کیا نوم چومسکی کی رائے پر غور ہوگا
نوم چومسکی ویسے تو یہودی ہیں مگر اپنی زندگی کا بیشتر حصہ صہیونیت اور امریکی سامراج کی پالیسیوں کیخلاف جدوجہد میں گزارا
ABBOTTABAD:
نوبل انعام یافتہ پروفیسر نوم چومسکی ویسے تو یہودی ہیں مگر اپنی 92 سالہ زندگی کا بیشتر حصہ صہیونیت اور امریکی سامراج کی پالیسیوں کے خلاف جدوجہد میں گزارا۔ پروفیسر صاحب فلسطینیوں کے حقوق کے سب سے بڑے علمبردار ہیں۔
وہ Linguistic کے مضمون کے ماہر ہیں، سو سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں۔ امریکا کی مشہور Arizona یونیورسٹی اور Massachusetts institute of technology کے پروفیسر امیریٹس ہیں مگر امریکا میں ملٹی نیشنل کارپوریشنز کے استحصالی کردار، امریکی میڈیا پر ملٹی نیشنل کارپوریشنز کے مفادات کا تحفظ کرنے والے گروہ کی اجارہ دار ی اور ترقی پذیر ممالک کی ورلڈ آرڈر کے خلاف جدوجہد اور جمہوریت کے مسائل ان کے خصوصی مضامین ہیں۔
کراچی کی حبیب یونیورسٹی نے پروفیسر نوم چومسکی کا انفارمیشن ٹیکنالوجی نیٹ ورک پر ایک لیکچر کا اہتمام کیا۔ پروفیسر نوم چومسکی نے اس لیکچر میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان سائنس سے دور ہوتا جا رہا ہے اور مذہبی انتہاپسندی کا گھیرا وسیع ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تعلیمی نصاب میں سائنس کے ساتھ دنیا کے منظرنامہ کا بھی مطالعہ کرنا چاہیے اور جنوبی ایشیائی ممالک میں موجود جامعات کے لیے ضروری ہے کہ وہ منطقی تعلیمی نظام کو بچائیں اور دنیا کو حقیقت پسندی کی نظر سے دیکھیں۔
پروفیسر نوم چومسکی نے اپنے لیکچر میں حالیہ امریکی انتخابات کا ذکر کیا اور فرمایا کہ دنیا کو چار بڑے خطرات کا سامنا ہے اور دنیا تباہی کے کنارے پر کھڑی ہے۔ ان خطرات میں ایٹمی جنگ، مالیاتی بربادی، دنیا بھر میں جمہوریت کا انحطاط اور حالیہ کورونا وائرس کی وباء ہیں۔ انھوں نے امریکی جمہوریت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ امریکا میں اعشاریہ ایک فیصد طبقہ ملک کی پوری دولت کے 20 فیصد حصہ پر قابض ہے ۔ جس بنیادی ڈھانچہ پر جمہوریت کام کرتی ہے وہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔ امریکی معاشرے میں دولت کے ارتکاز سے ریاست کے مجموعی کردار پر حرف آتا ہے۔
پروفیسر نوم چومسکی نے پاکستان کے بارے میں جو تجزیہ کیا ہے وہ آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ سائنس سے مراد صرف سائنسی مضامین مثلا فزکس، کیمسٹری اور بائیولوجی وغیرہ کی تدریس نہیں بلکہ سائنسی طرز فکر کے مطابق ریاست کی تشکیل ہے اور ایک ایسے معاشرے کا قیام جہاں ایک فرد رجعت پسندانہ سوچ کے بجائے سائنسی طرز فکر جس کی بنیاد منطق کے اصولوں کے مطابق ہو سوچتا اور عمل کرتا ہے۔
اس سال فروری میں جب کورونا وائرس نے پاکستان میں قدم رکھا تو ڈاکٹروں نے کورونا کے مرض کے علاج کے لیے طبی علوم کی کتابیں چھانٹنا شروع کیں تو واضح ہوا کہ کورونا طبی کتابوں میں موجود ہے اور سائنس دانوں نے اس مرض کو Covid-19 کہا ہے۔ طبی کتابوں سے پتہ چلا کہ گزشتہ صدی کی دوسری دہائی میں اسپین میں ایک فلو پھیلا تھا جوپہلے یورپ میں پھیل گیا، پھر امریکا اس فلو سے متاثر ہوا۔ صرف یورپ میں دو کروڑ کے قریب افراد جاں بحق ہوئے۔
برطانیہ کے فوجی دستے اسپینش فلو کے ساتھ ہندوستان آئے تھے اور اس فلو نے ایک خام اندازہ کے مطابق ڈیڑھ کروڑ لوگوں کی جان لی تھی۔ ڈاکٹروں نے اس وقت مریض کو تنہائی Isolation میں رکھنے اور سماجی فاصلہ Social Distance کا طریقہ استعمال کیا تھا اور Herd-Immunity پیدا ہونے سے اس مرض سے اموات کا سلسلہ بند ہوا تھا۔ سائنس دانوں نے اسپینش فلو کے وائرس پر تحقیق کی اور برسوں بعد نمونیا کی ویکسین تیار ہوئی۔ Antibiotic ادیات کی ایجاد سے فلو کے مریض صحتیاب ہوئے، یوں اس مارچ کے مہینہ میں ڈاکٹروں نے ماسک پہننے اور سماجی فاصلہ کا طریقہ کار وضع کیا۔
ڈاکٹروں نے یہ تجویز پیش کی کہ ہجوم میں کورونا وائرس پھیلتا ہے۔ اس بناء پر لوگوں کو گھروں تک محدود کیا جائے، تمام تعلیمی ، سرکاری ، تجارتی ادارے اور مذہبی اداروں وغیرہ کو بند کر دیا جائے۔ ماہرین نے اس سائنسی عمل کو لاک ڈاؤن کا نام دیا۔ طبی ماہرین کی تجویز پر سب سے پہلے سندھ حکومت نے توجہ دی، ہر شہری کو ماسک پہننے اور گھروں میں رہنے کی ہدایت کی گئی مگر وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ یہ معمولی فلو ہے جو وقت کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے۔ پنجاب کے گورنر چوہدری سرور نے کورونا سے بچنے کا ایک ٹوٹکہ ٹی وی پر بیان کیا۔
وزیر اعظم عمران خان خاصے دنوں تک ماسک پہننے پر آمادہ نہ ہوئے۔ تاجروں، سیاستدانوں اور علماء کرام نے لاک ڈاؤن کی اہمیت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ لاک ڈاؤن کے دوران مساجد میں سماجی فاصلے کی پرواہ نہیں کی گئی۔
پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں سازشی نظریہ گھڑھا گیااور یہ بات پورے ملک میں گردش کر گئی کہ کورونا کا مرض کچھ نہیں ہے اور یہ عالمی اداروں کی سازش ہے۔ یہاں تک پراپیگنڈا کیا گیا کہ ڈاکٹروں کو عالمی ادارہ صحت فنڈ دے رہا ہے، اس بناء پر ڈاکٹر ہر مریض کو کورونا کا مریض بتا رہے ہیں حالانکہ اس کا ڈاکٹرز سے کوئی لینا دینا نہیں، کورونا ہے کہ نہیں، اس تعین لیبارٹری ٹیسٹ میں ہوتا۔ اس پروپیگنڈہ سے صرف ناخواندہ غریب لوگ ہی متاثر نہیں ہوئے بلکہ اعلی تعلیم یافتہ اساتذہ، دانشور، تاجر، سرکاری افسران، سیاستدان حتیٰ کے بعض ڈاکٹر حضرات بھی متاثر ہوئے۔ ڈاکٹرز میں دائیں اور بائیں بازو کی تقسیم موجود ہے مگر اس طبی مسئلہ پر تمام ڈاکٹرز کی ایک رائے تھی۔
پاکستان میں ایسے طاقتور گروہ موجود ہیں، جو جھوٹ کو سچ بنانے میں مہارت رکھتے ہیں۔یہ گروہ کبھی کسی مذہبی معاملے کو لے کر پراپگینڈا شروع کرتے ہیں ، کبھی نسلی یا لسانیت کے پردے کے پیچھے متحرک ہوجاتے ، پراپیگنڈا اتنا تیز اور شدید ہوتا کہ عام آدمی کی بات ہی چھوڑ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بھی اس کا شکار ہوجاتے ہیں۔
مثال کے طور پر کسی یورپی ملک میں کوئی فرد توہین کا مرتکب ہوتا ہے۔لیکن احتجاجی مظاہرے پاکستان میں شروع ہوجاتے ہیں، یہاں تک کہ حکومت اور اپوزیشن کے سیاستدان تک اس احتجاجی لہر کے دباؤ کے تحت بیانات جاری کرنا شروع کردیتے ہیں۔ ہر سال عید کے تہوار پر تنازعہ کھڑا ہوتا ہے۔ رویت ہلال کمیٹی یوں توآئینی ادارہ ہے مگر اس کے فیصلے کو خیبرپختون خوا میں پشتو بیلٹ میں تسلیم نہیں کیا جاتا۔ پھر شہادتوں کے کمزور نظام کی بناء پر کمیٹی کو واضح اعلان کرنے میں بہت تاخیر ہوتی ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر فواد چوہدری نے چاند کی رویت کے مسئلہ کے حل کے لیے سائنسی طریقہ استعمال کرنے کی بات شروع کی مگر بعض علماء نے اسے تسلیم کرنے سے انکارکردیا۔ حتیٰ کہ حکومت نے بھی اپنے وزیر کی تجویز پر توجہ نہیں دی۔ پاکستان دنیا کے تین ممالک میں شامل ہے جہاں پولیو کا مرض موجود ہے۔
صحت کی عالمی تنظیم W.H.O اور بچوں کے تحفظ کی بین الاقوامی تنظیم کے دباؤ پر 90 کی دہائی سے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کی مہمیں چلائی جا رہی ہیں مگر پولیو کا مرض ختم نہیں ہو پایا۔ ہر مہم کے دوران پولیو کے قطرے پلانے والے کئی کارکن شہید ہو جاتے ہیں۔ شہیدا میں خواتین بھی شامل ہیں۔رجعت پسند اس راہ میں رکاوٹ ہیں۔ اگرچہ برسر اقتدار حکومتوں کی کوششوں سے علماء کا ایک بڑا حصہ اس مہم کی حمایت کرتا ہے مگر بعض عینی شاہدین کہتے ہیں کہ خیبرپختون خوا اور بلوچستان کے پسماندہ علاقوں میں مذہبی طبقہ اس مہم کی حمایت نہیں کرتا۔
اس ملک کا ایک بڑا مسئلہ آبادی میں اضافہ ہے، اس کی بنیادی وجہ رجعت پسند ذہن ہے ۔ بنگلہ دیش علماء کی کوششوں سے آبادی پر قابو پانے میں کامیاب ہوا۔ معروف ماہر سماجیات ڈاکٹر ریاض شیخ کہتے ہیں کہ صوبوں نے نصاب سے انتہاپسندی کو ختم کرنے کی کوشش کی مگر وفاق اس کوشش کو ناکام بنا رہا ہے، یوں نوجوانوں کو سائنسی طرزِ فکر سے دور کیا جارہا ہے۔ نوم چومسکی دنیا کے چند بڑے دانشوروں میں سے ایک ہیں، کیا ان کی رائے پر صحیح غور ہو گا؟
نوبل انعام یافتہ پروفیسر نوم چومسکی ویسے تو یہودی ہیں مگر اپنی 92 سالہ زندگی کا بیشتر حصہ صہیونیت اور امریکی سامراج کی پالیسیوں کے خلاف جدوجہد میں گزارا۔ پروفیسر صاحب فلسطینیوں کے حقوق کے سب سے بڑے علمبردار ہیں۔
وہ Linguistic کے مضمون کے ماہر ہیں، سو سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں۔ امریکا کی مشہور Arizona یونیورسٹی اور Massachusetts institute of technology کے پروفیسر امیریٹس ہیں مگر امریکا میں ملٹی نیشنل کارپوریشنز کے استحصالی کردار، امریکی میڈیا پر ملٹی نیشنل کارپوریشنز کے مفادات کا تحفظ کرنے والے گروہ کی اجارہ دار ی اور ترقی پذیر ممالک کی ورلڈ آرڈر کے خلاف جدوجہد اور جمہوریت کے مسائل ان کے خصوصی مضامین ہیں۔
کراچی کی حبیب یونیورسٹی نے پروفیسر نوم چومسکی کا انفارمیشن ٹیکنالوجی نیٹ ورک پر ایک لیکچر کا اہتمام کیا۔ پروفیسر نوم چومسکی نے اس لیکچر میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان سائنس سے دور ہوتا جا رہا ہے اور مذہبی انتہاپسندی کا گھیرا وسیع ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تعلیمی نصاب میں سائنس کے ساتھ دنیا کے منظرنامہ کا بھی مطالعہ کرنا چاہیے اور جنوبی ایشیائی ممالک میں موجود جامعات کے لیے ضروری ہے کہ وہ منطقی تعلیمی نظام کو بچائیں اور دنیا کو حقیقت پسندی کی نظر سے دیکھیں۔
پروفیسر نوم چومسکی نے اپنے لیکچر میں حالیہ امریکی انتخابات کا ذکر کیا اور فرمایا کہ دنیا کو چار بڑے خطرات کا سامنا ہے اور دنیا تباہی کے کنارے پر کھڑی ہے۔ ان خطرات میں ایٹمی جنگ، مالیاتی بربادی، دنیا بھر میں جمہوریت کا انحطاط اور حالیہ کورونا وائرس کی وباء ہیں۔ انھوں نے امریکی جمہوریت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ امریکا میں اعشاریہ ایک فیصد طبقہ ملک کی پوری دولت کے 20 فیصد حصہ پر قابض ہے ۔ جس بنیادی ڈھانچہ پر جمہوریت کام کرتی ہے وہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔ امریکی معاشرے میں دولت کے ارتکاز سے ریاست کے مجموعی کردار پر حرف آتا ہے۔
پروفیسر نوم چومسکی نے پاکستان کے بارے میں جو تجزیہ کیا ہے وہ آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ سائنس سے مراد صرف سائنسی مضامین مثلا فزکس، کیمسٹری اور بائیولوجی وغیرہ کی تدریس نہیں بلکہ سائنسی طرز فکر کے مطابق ریاست کی تشکیل ہے اور ایک ایسے معاشرے کا قیام جہاں ایک فرد رجعت پسندانہ سوچ کے بجائے سائنسی طرز فکر جس کی بنیاد منطق کے اصولوں کے مطابق ہو سوچتا اور عمل کرتا ہے۔
اس سال فروری میں جب کورونا وائرس نے پاکستان میں قدم رکھا تو ڈاکٹروں نے کورونا کے مرض کے علاج کے لیے طبی علوم کی کتابیں چھانٹنا شروع کیں تو واضح ہوا کہ کورونا طبی کتابوں میں موجود ہے اور سائنس دانوں نے اس مرض کو Covid-19 کہا ہے۔ طبی کتابوں سے پتہ چلا کہ گزشتہ صدی کی دوسری دہائی میں اسپین میں ایک فلو پھیلا تھا جوپہلے یورپ میں پھیل گیا، پھر امریکا اس فلو سے متاثر ہوا۔ صرف یورپ میں دو کروڑ کے قریب افراد جاں بحق ہوئے۔
برطانیہ کے فوجی دستے اسپینش فلو کے ساتھ ہندوستان آئے تھے اور اس فلو نے ایک خام اندازہ کے مطابق ڈیڑھ کروڑ لوگوں کی جان لی تھی۔ ڈاکٹروں نے اس وقت مریض کو تنہائی Isolation میں رکھنے اور سماجی فاصلہ Social Distance کا طریقہ استعمال کیا تھا اور Herd-Immunity پیدا ہونے سے اس مرض سے اموات کا سلسلہ بند ہوا تھا۔ سائنس دانوں نے اسپینش فلو کے وائرس پر تحقیق کی اور برسوں بعد نمونیا کی ویکسین تیار ہوئی۔ Antibiotic ادیات کی ایجاد سے فلو کے مریض صحتیاب ہوئے، یوں اس مارچ کے مہینہ میں ڈاکٹروں نے ماسک پہننے اور سماجی فاصلہ کا طریقہ کار وضع کیا۔
ڈاکٹروں نے یہ تجویز پیش کی کہ ہجوم میں کورونا وائرس پھیلتا ہے۔ اس بناء پر لوگوں کو گھروں تک محدود کیا جائے، تمام تعلیمی ، سرکاری ، تجارتی ادارے اور مذہبی اداروں وغیرہ کو بند کر دیا جائے۔ ماہرین نے اس سائنسی عمل کو لاک ڈاؤن کا نام دیا۔ طبی ماہرین کی تجویز پر سب سے پہلے سندھ حکومت نے توجہ دی، ہر شہری کو ماسک پہننے اور گھروں میں رہنے کی ہدایت کی گئی مگر وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ یہ معمولی فلو ہے جو وقت کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے۔ پنجاب کے گورنر چوہدری سرور نے کورونا سے بچنے کا ایک ٹوٹکہ ٹی وی پر بیان کیا۔
وزیر اعظم عمران خان خاصے دنوں تک ماسک پہننے پر آمادہ نہ ہوئے۔ تاجروں، سیاستدانوں اور علماء کرام نے لاک ڈاؤن کی اہمیت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ لاک ڈاؤن کے دوران مساجد میں سماجی فاصلے کی پرواہ نہیں کی گئی۔
پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں سازشی نظریہ گھڑھا گیااور یہ بات پورے ملک میں گردش کر گئی کہ کورونا کا مرض کچھ نہیں ہے اور یہ عالمی اداروں کی سازش ہے۔ یہاں تک پراپیگنڈا کیا گیا کہ ڈاکٹروں کو عالمی ادارہ صحت فنڈ دے رہا ہے، اس بناء پر ڈاکٹر ہر مریض کو کورونا کا مریض بتا رہے ہیں حالانکہ اس کا ڈاکٹرز سے کوئی لینا دینا نہیں، کورونا ہے کہ نہیں، اس تعین لیبارٹری ٹیسٹ میں ہوتا۔ اس پروپیگنڈہ سے صرف ناخواندہ غریب لوگ ہی متاثر نہیں ہوئے بلکہ اعلی تعلیم یافتہ اساتذہ، دانشور، تاجر، سرکاری افسران، سیاستدان حتیٰ کے بعض ڈاکٹر حضرات بھی متاثر ہوئے۔ ڈاکٹرز میں دائیں اور بائیں بازو کی تقسیم موجود ہے مگر اس طبی مسئلہ پر تمام ڈاکٹرز کی ایک رائے تھی۔
پاکستان میں ایسے طاقتور گروہ موجود ہیں، جو جھوٹ کو سچ بنانے میں مہارت رکھتے ہیں۔یہ گروہ کبھی کسی مذہبی معاملے کو لے کر پراپگینڈا شروع کرتے ہیں ، کبھی نسلی یا لسانیت کے پردے کے پیچھے متحرک ہوجاتے ، پراپیگنڈا اتنا تیز اور شدید ہوتا کہ عام آدمی کی بات ہی چھوڑ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بھی اس کا شکار ہوجاتے ہیں۔
مثال کے طور پر کسی یورپی ملک میں کوئی فرد توہین کا مرتکب ہوتا ہے۔لیکن احتجاجی مظاہرے پاکستان میں شروع ہوجاتے ہیں، یہاں تک کہ حکومت اور اپوزیشن کے سیاستدان تک اس احتجاجی لہر کے دباؤ کے تحت بیانات جاری کرنا شروع کردیتے ہیں۔ ہر سال عید کے تہوار پر تنازعہ کھڑا ہوتا ہے۔ رویت ہلال کمیٹی یوں توآئینی ادارہ ہے مگر اس کے فیصلے کو خیبرپختون خوا میں پشتو بیلٹ میں تسلیم نہیں کیا جاتا۔ پھر شہادتوں کے کمزور نظام کی بناء پر کمیٹی کو واضح اعلان کرنے میں بہت تاخیر ہوتی ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر فواد چوہدری نے چاند کی رویت کے مسئلہ کے حل کے لیے سائنسی طریقہ استعمال کرنے کی بات شروع کی مگر بعض علماء نے اسے تسلیم کرنے سے انکارکردیا۔ حتیٰ کہ حکومت نے بھی اپنے وزیر کی تجویز پر توجہ نہیں دی۔ پاکستان دنیا کے تین ممالک میں شامل ہے جہاں پولیو کا مرض موجود ہے۔
صحت کی عالمی تنظیم W.H.O اور بچوں کے تحفظ کی بین الاقوامی تنظیم کے دباؤ پر 90 کی دہائی سے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کی مہمیں چلائی جا رہی ہیں مگر پولیو کا مرض ختم نہیں ہو پایا۔ ہر مہم کے دوران پولیو کے قطرے پلانے والے کئی کارکن شہید ہو جاتے ہیں۔ شہیدا میں خواتین بھی شامل ہیں۔رجعت پسند اس راہ میں رکاوٹ ہیں۔ اگرچہ برسر اقتدار حکومتوں کی کوششوں سے علماء کا ایک بڑا حصہ اس مہم کی حمایت کرتا ہے مگر بعض عینی شاہدین کہتے ہیں کہ خیبرپختون خوا اور بلوچستان کے پسماندہ علاقوں میں مذہبی طبقہ اس مہم کی حمایت نہیں کرتا۔
اس ملک کا ایک بڑا مسئلہ آبادی میں اضافہ ہے، اس کی بنیادی وجہ رجعت پسند ذہن ہے ۔ بنگلہ دیش علماء کی کوششوں سے آبادی پر قابو پانے میں کامیاب ہوا۔ معروف ماہر سماجیات ڈاکٹر ریاض شیخ کہتے ہیں کہ صوبوں نے نصاب سے انتہاپسندی کو ختم کرنے کی کوشش کی مگر وفاق اس کوشش کو ناکام بنا رہا ہے، یوں نوجوانوں کو سائنسی طرزِ فکر سے دور کیا جارہا ہے۔ نوم چومسکی دنیا کے چند بڑے دانشوروں میں سے ایک ہیں، کیا ان کی رائے پر صحیح غور ہو گا؟