بلدیاتی انتخابات میں تاخیر
آئین پر عمل کرنا حکومت اورکرانا عدلیہ کا کام ہے صوبائی حکومتیں یہ خلاف ورزی مسلسل کر رہی ہیں۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا ہے کہ بروقت بلدیاتی انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی آئینی ذمے داری ہے، تمام اہل افرادکے ووٹوں کا اندراج کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے 7 دسمبرکو ووٹر ڈے کے موقع پر یہ بات کہی۔ انھوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن جنس کی بنیاد پر تفریق کے خاتمے کے لیے کوشاں ہے اور ووٹر ڈے منانے کا بنیادی مقصد عوام کو ان کے جمہوری حقوق اورذمے داریوں سے آگاہی دینا ہے۔
کراچی کے سابق سٹی ناظم مصطفیٰ کمال کا کہنا ہے کہ ملک میں آئین پاکستان کے آرٹیکل A-140 کی مسلسل خلاف ورزی کی جارہی ہے اور بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے جا رہے۔ ملک میں قومی وصوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں دیر ہوجائے تو حکمرانوں کے لیے آئین اور پاکستان خطرے میں پڑجاتے ہیں لیکن جب عوام کا مسئلہ آتا ہے تو آئین پاکستان کے آرٹیکل 140 اے کی مسلسل خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ ملک میں جمہوری مارشل لا نافذ ہے، حکمرانوں نے عوام کے حقوق غصب کر رکھے ہیں اور آئین کی خلاف ورزی کرکے بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے جا رہے۔
انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم اگر واقعی موروثی سیاست کا خاتمہ چاہتے ہیں تو ملک کو ایک مضبوط اوربہتر بلدیاتی نظام عملی طور پر دیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا تو ہے کہ ہم ملک کو بہترین بلدیاتی نظام دیں گے اور اپریل کے بعد بلدیاتی انتخابات کرا دیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ نئے لوکل گورنمنٹ نظام سے تبدیلی آئے گی، بڑے شہروں کی اپنی حکومت ہوگی۔ موجودہ عوامی مسائل مقامی حکومتوں کی ناکامی کی وجہ سے ہیں نئے بلدیاتی نظام سے اپنے شہروں میں ہی مسائل حل ہوں گے۔ علاوہ ازیں الیکشن کمیشن نے مردم شماری کے سرکاری نتائج جاری کرنے کی بھی ہدایت کی ہے کیونکہ مردم شماری کے نتائج سے پہلے بلدیاتی انتخابات کے لیے حلقہ بندیاں نہیں ہوسکتیں۔ملک میں یہ عجیب تماشا ہے کہ جو مردم شماری ہوئی تھی، حکومت اس کے بھی اعدادوشمار جاری نہیں کررہی۔
ملک کے سب سے بڑے شہرکراچی کے ساتھ ہمیشہ مردم شماری میں زیادتی کی شکایات رہی ہیں اورکبھی کراچی کی مردم شماری درست نہیں ہوئی اور موجودہ مردم شماری پر سندھ حکومت سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے اعتراضات کیے تھے اور ایم کیو ایم یہ مسئلہ عدالت میں بھی لے گئی تھی اور وزیر اعظم کے سامنے بھی یہ مسئلہ اٹھایا مگرکچھ نہیں ہوا۔ کراچی کی درست مردم شماری سے مقامی نشستوں میں اضافہ یقینی ہے اور درست مردم شماری سے ہی کراچی کو اس کے جائز وسائل میسرآسکتے ہیں مگر جان بوجھ کرکراچی کو اس کا جائز حق بھی نہیں دیا جا رہا ، جو مردم شماری ہوئی حکومت اس کے نتائج بھی جاری نہیں کررہی جس سے بلدیاتی انتخابات ہی نہیں، آیندہ کے عام انتخابات بھی متاثر ہونا یقینی ہے ۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین اقتدار میں آنے سے قبل بااختیار بلدیاتی نظام کے حامی تھے مگر ان کی پنجاب حکومت نے اپنے سیاسی مخالف مسلم لیگ (ن) کے تمام بلدیاتی عہدیداروں کو قبل از وقت ختم کردیا جس کے خلاف عدلیہ سے بھی متاثرین نے رجوع کیا مگر ڈیڑھ سال میں ان کی درخواستوں پر فیصلہ نہ آیا اور ان کی مدت ہی ختم ہوگئی۔
ہر حکومت بلدیاتی اداروں پرکنٹرول برقرار رکھنے کے لیے سرکاری افسروں کا تقرر چاہتی ہے یا اپنی پارٹی کے بلدیاتی عہدیداروں کا انتخاب تاکہ بلدیاتی اداروں میں من مانیاں کی جاسکیں۔ سیاسی حکومتیں اپنے ارکان اسمبلی کے دباؤ پر بلدیاتی انتخابات سے راہ فرار اختیارکرتی آئی ہیں۔ 2015 کے بلدیاتی انتخابات بھی سپریم کورٹ کے حکم پر ہوئے تھے جن کی تکمیل میں ایک سال کی تاخیرکی گئی تھی۔ سیاسی حکومتوں کی ترجیح بلدیاتی انتخابات ہوتے ہی نہیں حالانکہ آئین کی دفعہ 140اے کے تحت وقت پر بلدیاتی انتخابات نہ کرانا آئین کی کھلی خلاف ورزی ہے جس پر متعلقہ حکومتوں کر برطرف کیا جانا چاہیے۔
آئین پر عمل کرنا حکومت اورکرانا عدلیہ کا کام ہے صوبائی حکومتیں یہ خلاف ورزی مسلسل کر رہی ہیں مگر ان کے خلاف کبھی کارروائی نہیں ہوئی۔ اس آئینی خلاف ورزی پر عدلیہ کارروائی کا اختیار رکھتی ہے اور بلدیاتی اداروں کو آئین کے تحت بااختیار بھی بناسکتی ہے مگر جنرل پرویز مشرف کے بااختیار بلدیاتی نظام کو 2008 میں آنے والی سیاسی حکومتوں نے ختم کرا دیا تھا جو آئین کی خلاف ورزی تھی۔گزشتہ 12 برسوں میں صرف ایک بار سپریم کورٹ کے حکم پر ہی بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے جو ہر چار سال بعد ضرور ہونے چاہیئیں مگر نہیں کرائے جاسکتے۔
الیکشن کمیشن کو اس کا پتا بھی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 140 اے کے تحت مقررہ وقت پر بلدیاتی انتخابات ضروری ہیں مگر ایسا کرانا الیکشن کمیشن کے اختیار میں نہیں اور وہ حکومت کا محتاج ہے۔ الیکشن کمیشن کی ہدایت پر حکومت مردم شماری کے سرکاری نتائج جاری نہیں کر رہی تو بلدیاتی حلقہ بندیاں بھی نہیں ہو رہیں اور الیکشن کمیشن واضح کر چکا ہے کہ مردم شماری کے نتائج جاری نہ ہونے سے بلدیاتی حلقہ بندی ہو سکے گی نہ بلدیاتی انتخابات ہوں گے بلکہ عام انتخابات بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔ لگتا ہے کہ موجودہ حکومت بھی نہیں چاہے گی کہ عام انتخابات سے قبل بلدیاتی الیکشن ہوں، اس لیے کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ اپریل میں بلدیاتی الیکشن وزیر اعظم کے اعلان کے مطابق ہوسکیں۔
پی ایس پی نے اعلان کردیا ہے کہ وہ بلدیاتی انتخابات نہ کرا کر حکومت نے آئین کی جو پامالی کی ہے اس پر سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے گا اور آئین کے آرٹیکل 6 کی صریحاً خلاف ورزی پر عدالتی فیصلہ حاصل کیا جائے گا۔ پی ایس پی کے مطابق وزیر اعظم اپنے ایک دستخط سے کراچی کی مردم شماری کا تھرڈ پارٹی آڈٹ کرا کر یہ درپیش مسئلہ بھی حل کرسکتے ہیں۔
کراچی کے سابق سٹی ناظم مصطفیٰ کمال کا کہنا ہے کہ ملک میں آئین پاکستان کے آرٹیکل A-140 کی مسلسل خلاف ورزی کی جارہی ہے اور بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے جا رہے۔ ملک میں قومی وصوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں دیر ہوجائے تو حکمرانوں کے لیے آئین اور پاکستان خطرے میں پڑجاتے ہیں لیکن جب عوام کا مسئلہ آتا ہے تو آئین پاکستان کے آرٹیکل 140 اے کی مسلسل خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ ملک میں جمہوری مارشل لا نافذ ہے، حکمرانوں نے عوام کے حقوق غصب کر رکھے ہیں اور آئین کی خلاف ورزی کرکے بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے جا رہے۔
انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم اگر واقعی موروثی سیاست کا خاتمہ چاہتے ہیں تو ملک کو ایک مضبوط اوربہتر بلدیاتی نظام عملی طور پر دیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا تو ہے کہ ہم ملک کو بہترین بلدیاتی نظام دیں گے اور اپریل کے بعد بلدیاتی انتخابات کرا دیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ نئے لوکل گورنمنٹ نظام سے تبدیلی آئے گی، بڑے شہروں کی اپنی حکومت ہوگی۔ موجودہ عوامی مسائل مقامی حکومتوں کی ناکامی کی وجہ سے ہیں نئے بلدیاتی نظام سے اپنے شہروں میں ہی مسائل حل ہوں گے۔ علاوہ ازیں الیکشن کمیشن نے مردم شماری کے سرکاری نتائج جاری کرنے کی بھی ہدایت کی ہے کیونکہ مردم شماری کے نتائج سے پہلے بلدیاتی انتخابات کے لیے حلقہ بندیاں نہیں ہوسکتیں۔ملک میں یہ عجیب تماشا ہے کہ جو مردم شماری ہوئی تھی، حکومت اس کے بھی اعدادوشمار جاری نہیں کررہی۔
ملک کے سب سے بڑے شہرکراچی کے ساتھ ہمیشہ مردم شماری میں زیادتی کی شکایات رہی ہیں اورکبھی کراچی کی مردم شماری درست نہیں ہوئی اور موجودہ مردم شماری پر سندھ حکومت سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے اعتراضات کیے تھے اور ایم کیو ایم یہ مسئلہ عدالت میں بھی لے گئی تھی اور وزیر اعظم کے سامنے بھی یہ مسئلہ اٹھایا مگرکچھ نہیں ہوا۔ کراچی کی درست مردم شماری سے مقامی نشستوں میں اضافہ یقینی ہے اور درست مردم شماری سے ہی کراچی کو اس کے جائز وسائل میسرآسکتے ہیں مگر جان بوجھ کرکراچی کو اس کا جائز حق بھی نہیں دیا جا رہا ، جو مردم شماری ہوئی حکومت اس کے نتائج بھی جاری نہیں کررہی جس سے بلدیاتی انتخابات ہی نہیں، آیندہ کے عام انتخابات بھی متاثر ہونا یقینی ہے ۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین اقتدار میں آنے سے قبل بااختیار بلدیاتی نظام کے حامی تھے مگر ان کی پنجاب حکومت نے اپنے سیاسی مخالف مسلم لیگ (ن) کے تمام بلدیاتی عہدیداروں کو قبل از وقت ختم کردیا جس کے خلاف عدلیہ سے بھی متاثرین نے رجوع کیا مگر ڈیڑھ سال میں ان کی درخواستوں پر فیصلہ نہ آیا اور ان کی مدت ہی ختم ہوگئی۔
ہر حکومت بلدیاتی اداروں پرکنٹرول برقرار رکھنے کے لیے سرکاری افسروں کا تقرر چاہتی ہے یا اپنی پارٹی کے بلدیاتی عہدیداروں کا انتخاب تاکہ بلدیاتی اداروں میں من مانیاں کی جاسکیں۔ سیاسی حکومتیں اپنے ارکان اسمبلی کے دباؤ پر بلدیاتی انتخابات سے راہ فرار اختیارکرتی آئی ہیں۔ 2015 کے بلدیاتی انتخابات بھی سپریم کورٹ کے حکم پر ہوئے تھے جن کی تکمیل میں ایک سال کی تاخیرکی گئی تھی۔ سیاسی حکومتوں کی ترجیح بلدیاتی انتخابات ہوتے ہی نہیں حالانکہ آئین کی دفعہ 140اے کے تحت وقت پر بلدیاتی انتخابات نہ کرانا آئین کی کھلی خلاف ورزی ہے جس پر متعلقہ حکومتوں کر برطرف کیا جانا چاہیے۔
آئین پر عمل کرنا حکومت اورکرانا عدلیہ کا کام ہے صوبائی حکومتیں یہ خلاف ورزی مسلسل کر رہی ہیں مگر ان کے خلاف کبھی کارروائی نہیں ہوئی۔ اس آئینی خلاف ورزی پر عدلیہ کارروائی کا اختیار رکھتی ہے اور بلدیاتی اداروں کو آئین کے تحت بااختیار بھی بناسکتی ہے مگر جنرل پرویز مشرف کے بااختیار بلدیاتی نظام کو 2008 میں آنے والی سیاسی حکومتوں نے ختم کرا دیا تھا جو آئین کی خلاف ورزی تھی۔گزشتہ 12 برسوں میں صرف ایک بار سپریم کورٹ کے حکم پر ہی بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے جو ہر چار سال بعد ضرور ہونے چاہیئیں مگر نہیں کرائے جاسکتے۔
الیکشن کمیشن کو اس کا پتا بھی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 140 اے کے تحت مقررہ وقت پر بلدیاتی انتخابات ضروری ہیں مگر ایسا کرانا الیکشن کمیشن کے اختیار میں نہیں اور وہ حکومت کا محتاج ہے۔ الیکشن کمیشن کی ہدایت پر حکومت مردم شماری کے سرکاری نتائج جاری نہیں کر رہی تو بلدیاتی حلقہ بندیاں بھی نہیں ہو رہیں اور الیکشن کمیشن واضح کر چکا ہے کہ مردم شماری کے نتائج جاری نہ ہونے سے بلدیاتی حلقہ بندی ہو سکے گی نہ بلدیاتی انتخابات ہوں گے بلکہ عام انتخابات بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔ لگتا ہے کہ موجودہ حکومت بھی نہیں چاہے گی کہ عام انتخابات سے قبل بلدیاتی الیکشن ہوں، اس لیے کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ اپریل میں بلدیاتی الیکشن وزیر اعظم کے اعلان کے مطابق ہوسکیں۔
پی ایس پی نے اعلان کردیا ہے کہ وہ بلدیاتی انتخابات نہ کرا کر حکومت نے آئین کی جو پامالی کی ہے اس پر سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے گا اور آئین کے آرٹیکل 6 کی صریحاً خلاف ورزی پر عدالتی فیصلہ حاصل کیا جائے گا۔ پی ایس پی کے مطابق وزیر اعظم اپنے ایک دستخط سے کراچی کی مردم شماری کا تھرڈ پارٹی آڈٹ کرا کر یہ درپیش مسئلہ بھی حل کرسکتے ہیں۔