سوالات درد سے چیخ رہے ہیں
اپنی نگاہیں آسمان کی طرف کرتے ہیں اور اس وقت تک اپنی نظریں نیچی نہ کریں، جب تک اپنے سوالوں کا ہمیں جواب نہ ملے۔
1975 میں ژاں پال سارتر سے کسی نے پوچھا '' مرنے کے بعد تمہیں کس حوالے سے یاد رکھا جائے '' سارتر نے جواب دیا ''میرے ناول نوسیا، میرے دو ڈرامے No Exit اور The Devil and the Good Lord کے حوالے سے ان کے علاوہ میرے فلسفے کی کتابAl Rennson Critique of Dialectic اور میرا مقالہ Saint Genet اگر لوگوں نے ان کو یاد رکھا تو میں یاد رہوں گا، اس کے علاوہ مجھے کسی چیزکی کوئی خواہش نہیں۔''
سارتر نے تو چند کتابوں، ڈراموںکا نام گنوایا ہے لیکن سارترکا لکھا ہوا ہر لفظ لوگوں کے اندر زندہ ہے۔ سارتر لکھتاہے کہ '' میری ماں صرف یہ دعا مانگتی تھی کہ اسے سکون نصیب ہو'' سال ہا سال بعد فرانس سے لاکھوں میل دور پاکستان میں آج کوئی ایک نہیں جی کوئی ایک نہیں بلکہ 22 کروڑ انسان دن رات یہ ہی دعا مانگ رہے ہیں کہ ''انھیں سکون نصیب ہو'' سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کے حالات اور ماحول میں کسی نارمل انسان کوکیسے سکون حاصل ہوسکتا ہے۔
آپ چاہیں تو یہ سوال دنیا کے کسی بھی نامور فلسفی، ماہرنفسیات، ماہر معاشیات، ماہر عمرانیات کے سامنے رکھ کردیکھ لیں، ان کے پاس سے بھی آپ کو وحشی خاموشی کے علاوہ کچھ اورنہیں ملے گا اورکچھ مل بھی کیسے سکتا ہے کیونکہ جب ایک عام انسان روز اپنی چھوٹی چھوٹی سی خواہشات،آرزوؤں اورتمناؤں کے ہاتھوں روندا اورکچلا جارہا ہے،جہاں اس کی عزت نفس کو بار بار برہنہ کیا جا رہا ہو۔
جہاں اس کی شرافت، سادگی ،معصومیت اور دیانت کو روز موٹی موٹی ننگی گالیاں سننے کو مل رہی ہوں جہاں اس کے سوالات درد سے چیخ رہے ہوں، جہاں اس کے خواب کراہ رہے ہوں، جہاں اس کے الفاظ سہمیں ہوئے ہوں جہاں بیس بیس گھنٹے وہ بجلی آنے کا انتظار کررہاہوجہاں وہ زندگی بچانے والی ادویات کی قیمتیں سن کر اپنے ادھیڑے ہوئے بٹو ے کو برا بھلا کہہ رہا ہو جہاں اس کے گھر والے اس کے مرنے پر اخراجات کی وجہ سے اسے کوس رہے ہوں، جہاں وہ پانی کی ایک ایک بالٹی کے لیے ترس رہاہوں۔
جہاں وہ اپنے آپ اور اپنے پیاروں کے سامنے روز ذلیل وخوار ہو رہا ہو جہاں وہ روز اپنے آپ کو اور دوسروں کا قتل عام کرنے کے منصوبے بناتا پھر رہا ہوں جہاں وہ روز اپنی سوچوں اور خیالات کا گلا گھونٹ رہا ہو اور انھیں اسے دفنانے کی بھی اجازت حاصل نہ ہو جہاں وہ اپنے ننگے جسم کو ڈھانپنے کی روزناکام کوشش کررہا ہو تو پھر آپ ہی بتا دیجئے کہ ان حالات اور ماحول میں اسے سکون کیسے نصیب ہوسکتاہے۔ ان حالات اور ماحول میں تو انسان ہراساں ہوکر ایک حقیرگوشہ میں چھپ جاتا ہے اور اوراق الفاظ کی تہوں کے نیچے زندگی سے بے تعلقی ڈھونڈتا ہے ہم سب ایسے مقاصد سے محروم ہیں جو ہمیں موت سے آگے کوئی بات سجھاسکیں ہم انسانیت کے چیتھڑے ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہی حقیقت ہے۔
آج ہم میں سے کسی میں یہ ہمت نہیں کہ زندگی کے سارے پہلوؤں کا جائزہ لے سکے،کیونکہ ہماری شخصیتیں کٹی پھٹی ہیں، ہم پھر اس مسئلے سے دوچار ہیں جس نے سقراط کو پریشان کیا تھا۔ ہم میں سے کوئی نہیں جانتا اور نہ یہ سوچتے ہیں کہ ہم کہاں جارہے ہیں اورکیا جہاں ہم جا رہے ہیں وہاں ہماری اداس روحوں کوکوئی امن وسکون میسر آسکے گا۔ صوفی کہتے ہیں کہ سکون کا تعلق انسان کے اندر سے ہے لیکن ہمارے سکون کا تعلق اندر سے نہیں بلکہ باہر سے ہے۔ ان حالات اور ماحول سے ہے، جو ہمارے حکمرانوں کی نیت اورکردار سے بنا ہے۔
ہم اپنے ذکرکو یہاں روکتے ہیں تھوڑی دیرکے لیے1818 کے یورپ میں چلتے ہیں۔ واٹر لوکی لڑائی لڑی جاچکی تھی، انقلاب مر چکا تھا اور فرزند انقلاب نپولین دورسمندر میں ایک چٹان پر اپنی زندگی کے دن پورے کر رہا تھا، تمام یورپ ویران ہوچکا تھا، لاکھوں جوان موت کے گھاٹ اترچکے تھے، لاکھوں ایکڑ زمین غیر مزروعہ پڑی تھی یا غارت ہوچکی تھی، دیہات میں غلا ظت اور ابتری پھیلی ہوئی تھی، زمین دار قلاش ہوچکے تھے۔
شہروں میں بھی لوگ مضطرب اور پریشان حال تھے جن ملکوں سے نپولین اور اس کے دشمنوں کی فوجیں گذری تھیں وہاں ہر طرف غارت گری کے آثار نمایاں تھے۔ ماسکو راکھ کا ڈھیر تھا، انگلستان کو فتح حاصل ہوئی تھی لیکن گندم کی رقم اتنی گری کہ زمیندار تباہ ہو گئے یوں معلوم ہوتا تھا کہ گویا یورپ جسد بے روح ہو ازالہ فریب اور حرماں نصیبی کے ان تاریک دنوں میں اکثر غریب لوگوں کو مذہبی امیدیں سہارا دیتی تھیں لیکن اونچے طبقے کے اکثر افرادکا یہ عالم تھا کہ مذہب پر سے ان کا اعتماد ہی اٹھ گیا تھا ، سچ پو چھیے تو 1818 میں اس کرہ زمین کی جو درد ناک حالت تھی، اسے ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس بات پر ایمان لانا دشوار تھا کہ عنان اختیاردراصل کس کے ہاتھ میں ہے۔ بولون سے لے کر ماسکو اور اہرام مصر تک ہر زبان خاموش کچھ استفسارکررہی تھی خدایا !یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے اورکب تک ہوتا رہے گا۔
لیکن اس ساری وحشت اوردہشت کے باوجود گرے ہوئے غم زدہ،نڈھال، برباد، مایوس ، اداس ،زخموں سے چور انسان ایک بارپھر دوبارہ سے اٹھے اورارادے کی قوت سے وحشت اور دہشت زدہ ماحول اور حالات کو یکسر تبدیل کردیا۔ آج ہم سب اسی یورپ میں بسنے کے خواب دیکھتے ہیںاب ہم دوبارہ اپنی طرف لوٹتے ہیں۔ کیا خدا نے ہمیں حوصلے،جذبے اورارادے کی قوت سے محروم کیا ہے۔ہم ہی نہیں سمجھ پا رہے۔ کیا خدا نہیں چاہتا ہے کہ ہمیں سکون نصیب ہو۔
آئیں! اپنی نگاہیں آسمان کی طرف کرتے ہیں اور اس وقت تک اپنی نظریں نیچی نہ کریں، جب تک اپنے سوالوں کا ہمیں جواب نہ ملے۔ میرا ایمان ہے کہ جیسے ہی ہم اپنی نگاہیں آسمان کی طرف کریں گے، اسی وقت ہمیں اپنے سوالوں کا جواب مل جائے گا تو پھر آئیں دیرکس بات کی ہے؟ انتظارکس چیزکا ہے ؟کیا آپ نہیں چاہتے ہیں کہ آپ کو سکون نصیب ہو۔ آئیں مل کر ماحول اور حالات کو بدل دیں تاکہ آپ کو اور مجھے سکون نصیب ہو سکے ۔
سارتر نے تو چند کتابوں، ڈراموںکا نام گنوایا ہے لیکن سارترکا لکھا ہوا ہر لفظ لوگوں کے اندر زندہ ہے۔ سارتر لکھتاہے کہ '' میری ماں صرف یہ دعا مانگتی تھی کہ اسے سکون نصیب ہو'' سال ہا سال بعد فرانس سے لاکھوں میل دور پاکستان میں آج کوئی ایک نہیں جی کوئی ایک نہیں بلکہ 22 کروڑ انسان دن رات یہ ہی دعا مانگ رہے ہیں کہ ''انھیں سکون نصیب ہو'' سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کے حالات اور ماحول میں کسی نارمل انسان کوکیسے سکون حاصل ہوسکتا ہے۔
آپ چاہیں تو یہ سوال دنیا کے کسی بھی نامور فلسفی، ماہرنفسیات، ماہر معاشیات، ماہر عمرانیات کے سامنے رکھ کردیکھ لیں، ان کے پاس سے بھی آپ کو وحشی خاموشی کے علاوہ کچھ اورنہیں ملے گا اورکچھ مل بھی کیسے سکتا ہے کیونکہ جب ایک عام انسان روز اپنی چھوٹی چھوٹی سی خواہشات،آرزوؤں اورتمناؤں کے ہاتھوں روندا اورکچلا جارہا ہے،جہاں اس کی عزت نفس کو بار بار برہنہ کیا جا رہا ہو۔
جہاں اس کی شرافت، سادگی ،معصومیت اور دیانت کو روز موٹی موٹی ننگی گالیاں سننے کو مل رہی ہوں جہاں اس کے سوالات درد سے چیخ رہے ہوں، جہاں اس کے خواب کراہ رہے ہوں، جہاں اس کے الفاظ سہمیں ہوئے ہوں جہاں بیس بیس گھنٹے وہ بجلی آنے کا انتظار کررہاہوجہاں وہ زندگی بچانے والی ادویات کی قیمتیں سن کر اپنے ادھیڑے ہوئے بٹو ے کو برا بھلا کہہ رہا ہو جہاں اس کے گھر والے اس کے مرنے پر اخراجات کی وجہ سے اسے کوس رہے ہوں، جہاں وہ پانی کی ایک ایک بالٹی کے لیے ترس رہاہوں۔
جہاں وہ اپنے آپ اور اپنے پیاروں کے سامنے روز ذلیل وخوار ہو رہا ہو جہاں وہ روز اپنے آپ کو اور دوسروں کا قتل عام کرنے کے منصوبے بناتا پھر رہا ہوں جہاں وہ روز اپنی سوچوں اور خیالات کا گلا گھونٹ رہا ہو اور انھیں اسے دفنانے کی بھی اجازت حاصل نہ ہو جہاں وہ اپنے ننگے جسم کو ڈھانپنے کی روزناکام کوشش کررہا ہو تو پھر آپ ہی بتا دیجئے کہ ان حالات اور ماحول میں اسے سکون کیسے نصیب ہوسکتاہے۔ ان حالات اور ماحول میں تو انسان ہراساں ہوکر ایک حقیرگوشہ میں چھپ جاتا ہے اور اوراق الفاظ کی تہوں کے نیچے زندگی سے بے تعلقی ڈھونڈتا ہے ہم سب ایسے مقاصد سے محروم ہیں جو ہمیں موت سے آگے کوئی بات سجھاسکیں ہم انسانیت کے چیتھڑے ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہی حقیقت ہے۔
آج ہم میں سے کسی میں یہ ہمت نہیں کہ زندگی کے سارے پہلوؤں کا جائزہ لے سکے،کیونکہ ہماری شخصیتیں کٹی پھٹی ہیں، ہم پھر اس مسئلے سے دوچار ہیں جس نے سقراط کو پریشان کیا تھا۔ ہم میں سے کوئی نہیں جانتا اور نہ یہ سوچتے ہیں کہ ہم کہاں جارہے ہیں اورکیا جہاں ہم جا رہے ہیں وہاں ہماری اداس روحوں کوکوئی امن وسکون میسر آسکے گا۔ صوفی کہتے ہیں کہ سکون کا تعلق انسان کے اندر سے ہے لیکن ہمارے سکون کا تعلق اندر سے نہیں بلکہ باہر سے ہے۔ ان حالات اور ماحول سے ہے، جو ہمارے حکمرانوں کی نیت اورکردار سے بنا ہے۔
ہم اپنے ذکرکو یہاں روکتے ہیں تھوڑی دیرکے لیے1818 کے یورپ میں چلتے ہیں۔ واٹر لوکی لڑائی لڑی جاچکی تھی، انقلاب مر چکا تھا اور فرزند انقلاب نپولین دورسمندر میں ایک چٹان پر اپنی زندگی کے دن پورے کر رہا تھا، تمام یورپ ویران ہوچکا تھا، لاکھوں جوان موت کے گھاٹ اترچکے تھے، لاکھوں ایکڑ زمین غیر مزروعہ پڑی تھی یا غارت ہوچکی تھی، دیہات میں غلا ظت اور ابتری پھیلی ہوئی تھی، زمین دار قلاش ہوچکے تھے۔
شہروں میں بھی لوگ مضطرب اور پریشان حال تھے جن ملکوں سے نپولین اور اس کے دشمنوں کی فوجیں گذری تھیں وہاں ہر طرف غارت گری کے آثار نمایاں تھے۔ ماسکو راکھ کا ڈھیر تھا، انگلستان کو فتح حاصل ہوئی تھی لیکن گندم کی رقم اتنی گری کہ زمیندار تباہ ہو گئے یوں معلوم ہوتا تھا کہ گویا یورپ جسد بے روح ہو ازالہ فریب اور حرماں نصیبی کے ان تاریک دنوں میں اکثر غریب لوگوں کو مذہبی امیدیں سہارا دیتی تھیں لیکن اونچے طبقے کے اکثر افرادکا یہ عالم تھا کہ مذہب پر سے ان کا اعتماد ہی اٹھ گیا تھا ، سچ پو چھیے تو 1818 میں اس کرہ زمین کی جو درد ناک حالت تھی، اسے ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس بات پر ایمان لانا دشوار تھا کہ عنان اختیاردراصل کس کے ہاتھ میں ہے۔ بولون سے لے کر ماسکو اور اہرام مصر تک ہر زبان خاموش کچھ استفسارکررہی تھی خدایا !یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے اورکب تک ہوتا رہے گا۔
لیکن اس ساری وحشت اوردہشت کے باوجود گرے ہوئے غم زدہ،نڈھال، برباد، مایوس ، اداس ،زخموں سے چور انسان ایک بارپھر دوبارہ سے اٹھے اورارادے کی قوت سے وحشت اور دہشت زدہ ماحول اور حالات کو یکسر تبدیل کردیا۔ آج ہم سب اسی یورپ میں بسنے کے خواب دیکھتے ہیںاب ہم دوبارہ اپنی طرف لوٹتے ہیں۔ کیا خدا نے ہمیں حوصلے،جذبے اورارادے کی قوت سے محروم کیا ہے۔ہم ہی نہیں سمجھ پا رہے۔ کیا خدا نہیں چاہتا ہے کہ ہمیں سکون نصیب ہو۔
آئیں! اپنی نگاہیں آسمان کی طرف کرتے ہیں اور اس وقت تک اپنی نظریں نیچی نہ کریں، جب تک اپنے سوالوں کا ہمیں جواب نہ ملے۔ میرا ایمان ہے کہ جیسے ہی ہم اپنی نگاہیں آسمان کی طرف کریں گے، اسی وقت ہمیں اپنے سوالوں کا جواب مل جائے گا تو پھر آئیں دیرکس بات کی ہے؟ انتظارکس چیزکا ہے ؟کیا آپ نہیں چاہتے ہیں کہ آپ کو سکون نصیب ہو۔ آئیں مل کر ماحول اور حالات کو بدل دیں تاکہ آپ کو اور مجھے سکون نصیب ہو سکے ۔