متناسب نمایندگی طریقہ انتخاب کی مخالفت کیوں

سیاسی ماہرین کے مطابق اگر جہوریت جاری رہے اور اس میں بار بار مداخلت نہ کی جائے تو یہ خرابی خود بخود ختم ہو جائے گی۔


جبار قریشی December 18, 2020
[email protected]

جنرل ضیا الحق کا ابتدائی دور تھا وہ معروف سیاستدانوں سے ملاقاتیں کر رہے تھے۔ ایک معروف سیاستدان سے ملاقات کے دوران جنرل ضیا نے ان کو مخاطب کرکے کہا کہ تم سیاست دان ''سیاست'' کی ABC سے بھی واقف نہیں ہو۔

معروف سیاستدان نے کہا کہ ہم سیاستدان ''سیاست'' کی ABCDEF سے واقف ہی ہوتے ہیں کہ آگے GHQ آجاتا ہے، یہ بات سن کر جنرل ضیا الحق خاموش ہوگئے۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ واقعہ حقیقت ہے یا افسانہ، تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارا معاشرہ سیاسی بصیرت سے عاری معاشرہ ہے۔ ہمارے یہاں کوئی شخص اپنے آپ کو غیر سیاسی متعارف کراتا ہے تو اسے ایمانداری اور نیک نامی کی سند عطا کردی جاتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ میری ذاتی رائے میں اس کی بنیادی وجہ بار بار مارشل لا کا نفاذ ہے جس کے نتیجے میں ملک میں غیر سیاسی کلچرکو فروغ حاصل ہوا۔ ہمارے یہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو جمہوریت جوکہ دنیا کے سیاسی نظاموں میں سب سے بہترین سیاسی نظام سمجھا جاتا ہے، اسے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ وہ جمہوریت کی مخالفت میں علامہ اقبال کا عموماً یہ شعر پڑھتے ہیں۔

جمہوریت ایک طرزِ سیاست ہے جس میں

بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

اسے لوگ علامہ اقبال کے اس شعرکو نظر اندازکردیتے ہیں جس میں علامہ اقبال فرماتے ہیں:

سلطانیٔ جمہور کا آتا ہے زمانہ

جو نقش کہن تم کو نظر آئے تو مٹا دو

سوال یہ ہے کہ ایسے لوگ علامہ اقبال کے دوسرے شعرکوکیوں نظر انداز کردیتے ہیں، اس کا بہتر جواب تو اس طرزِ عمل کو اختیار کرنے والے ہی بہتر دے سکتے ہیں۔

ہمارے یہاں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے، جو نئے نئے افکار اور نظریات کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں اور نت نئے تجربات پر عمل پیرا ہونے پر آمادہ بھی ایسے ہی تجربوں میں ایک تجربہ متناسب نمایندگی کا بھی ہے جس پر عمومی طور پر زور دیا جاتا رہا ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے یہاں بیشتر جمہوری حکومتیں ایک تہائی اکثریت سے کامیابی کے حصول میں ناکام رہی ہیں جس کے نتیجے میں مختلف جماعتوں کے جوڑ توڑ کے ذریعے مخلوط حکومتیں تشکیل پاتی رہی ہیں۔

مخلوط حکومت عمومی طور پرکمزور حکومت تصور کی جاتی ہے کیونکہ ایسی حکومت کی زندگی کا دار و مدار معاون جماعتوں کی خوشنودی حاصل کرنے پر ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں جماعتی مفادات کو اولیت اور قومی مفادات کو ثانوی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے۔ ہمارے نظام سیاست میں یہ ایک ایسی خامی ہے جس کی بنیاد پر متناسب نمایندگی کے طرز انتخاب کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔

اس میں انتخاب میں حاصل کیے گئے ووٹ کے تناسب سے سیٹیں ملتی ہیں، اس سے مضبوط حکومت تشکیل پاتی ہے۔ کوئی ووٹ ضایع نہیں ہوتا اور ہر ووٹرکو اسمبلی میں نمایندگی کا حق حاصل ہو جاتا ہے۔

یہ مطالبہ کرنے والے عناصر یہ بات بھول جاتے ہیں کہ یہ طریقہ انتخاب ان ممالک میں زیادہ کامیاب ہے جہاں لسانی، مذہبی اور ثقافتی اکائیوں میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔ پاکستان میں اس کے برعکس صورت حال ہے ہمارے یہاں لسانی اور ثقافتی لحاظ سے تقسیم موجود ہے، اس میں بھی ذات، برادری، خاندان اور نسل کی بنیاد پر بھی تفریق کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ طبقاتی اور نظریاتی تفریق الگ ہے۔ اقلیتوں کی قلیل تعداد کے علاوہ پوری قوم ایک دین ایک مذہب کے پیروکار ہونے کے باوجود مختلف مسلک اور فرقوں میں تقسیم ہے۔

ان تمام رنگوں میں ہر رنگ کسی نہ کسی حد تک اپنے رنگ سے قلبی اور دلی اور جذباتی لگاؤ رکھتا ہے۔ الیکشن کے انعقاد کے وقت مفاد پرست عناصر اپنے مخصوص مفادات کے حصول کے لیے عوام کو بھڑکا کر ووٹ حاصل کریں گے، ان کا یہ عمل پوری قوم کو انتشارکی بھینٹ چڑھا دے گا، اور یوں قوم کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ سوچیے بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے اور نئے نئے نظریات رکھنے والے جب اسمبلی میں جائیں گے تو وہ نظام حکومت کیسے چلائیں گے، اس بات کو سمجھنے کے لیے کسی کا افلاطون ہونا ضروری نہیں۔

سوال یہ ہے کہ ان تباہ کن اثرات کے باوجود اس طریقہ انتخاب کا مطالبہ کیوں کیا جاتا ہے؟ اس بات کو ایک مثال سے یوں سمجھ لیں اگر کسی جماعت کے ووٹر کی تعداد ملک بھر میں دس فیصد ہے ، اگر ممبران اسمبلی کی کل تعداد 400 ہے تو اس جماعت کو 20 سیٹیں مل جائیں گی۔ لیکن اگر ہر حلقے میں یہی اوسط ہے تو ایک سیٹ ملنے کا امکان نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مطالبہ عمومی طور پر چھوٹی اور کم مقبول جماعتوں کی جانب سے کیا جاتا ہے یہ نظام ان جماعتوں کے لیے تو آئیڈیل ہو سکتا ہے لیکن ملک اور قوم کے لیے اسے آئیڈیل قرار دینا درست عمل نہیں۔

یاد رکھیں عصبیتی بنیادوں چاہے وہ لسانی ہوں یا فرقہ واریت پر مبنی اس پر سیاست کرنا آسان کام ہے، مگر اجتماعی مفاد اور بڑے کازکے لیے جذبات پیدا کرنے کا کام بڑا صبر آزما ہوتا ہے۔ اس میں سیاسی بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے۔

قومی سیاسی جماعتیں یہ کام بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیتی ہیں وہ عوام کی توجہ گروہی اختلافات سے ہٹا کر ملکی مسائل اور معاملات کی جانب موڑ دیتی ہیں یہی وجہ ہے کہ دنیا میں قومی سطح پر سیاست کرنے والی سیاسی جماعتوں کو ہی سیاسی جماعت تصورکیا جاتا ہے۔ جمہوریت کے مخالفین کا ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ پاکستان میں جن جماعتوں کو جمہوریت کا علم بردار تصورکیا جاتا ہے خود ان جماعتوں میں جمہوریت نہیں ہے موروثیت اور لیڈرشپ کی آمریت ان جماعتوں کا خاصہ ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

سیاسی ماہرین کے مطابق اگر جہوریت جاری رہے اور اس میں بار بار مداخلت نہ کی جائے تو یہ خرابی خود بخود ختم ہو جائے گی۔ یاد رکھیے جمہوریت سے ملک کو سیاسی استحکام حاصل ہوتا ہے اس سیاسی استحکام کے نتیجے میں خوشحالی آتی ہے، اگر آپ کو راقم التحریر کی بات پر یقین نہ ہو تو آپ مغربی ممالک کا مشاہدہ کرکے دیکھ سکتے ہیں میری بات کی سچائی ثابت ہو جائے گی۔

وہاں صبر، برداشت، رواداری، بنیادی حقوق و مراعات، عدل و انصاف کا رویہ عام ہے۔ شکست کوکھلے دل سے تسلیم کیا جاتا ہے۔ اختلاف رکھنے والے کو انتقامی کارروائی کا نشانہ نہیں بنایا جاتا۔ اس کی بنیادی وجہ جمہوری نظام ہے۔ ہمیں بھی اس جمہوری نظام کو مضبوط بنانے کی کوشش کرنی چاہیے اسی میں ہماری بقا اور خوشحالی کا راز ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں