اندرونی خطرات و دہشت گردی سے نمٹنے کیلیے حتمی سیکیورٹی پالیسی تشکیل
انٹیلی جنس شیئرنگ کے نظام کومربوط بنانے کے لیے وفاقی سطح پروزارت داخلہ ’’قومی انٹیلی جنس ڈیسک‘‘ بھی قائم کی جائے گی
وفاقی حکومت نے ملک میں اندرونی خطرات اور دہشت گردی کے واقعات سے نمٹنے کے لیے سیکیورٹی پالیسی کوحتمی شکل دیدی ہے،اس سیکیورٹی پالیسی کے تحت وفاقی دارالحکومت،چاروں صوبوں سمیت گلگت بلتستان اورفاٹا میں موجود پولیس اوردیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ازسر نو جدید سہولتوں سے آراستہ کیا جائے گا۔
جبکہ انٹیلی جنس شیئرنگ کے نظام کومربوط بنانے کے لیے وفاقی سطح پروزارت داخلہ ''قومی انٹیلی جنس ڈیسک'' بھی قائم کرنے کافیصلہ کیا گیاہے جس میں وفاق کے علاوہ چاروں صوبوں اورقانون نافذ کرنے والے اداروں کو نمائندگی دی جائے گی۔وفاقی حکومت کے اعلیٰ ترین ذرائع نے بتایاکہ وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثارنے قانون نافذ کرنے والے اداروں اوردیگر کی مشاورت سے ملک کواندرونی خطرات اوردہشت گردی کے واقعات سے محفوظ رکھنے کے لیے ایک مربوط سیکیورٹی پالیسی تشکیل دی ہے،اس قومی سیکیورٹی پالیسی کے تحت ملک بھرمیں پولیس اوردیگرقانون نافذ کرنے والے اداروں کوجدیدآلات اور دیگر سازوسامان سے لیس کیا جائے گا،سیکیورٹی پالیسی کے تحت ملک بھرمیں کالعدم تنظیموں اوردہشت گردوں کے نیٹ ورک کوتوڑنے کے لیے انٹیلی جنس نظام کوبھی فعال کرنے کافیصلہ کیاگیاہے اور اس حوالے سے رابطے کے نظام کومربوط بنانے کے لیے وفاق اورصوبوں کے درمیان ایک قومی انٹیلی جنس نیٹ ڈیسک قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیاہے ۔
جس میں تمام انٹیلی جنس اداروں،صوبوں اور دیگرکونمائندگی دی جائے گی اورتمام اداروں کو مذیدوسائل فراہم کیے جائیں گے،اس پالیسی کے تحت ملک بھر میں دہشت گردوں کا کمپیوٹرائزڈڈیٹا مرتب کیا جائے گا،اس ریکارڈ کو منظم کرنے کے لیے ''وفاقی کرائم ریکارڈ سیل'' بھی قائم کیا جائے گا ۔
جس میں چاروں صوبوں کے تعاون سے دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کا ڈیٹامکمل طور پر ون لنک نظام کے تحت موجودہوگا۔ذرائع کا کہناہے کہ اس سیکیورٹی پالیسی میں اس بات کاتعین کیا جائے گاکہ خطرناک دہشت گردوں کے مقدمات صوبائی حکومتوں کی مشاورت سے مختلف شہروں میں منتقل کیے جائیں اور اس پالیسی میں اس بات کابھی تعین ہوگاکہ خطرناک جرائم پیشہ عناصر کے خلاف تفتیش کا عمل 90روز میں مکمل کرکے ان کے خلاف چالان عدالتوں میں پیش کیے جائیں تاکہ ان کو قرار واقعی سزا دلائی جاسکے ۔
سیکیورٹی پالیسی کے تحت وفاقی حکومت 50ارب روپے کی خطیررقم مختص کرے گی اورہر صوبے کو10ارب روپے،اسلام آباد اورگلگلت بلتستان کو5،5 ارب روپے دیے جائیںگے،جو قانون نافذ کرنیوالے اداروں کوجدیدسہولیات فراہم کرنے پرخرچ ہوں گے،اس سیکیورٹی پالیسی کے تحت ملک میں فرقہ وارانہ تقاریر،مذہبی منافرت پھیلانے اوردیگر امورسے متعلق بھی پالیسی مرتب کی جائے گی اوران پر مکمل طور پر پابندی عائد کرنے کے علاوہ اس حوالے سے موثرقانون سازی بھی کرنے کافیصلہ کیاجائے گا ۔ذرائع کا کہناہے کہ سیکیورٹی پالیسی کی حتمی منظوری مشترکہ مفادات کونسل کے آئندہ ماہ میں ہونے والے اجلاس میں دی جائے گی ،جس کی صدارت وزیراعظم نواز شریف کریںگے۔
جبکہ انٹیلی جنس شیئرنگ کے نظام کومربوط بنانے کے لیے وفاقی سطح پروزارت داخلہ ''قومی انٹیلی جنس ڈیسک'' بھی قائم کرنے کافیصلہ کیا گیاہے جس میں وفاق کے علاوہ چاروں صوبوں اورقانون نافذ کرنے والے اداروں کو نمائندگی دی جائے گی۔وفاقی حکومت کے اعلیٰ ترین ذرائع نے بتایاکہ وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثارنے قانون نافذ کرنے والے اداروں اوردیگر کی مشاورت سے ملک کواندرونی خطرات اوردہشت گردی کے واقعات سے محفوظ رکھنے کے لیے ایک مربوط سیکیورٹی پالیسی تشکیل دی ہے،اس قومی سیکیورٹی پالیسی کے تحت ملک بھرمیں پولیس اوردیگرقانون نافذ کرنے والے اداروں کوجدیدآلات اور دیگر سازوسامان سے لیس کیا جائے گا،سیکیورٹی پالیسی کے تحت ملک بھرمیں کالعدم تنظیموں اوردہشت گردوں کے نیٹ ورک کوتوڑنے کے لیے انٹیلی جنس نظام کوبھی فعال کرنے کافیصلہ کیاگیاہے اور اس حوالے سے رابطے کے نظام کومربوط بنانے کے لیے وفاق اورصوبوں کے درمیان ایک قومی انٹیلی جنس نیٹ ڈیسک قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیاہے ۔
جس میں تمام انٹیلی جنس اداروں،صوبوں اور دیگرکونمائندگی دی جائے گی اورتمام اداروں کو مذیدوسائل فراہم کیے جائیں گے،اس پالیسی کے تحت ملک بھر میں دہشت گردوں کا کمپیوٹرائزڈڈیٹا مرتب کیا جائے گا،اس ریکارڈ کو منظم کرنے کے لیے ''وفاقی کرائم ریکارڈ سیل'' بھی قائم کیا جائے گا ۔
جس میں چاروں صوبوں کے تعاون سے دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کا ڈیٹامکمل طور پر ون لنک نظام کے تحت موجودہوگا۔ذرائع کا کہناہے کہ اس سیکیورٹی پالیسی میں اس بات کاتعین کیا جائے گاکہ خطرناک دہشت گردوں کے مقدمات صوبائی حکومتوں کی مشاورت سے مختلف شہروں میں منتقل کیے جائیں اور اس پالیسی میں اس بات کابھی تعین ہوگاکہ خطرناک جرائم پیشہ عناصر کے خلاف تفتیش کا عمل 90روز میں مکمل کرکے ان کے خلاف چالان عدالتوں میں پیش کیے جائیں تاکہ ان کو قرار واقعی سزا دلائی جاسکے ۔
سیکیورٹی پالیسی کے تحت وفاقی حکومت 50ارب روپے کی خطیررقم مختص کرے گی اورہر صوبے کو10ارب روپے،اسلام آباد اورگلگلت بلتستان کو5،5 ارب روپے دیے جائیںگے،جو قانون نافذ کرنیوالے اداروں کوجدیدسہولیات فراہم کرنے پرخرچ ہوں گے،اس سیکیورٹی پالیسی کے تحت ملک میں فرقہ وارانہ تقاریر،مذہبی منافرت پھیلانے اوردیگر امورسے متعلق بھی پالیسی مرتب کی جائے گی اوران پر مکمل طور پر پابندی عائد کرنے کے علاوہ اس حوالے سے موثرقانون سازی بھی کرنے کافیصلہ کیاجائے گا ۔ذرائع کا کہناہے کہ سیکیورٹی پالیسی کی حتمی منظوری مشترکہ مفادات کونسل کے آئندہ ماہ میں ہونے والے اجلاس میں دی جائے گی ،جس کی صدارت وزیراعظم نواز شریف کریںگے۔