا اور پھر رچرڈ ٹریزمین کی لیب میں ٹرانسپکرینشنل ریگولیشن کے موضوع پر 'پی ایچ ڈی' کرنے کے لیے امپیریل کینسر ریسرچ فنڈ (Imperial Cancer Research Fund) سے 1997ء میں 'پی ایچ ڈی' کیا۔ ڈاکٹر آصفہ نے پوسٹ ڈاکٹریٹ کی تعلیم جرمنی میں 1998ء تا 2001ء حاصل کی۔
2001ء میں ہی ڈاکٹر آصفہ اختر یورپین مالیکیولر بائیولوجی لیبارٹری (EMBL) کی گروپ لیڈر بن گئیں، وہ 2009ء میں میکس پلانک انسٹیٹوٹ آف امیونوبائیولوجی اینڈ ای پی جینٹیکس (Max Planck Institute of Immunobiology and Epigenetics) منتقل ہوئیں اور لیب کی سربراہی کی۔ ڈاکٹر آصفہ اختر جرنل آف سیل سائنس کی ایڈیٹر بھی ہیں۔ یکم جولائی 2020ء کو وہ 'میکس پلانک سوسائٹی' کی حیاتیات اور شعبۂ طب کی نائب صدر منتخب ہوئیں۔
ڈاکٹر آصفہ اختر اپنی غیر معمولی تحقیق سے جرمن سائنسی برادری میں ممتاز مقام رکھتی ہیں۔ وہ سوسائٹی میں 27 اداروں اور سات مختلف تحقیقی تجربہ گاہوں کا انتظام سنبھالتی ہیں۔ انھوں نے 'ڈی این اے' سے ہٹ کر بھی 'جین' پر اثر ڈالنے والے عوامل پر غور کیا، جو ای پی جینٹیکس کی بنیاد ہیں۔
ڈاکٹر آصفہ اختر کا میدان عمل 'جینیات' ہے ، جو دراصل انسان کو اپنے والدین اور آبا و اجداد سے ورثے میں ملنے والی وہ خوبیاںِ اور خامیاں ہیں، جن کے اندر انسان کی زندگی کی حیاتیاتی عوامل کا ایک جہاں آباد ہے، اور یہ سب انسانی آنکھ سے نہ دکھائی دینے والے انسانی جسم میں شامل خون کے ایک خلیے (Cell) کے بھی ایک چھوٹے سے حصے سے تعلق رکھتا ہے۔۔۔ 'جینیات' کے شعبے میں ترقی سے سائنس کو یہ امید ہو چلی ہے کہ وہ انسانی 'خلیے' میں موجود یہ 'جین' کو اس قدر جان لے کہ اس میں موجود خرابی کو رفع کر کے آنے والی نسلوں کے لیے بہت سی بیماریوں کے ختم ہونے کی نوید لا سکے۔
نام وَر ماہر جینیات ڈاکٹر آصفہ اختر نے 2019ء میں ایک معرکۃ الآر مقالہ بھی لکھا، جس میں انھوں نے بتایا کہ کس طرح بعض خامرے (انزائم) جینوم کو جوڑے رکھتے ہیں، دوسرا اہم کام کرومائن پر ہے، جو ہمارے 'ڈی این اے' اور پروٹین سے بنی ہوئی ایک ایسی شے پر ہے، جو انسانی خلیے کے 'نیوکلیئس' میں 'کروموسوم' کی تشکیل کرتا ہے۔ اس گراں قدر تحقیق پر انھیں 2017ء میں فیلڈ برگ انعام بھی دیا گیا، جو ہرسال صرف ایک ہی نمایاں ترین ماہر کو ملتا ہے۔ اس کے بعد ڈاکٹر آصفہ اخترکو جرمنی کی سب سے قدیم سائنسی اکادمی کی رکنیت بھی عطا کی گئی۔
ڈاکٹر آصفہ اختر معاشرے میں عام طور پر صنفی مساوات اور سائنسی تحقیق کو بھی فروغ دینے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خواتین کے لیے بہت سے مواقع ان کی پہنچ سے قریب کیے جا سکتے ہیں اور ان کی رسائی کو مزید آسان بنایا جا سکتا ہے۔
یورپی مالیکیولر بائیلوجی لیبارٹری کے سابق سربراہ لین میٹاج نے ڈاکٹر آصفہ اخترکے بارے میں کہا کہ وہ علم کی اس مصروف ترین شاخ میں ہمیشہ انتہائی بنیادی اور حقیقی سوالات کرتی رہیں۔ آصفہ اختر سے متعلق ہفت روزہ سائنسی جرنل 'نیچر' نے لکھا ہے کہ ڈاکٹر آصفہ اختر کا انتخاب نئی نسل کے سائنس دانوں کے لیے تحریک فراہم کرے گا۔ سوسائٹی کے شعبہ طب و حیاتیات کے تحت تمام ادارے زندہ اجسام، نشوونما، احساسات اور دیگر امور پر اعلیٰ معیاری تحقیق کر رہے ہیں۔
آصفہ اختر نے اس اعزاز ملنے کے بعد کہا، 'مجھے اپنی ذمے داریوں کا احساس ہے جس پر میں بہت سنجیدگی سے عمل کروں گی۔ 'میں نوجوان سائنس دانوں کو جرمن تحقیق کا سرخیل بنانا چاہتی ہوں اور دکھانا چاہتی ہوں کہ ایسے 'رول ماڈل' بھی ہیں جو ان تمام معاملات کو بہ حسن وخوبی آگے بڑھا سکتے ہیں۔
ان کی اسی مہارت کو پیش نظر رکھتے ہوئے انھیں یہ اہم ذمہ داری سونپ گئی اور یوں ان کی خدمات کا اعتراف بھی کیا گیا ہے، یہ امر بطور پاکستانی ہمارے لیے بھی ایک اعزاز ہے کہ پہلی بار کوئی پاکستانی ماہر جرمنی میں اس مرتبے تک پہنچنے میں کام یاب ہوا۔ یہی نہیں بلکہ وہ مجموعی طور پر بھی وہ پہلی خاتون ہیں، جو وہاں اس مسند تک پہنچی ہیں۔
ڈاکٹر آصفہ اختر نے ابتدائی تعلیم کراچی سے حاصل کرنے کے بعد لندن سے بیالوجی میں 'بی ایس سی' کیا اور پھر رچرڈ ٹریزمین کی لیب میں ٹرانسپکرینشنل ریگولیشن کے موضوع پر 'پی ایچ ڈی' کرنے کے لیے امپیریل کینسر ریسرچ فنڈ (Imperial Cancer Research Fund) سے 1997ء میں 'پی ایچ ڈی' کیا۔ ڈاکٹر آصفہ نے پوسٹ ڈاکٹریٹ کی تعلیم جرمنی میں 1998ء تا 2001ء حاصل کی۔
2001ء میں ہی ڈاکٹر آصفہ اختر یورپین مالیکیولر بائیولوجی لیبارٹری (EMBL) کی گروپ لیڈر بن گئیں، وہ 2009ء میں میکس پلانک انسٹیٹوٹ آف امیونوبائیولوجی اینڈ ای پی جینٹیکس (Max Planck Institute of Immunobiology and Epigenetics) منتقل ہوئیں اور لیب کی سربراہی کی۔ ڈاکٹر آصفہ اختر جرنل آف سیل سائنس کی ایڈیٹر بھی ہیں۔ یکم جولائی 2020ء کو وہ 'میکس پلانک سوسائٹی' کی حیاتیات اور شعبۂ طب کی نائب صدر منتخب ہوئیں۔
ڈاکٹر آصفہ اختر اپنی غیر معمولی تحقیق سے جرمن سائنسی برادری میں ممتاز مقام رکھتی ہیں۔ وہ سوسائٹی میں 27 اداروں اور سات مختلف تحقیقی تجربہ گاہوں کا انتظام سنبھالتی ہیں۔ انھوں نے 'ڈی این اے' سے ہٹ کر بھی 'جین' پر اثر ڈالنے والے عوامل پر غور کیا، جو ای پی جینٹیکس کی بنیاد ہیں۔
ڈاکٹر آصفہ اختر کا میدان عمل 'جینیات' ہے ، جو دراصل انسان کو اپنے والدین اور آبا و اجداد سے ورثے میں ملنے والی وہ خوبیاںِ اور خامیاں ہیں، جن کے اندر انسان کی زندگی کی حیاتیاتی عوامل کا ایک جہاں آباد ہے، اور یہ سب انسانی آنکھ سے نہ دکھائی دینے والے انسانی جسم میں شامل خون کے ایک خلیے (Cell) کے بھی ایک چھوٹے سے حصے سے تعلق رکھتا ہے۔۔۔ 'جینیات' کے شعبے میں ترقی سے سائنس کو یہ امید ہو چلی ہے کہ وہ انسانی 'خلیے' میں موجود یہ 'جین' کو اس قدر جان لے کہ اس میں موجود خرابی کو رفع کر کے آنے والی نسلوں کے لیے بہت سی بیماریوں کے ختم ہونے کی نوید لا سکے۔
نام وَر ماہر جینیات ڈاکٹر آصفہ اختر نے 2019ء میں ایک معرکۃ الآر مقالہ بھی لکھا، جس میں انھوں نے بتایا کہ کس طرح بعض خامرے (انزائم) جینوم کو جوڑے رکھتے ہیں، دوسرا اہم کام کرومائن پر ہے، جو ہمارے 'ڈی این اے' اور پروٹین سے بنی ہوئی ایک ایسی شے پر ہے، جو انسانی خلیے کے 'نیوکلیئس' میں 'کروموسوم' کی تشکیل کرتا ہے۔ اس گراں قدر تحقیق پر انھیں 2017ء میں فیلڈ برگ انعام بھی دیا گیا، جو ہرسال صرف ایک ہی نمایاں ترین ماہر کو ملتا ہے۔ اس کے بعد ڈاکٹر آصفہ اخترکو جرمنی کی سب سے قدیم سائنسی اکادمی کی رکنیت بھی عطا کی گئی۔
ڈاکٹر آصفہ اختر معاشرے میں عام طور پر صنفی مساوات اور سائنسی تحقیق کو بھی فروغ دینے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خواتین کے لیے بہت سے مواقع ان کی پہنچ سے قریب کیے جا سکتے ہیں اور ان کی رسائی کو مزید آسان بنایا جا سکتا ہے۔
یورپی مالیکیولر بائیلوجی لیبارٹری کے سابق سربراہ لین میٹاج نے ڈاکٹر آصفہ اخترکے بارے میں کہا کہ وہ علم کی اس مصروف ترین شاخ میں ہمیشہ انتہائی بنیادی اور حقیقی سوالات کرتی رہیں۔ آصفہ اختر سے متعلق ہفت روزہ سائنسی جرنل 'نیچر' نے لکھا ہے کہ ڈاکٹر آصفہ اختر کا انتخاب نئی نسل کے سائنس دانوں کے لیے تحریک فراہم کرے گا۔ سوسائٹی کے شعبہ طب و حیاتیات کے تحت تمام ادارے زندہ اجسام، نشوونما، احساسات اور دیگر امور پر اعلیٰ معیاری تحقیق کر رہے ہیں۔
آصفہ اختر نے اس اعزاز ملنے کے بعد کہا، 'مجھے اپنی ذمے داریوں کا احساس ہے جس پر میں بہت سنجیدگی سے عمل کروں گی۔ 'میں نوجوان سائنس دانوں کو جرمن تحقیق کا سرخیل بنانا چاہتی ہوں اور دکھانا چاہتی ہوں کہ ایسے 'رول ماڈل' بھی ہیں جو ان تمام معاملات کو بہ حسن وخوبی آگے بڑھا سکتے ہیں۔