’حساسیت‘ کے ساتھ احساس کرنے کی ضرورت۔۔۔
’ڈیمنشیا‘ کے مریض بزرگ اور بچوں سے اچھی طرح پیش آنا خواتین خانہ کی آزمائش ہے
اگر آپ کے گھر میں کوئی فرد ڈیمنشیا کا مریض ہے، تو 'کورونا' میں بچوں کے ساتھ ساتھ ان کی نگہداشت کرنا اور اور گھر کو سنبھالنا خاتون خانہ کے لیے آسان نہیں رہتا۔
ایسی صورت جب گھر میں بہ یک وقت بچے اور ایسے مریض موجود ہوں، تو خاتون خانہ کو پل بھر کا سکون بھی میسر نہیں ہوتا، بچے ہوں یا بزرگ دونوں ہی اس عمر سے تعلق رکھتے ہیں، جہاں بعض اوقات انھیں دوسرے کی بات سمجھ میں نہیں آتی۔
جہاں تک بچوں کی بات ہے، تو وہ اس عمر میں ہوتے ہیں، جہاں وہ غلطیاں کرتے ہیں اور بات نہیں سنتے تو، وہیں ڈیمنشیا کے مریض اور بزرگ اپنی بیماری کی وجہ سے دوسرے کو ہی غلط تصور کرتے ہیں۔۔۔
ایسی صورت حال میں خاتون خانہ اگر معاملہ فہم ہو تو وہ انتہائی سمجھ داری سے گھر اور یہ تمام امور ادا کر سکتی ہے، لیکن اگر وہ اس بیماری کو سمجھنے سے قاصر ہو تو اپنا غصہ یا تو بچوں پر نکالتی ہے یا پھر بزرگوں سے الجھنے لگتی ہے، جس سے گھر کا ماحول تلخی اور ہنگامہ آرائی کا نمونہ بن جاتا ہے۔۔۔
دوسری طرف پاکستان میں کورونا وائرس کی دوسری لہر کے بعد 26 نومبر 2020ء سے 11جنوری 2021ء تک تعلیمی ادارے دوبارہ بند کیے جا چکے ہیں۔ 'کورونا' پوری دنیا میں جہاں ایک خطرناک مرض کی صورت ابھرا ہے، تو وہیں پر یہ گھر کی سطح پر ایک خاتون خانہ کے لیے الگ آزمائش بن کر بھی اترا ہے۔۔۔
عورت کو بہ حیثیت ماں، بہو، بیوی جیسے ہر کردار میں پہلے سے دُگنا دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، کیوں کہ گھر کا ہر فرد اس پر انحصار کرتا ہے اور ہر فرد کو اس کی عمر کے تقاضوں کے مطابق مسلسل اور مستقل بنیادوں پر ڈیل کرنا کسی وقفے کے بغیر کٹھن مرحلہ بن چکا ہے، ایسے میں وہ ان کے درمیان توازن برقرار رکھنے کے چکر میں ادھ موئی ہوئی جا رہی ہے۔
تعلیمی اداروں میں چھٹیاں ہونے کی وجہ سے بچے سارا دن فارغ ہیں، پہلے گرمیوں کی چھٹیاں ہوتی تھیں، تو بچے اور گھر کے بزرگ پارکس، گراؤنڈز، رشتے داروں کے ہاں اور مختلف علاقوں کی سیر و تفریح کو جاتے تھے، تو خواتین خانہ کو بھی دو گھڑی سکون کے میسر آ جاتے تھے، مگر موجودہ صورت حال میں سبھی راستے بند ہونے کی وجہ سے بچے اب سارا دن گھر پر ہیں اور بزرگ حضرات بچوں کے شور شرابے کی وجہ سے الگ چڑچڑے ہوتے ہیں اور ان کے لہجے اور مزاج میں تلخی بڑھ جاتی ہے، اور اس کا براہ راست اثر خواتین خانہ پر پڑتا ہے۔
بچے اور 'ڈیمنشیا' کے بزرگ مریض دراصل وہ دو محاذ ہیں، جن پر خاتون خانہ کو انتہائی دانش مندی کے ساتھ اترنا پڑتا ہے، چناں چہ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے چند تدابیر پیش کی جا رہی ہیں، جنھیں اپنا لیا جائے، تو بچوں اور بزرگوں کے ان امور کو بہ حسن وخوبی حل کیا جا سکتا ہے۔۔۔
سب سے پہلے بچوں کے لئے لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے؟
بچے سارا وقت گھر پر ہیں، تو ان کے لیے 'ٹائم ٹیبل' بنانا ازحد ضروری ہے اور پھر اس 'نظام الاوقات' سے بچوں کو آگاہ کیا جانا، اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کیوں کہ بچے بغیر کام کے جتنی دیر فارغ رہیں گے، اتنا ہی پورے گھر کو سر پر اٹھائیں گے۔۔۔
بچوں میں نظم و ضبط پیدا کرنے کے لیے انھیں گھر کے کچھ کام تفویض کیے جائیں، تاکہ ان میں احساس ذمہ داری بیدار ہو،
گھر کی صفائی ستھرائی میں بچوں سے مدد لیں، تاکہ وہ گندگی پھیلاتے ہوئے احساس کریں اور انھیں معلوم ہو کہ صفائی کرنا آسان کام نہیں ہے۔
بچے کے کھانے پینے کی چیزوں کے 'ریپر' اور پھلوں کے چھلکے نہ اٹھائیں، بلکہ یہ کام بچے سے کروائیں، تاکہ وہ آئندہ جگہ جگہ گندگی نہ پھیلائیں، گھر میں آن لائن کلاسیں لینے کے بعد بچوں کو گھر کے بزرگوں کے پاس بیٹھنے، ان سے بات کرنے کے لیے لازماً بھیجیں، ایسا نہ ہو کہ بچے پڑھائی کے بعد 'گیجٹس' اور کارٹون کے رَسیا بن کر گھر کے افراد سے لاتعلق اور صرف اپنے کمرے تک ہی محدود ہو جائیں۔ بزرگوں کے پاس بیٹھنے سے بچوں میں انسیت بیدار ہوگی اور ان کے مسائل کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملے گا، جس سے بچوں میں جذبہ ہمدردی پروان چڑھے گی۔
ڈیمینشیا کے بزرگ مریضوں کے لیے کیسا لائحہ عمل مرتب کرنا چاہیے؟
ڈیمنشیا کو آسان الفاظ میں بھولنے کی بیماری یا 'نسیان' بھی کہتے ہیں، یہ انسانی دماغ کا ایسا مرض ہے، جس میں بہ ظاہر کوئی علامت ظاہر نہیں ہوتی،چوں کہ ہمارا معاشرہ ایسے مرض کو قبول ہی نہیں کرتا، اس لیے ایسے مریضوں کا تمسخر اڑانا عام بات سمجھی جاتی ہے اور گھروں میں بھی انھیں نظرانداز کیا جاتا ہے، جس سے صورت حال اور خراب ہونے لگتی ہے۔
اس میں کوئی بھی اتنا ذہنی مریض نہیں ہوتا، جتنا انسانی رویے اس مرض کو شدید کرتے ہیں، خاص طور پر جب گھر میں اپنے ہی بچوں کے منہ سے تلخ جملوں کا سامنا کرتے ہیں، تو ان کی بیماری میں شدت بڑھنے لگتی ہے۔ اگر خاتون خانہ ان کی اس کیفیت کا مقابلہ پیار و محبت سے کریں، تو ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ مریض ان پر بھروسا کرنے لگتا ہے، ان کی بات باقی گھر والوں کی نسبت جلد مان لیتا ہے، لہٰذا درج ذیل باتوں کا خیال کرنے سے ایک خاتون خانہ کافی حد تک ڈیمنشیا کے مریضوں کا دل جیت سکتی ہے۔
کسی فنکشن، تقریب یا کسی کسی بھی بحث و مباحثے میں ان مریضوں کو لوگوں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں، کیوں کہ تمسخر اڑاتے الفاظ ان کے مزاج میں ہیجان برپا کرتے ہیں۔
انھیں وقت پر دوا دیں، کیوں کہ مستقل دواؤں کا استعمال آسان نہیں، مریض توجہ نہیں دیتا اور پھر تنگ آجاتا ہے، لہٰذا تھوڑا سا ہنسی مذاق کوئی چٹکلہ سناتے ہوئے انھیں بہلائیں اور باتوں باتوں میں انھیں دوائی دے دیں، تاکہ دھیان بٹ سکے اور وہ آرام سے دوا لے لیں۔ کوشش کریں کہ انھیں دن میں ایک مرتبہ کھلی فضا میں ضرور لے کر جائیں اور جسمانی ورزش کروائیں، کیوں کہ ورزش دماغ میں خون اور آکسیجن کے بہاؤ کو مناسب رکھ کر دماغی صحت کو افادہ پہنچاتی ہے۔
اس بیماری میں یاداشت تقریباً کم یا ختم ہو جاتی ہے، لہٰذا چیزیں رکھ کر بھول جانا، گھر کا رستہ یاد نہ ہونا یا گھر کے افراد کو پہچاننے سے انکار کرنا، جیسے تمام مسائل سے وہ روزانہ کی بنیاد پر جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں، لہٰذا انھیں احساس دلائیں کہ آپ ان کے ساتھ ہیں، انھیں ڈائری کے استعمال سے روشناس کرائیں، تاکہ وہ اپنی روز مرہ کی باتوں کو لکھ کر محفوظ کر لیں، یوں یہ وقت گزاری کا بہترین مصرف بھی بنے گا اور اچانک دماغ سے نکل جانے والی باتیں بہ ذریعہ ڈائری دوبارہ سے یاد آنے پر وہ خوشی بھی محسوس کریں گے۔ یوں ڈائری دراصل ان کے لیے ایک بہترین معاون چیز اور سرگرمی ہو گی۔
اگر وہ تمباکو یا سگریٹ نوشی کی لت میں مبتلا ہیں، تو اس سے مکمل پرہیز کروائیں اور گاہے گاہے ڈاکٹر سے چیک اپ بھی کرواتی رہیں، تاکہ اگر کوئی پیچیدگی پیدا ہونے لگے تو بروقت تشخیص ہو سکے۔
اگر وہ کھانا کھا کر بھول جائیں اور دوبارہ کھانے پر بضد ہوں، تو انھیں آرام سے قائل کریں، درشت لب ولہجے سے مخاطب نہ ہوں اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ وہ بیماری کے باعث ایسی باتیں کر رہے ہیں اور برہم ہو رہے ہیں۔ اگر آپ یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں گی، تو یقیناً پھر آپ ان کے کسی بھی جواب پر مشتعل ہونے کے بہ جائے تحمل سے جواب دیں گی یا کم از کم مشتعل نہیں ہوں گی۔
ایسی صورت جب گھر میں بہ یک وقت بچے اور ایسے مریض موجود ہوں، تو خاتون خانہ کو پل بھر کا سکون بھی میسر نہیں ہوتا، بچے ہوں یا بزرگ دونوں ہی اس عمر سے تعلق رکھتے ہیں، جہاں بعض اوقات انھیں دوسرے کی بات سمجھ میں نہیں آتی۔
جہاں تک بچوں کی بات ہے، تو وہ اس عمر میں ہوتے ہیں، جہاں وہ غلطیاں کرتے ہیں اور بات نہیں سنتے تو، وہیں ڈیمنشیا کے مریض اور بزرگ اپنی بیماری کی وجہ سے دوسرے کو ہی غلط تصور کرتے ہیں۔۔۔
ایسی صورت حال میں خاتون خانہ اگر معاملہ فہم ہو تو وہ انتہائی سمجھ داری سے گھر اور یہ تمام امور ادا کر سکتی ہے، لیکن اگر وہ اس بیماری کو سمجھنے سے قاصر ہو تو اپنا غصہ یا تو بچوں پر نکالتی ہے یا پھر بزرگوں سے الجھنے لگتی ہے، جس سے گھر کا ماحول تلخی اور ہنگامہ آرائی کا نمونہ بن جاتا ہے۔۔۔
دوسری طرف پاکستان میں کورونا وائرس کی دوسری لہر کے بعد 26 نومبر 2020ء سے 11جنوری 2021ء تک تعلیمی ادارے دوبارہ بند کیے جا چکے ہیں۔ 'کورونا' پوری دنیا میں جہاں ایک خطرناک مرض کی صورت ابھرا ہے، تو وہیں پر یہ گھر کی سطح پر ایک خاتون خانہ کے لیے الگ آزمائش بن کر بھی اترا ہے۔۔۔
عورت کو بہ حیثیت ماں، بہو، بیوی جیسے ہر کردار میں پہلے سے دُگنا دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، کیوں کہ گھر کا ہر فرد اس پر انحصار کرتا ہے اور ہر فرد کو اس کی عمر کے تقاضوں کے مطابق مسلسل اور مستقل بنیادوں پر ڈیل کرنا کسی وقفے کے بغیر کٹھن مرحلہ بن چکا ہے، ایسے میں وہ ان کے درمیان توازن برقرار رکھنے کے چکر میں ادھ موئی ہوئی جا رہی ہے۔
تعلیمی اداروں میں چھٹیاں ہونے کی وجہ سے بچے سارا دن فارغ ہیں، پہلے گرمیوں کی چھٹیاں ہوتی تھیں، تو بچے اور گھر کے بزرگ پارکس، گراؤنڈز، رشتے داروں کے ہاں اور مختلف علاقوں کی سیر و تفریح کو جاتے تھے، تو خواتین خانہ کو بھی دو گھڑی سکون کے میسر آ جاتے تھے، مگر موجودہ صورت حال میں سبھی راستے بند ہونے کی وجہ سے بچے اب سارا دن گھر پر ہیں اور بزرگ حضرات بچوں کے شور شرابے کی وجہ سے الگ چڑچڑے ہوتے ہیں اور ان کے لہجے اور مزاج میں تلخی بڑھ جاتی ہے، اور اس کا براہ راست اثر خواتین خانہ پر پڑتا ہے۔
بچے اور 'ڈیمنشیا' کے بزرگ مریض دراصل وہ دو محاذ ہیں، جن پر خاتون خانہ کو انتہائی دانش مندی کے ساتھ اترنا پڑتا ہے، چناں چہ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے چند تدابیر پیش کی جا رہی ہیں، جنھیں اپنا لیا جائے، تو بچوں اور بزرگوں کے ان امور کو بہ حسن وخوبی حل کیا جا سکتا ہے۔۔۔
سب سے پہلے بچوں کے لئے لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے؟
بچے سارا وقت گھر پر ہیں، تو ان کے لیے 'ٹائم ٹیبل' بنانا ازحد ضروری ہے اور پھر اس 'نظام الاوقات' سے بچوں کو آگاہ کیا جانا، اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کیوں کہ بچے بغیر کام کے جتنی دیر فارغ رہیں گے، اتنا ہی پورے گھر کو سر پر اٹھائیں گے۔۔۔
بچوں میں نظم و ضبط پیدا کرنے کے لیے انھیں گھر کے کچھ کام تفویض کیے جائیں، تاکہ ان میں احساس ذمہ داری بیدار ہو،
گھر کی صفائی ستھرائی میں بچوں سے مدد لیں، تاکہ وہ گندگی پھیلاتے ہوئے احساس کریں اور انھیں معلوم ہو کہ صفائی کرنا آسان کام نہیں ہے۔
بچے کے کھانے پینے کی چیزوں کے 'ریپر' اور پھلوں کے چھلکے نہ اٹھائیں، بلکہ یہ کام بچے سے کروائیں، تاکہ وہ آئندہ جگہ جگہ گندگی نہ پھیلائیں، گھر میں آن لائن کلاسیں لینے کے بعد بچوں کو گھر کے بزرگوں کے پاس بیٹھنے، ان سے بات کرنے کے لیے لازماً بھیجیں، ایسا نہ ہو کہ بچے پڑھائی کے بعد 'گیجٹس' اور کارٹون کے رَسیا بن کر گھر کے افراد سے لاتعلق اور صرف اپنے کمرے تک ہی محدود ہو جائیں۔ بزرگوں کے پاس بیٹھنے سے بچوں میں انسیت بیدار ہوگی اور ان کے مسائل کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملے گا، جس سے بچوں میں جذبہ ہمدردی پروان چڑھے گی۔
ڈیمینشیا کے بزرگ مریضوں کے لیے کیسا لائحہ عمل مرتب کرنا چاہیے؟
ڈیمنشیا کو آسان الفاظ میں بھولنے کی بیماری یا 'نسیان' بھی کہتے ہیں، یہ انسانی دماغ کا ایسا مرض ہے، جس میں بہ ظاہر کوئی علامت ظاہر نہیں ہوتی،چوں کہ ہمارا معاشرہ ایسے مرض کو قبول ہی نہیں کرتا، اس لیے ایسے مریضوں کا تمسخر اڑانا عام بات سمجھی جاتی ہے اور گھروں میں بھی انھیں نظرانداز کیا جاتا ہے، جس سے صورت حال اور خراب ہونے لگتی ہے۔
اس میں کوئی بھی اتنا ذہنی مریض نہیں ہوتا، جتنا انسانی رویے اس مرض کو شدید کرتے ہیں، خاص طور پر جب گھر میں اپنے ہی بچوں کے منہ سے تلخ جملوں کا سامنا کرتے ہیں، تو ان کی بیماری میں شدت بڑھنے لگتی ہے۔ اگر خاتون خانہ ان کی اس کیفیت کا مقابلہ پیار و محبت سے کریں، تو ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ مریض ان پر بھروسا کرنے لگتا ہے، ان کی بات باقی گھر والوں کی نسبت جلد مان لیتا ہے، لہٰذا درج ذیل باتوں کا خیال کرنے سے ایک خاتون خانہ کافی حد تک ڈیمنشیا کے مریضوں کا دل جیت سکتی ہے۔
کسی فنکشن، تقریب یا کسی کسی بھی بحث و مباحثے میں ان مریضوں کو لوگوں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں، کیوں کہ تمسخر اڑاتے الفاظ ان کے مزاج میں ہیجان برپا کرتے ہیں۔
انھیں وقت پر دوا دیں، کیوں کہ مستقل دواؤں کا استعمال آسان نہیں، مریض توجہ نہیں دیتا اور پھر تنگ آجاتا ہے، لہٰذا تھوڑا سا ہنسی مذاق کوئی چٹکلہ سناتے ہوئے انھیں بہلائیں اور باتوں باتوں میں انھیں دوائی دے دیں، تاکہ دھیان بٹ سکے اور وہ آرام سے دوا لے لیں۔ کوشش کریں کہ انھیں دن میں ایک مرتبہ کھلی فضا میں ضرور لے کر جائیں اور جسمانی ورزش کروائیں، کیوں کہ ورزش دماغ میں خون اور آکسیجن کے بہاؤ کو مناسب رکھ کر دماغی صحت کو افادہ پہنچاتی ہے۔
اس بیماری میں یاداشت تقریباً کم یا ختم ہو جاتی ہے، لہٰذا چیزیں رکھ کر بھول جانا، گھر کا رستہ یاد نہ ہونا یا گھر کے افراد کو پہچاننے سے انکار کرنا، جیسے تمام مسائل سے وہ روزانہ کی بنیاد پر جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں، لہٰذا انھیں احساس دلائیں کہ آپ ان کے ساتھ ہیں، انھیں ڈائری کے استعمال سے روشناس کرائیں، تاکہ وہ اپنی روز مرہ کی باتوں کو لکھ کر محفوظ کر لیں، یوں یہ وقت گزاری کا بہترین مصرف بھی بنے گا اور اچانک دماغ سے نکل جانے والی باتیں بہ ذریعہ ڈائری دوبارہ سے یاد آنے پر وہ خوشی بھی محسوس کریں گے۔ یوں ڈائری دراصل ان کے لیے ایک بہترین معاون چیز اور سرگرمی ہو گی۔
اگر وہ تمباکو یا سگریٹ نوشی کی لت میں مبتلا ہیں، تو اس سے مکمل پرہیز کروائیں اور گاہے گاہے ڈاکٹر سے چیک اپ بھی کرواتی رہیں، تاکہ اگر کوئی پیچیدگی پیدا ہونے لگے تو بروقت تشخیص ہو سکے۔
اگر وہ کھانا کھا کر بھول جائیں اور دوبارہ کھانے پر بضد ہوں، تو انھیں آرام سے قائل کریں، درشت لب ولہجے سے مخاطب نہ ہوں اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ وہ بیماری کے باعث ایسی باتیں کر رہے ہیں اور برہم ہو رہے ہیں۔ اگر آپ یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں گی، تو یقیناً پھر آپ ان کے کسی بھی جواب پر مشتعل ہونے کے بہ جائے تحمل سے جواب دیں گی یا کم از کم مشتعل نہیں ہوں گی۔