آئینہ در آئینہ

دنیا کو تو بھارتی پروپیگنڈے نے گمراہ کیا مگر ہماری طرف یہ کام خود ہمارے اُس وقت کے حکمرانوں نے کیا۔

Amjadislam@gmail.com

آج کی رات بہت سرد بہت کالی ہے
تیرگی ایسے لپٹتی ہے ہوائے غم سے
اپنے بچھڑے ہوئے ساجن سے ملی ہے جیسے
مشعلِ خواب کچھ اس طور بُجھی ہے جیسے
درد نے جاگتی آنکھوں کی چمک کھا لی ہے
شوق کا نام نہ خواہش کا نشاں ہے کوئی
برف کی سِل نے مرے دل کی جگہ پا لی ہے
اب دھند لکے بھی نہیں زینتِ چشم بے خواب
آس کا رُوپ محل دستِ تہی ہے جیسے
بحرِ امکان پہ کائی سی جمی ہے جیسے
ایسے لگتا ہے کہ جیسے مرا معمورہٗ جاں
کسی سیلاب زدہ گھر کی زبوں حالی ہے
نہ کوئی دوست نہ تارا کہ جسے بتلائوں
اس طرح ٹوٹ کے بکھرا ہے انا کا شیشہ
میرا پندار مرے دل کے لیے گالی ہے
.........
نبض تاروں کی طرح ڈوب رہی ہے جیسے
غم کی پنہائی سمندر سے بڑی ہے جیسے
آنکھ صحرائوں کے دامن کی طرح خالی ہے
وحشت جاں کی طرف دیکھ کے یوں لگتا ہے
موت اس طرح کے جینے سے بھلی ہے جیسے

.........
تیرگی چھٹنے لگی، وقت رکے گا کیونکر
صبح خورشید لیے در پہ کھڑی ہے جیسے
داغِ رسوائی چھپائے سے نہیں چُھپ سکتا
یہ تو یوں ہے کہ جبیں بول رہی ہے جیسے

اس نظم میں جس رات کا ذکر ہے یہ 16دسمبر 1971 کی رات تھی جو یوں تو اس کرہ ارض پر اپنے معمول کے مطابق آئی تھی مگر کچھ علاقوں اور بے شمار دلوں کے ساتھ اس کی ملاقات کا طریقہ مختلف تھا۔ میری نسل کے لوگ جنھوں نے اپنی ہوش میں پاکستان کو بنتے نہیں دیکھا تھا اپنے قومی وجود کا ایک بازو کٹنے کے اس منظر کو یقیناً بہت غم اور تکلیف میں دیکھ رہے تھے لیکن جنھوں نے اس ملک کو بنتے دیکھا اور اس کے قیام کے لیے برصغیر کے مختلف علاقوں سے ہجرت کے دوران اپنوں کی لاشوں سے گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھروں اور زندگی بھر کے اثاثوں کی بربادی کا غم بھی سہا تھا۔

اُن کے لیے یہ تجربہ اور بھی زیادہ خوفناک اور دل شکن تھا۔ اب اس رات کے گزرنے کے 49 برس بعد بظاہر یہ واقعہ ایک داستان کی شکل اختیار کر چکا ہے لیکن اس دوران میں بہت سی ایسی باتیں بھی سامنے آئی ہیں جن سے اس کی نوعیت کو سمجھنے کے بہت سے نئے دروازے کھلے ہیں اور اب بہت سے مغالطے، جھوٹی افواہیں اور اُس وقت کے بھارتی میڈیا کے پھیلائے ہوئے پروپیگنڈے کے بارے میں خود بھارتی ، بنگلہ دیشی اور بین الاقوامی مبصرین اور تجزیہ کاروں کی بے شمار تحریروں سے صورتِ حال کی اصلیت بہت حد تک واضح ہو چکی ہے۔

مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کی صورت میں 14 اگست 1947 کو قائم ہونے والے ''پاکستان '' سے کیوں علیحدہ ہوا اس کی حقیقت اور پسِ منظر پر تو بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن یہ کیسے ہوا اس کی تفصیل ساری دنیا کے ساتھ ساتھ خود اُس زمانے کے مغربی پاکستانیوں کی غالب اکثریت کے علم میں بھی نہیں تھی جس کا ایک حصہ ہماری وہ نسل بھی تھی جو بظاہر پڑھی لکھی اور حالاتِ حاضرہ سے باخبر سمجھی جاتی ہے۔

دنیا کو تو بھارتی پروپیگنڈے نے گمراہ کیا مگر ہماری طرف یہ کام خود ہمارے اُس وقت کے حکمرانوں نے کیا اور دلیل یہ دی کہ اُس وقت مغربی پاکستان میں تقریباً تین لاکھ بنگالی لوگ حکومتی اداروں اور دیگر شعبوں میں کام کر رہے تھے اگر وہاں بہاریوں اور مغربی پاکستان سے گئے ہوئے لوگوں پر ہونے و الے ظلم و ستم کی داستانیں یہاں کے لوگوں تک پہنچ جائیں تو شدید خطرہ تھا کہ یہاں اُس کا ردِّعمل کوئی ایسی تحریک بھی پیدا کر سکتا ہے جس کی وجہ سے ان تین لاکھ بنگالی لوگوں اور اُن کے خاندانوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ جائیں۔

اس دلیل میں یقینا دم ہے مگر سارا بوجھ اس پر لاد دینے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ''اِدھر '' کے لوگوں کو کچھ پتہ ہی نہیں چل سکا کہ '' اُدھر'' کیا ہو رہا ہے اور معاملات کس خوفناک صورتِ حال میںداخل ہو چکے ہیں اور اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ آج تقریباً پچاس برس گزرنے کے بعد بھی ہم نے اپنے لوگوں اور آنے والی نسلوں کو صحیح صورتِ حال سے آگاہ کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج بھی ہم سب لوگ اس مجموعی تاثر اور پروپیگنڈے پر یقین رکھتے ہیں کہ سارا قصور ہماری حکومتی پالیسیوں اور آپریشن کا تھا جس میں لاکھوں بنگالی لوگ مارے گئے۔

حکومتی پالیسیوں، انتخابات عوامی لیگ کو جیت کے باوجود اقتدار کی منتقلی نہ کرنا اور بھٹو صاحب کی ''اِدھر تم اُدھر ہم'' ٹائپ سوچ نے کس طرح سے بنگالی عوام اور سیاستدانوں کو بدظن کیا اور وہاں کی نوجوان نسل نے مکتی باہنی کی شکل میں انڈیا سے باقاعدہ فوجی اور دہشت گردی کی تربیت اور اسلحہ حاصل کر کے کس طرح سے نہ صرف بہاریوں اور پاکستان دوست بنگالیوں کا قتل عام کیا بلکہ آگے چل کر بھارتی فوج کو اپنا نجات دہندہ بھی تسلیم کیا یہ سب کچھ اب تاریخ کا حصہ ہے اور اس بات کا متقاضی ہے کہ اسے جانا، سمجھا اور اس سے سبق حاصل کیا جائے۔

پی ڈی ایم اور اُس کی موجودہ تحریک کے حوالے سے میں کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا کہ ایک تو یہ موضوع بہت پیچیدہ ہے اور دوسرے میں اپنے کالم میں براہ راست کسی سیاسی موضوع پر بوجوہ بات بھی نہیں کرتا مگر اتنا ضرور عرض کروں گا کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کے اہلِ فکر و نظر نصف صدی قبل گزرنے والی اُس رات کو ضرور دھیان میں رکھیں اور یہ بھی یاد رکھیں کہ اختلافی نظریات اور تنقید برائے تنقید کو اس قدر ہوا نہ دی جائے کہ ایک بار پھر ہم اپنے دشمنوں کو پروپیگنڈے کے لیے وہ بنیاد فراہم کرنے لگیں جہاں ایک فی صد جھوٹ 99 فی صد سچ کی جگہ لے لے اور خدا نخواستہ ہم پھر کسی ایسے آشوب میں مبتلا ہو جائیں کہ پھر سے سورج کے استقبال کی جگہ رات کا ماتم لے لے۔

صورتِ شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
Load Next Story