بھارتی کسان احتجاج اور پاکستان کے لیے مواقع
بھارت کے اندر یہ شورش ہمیں ایک نادر موقع مہیا کرتی ہے۔
ٹھٹھرتی سردی میں کسان سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ پچھلے کئی دنوں سے سارے بھارت کے کسانوں خاص کر پنجاب اور ہریانہ سے دہلی پہنچنے والے کسانوں اور پولیس کے درمیان کشمکش جاری ہے۔
بھارتی پارلیمنٹ نے ستمبر2020میں تین ایسے قوانین منظور کیے جن کے بارے میں کسان یہ سمجھتے ہیں کہ ان قوانین سے ان کی روزی روٹی چھن جائے گی اور ان کا رہن سہن خطرے سے دوچار ہو سکتا ہے۔ بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں ہونے والے کسانوں کی تاریخ کے شاید سب سے بڑے اور شدید احتجاج نے بین الاقوامی توجہ اپنی طرف مبذول کرا لی ہے۔
یہ توجہ اس وقت بہت اہمیت حاصل کر گئی جب کینیڈا کے وزیر ِ اعظم مسٹر ٹروڈو نے بھارتی کسانوں کی آواز میں آواز ملائی۔ بھارت اس سے بہت سیخ پا ہوا اور کینیڈین سفیر کو بھارتی وزارتِ خاجہ طلب کر کے احتجاجی نوٹ تھما دیا لیکن اس سے اگلے ہی روز مسٹر ٹروڈو نے ایک بار پھر باور کرایا کہ وہ بھارتی کسانوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور جہاں بھی نا انصافی ہو گی وہ آواز اٹھائیں گے۔
بھارتی کسان جن قوانین کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں وہ مودی سرکار نے ستمبر2020ء کو پارلیمنٹ سے پاس کروائے۔ بھارتی حکومت کا مؤقف وزیرِ اعظم مودی کی ٹویٹ کے مطابق یہ ہے کہ ان قوانین کے نفاذ سے کسانوں کو اپنی اجناس پیدا کرنے اور بیچنے میں پہلے کے مقابلے میں اب زیادہ آزادی حاصل ہو گی اور وہ آڑھتی یا مڈل مین کے چنگل سے نجات پا کر زیادہ خوشحال ہوں گے۔
جب کہ بھارتی کسانوں کا کہنا ہے کہ نئے قوانین سے کسانوں کو سپورٹ پرائس کی صورت میں جو تحفظ حاصل ہے وہ ختم ہو جائے گا، اجناس کی قیمتیں گر جائیں گی اور بڑے بڑے کارپوریٹ اداروں اور پرائیویٹ خریداروں کی بن آئے گی۔ کسانوں کی رائے میں مودی حکومت کارپوریٹ اداروں کی مرہونِ منت یعنی ان کی لائی ہوئی ہے۔
اس لیے ان اداروں کی قوت بڑھا رہی ہے جو بہت خطرناک کھیل ہے۔ کسانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت نے ان قوانین کو پاس کروانے سے پہلے کسانوں سے خاطر خواہ صلاح مشورہ نہیں کیا۔ بھارتی حکومت نے اس سلسلے میں جو تین قوانین منظور کرائے ہیں، وہ کچھ اس طرح سے ہیں۔
Farmer's Produce Trade and Commerce(Promotion and Facilitation) Bill. یہ حکومتی بل بھارتی حکومت کو درمیان سے ہٹا کر کارپوریٹ اداروں اور پرائیویٹ خریداروں کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ کسانوں سے ان کی پیداواری اجناس اپنی مرضی کی قیمتوں پر براہِ راست خرید لیں۔ ایک بھارتی کسان کے بیٹے بلشیر سدھو جو کہ کولمبیا یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہی وہ قانون سے جس سے کسان خاص طور پر رنجیدہ اور بپھرے ہوئے ہیں۔ بلشیر کے مطابق اس وقت تک بھارتی حکومت ہر پیداوری جنس کی ایک کم سے کم قیمت مقرر کرتی تھی اور خریداروں کو پابند بناتی تھی کہ کسانوں کو وہ قیمت ضرور ادا کریں جس سے کسانوں کا کچھ بھلا ہو جاتا تھا۔
اس نظام کوMinimum Support Pricing یا MSP کہا جاتا تھا اور یہ اس بات کی ضمانت فراہم کرتا تھا کہ بھارتی کسان کو حکومت کے مقرر کردہ نرخ سے کم قیمت نہ ملے۔ اب اگر MSP کا خاتمہ ہو گیا تو کسان پس کر رہ جائے گا کیونکہ بڑے بڑے کارپوریٹ ادارے ہی خریدار ہوں گے اور کسان مجبور ہو گا کہ وہ اپنی پیداواری اجناس ان کو ان کی آفر کی ہوئی قیمت پر ہی بیچے۔ کسانوں کو خطرہ ہے کہ یہ قانون صرف بڑے کارپوریٹ اداروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہے اور اس کے نفاذ کے بعد MSP واپس لے کر کسانوں کو ان اداروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے گا۔
بھارتی پارلیمنٹ سے منظور کرایا جانے والا دوسرا قانونFarmer's (Empowerment& Protection)Agreement of Price Assurance& Farm Services Bill ہے۔ یہ بل کسانوںکو مائل کرے گا کہ وہ اپنی زرعی پیداواری اجناس کارپوریٹ اداروں اور پرائیویٹ خریداروں کو ان کی آفر کی ہوئی اور وعدہ کی گئی قیمتوں پر بیچیں۔ یہ بل کسانوں کو یہ بھی بتاتا ہے کہ حکومتی ادارے قیمتوں کو ریگولیٹ کرنے کے لیے اب درمیان میں نہیں پڑیں گے۔ اس سلسلے میں تیسرا بلthe Essential Commodities(Amendment) Bill ہے۔
اس بل کی رُو سے بھارت میں فوڈ چین سپلائی کو بظاہر بہتر اور جدید بنانا مقصود ہے۔ اس قانون سے مختلف زرعی اجناس کی ذخیرہ اندوزی اور انھیں مارکیٹ آنے سے روکنے والے تمام اقدامات کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔ یہ بل اس پر بھی زور دیتا ہے کہ کولڈ اسٹوریج بنانے کے لیے سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
ایک ایسے وقت میں جب کورونا کی وبا نے امریکا کے بعد سب سے زیادہ بھارت کو متاثر کیا ہے اور مشکل کی اس گھڑی میں بھارتی عوام حکومت سے آس لگائے بیٹھے ہیں ان قوانین کے ذریعے کسانوں کی پریشانیوں میں اضافہ سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ ان قوانین سے ملک میں یکجہتی کے بجائے خلفشار نے زیادہ راہ پائی ہے۔
بھارت کی ساری آبادی کو خوراک پیدا کر کے دینے والا سیکٹر یہی زرعی شعبہ ہے۔ زرعی شعبہ بھارتی معیشت کو سہارا دینے والا واحد سب سے بڑا سیکٹر ہے لیکن حکومت کی عدم توجہی کے باعث اس شعبے سے جڑے لوگ غریب سے غریب تر ہو رہے ہیں اس لیے یہ کہنا بھی صحیح ہو گا کہ بھارت میں غربت کی ایک بڑی وجہ زرعی شعبہ ہے۔
بھارت کی کل 1.27 بلین آبادی کا 59 فی صد زرعی شعبے سے وابستہ ہے۔2016میں کیے گئے اقوامِ متحدہ کے ایک سروے تئیں زرعی شعبہ بھارتی جی ڈی پی کا 23 فی صد یعنی تقریباً ایک چوتھائی ہے۔ National Institute of Transforming India کی 2017ء رپورٹ کے مطابق زرعی شعبے سے جڑے ایک عام بھارتی خاندان کی سالانہ آمدن صرف 37000 روپے ہے اور زیادہ تر کسانوں کے پاس ایک ہیکٹر سے کم زمین ہے اس لیے ایک ایسا خاندان اپنے کھانے کے لیے ہی بمشکل اجناس پیدا کر پاتا ہے۔
ان قوانین کو ختم کرانے کے لیے ہزاروں لاکھوں افراد لمبے عرصے کا راشن ساتھ لے کر اپنے ٹریکٹروں، ٹرالوں اور ٹرکوں پر سوار دہلی شہر کے باہر راستوں پر آ کر بیٹھ گئے ہیں۔ انھوں نے کچھ سڑکوں کو بند کر دیا ہے اور دھمکی دی ہے کہ اگر یہ قوانین واپس نہ لیے گئے تو وہ سارے رستے بند کر دیں گے اور ساتھ ہی ریلوے ٹریک پر قبضہ جما کر ریل ٹرانسپورٹ بھی بند کرنے پر مجبور ہوں گے۔ کسانوں نے کھیتوں میں کھڑی فصلوں کو آگ دکھانی شروع کر دی ہے اور بھوک ہڑتال کی کال دی ہے جس پر سوموار سے عمل درآمد ہو رہا ہے۔
بھارت کے اندر یہ شورش ہمیں ایک نادر موقع مہیا کرتی ہے۔ اس کی بازگشت بھارت سے باہر کئی ممالک کے دارالحکومتوں اور اہم شہروں میں سنی جا سکتی ہے۔ اگر ہم کسی طرح سے اس احتجاج کو طول دلوانے میں کامیاب ہو جائیں تو بہت اچھا ہو گا۔ احتجاج لمبا ہونے سے کسان تنگ ہوں گے اور تنگ آمد بجنگ آمد۔ تنگی مایوسی لاتی ہے، مایوسی جنگ کا پیش خیمہ بنتی ہے۔
احتجاج کے طول پکڑنے سے بھارتی سکھ کسان جو اس وقت مودی کے گلے میں جوتیوں کا ہار پہنانے کے لیے بیتاب ہیں وہی سکھ آگے چل کر، مایوس ہو کر بھارت سے دور Alienate ہوں گے۔ ان کے بھائی بیٹے جو بھارتی فوج میں ہیں وہ بھی اس تپش کو ضرور محسوس کریں گے اور وہ بھی ترنگے سے نفرت کرنے لگ جائیں گے۔ اگر ہم فنڈنگ کر کے یہ مقصد حاصل کر سکیں تو کیا ہی کہنے۔ یہ ایسا موقع ہے جو کہیں صدیوں میں جا کے ملتا ہے۔ حکومتِ پاکستان سے دست بستہ التماس ہے کہ بھارت سے باہر سکھ رہنماؤں سے Coordinateکر کے اس احتجاج کو طول دلوائیں اور پاکستان کے لیے بہترین نتائج حاصل کریں۔
قارئینِ کرام، سولہ دسمبر آیا اور ہماری بے حسی کا ماتم کرتے گزر گیا۔ ایسے لگتا ہے ہمیں یاد بھی نہیں کہ 49 سال پہلے ٹھیک اسی دن ہم لُٹ گئے تھے جب ہمارا پیارا پاکستان ہماری نا اہلی کی بدولت دو لخت ہو گیا تھا۔ میں اور میرے بہت سے ہم وطن اُس رات بھی روتے رہے تھے اور اور اب بھی خون کے آنسو پی رہے ہیں۔ ہم نے تہیہ کر رکھا ہے کہ بڑے سے بڑے جانکاہ حادثے سے بھی سبق نہیں لینا۔
بھارتی پارلیمنٹ نے ستمبر2020میں تین ایسے قوانین منظور کیے جن کے بارے میں کسان یہ سمجھتے ہیں کہ ان قوانین سے ان کی روزی روٹی چھن جائے گی اور ان کا رہن سہن خطرے سے دوچار ہو سکتا ہے۔ بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں ہونے والے کسانوں کی تاریخ کے شاید سب سے بڑے اور شدید احتجاج نے بین الاقوامی توجہ اپنی طرف مبذول کرا لی ہے۔
یہ توجہ اس وقت بہت اہمیت حاصل کر گئی جب کینیڈا کے وزیر ِ اعظم مسٹر ٹروڈو نے بھارتی کسانوں کی آواز میں آواز ملائی۔ بھارت اس سے بہت سیخ پا ہوا اور کینیڈین سفیر کو بھارتی وزارتِ خاجہ طلب کر کے احتجاجی نوٹ تھما دیا لیکن اس سے اگلے ہی روز مسٹر ٹروڈو نے ایک بار پھر باور کرایا کہ وہ بھارتی کسانوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور جہاں بھی نا انصافی ہو گی وہ آواز اٹھائیں گے۔
بھارتی کسان جن قوانین کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں وہ مودی سرکار نے ستمبر2020ء کو پارلیمنٹ سے پاس کروائے۔ بھارتی حکومت کا مؤقف وزیرِ اعظم مودی کی ٹویٹ کے مطابق یہ ہے کہ ان قوانین کے نفاذ سے کسانوں کو اپنی اجناس پیدا کرنے اور بیچنے میں پہلے کے مقابلے میں اب زیادہ آزادی حاصل ہو گی اور وہ آڑھتی یا مڈل مین کے چنگل سے نجات پا کر زیادہ خوشحال ہوں گے۔
جب کہ بھارتی کسانوں کا کہنا ہے کہ نئے قوانین سے کسانوں کو سپورٹ پرائس کی صورت میں جو تحفظ حاصل ہے وہ ختم ہو جائے گا، اجناس کی قیمتیں گر جائیں گی اور بڑے بڑے کارپوریٹ اداروں اور پرائیویٹ خریداروں کی بن آئے گی۔ کسانوں کی رائے میں مودی حکومت کارپوریٹ اداروں کی مرہونِ منت یعنی ان کی لائی ہوئی ہے۔
اس لیے ان اداروں کی قوت بڑھا رہی ہے جو بہت خطرناک کھیل ہے۔ کسانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت نے ان قوانین کو پاس کروانے سے پہلے کسانوں سے خاطر خواہ صلاح مشورہ نہیں کیا۔ بھارتی حکومت نے اس سلسلے میں جو تین قوانین منظور کرائے ہیں، وہ کچھ اس طرح سے ہیں۔
Farmer's Produce Trade and Commerce(Promotion and Facilitation) Bill. یہ حکومتی بل بھارتی حکومت کو درمیان سے ہٹا کر کارپوریٹ اداروں اور پرائیویٹ خریداروں کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ کسانوں سے ان کی پیداواری اجناس اپنی مرضی کی قیمتوں پر براہِ راست خرید لیں۔ ایک بھارتی کسان کے بیٹے بلشیر سدھو جو کہ کولمبیا یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہی وہ قانون سے جس سے کسان خاص طور پر رنجیدہ اور بپھرے ہوئے ہیں۔ بلشیر کے مطابق اس وقت تک بھارتی حکومت ہر پیداوری جنس کی ایک کم سے کم قیمت مقرر کرتی تھی اور خریداروں کو پابند بناتی تھی کہ کسانوں کو وہ قیمت ضرور ادا کریں جس سے کسانوں کا کچھ بھلا ہو جاتا تھا۔
اس نظام کوMinimum Support Pricing یا MSP کہا جاتا تھا اور یہ اس بات کی ضمانت فراہم کرتا تھا کہ بھارتی کسان کو حکومت کے مقرر کردہ نرخ سے کم قیمت نہ ملے۔ اب اگر MSP کا خاتمہ ہو گیا تو کسان پس کر رہ جائے گا کیونکہ بڑے بڑے کارپوریٹ ادارے ہی خریدار ہوں گے اور کسان مجبور ہو گا کہ وہ اپنی پیداواری اجناس ان کو ان کی آفر کی ہوئی قیمت پر ہی بیچے۔ کسانوں کو خطرہ ہے کہ یہ قانون صرف بڑے کارپوریٹ اداروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہے اور اس کے نفاذ کے بعد MSP واپس لے کر کسانوں کو ان اداروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے گا۔
بھارتی پارلیمنٹ سے منظور کرایا جانے والا دوسرا قانونFarmer's (Empowerment& Protection)Agreement of Price Assurance& Farm Services Bill ہے۔ یہ بل کسانوںکو مائل کرے گا کہ وہ اپنی زرعی پیداواری اجناس کارپوریٹ اداروں اور پرائیویٹ خریداروں کو ان کی آفر کی ہوئی اور وعدہ کی گئی قیمتوں پر بیچیں۔ یہ بل کسانوں کو یہ بھی بتاتا ہے کہ حکومتی ادارے قیمتوں کو ریگولیٹ کرنے کے لیے اب درمیان میں نہیں پڑیں گے۔ اس سلسلے میں تیسرا بلthe Essential Commodities(Amendment) Bill ہے۔
اس بل کی رُو سے بھارت میں فوڈ چین سپلائی کو بظاہر بہتر اور جدید بنانا مقصود ہے۔ اس قانون سے مختلف زرعی اجناس کی ذخیرہ اندوزی اور انھیں مارکیٹ آنے سے روکنے والے تمام اقدامات کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔ یہ بل اس پر بھی زور دیتا ہے کہ کولڈ اسٹوریج بنانے کے لیے سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
ایک ایسے وقت میں جب کورونا کی وبا نے امریکا کے بعد سب سے زیادہ بھارت کو متاثر کیا ہے اور مشکل کی اس گھڑی میں بھارتی عوام حکومت سے آس لگائے بیٹھے ہیں ان قوانین کے ذریعے کسانوں کی پریشانیوں میں اضافہ سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ ان قوانین سے ملک میں یکجہتی کے بجائے خلفشار نے زیادہ راہ پائی ہے۔
بھارت کی ساری آبادی کو خوراک پیدا کر کے دینے والا سیکٹر یہی زرعی شعبہ ہے۔ زرعی شعبہ بھارتی معیشت کو سہارا دینے والا واحد سب سے بڑا سیکٹر ہے لیکن حکومت کی عدم توجہی کے باعث اس شعبے سے جڑے لوگ غریب سے غریب تر ہو رہے ہیں اس لیے یہ کہنا بھی صحیح ہو گا کہ بھارت میں غربت کی ایک بڑی وجہ زرعی شعبہ ہے۔
بھارت کی کل 1.27 بلین آبادی کا 59 فی صد زرعی شعبے سے وابستہ ہے۔2016میں کیے گئے اقوامِ متحدہ کے ایک سروے تئیں زرعی شعبہ بھارتی جی ڈی پی کا 23 فی صد یعنی تقریباً ایک چوتھائی ہے۔ National Institute of Transforming India کی 2017ء رپورٹ کے مطابق زرعی شعبے سے جڑے ایک عام بھارتی خاندان کی سالانہ آمدن صرف 37000 روپے ہے اور زیادہ تر کسانوں کے پاس ایک ہیکٹر سے کم زمین ہے اس لیے ایک ایسا خاندان اپنے کھانے کے لیے ہی بمشکل اجناس پیدا کر پاتا ہے۔
ان قوانین کو ختم کرانے کے لیے ہزاروں لاکھوں افراد لمبے عرصے کا راشن ساتھ لے کر اپنے ٹریکٹروں، ٹرالوں اور ٹرکوں پر سوار دہلی شہر کے باہر راستوں پر آ کر بیٹھ گئے ہیں۔ انھوں نے کچھ سڑکوں کو بند کر دیا ہے اور دھمکی دی ہے کہ اگر یہ قوانین واپس نہ لیے گئے تو وہ سارے رستے بند کر دیں گے اور ساتھ ہی ریلوے ٹریک پر قبضہ جما کر ریل ٹرانسپورٹ بھی بند کرنے پر مجبور ہوں گے۔ کسانوں نے کھیتوں میں کھڑی فصلوں کو آگ دکھانی شروع کر دی ہے اور بھوک ہڑتال کی کال دی ہے جس پر سوموار سے عمل درآمد ہو رہا ہے۔
بھارت کے اندر یہ شورش ہمیں ایک نادر موقع مہیا کرتی ہے۔ اس کی بازگشت بھارت سے باہر کئی ممالک کے دارالحکومتوں اور اہم شہروں میں سنی جا سکتی ہے۔ اگر ہم کسی طرح سے اس احتجاج کو طول دلوانے میں کامیاب ہو جائیں تو بہت اچھا ہو گا۔ احتجاج لمبا ہونے سے کسان تنگ ہوں گے اور تنگ آمد بجنگ آمد۔ تنگی مایوسی لاتی ہے، مایوسی جنگ کا پیش خیمہ بنتی ہے۔
احتجاج کے طول پکڑنے سے بھارتی سکھ کسان جو اس وقت مودی کے گلے میں جوتیوں کا ہار پہنانے کے لیے بیتاب ہیں وہی سکھ آگے چل کر، مایوس ہو کر بھارت سے دور Alienate ہوں گے۔ ان کے بھائی بیٹے جو بھارتی فوج میں ہیں وہ بھی اس تپش کو ضرور محسوس کریں گے اور وہ بھی ترنگے سے نفرت کرنے لگ جائیں گے۔ اگر ہم فنڈنگ کر کے یہ مقصد حاصل کر سکیں تو کیا ہی کہنے۔ یہ ایسا موقع ہے جو کہیں صدیوں میں جا کے ملتا ہے۔ حکومتِ پاکستان سے دست بستہ التماس ہے کہ بھارت سے باہر سکھ رہنماؤں سے Coordinateکر کے اس احتجاج کو طول دلوائیں اور پاکستان کے لیے بہترین نتائج حاصل کریں۔
قارئینِ کرام، سولہ دسمبر آیا اور ہماری بے حسی کا ماتم کرتے گزر گیا۔ ایسے لگتا ہے ہمیں یاد بھی نہیں کہ 49 سال پہلے ٹھیک اسی دن ہم لُٹ گئے تھے جب ہمارا پیارا پاکستان ہماری نا اہلی کی بدولت دو لخت ہو گیا تھا۔ میں اور میرے بہت سے ہم وطن اُس رات بھی روتے رہے تھے اور اور اب بھی خون کے آنسو پی رہے ہیں۔ ہم نے تہیہ کر رکھا ہے کہ بڑے سے بڑے جانکاہ حادثے سے بھی سبق نہیں لینا۔