ماتحت عدلیہ اور انتظامیہ
ٹھیک کرنے کا عمل اوپرسے نہیں نیچے سے شروع کرنا ہو گا۔
ماتحت عدلیہ کے مسائل کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں بلکہ ہر روز مسائل سامنے آتے ہیں۔ کہیں وکلا اور ماتحت عدلیہ کے ججز کے درمیان تنازعہ سامنے آ جاتا ہے اور کہیں ماتحت عدلیہ اور سول ایڈ منسٹریشن کے درمیان مسائل سامنے آتے ہیں۔ حال ہی میں سرگودھا کی تحصیل ساہیوال میں اسسٹنٹ کمشنر اور سول جج کے درمیان تنازعہ سامنے آیا ہے جسکی انکوائری بھی ہوئی ہے۔
تفصیلات کے مطابق سول جج صاحب نے اسسٹنٹ کمشنر صاحب کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کے لیے سمن جاری کیے تاہم انھوں نے خود پیش ہونے کے بجائے اپنے ریڈر کو بھیج دیا۔ اس پر سول جج صاحب نے اسسٹنٹ کمشنر کے وارنٹ گرفتاری جاری کر کے انھیں ہتھکڑی لگوا دی۔ بعدازاں اسسٹنٹ کمشنر نے ڈپٹی کمشنر کو شکایتی خط لکھا اور پھر وہاں ہڑتال کر دی گئی۔
میں اس واقعہ کی زیادہ تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا۔ لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ سول اٰیڈمنسٹریشن میں یہ کلچر عام ہے کہ وہ ماتحت عدلیہ کو عدلیہ نہیں سمجھتے۔ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ جب کبھی ماتحت عدلیہ کے جج صاحب کسی سرکاری افسر کو طلب ہونے کی ہدایت کرتے ہیں تو اکثر اوقات افسران خود پیش نہیں ہوتے۔ البتہ جب اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے طلب کیا جائے تو پیش ہو جاتے ہیں۔ ایک عمومی رویہ بن گیا ہے کہ ماتحت عدلیہ بھی کوئی عدلیہ ہے، اب ہم سول جج کے سامنے پیش بھی ہوں۔ میں نے بذات خود کئی افسران کو کہتے سنا ہے کہ ہمارا لیول یہ رہ گیاہے کہ ہم ماتحت عدلیہ کے سامنے پیش ہوں۔
افسران اپنا گریڈ بتاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ سول جج یا ماتحت عدلیہ کا جج گریڈ میں میرے برابر ہے یا چھوٹا ہے، میں اس کے سامنے کیسے پیش ہو جاؤں۔ سول ایڈمنسٹریشن ماتحت عدلیہ کے سمن کو غیر سنجیدگی سے لیتی ہے۔ اس لیے اگر کوئی سرکاری افسر سول جج کی طلبی پر خود پیش نہیں ہوا تو یہ کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں ہے۔ غیر معمولی بات یہ ہے کہ محترم سول جج صاحب نے اس افسر کے وارنٹ گرفتاری جاری کر کے انھیں ہتھکڑی لگوا دی۔ شاید باقی سول جج صاحبان ایسا نہ کرتے اور تاریخ پر تاریخ ڈال کر وقت گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ اس واقعہ اور کیس کے میرٹ اہم نہیں ہیں، اہم بات یہ ہے کہ سول جج صاحب کے احکامات کی تعمیل نہیں کی گئی۔ اگر کوئی افسر سمجھتاہے کہ سول جج کے احکامات غیر قانونی ہیں تو انھیں ان احکامات کے خلاف اپیل دائر کرنی چاہیے لیکن جج صاحبان کے احکامات پر عمل نہ کرنا،کوئی قانونی عمل نہیں اور کسی مہذب معاشرے میں ایسا ہوتا بھی نہیں۔ اس طرح تو ماتحت عدلیہ مذاق بن جائے گی۔ پہلے ہی وکلا ماتحت عدلیہ کے ججز کا نہ صرف احترام نہیں کرتے بلکہ ان کو جج ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ وکلا کا تو کلچر بن گیا ہے ۔ اصولی طور پر وکلا حضرات کوماتحت عدلیہ کے جج صاحبان کا غیر معمولی احترام کرنا چاہیے کیونکہ وہ قانون دان ہوتے ہیں اور انھیں سب سے زیادہ عدلیہ کے احترام کا پتہ ہوتا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے تحصیل پتوکی میں ایک وکیل اور خاتون جج کے درمیان تنازعہ ابھرنے کی خبریں آئی تھیں۔ خاتون جج کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے وہاں کی ماتحت عدلیہ کے تمام جج صاحبان نے چھٹی کی درخواست دے دی تھی۔ یہ بھی ایک قسم کا احتجاج ہی تھا۔ پھر یہ معاملہ معافی تلافی اور معذرت سے آگے نہیں بڑھ سکا۔
یہ بات بھی حقیقت ہے کہ جتنی حساسیت، اہمیت اور احترام اعلیٰ عدلیہ کے وقار کو حاصل ہے، اتنی حساسیت ماتحت عدلیہ کو نہیں دی جاتی۔ پتہ نہیں کیوں ماتحت عدلیہ کو کمزور اور اعلیٰ عدلیہ کو طاقتور عدلیہ سمجھا جاتا ہے حالانکہ معاملہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ جب تک ہم ماتحت عدلیہ کو بہتر نہیں کرینگے تب تک ملک میں انصاف کی فراہمی بہتر نہیں ہو سکتی۔
انصاف کی فراہمی کی پہلی دہلیز ماتحت عدلیہ ہوتی ہے۔ جتنا انصاف کا معیار ماتحت عدلیہ میں بہتر ہوگا اتنا ہی ملک میں انصاف کا عمومی معیار بہتر ہو گا۔ ایک سابق چیف جسٹس پاکستان نے عدالت عظمیٰ میں کیسز کی جلد ڈسپوزل کے لیے بہت کام کیا اور اعلان کیا کہ انھوں نے ساری فوجداری اپیلیں نمٹا دی ہیں لیکن نچلی سطح صورتحال بہتر نہیں ہوئی۔ جب ماتحت عدلیہ میں کیسز زیر التوا رہیں گے تو سائلین کے مسائل کم نہیں ہوسکتے اور نہ اعلیٰ عدلیہ میں اپیلوں کی تعداد میں کمی آسکتی ہے۔ متعدد چیف جسٹس صاحبان نے سو موٹو اختیارات کے ذریعے جلد انصاف کی فراہمی کی بہت کوشش کی لیکن مسائل پیچیدہ سے پیچیدہ ہوتے گئے۔
جب ملک کی انتظامیہ ماتحت عدلیہ کو عدلیہ ماننے سے گریزاں ہو نچلی پر نظام انصاف کیسے بہتر اور سبک رفتار ہو سکتا ہے۔ جب انتظامیہ کا کوئی افسر جج کے تبادلے کا مطالبہ کر دے تو ماتحت عدلیہ کا احترام کدھر گیا۔ یہ پہلو بھی مدنظر رہنا چاہیے کہ جب وکلا ماتحت عدلیہ ججز کے خلاف ہڑتال کر دیں تو سرکاری افسران ایسا کیوں نہ کریں۔ جب سیشن جج صاحبان کی مہارت اور معاملہ فہمی کا معیار یہ ہو جائے کہ وہ بار کے ساتھ بہترین تعلقات رکھیں تو احترام کا فلسفہ کیا ہوا؟ ہم نے ماضی میں بعض وکلا کو ماتحت عدالتوں کو تالے لگاتے بھی دیکھا ہے۔ آج بھی جب بار ہڑتال کا اعلان کر دے تو ماتحت عدلیہ مفلوج ہوجاتی ہے۔ جو جج اعلان ہڑتال کے بعد بھی اپنے فرض کی ادائیگی جاری رکھے تو اسے عبرت کا نشان بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بار ہڑتال کی کال دے یا ہڑتال کر دے تو اسے سیشن جج کی نا اہلی سمجھا جاتا ہے کہ وہ بار کے ساتھ تعلقات کو بہتر نہیں رکھ سکا۔
پاکستان میں نظام انصاف کو اوپر سے ٹھیک کرنے کی بہت کوشش کی گئی ہے۔لیکن بات سمجھنے کی ہے کہ ٹھیک کرنے کا عمل اوپرسے نہیں نیچے سے شروع کرنا ہو گا۔ ماتحت عدلیہ کے احترام کو لازم و ملزوم قرار دینا ہو گا۔ سب کو ماتحت عدلیہ کا بھی احترام کرنا ہو گا ۔ ماتحت عدلیہ کو جب اپنے اندر سے احترام نہیں ملتا تو باہر سے کیسے مل سکتا ہے۔ عدلیہ کے وقار کو سمجھوتوں اور مفاہمت سے ممکن نہیں بنایا جا سکتا۔ سول جج کی عزت اور وقار کو بھی یقینی بنانا ہو گا۔ تب ہی معاملات بہتر ہوں گے۔
تفصیلات کے مطابق سول جج صاحب نے اسسٹنٹ کمشنر صاحب کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کے لیے سمن جاری کیے تاہم انھوں نے خود پیش ہونے کے بجائے اپنے ریڈر کو بھیج دیا۔ اس پر سول جج صاحب نے اسسٹنٹ کمشنر کے وارنٹ گرفتاری جاری کر کے انھیں ہتھکڑی لگوا دی۔ بعدازاں اسسٹنٹ کمشنر نے ڈپٹی کمشنر کو شکایتی خط لکھا اور پھر وہاں ہڑتال کر دی گئی۔
میں اس واقعہ کی زیادہ تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا۔ لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ سول اٰیڈمنسٹریشن میں یہ کلچر عام ہے کہ وہ ماتحت عدلیہ کو عدلیہ نہیں سمجھتے۔ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ جب کبھی ماتحت عدلیہ کے جج صاحب کسی سرکاری افسر کو طلب ہونے کی ہدایت کرتے ہیں تو اکثر اوقات افسران خود پیش نہیں ہوتے۔ البتہ جب اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے طلب کیا جائے تو پیش ہو جاتے ہیں۔ ایک عمومی رویہ بن گیا ہے کہ ماتحت عدلیہ بھی کوئی عدلیہ ہے، اب ہم سول جج کے سامنے پیش بھی ہوں۔ میں نے بذات خود کئی افسران کو کہتے سنا ہے کہ ہمارا لیول یہ رہ گیاہے کہ ہم ماتحت عدلیہ کے سامنے پیش ہوں۔
افسران اپنا گریڈ بتاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ سول جج یا ماتحت عدلیہ کا جج گریڈ میں میرے برابر ہے یا چھوٹا ہے، میں اس کے سامنے کیسے پیش ہو جاؤں۔ سول ایڈمنسٹریشن ماتحت عدلیہ کے سمن کو غیر سنجیدگی سے لیتی ہے۔ اس لیے اگر کوئی سرکاری افسر سول جج کی طلبی پر خود پیش نہیں ہوا تو یہ کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں ہے۔ غیر معمولی بات یہ ہے کہ محترم سول جج صاحب نے اس افسر کے وارنٹ گرفتاری جاری کر کے انھیں ہتھکڑی لگوا دی۔ شاید باقی سول جج صاحبان ایسا نہ کرتے اور تاریخ پر تاریخ ڈال کر وقت گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ اس واقعہ اور کیس کے میرٹ اہم نہیں ہیں، اہم بات یہ ہے کہ سول جج صاحب کے احکامات کی تعمیل نہیں کی گئی۔ اگر کوئی افسر سمجھتاہے کہ سول جج کے احکامات غیر قانونی ہیں تو انھیں ان احکامات کے خلاف اپیل دائر کرنی چاہیے لیکن جج صاحبان کے احکامات پر عمل نہ کرنا،کوئی قانونی عمل نہیں اور کسی مہذب معاشرے میں ایسا ہوتا بھی نہیں۔ اس طرح تو ماتحت عدلیہ مذاق بن جائے گی۔ پہلے ہی وکلا ماتحت عدلیہ کے ججز کا نہ صرف احترام نہیں کرتے بلکہ ان کو جج ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ وکلا کا تو کلچر بن گیا ہے ۔ اصولی طور پر وکلا حضرات کوماتحت عدلیہ کے جج صاحبان کا غیر معمولی احترام کرنا چاہیے کیونکہ وہ قانون دان ہوتے ہیں اور انھیں سب سے زیادہ عدلیہ کے احترام کا پتہ ہوتا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے تحصیل پتوکی میں ایک وکیل اور خاتون جج کے درمیان تنازعہ ابھرنے کی خبریں آئی تھیں۔ خاتون جج کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے وہاں کی ماتحت عدلیہ کے تمام جج صاحبان نے چھٹی کی درخواست دے دی تھی۔ یہ بھی ایک قسم کا احتجاج ہی تھا۔ پھر یہ معاملہ معافی تلافی اور معذرت سے آگے نہیں بڑھ سکا۔
یہ بات بھی حقیقت ہے کہ جتنی حساسیت، اہمیت اور احترام اعلیٰ عدلیہ کے وقار کو حاصل ہے، اتنی حساسیت ماتحت عدلیہ کو نہیں دی جاتی۔ پتہ نہیں کیوں ماتحت عدلیہ کو کمزور اور اعلیٰ عدلیہ کو طاقتور عدلیہ سمجھا جاتا ہے حالانکہ معاملہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ جب تک ہم ماتحت عدلیہ کو بہتر نہیں کرینگے تب تک ملک میں انصاف کی فراہمی بہتر نہیں ہو سکتی۔
انصاف کی فراہمی کی پہلی دہلیز ماتحت عدلیہ ہوتی ہے۔ جتنا انصاف کا معیار ماتحت عدلیہ میں بہتر ہوگا اتنا ہی ملک میں انصاف کا عمومی معیار بہتر ہو گا۔ ایک سابق چیف جسٹس پاکستان نے عدالت عظمیٰ میں کیسز کی جلد ڈسپوزل کے لیے بہت کام کیا اور اعلان کیا کہ انھوں نے ساری فوجداری اپیلیں نمٹا دی ہیں لیکن نچلی سطح صورتحال بہتر نہیں ہوئی۔ جب ماتحت عدلیہ میں کیسز زیر التوا رہیں گے تو سائلین کے مسائل کم نہیں ہوسکتے اور نہ اعلیٰ عدلیہ میں اپیلوں کی تعداد میں کمی آسکتی ہے۔ متعدد چیف جسٹس صاحبان نے سو موٹو اختیارات کے ذریعے جلد انصاف کی فراہمی کی بہت کوشش کی لیکن مسائل پیچیدہ سے پیچیدہ ہوتے گئے۔
جب ملک کی انتظامیہ ماتحت عدلیہ کو عدلیہ ماننے سے گریزاں ہو نچلی پر نظام انصاف کیسے بہتر اور سبک رفتار ہو سکتا ہے۔ جب انتظامیہ کا کوئی افسر جج کے تبادلے کا مطالبہ کر دے تو ماتحت عدلیہ کا احترام کدھر گیا۔ یہ پہلو بھی مدنظر رہنا چاہیے کہ جب وکلا ماتحت عدلیہ ججز کے خلاف ہڑتال کر دیں تو سرکاری افسران ایسا کیوں نہ کریں۔ جب سیشن جج صاحبان کی مہارت اور معاملہ فہمی کا معیار یہ ہو جائے کہ وہ بار کے ساتھ بہترین تعلقات رکھیں تو احترام کا فلسفہ کیا ہوا؟ ہم نے ماضی میں بعض وکلا کو ماتحت عدالتوں کو تالے لگاتے بھی دیکھا ہے۔ آج بھی جب بار ہڑتال کا اعلان کر دے تو ماتحت عدلیہ مفلوج ہوجاتی ہے۔ جو جج اعلان ہڑتال کے بعد بھی اپنے فرض کی ادائیگی جاری رکھے تو اسے عبرت کا نشان بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بار ہڑتال کی کال دے یا ہڑتال کر دے تو اسے سیشن جج کی نا اہلی سمجھا جاتا ہے کہ وہ بار کے ساتھ تعلقات کو بہتر نہیں رکھ سکا۔
پاکستان میں نظام انصاف کو اوپر سے ٹھیک کرنے کی بہت کوشش کی گئی ہے۔لیکن بات سمجھنے کی ہے کہ ٹھیک کرنے کا عمل اوپرسے نہیں نیچے سے شروع کرنا ہو گا۔ ماتحت عدلیہ کے احترام کو لازم و ملزوم قرار دینا ہو گا۔ سب کو ماتحت عدلیہ کا بھی احترام کرنا ہو گا ۔ ماتحت عدلیہ کو جب اپنے اندر سے احترام نہیں ملتا تو باہر سے کیسے مل سکتا ہے۔ عدلیہ کے وقار کو سمجھوتوں اور مفاہمت سے ممکن نہیں بنایا جا سکتا۔ سول جج کی عزت اور وقار کو بھی یقینی بنانا ہو گا۔ تب ہی معاملات بہتر ہوں گے۔