آہ مفتی زر ولی خانؒ

میں آخر میں انتہائی درد دل سے گزارش کروں گا کہ یہ سال حقیقی معنوں میں امت مسلمہ کے لیے غم کا سال ہے۔

ashfaqkhan@express.com.pk

جامعہ عربیہ احسن العلوم کراچی کے وسیع صحن میں یہ کس کا جنازہ ہے جو امام احمد بن حنبلؒ کا قول ایک بار پھر سچا ثابت کررہا ہے؟ امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا تھا کہ '' ہمارے جنازے ہماری حقانیت کا فیصلہ کریں گے'' اور تاریخ گواہ ہے ان کے جنازے میں لاکھوں لوگ شریک ہوئے اور جنازے کی شان دیکھ کر ہزاروں غیر مسلموں نے اسلام قبول کرلیا۔

جامعہ عربیہ احسن العلوم میں لاکھوں افراد جمع ہیں، ایمبولینس کی اسٹریچر پر سفید چادر میں ملبوس جسد خاکی دور حاضر کے عظیم عالم دین مولانا مفتی زر ولی خانؒ کا ہے، کون مفتی زر ولی؟ شیخ الحدیث و التفسیر مفتی زر ولی۔ کون مفتی زر ولی؟ مولانا انور شاہ کشمیریؒ کا روحانی فرزند مفتی زرولی۔ کون مفتی زر ولی؟ شیخ القرآن و الحدیث مولانا حمد اللہ جانؒ کا لاڈلہ مفتی زر ولی۔ کون مفتی زر ولی ؟ مولانا یوسف بنوریؒ کا شاگرد مفتی زر ولی۔ کون مفتی زر ولی ؟

مطبع سنت عالم دین مفتی زرولی۔ کون مفتی زر ولی ؟ صاحب کشف بزرگ مفتی زر ولی۔ کون مفتی زر ولی ؟باطل نظریات کے مقابلے میں شمشیرِ بے نیام مفتی زر ولی۔ اتنی عظیم شخصیت کی نماز جنازہ میں جیسے کراچی ہی نہیں سارے کا سارا سندھ امڈ آیا ہو، رحلت سے صرف چند گھنٹوں بعد اتنی بڑی تعداد میں علماء، صلحاء، طلباء اور عوام الناس کا پہنچنا اس بات کی دلیل تھی یہ کسی عام انسان کی نماز جنازہ نہیں اللہ کے محبوب عالم دین کا سفر آخرت ہے۔

مفتی زر ولی خان کا تعلق علمائے حق کے اس قبیل سے تھا جس نے چٹایوں پر بیٹھ کراپنی روایات اور قدیم علوم و فنون پر دسترس حاصل کی۔ ان کا تعلق صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع صوابی اور گاؤں جہانگیرا سے تھا، یعنی وہ میرے ہی علاقے کے چشم و چراغ تھے۔ ان کی میرے والد محترم شیخ القرآن و الحدیث حضرت مولانا حمد اللہ جان ڈاگئی باباجی ؒ سے شروع سے نسبت تھی، نسبت ہی نہیں مفتی زر ولی خانؒ میرے باباجانؒ کے بیٹے بنے ہوئے تھے۔ انھوں نے 1953میں والد صاحبؒ کے ایک دوست مولانا عبدالحنان ؒ سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور بعد ازاں 1973 میں جامعۃ العلوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی میں داخلہ لے لیا۔

دورہ حدیث تک اسی عظیم درس گاہ سے تعلیم حاصل کی۔ آپ کے اساتذہ میں مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹومکئی ، مفتی احمد الرحمانؒ اور مولانا محمد یوسف بنوریؒ شامل ہیں۔ سند فراغت کے حصول کے بعد کراچی میں ہی جامعہ عربیہ احسن العلوم کے نام سے ادارہ قائم کیا، اللہ رب العزت نے بہت جلد اس ادارے کو ملک کی ممتاز درسگاہوں کی صف میں لاکھڑا کیا۔ شروع دن سے لے کر حضرت باباجیؒ کی بیماری تک مفتی زر ولی خانؒ مسلسل حضرت باباجیؒ کو اپنے ہاں بلایا کرتے تھے اور سال میں دو مرتبہ ان سے ملنے خود ڈاگئی ضلع صوابی تشریف لاتے تھے۔ والد صاحبؒ کو ان سے اس قدر پیار تھا کہ اپنے تمام مجرب وظائف کی اجازت مفتی زر ولی خانؒ کو دے رکھی تھی، مفتی صاحبؒ کو حدیث کی اجازت بھی حضرت والد صاحبؒ نے دی تھی۔

مفتی زر ولی خانؒ علمی شخصیت تھے، درس و تدریس ہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھا یہی وجہ ہے کہ انھوں نے تمام عمر سیاست سے کنارہ اختیار کیے رکھا تاہم 1988 میں جب حضرت والد صاحب نے جمعیت علماء اسلام کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا تو وہ سب کچھ چھوڑ کر ڈاگئی صوابی ایک ماہ کے لیے چلے آئے اور ساری انتخابی مہم خود چلائی، الیکشن کی رات انھیں ایک حادثہ پیش آیا جس میں ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔

جب میں ملازمت کے سلسلہ میں کراچی گیا اور کئی سال شہرِ قائد میں ہی مقیم رہا تو ہر دوسرے دن مفتی زر ولی خانؒ کے ہاں جانا میرا معمول تھا اور مہینے میں ایک بار مفتی صاحبؒ میرے گھر تشریف لاتے تھے۔ میرے بابا جانؒ ہمیں کہاکرتے تھے کہ جب بھی کوئی مسئلہ اور مشکل درپیش ہو اور مجھ سے رابطہ نہ ہو تو مفتی صاحبؒ سے رابطہ کیا کریں اور جو وہ کہیں آنکھیں بند کرکے پورے اطمینان کے ساتھ مانیں اور عمل کریں۔ میں یہ بہت کھلے دل کے ساتھ اقرار کرتا ہوں کہ باباجانؒ کے بعد اگر کوئی شخصیت تھی جس نے مجھے رب العالمین کی قربت کے اسرار و رموز سمجھائے اور شکل و صورت کو شریعت کے سانچے میں ڈھالنے میں رہنمائی کی وہ حضرت مفتی زر ولی خان صاحب ؒ کی ذات بابرکت تھی، میں صدق دل اور درد دل سے کہتا ہوں کہ میں ان کی رحلت سے ایک بار پھر یتیم ہو گیا ہوں۔ وہ نہایت جلالی کیفیت کے مالک تھے، جس پر حضرت والد صاحبؒ انھیں اکثر کہا کرتے تھے کہ '' آپ کا نام تو زر ولی خان ہے لیکن آپ حقیقت میں زور ولی خان ہو ''۔

مفتی زر ولی خانؒ اردو، فارسی، پشتو اور عربی ادب پر گہری نظر رکھتے تھے، خاص طور پر فارسی اشعار تو انھیں ازبر تھے، گلستان بوستان قدیم دبستان اخلاق کی بہار تھی، فارسی شرفا کے گھرانوں سے کیا اٹھی، ہماری قدیم قدروں اور روایات کا خاتمہ ہوتا نظر آرہا ہے، اگر تھوڑی بہت رمق نظر آرہی ہے تو مفتی زر ولی خانؒ ایسے علماء و صلحاء ہی کی بدولت ہے، ایسی شخصیات بھی ایک ایک کرکے دنیا سے پردہ فرما رہی ہیں۔ حضرت ابو سعید ابوالخیر سے لے کر خاتم الشعراء جامی تک جو کچھ فارسی اشعارمیں کہا گیا دیگر زبانوں میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں ملتا، ہم تک اس ادب کو منتقل کرنے کا بیڑا مفتی صاحب جیسی شخصیات نے ہی اٹھا رکھا تھا۔ حدیث کے علمی مسائل، فقہی اختلافات کے مضبوط دلائل اور اکابرعلماء کرام کی تاریخ پر مفتی صاحب مضبوط گرفت رکھتے تھے۔


عہد حاضر میں ان کا شمار علماء کرام کے اس طبقے سے ہوتا تھا جو صرف قرآن و سنت کی روشنائی سے زمانے کو ہی منور نہیں کر رہے تھے بلکہ اپنی زندگی کا ایک ایک پل قرآن و سنت کی اتباع میں گزار کر عملی نمونہ پیش کرتے رہے۔

یہی وجہ ہے کہ قرآن و سنت کے مسائل کو ڈنکے کی چوٹ پر بیان کرتے تھے اور کبھی مصلحت کا شکار دکھائی نہ دیے۔ بلاشبہ ایسی شخصیات ملک و قوم کا سرمایہ ہوا کرتی ہیں جو گوشہ نشینی اختیار کیے ہوئے ہی ساری زندگی اللہ اور اللہ کے محبوب پیغمبرﷺ کی اتباع میں گزار کر دوسروں کے لیے مشعل راہ بن جاتی ہیں۔ آپؒ نے تمام عمر نماز پنجگانہ میں اسی ترتیب کو اختیار کیا جو نبی کریمﷺ نے اپنے صحابہ کرامؓ کو سکھائی تھی۔ مفتی زر ولی خانؒ علامہ سید انور شاہ کشمیریؒ سے ناصرف متاثر تھے بلکہ ان سے والہانہ عقیدت بھی رکھتے تھے۔

یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنے اکلوتے بیٹے کا نام اپنے شیخ کے نام پر انور شاہ رکھا۔ آپؒ صاحب کشف بزرگ بھی تھے، بے شمار واقعات کا میں چشم دید گواہ بھی ہوں، سردست ایک واقعہ پیش خدمت ہے، ایک مرتبہ دورہ حدیث کی کلاس پڑھا رہے تھے پڑھاتے پڑھاتے اچانک ایک طالب علم سے مخاطب ہوئے اور بولے ''مجھے تیرے چہرے پر کفر کی سیاہی نظر آرہی ہے'' ان کی یہ بات سچ ثابت ہوگئی کیونکہ ایک ہفتے بعد اسی طالب علم نے اسلام چھوڑ کر قادیانیت اختیار کرلی اور حضرت عیسیٰؑ کی حیات کا منکر ہوگیا۔ بعدازاں اس نے کراچی میں لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے سڑکوں پر اشتہارات بھی لگائے۔

مفتی صاحبؒ بہت عظیم شخصیت کے مالک تھے، ایسی شخصیات کے جہاں چاہنے والے بہت ہوتے ہیں وہاں دشمن بھی بہت ہوتے ہیں، ان پر کسی نے سخت جادو کر ڈالا، جس کے باعث وہ نماز نہیں پڑھا پاتے تھے جونہی مصلے پر جاتے تو کہتے میں الٹا کھڑا ہوں۔ انھوں نے حضرت والدصاحبؒ سے بات کی اور انھیں کراچی بلالیا، حضرت والد صاحبؒ نے انھیں دم کیا اور ایک وظیفہ پڑھنے کے لیے بتایا، مفتی صاحب جادو کے اثر سے نکل آئے اور جادو کرانے والا خود اس کا شکار ہوگیا۔

مفتی صاحبؒ بہت پریشان تھے کہ مجھ پر کس نے جادو کیا ہے؟ حضرت والد صاحبؒ نے ان کی کیفیت دیکھ کر بتایا کہ کوئی مصلے کا چور ہے آپ کی جگہ لینا چاہتا ہے، جب وظیفے کے اثر سے جادو الٹ ہوگیا تو وہ شخص سامنے آگیا، اس کی کیفیت بھی وہی ہوجاتی جو مفتی صاحب کی ہوتی، وہ مسجد سے دور بھاگتا، مصلیٰ پر کھڑا ہوتا تو کہتا میں الٹا کھڑا ہوں۔ وہ مفتی صاحب کا رشتے دار ہی تھا لیکن بعد میں اس نے مفتی صاحب سے معافی مانگ لی جس پر مفتی زرولی خانؒ نے حضرت والد صاحب سے ہی اس کا بھی علاج کرایا۔ مفتی زر ولی خانؒ کچھ عرصے سے سانس کی تکلیف کا شکار تھے، تکلیف کے باوجود انھوں نے کبھی اپنے معمولات نہیں چھوڑے، اکثر شدید تکلیف کے باوجود آکسیجن لگا کر درس دیا کرتے تھے۔

گزشتہ ہفتے ان کا عارضہ بڑھ گیا، جس پر انھیں اسپتال منتقل کیا گیا وہاں حرکت قلب بند ہونے کے باعث حضرت والد صاحبؒ کے لاڈلے روحانی فرزند مفتی زرولی خانؒ دار بقا روانہ ہوگئے۔ عالم اسلام ایک عظیم عالم دین سے محروم ہوگیا۔ اللہ کریم حضرت مفتی صاحبؒ کی دینی و علمی خدمات قبول فرمائے، انھیں جوار رحمت میں جگہ دے اوران کے بیٹے انور شاہ سمیت ہزاروں روحانی فرزندوں، معتقدین، متعلقین کو صبر جمیل عطا کرے۔ میری دعا ہے کہ اللہ کریم حضرت مفتی زرولی خانؒ کے درجات بلند فرمائے اور ان کے فرزند ارجمند مولانا انور شاہ صاحب کو شاہ انور شاہ کشمیری ثانی اور حضرت مفتی صاحبؒ کے مسند کے شایان شان عالم باعمل بنائیں اور جامعہ احسن العلوم کو دن دگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے۔

میں آخر میں انتہائی درد دل سے گزارش کروں گا کہ یہ سال حقیقی معنوں میں امت مسلمہ کے لیے غم کا سال ہے کیونکہ قریباً 180کے لگ بھگ جید علمائے کرام اس سال کے دوران دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں، ان میں مولانا عزیز الرحمان ہزارویؒ ، مولانا سعید عمر پالنپوریؒ، مولانا تصور الحق مدنیؒ، علامہ ڈاکٹر خالد محمودؒ، مولانا عبید الرحمان ضیاء، مولانا ارشد حسن ثاقبؒ ایسی عظیم شخصیات شامل ہیں، ان میں سے بیشتر علمائے کرام کا انتقال کورونا کے سبب ہوا۔ اس لیے مان لیجیے کہ کورونا وائرس کوئی افسانہ نہیں بلکہ حقیقت ہے اور ایک سے دوسرے انسان کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہے۔

اس کا پوری دنیا میں کوئی علاج نہیں صرف احتیاط سے ہی بچا جاسکتا ہے لہٰذا ہر شخص خود پر بھی رحم کرے اور دوسروں پر بھی رحم کرے، احتیاطی تدابیر اختیار کیجیے، خاص طور پر اکابرعلماء و مشائخ سے ملتے وقت ان کے ہاتھوں اور پیشانی کا بوسہ لینے سے اجتناب برتیں، موجودہ حالات میں اس سے بڑی عقیدت اور کوئی نہیں ہوسکتی، یاد رکھیں ہماری ذرا سی بے احتیاطی ہمارے ان اکابرین کو وقت سے پہلے ہم سے جدا ہونے کا باعث بن سکتی ہے۔
Load Next Story