اسلحہ لائسنسوں کے نظام کو نادرا کے ساتھ منسلک کرنا بڑا مثبت اقدام ہے
ہتھیاروں کی نقل بنانے کے خلاف قانون لانے کی ضرورت ہے، پاکستان آرمز اینڈ ایمونیشن
انسان اور ہتھیاروں کا ساتھ اور ان کا استعمال اتنا ہی پرانا ہے جتنا انسان خود۔
ہتھیاروں کے استعمال کا آغاز زمین کے اولین باشندوں ہابیل کے ہاتھوں قابیل کے قتل سے ہوگیا تھا۔ قدیم ادوار سے ہتھیار انسانوں کی لازمی ضرورت کے طور پر اس کے ساتھ ساتھ پروان چڑھتے رہے ہیں ان میں نت نئی تبدیلیاں آتی رہیں اور انہیں عصری ضرورتوں کے مطابق ڈھالنے کا کام مسلسل جاری ہے۔
قبل از تاریخ کے زمانے میں جب انسان جنگلی جانوروں کے گوشت پر انحصار کرتا تھا ہتھیار شکار کرنے کا لازمی آلہ تھا۔ تیر تلوار اور خنجر کے دور میں اس وقت انقلابی تبدیلی کے دور کا آغاز ہوا جب 9 ویں صدی کے دوران چین میں گن پاؤڈر ایجاد ہوا اور اس کے ساتھ آتشیں ہتھیاروں کے عہد کا آغاز ہوا۔
جدید دور میں جیسے دیگر شعبوں میں تخصص کا اصول رائج ہوا اسی طرح ہتھیاروں کو بھی ان کے استعمال کے لحاظ سے مختلف گروپوں میں تقسیم کردیا گیا۔ آج میدان جنگ کے ہتھیار الگ ہیں۔ پولیس فورسز الگ طرح کے ہتھیاروں سے لیس ہوتی ہیں۔ ذاتی حفاظت کے لئے الگ قسم کے ہتھیار میسر ہیں جبکہ مختلف قسم کے جانوروں کے شکار کے لئے مختلف طرح کے ہتھیار دستیاب ہوتے ہیں۔ بہت سے معاشروں میں ہتھیار کو تہذیبی اور ثقافتی اہمیت بھی حاصل ہے اور ہتھیار کو لباس کے حصے کے طور پر ساتھ رکھا جاتا ہے۔
جیسے جیسے ہتھیار سازی میں جدت آتی گئی اور اس کی ہلاکت خیزی میں اضافہ ہوا اسی لحاظ سے اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ ریاستی اداروں کے کارندوں کے علاوہ تمام شہریوں کے لئے ہتھیار رکھنے کے کچھ قوائد و ضوابط ہونے چاہیں لہٰذا شہریوں کے لئے اسلحہ لائسنس اور دیگر قوانین متعارف کرائے گئے۔
پاکستان گزشتہ 40 برسوں میں کئی مشکل ادوار سے گزرا ہے۔ ہماری سرحدوں پر بہت خطرناک صورتحال رہی اور ملک کے اندر بدترین دہشت گردی کا سامنا رہا اور اس تمام صورتحال کا ایک مرکزی عنصر ہتھیار تھے۔ پاکستان میں ذاتی حفاظت اور شکار کے لئے ہتھیاروں کے استعمال، اس کے قوانین و ضوابط اور اس سے منسلک مختلف معاملات پر ایکسپریس نے پاکستان آرمز اینڈ ایمونیشن مرچنٹ اینڈ مینو فیکچرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین چودھری فرحان انور سے بات چیت کی جس کی تفصیل ذیل میں پیش کی جارہی ہے۔
افغانستان میں روس کی آمد ہوئی تو امریکہ کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے بھی ویتنام کا بدلہ لینے کیلئے میدان میں کود پڑی اور روس کے خلاف بر سر پیکار مجاہدین کو جدید اسلحہ کی وافر فراہمی کے ساتھ ہی جدید اسلحہ کی ایک بڑی مارکیٹ وجود میں آگئی جس کا زیادہ تر حصہ غیر قانونی کاروبار پر مشتمل تھا ۔ان ایام میں ''علاقہ غیر'' کے نام سے پکارے جانے والے علاقوں کے بازار روسی افواج سے چھینے گئے اسلحہ سے بھرے ہوتے تھے ۔
یہی وہ دور تھا جب پاکستان میں''کلاشنکوف کلچر'' نے جنم لیا ۔اس کے ساتھ ساتھ قبائلی علاقوں میں اسلحہ سازی کا بزنس بھی وسعت پانے لگا ،کلاشنکوف کے لائسنس پر سخت پابندی کے سبب قبائلی کاریگروں اور ڈیلرز نے کلاشنکوف کی اوریجنل بیرل میں تبدیلی کر کے اسے 222 (ٹرپل ٹو) کے نام سے فروخت کرنا شروع کردیا حالانکہ ٹرپل ٹو درحقیقت امریلی رائفل کیلیبر ہے جسے 5.45 بوربھی کہا جاتا ہے ۔حکومت نے ٹرپل ٹو رائفل کے حوالے سے سختی کی تو ایک نیا کیلیبر ایجاد کیا گیا،زیادہ استعمال شدہ کلاشنکوف رائفلز کی بیرل(نالی) میں بورنگ کر کے اسے 44 بور کے نام سے مارکیٹ میں لایا گیا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قبائلی اسلحہ ساز کاریگروں نے غیر ملکی ہتھیاروں کی ''کاپی''یعنی نقل تیار کرنا شروع کردی اور اس میں مہارت بھی حاصل کی ہے۔اس وقت امریکی رائفل M16 کی کاپیاں بہت بڑی تعداد میں بنائی جا رہی ہیں ،M4 کی کاپیاں بنا کر اسے سادہ لوح گاہکوں کو اصل کے طور پر فروخت کیا جاتا ہے ،اس وقت اسلحہ مارکیٹ میں دو نمبر ہتھیاروں کی انتہا ہو چکی ہے اور قانون سازی موجود نہ ہونے سے خریدار کے حقوق کاتحفظ نہیں ہوتا۔اصل ہتھیار کی تیار کردہ''کاپی'' کے اوپر بھی وہی سیریل نمبر پنچ کردیا جاتا ہے جو اصل ہتھیار پر کمپنی لگاتی ہے۔
خیبر پختونخواہ اور فاٹا کی اسلحہ ساز فیکٹریوں میں اب جدید ترین پنچنگ اور امبوزنگ مشینیں آ چکی ہیں ،لیزر پرنٹنگ مشین کے ذریعے گلاک، بریٹا، سی زیڈ اور دیگر معروف غیر ملکی برانڈز کے ہتھیاروں کی کاپی پر اصل کمپنی کا لوگو، ہتھیار کی تفصیل اور ملک کا نام اسقدر مہارت سے لکھا جاتا ہے کہ اصل اور نقل میں پہچان نہایت مشکل ہوتی ہے۔
1965 ء میں حکومت نے ملک میں نجی شعبے کو اسلحہ سازی کی اجازت دی تھی لیکن یہ اجازت مقامی برانڈ کے ہتھیار تیار کرنے کیلئے ہے ،REPLCA (یعنی نقل)کی تیاری کے لئے نہیں ۔سب سے اہم بات یہ کہ پاکستان نے انٹرنیشنل ٹریڈ مارک ریگولیشن کے عالمی معاہدے پر دستخط کیئے ہوئے ہیں اور پاکستان میں کسی غیر ملکی کمپنی کی اجازت کے بغیر اس کے ہتھیاروں کی مینو فیکچرنگ غیر قانونی ہے ۔
2015 ء میں حکومت نے اسلحہ کی امپورٹ پر پابندی عائد کر دی تھی پھر کچھ عرصہ قبل SRO112 کے تحت اسلحہ امپورٹ کی درخواستیں طلب کی گئیں اور اسلحہ امپورٹ کیلئے نہایت سخت شرائط پر مبنی SRO772 جاری کیا گیا ہے۔ان شرائط کے تحت اسلحہ امپورٹرز کیلئے کاروبار کو بہت مشکل اور پیچیدہ بنا دیا گیا ۔کسٹم کے WEBOC نظام میں کچھ خامیاں موجود ہیں لیکن مجموعی طور پر یہ بہتر ہے۔
اس وقت پنجاب میں 550 اسلحہ ڈیلرز موجود ہیں، سندھ میں 500 ، خیبر پختونخواہ میں 2 ہزار جبکہ بلوچستان میں 400 کے لگ بھگ اسلحہ ڈیلرز موجود ہیں۔پنجاب حکومت نے بہت اچھا اقدام کیا ہے اور انہوں نے اسلحہ ڈیلرز اور اسلحہ لائسنسوں کا تمام نظام ''نادرا'' کے سپرد کردیا ہے ،پنجاب کے تمام اسلحہ ڈیلرز کی سخت سکروٹنی ہو رہی ہے ان کے سٹاکس اور روزمرہ کی خریدو فروخت کو ایک ڈیش بورڈ کے تحت آن لائن کیا جارہا ہے اور ابتک ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو جاری کردہ جعلی لائسنس پکڑے جا چکے ہیں ۔کچھ عرصہ قبل تک ہتھیار پر پرنٹ مینوفیکچرنگ سیریل نمبر سے مالک یا اسلحہ ڈیلر ٹریس کرنا ممکن نہیں تھا لیکن نادرا کے آنے سے اب یہ ممکن ہو چکا ہے ۔
ماضی میں کچہریوں اور ڈپٹی کمشنر کے دفاتر میں مینوئل رجسٹر رکھے ہوتے تھے جہاں لائسنس اور دیگر کوائف کا اندراج کیا جاتا تھا لیکن اب ایک بٹن کلک کرنے سے کسی فرد کی سات نسلوں کا ڈیٹا سامنے آجاتا ہے۔
لیکن اس میں اب بھی ایک خامی موجود ہے کہ سمارٹ کارڈ سسٹم میں اسلحہ کا بور تبدیل کرنے یا ہتھیار تبدیل کرنے کا طریقہ کار بہت مشکل بنا دیا گیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اگر کوئی لائسنس ہولڈر اپنا ہتھیار تبدیل کرنا چاہتا ہے تو وہ نئے ہتھیار پر پرانا نمبر ہی پرنٹ کروا لیتا ہے جبکہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ لائسنس ہولڈر ہتھیار خریدتا نہیں لیکن کسی دوسرے کے ہتھیار کا نمبر لائسنس پر چڑھا دیا جاتا ہے جعلی اسلحہ لائسنس بنانے والے گروہوں کے خلاف حکومت نے شکنجہ کس دیا ہے لیکن ابھی بھی بعض مقامات پر یہ دھندہ ہو رہا ہے۔ عام فرد سے ہزاروں روپے لیکر اسے جعلی لائسنس بنا کر دے دیا جاتا ہے وہ اس پر ہتھیار بھی خرید لیتا ہے لیکن جب وہ نادرا کے پاس کارڈ بنوانے کیلئے جاتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جعلی لائسنس ہے۔ اس تمام نیٹ ورک میں بعض اسلحہ ڈیلرز بھی ملوث ہیں۔
1973 ء میں آئین کے آرٹیکل 11A کے تحت ممنوعہ بور کے لائسنس بنانے کا اختیار وفاق نے لے لیا تھا اور صوبوں کو صرف غیر ممنوعہ بور ہتھیاروں کے لائسنس جاری کرنے کا اختیار حاصل تھا ۔1991 ء مین حکومت نے ممنوعہ بور ہتھیاروں کی فہرست بنائی جسے 2000 ء میں دوبارہ اپ ڈیٹ کیا گیا ۔18 ویں ترمیم کے بعد 2014 ء میں صوبوں کو ممنوعہ بور ہتھیاروں کے لائسنس بنانے کا اختیار واپس مل گیا تھا لیکن پنجاب نے آج تک اس اختیار کا استعمال نہیں کیا ۔
2014 ء میں وفاقی و صوبائی حکومت کو آرمز رولز بنانے میں معاونت فراہم کی تھی اور پھر 2017 ء میں بنائے گئے رولز میں بھی مجھ سے مشاورت کی گئی بلکہ اس وقت ممنوعہ بور اور غیر ممنوعہ بور ہتھیاروں کی جو فہرست لاگو ہے اسے میں نے ہی مرتب کیا ۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنے دور میں جب ممنوعہ بور ہتھیاروں کے لائسنس منسوخ کیئے تو میں پہلا شخص تھا جو سپریم کورٹ میں کیس لیکر پہنچا اور میں نے وزیر اعظم کے احکامات منسوخ کروائے تھے۔
اس وقت ہمارے ملک میں امن وامان کی صورتحال بہت خراب ہے ، شہری علاقے بہت پھیل چکے ہیں، آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے ۔بے روزگاری بھی اسی رفتار سے بڑھ رہی ہے اور یہ سب عوامل جرائم کی شرح بڑھانے میں معاون ہیں۔
اس صورتحال میں لوگ اپنے جان ومال کے تحفظ کیلئے لائسنس یافتہ اسلحہ رکھ رہے ہیں ۔یاد رکھیں کہ لائسنس یافتہ اسلحہ سے کبھی چوری، ڈکیتی یا سٹریٹ کرائم نہیں کیا جاتا ،مجرم غیر قانونی اسلحہ استعمال کرتے ہیں تا کہ انہیں ٹریس نہ کیا جا سکے، لائسنس یافتہ اسلحہ کسی دشمنی یا غیرت کے معاملے میں تو استعمال ہو سکتا ہے لیکن آرگنائزڈ کرائم میں اس کا استعمال نہیں ہوتا۔ آپ سمجھیں کہ اگر کسی کے گھر چوری یا ڈکیتی ہوتی ہے تو گھر کے مالک کو اپنے لٹنے والے سامان میں سب سے زیادہ فکر لائسنس یافتہ اسلحہ کی ہوتی ہے کہ کہیں اسے کسی واردات میں استعمال نہ کیا جائے۔ حکومت کو چاہیئے کہ عام افراد کیلئے اسلحہ لائسنس کا حصول آسان اور عام کرے جبکہ آرمز رول میں لائسنس کے حصول کیلئے عمر کی حد میں بھی نرمی کی جائے۔ ڈپٹی کمشنرز کو لائسنس بنانے کیلئے اوپن کوٹہ دیا جانا چاہئے۔
ہمارے ملک میں ہتھیار کی کاپی بن رہی ہے کیونکہ پاکستان میں اس کی روک تھام کیلئے قانون موجود نہیں۔ قبائلی علاقے میں اب غیر ملکی ہتھیاروں کی کاپی تیار کی جارہی ہے۔ بریٹا کا اصل پسٹل 5 لاکھ روپے تک بکتا ہے لیکن اس کی کاپی 35 ہزار میں دستیاب ہے، اسی طرح گلاک پسٹل کی قیمت 7 لاکھ روپے تک ہے لیکن اس کی کاپی 50 ہزار روپے تک فروخت ہو رہی ہے ۔
حکومت کو اسکی روک تھام کیلئے رولز اور ریگولیشن بنانے کی ضرورت ہے۔مقامی اسلحہ ساز فیکٹریوں کیلئے ایس اوپیز بنائے جائیں کہ کس معیار کا ہتھیار تیار کرنا ہے اور ان تمام ہتھیاروں پر''میڈ ان پاکستان'' لکھنا لازم قرار دیا جانا چاہیے۔
اسلحہ ڈیلرز کو غیرممنوعہ بور ہتھیاروں کی امپورٹ کے معاملے میں شدید دشواریوں کا سامنا ہے ۔اسلحہ امپورٹ کی سابقہ پالیسی میں بہت غلطیاں تھیں اور اس پالیسی کا غلط استعمال بھی کیا جاتا رہا جس میں انڈر انوائسنگ کے ذریعے قومی خزانے کو بھاری نقصان بھی پہنچایا گیا ۔نئی پالیسی(موجودہ) میں بہت سی خامیاں دور کی گئی ہیں لیکن چند ایک تاحال موجود ہیں ۔سب سے بڑی خرابی اس پالیسی کی یہ ہے کہ عام فرد کو اسلحہ کی پرسنل امپورٹ کی اجازت دی گئی ہے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ اس ہتھیار کو لائسنس پر کیسے درج کروائے گا ،ہتھیار خریدنے کیلئے پیسہ باہر کیسے بھیجے گا ۔
مناسب یہی ہوگا کہ پرسنل امپورٹ کو اسلحہ ڈیلرز کے ذریعے کیا جائے تا کہ وفاقی حکومت کی اس رعایت کا غلط استعمال نہ ہو سکے۔ چند سال قبل تک ملک بھر میں 400 کے قریب اسلحہ امپورٹر تھے لیکن اب 20 کے لگ بھگ رہ گئے ہیں ۔سالانہ اسلحہ امپورٹ 3 ارب روپے کے لگ بھگ ہے ۔لوکل سیل پر کوئی ٹیکس نہیں ہے اور جی ایس ٹی ڈیلر پر لگتا ہے ۔ایک اہم معاملہ جسے حکومت نظر انداز کر رہی ہے وہ سیل پرچیز ایجنٹ کا ہے اس وقت سینکڑوں کی تعداد میں اسلحہ دکانیں ایسی ہیں جو لوگوں نے ٹھیکے پر دے رکھی ہیں اور ٹھیکے پر لینے والا خود کو سیل پرچیز ایجنٹ ظاہر کر کے کاروبار کر رہا ہے جو کہ غیر قانونی ہے۔
آجکل ترکی میں بنائے گئے ہتھیاروں کی پاکستان میں طلب بڑھ رہی ہے بالخصوص شارٹ گن کے حوالے سے ترکی ساختہ بندوق کو پسند کیا جا رہا ہے۔چین اس وقت دنیا کی بڑی معاشی سپر پاور ہے ،وہاں بھی سینکڑوں کی تعداد میں اسلحہ ساز فیکٹریاں ہیں جہاں سے پسٹلز پاکستان امپورٹ کئے جا رہے ہیں ۔وہاں ہتھیار سازی کیلئے معیار اور ریگولیشن مقرر ہیں جبکہ ہمارے ہاں ایسا کچھ بھی نہیں ہے حکومت اس بارے قانون سازی کرے۔
50 سال قبل تک پاکستان میں لوگوں کا پسندیدہ ہتھیار''ریوالور'' تھا بالخصوص دیہاتی افراد 32 بور ریوالور کے شوقین تھے ۔1991 ء میں 38 بور کو غیر ممنوعہ قرار دیا گیا تو لوگوں نے اس کا ریوالور رکھنا شروع کردیا۔ پھر ایک دور آیا جب 30 بور پسٹل مارکیٹ پر چھا گیا اسے لوگ ''ٹی ٹی'' کے نام سے پکارتے تھے،اس کی گولی بھی چند روپے میں مل جاتی تھی۔افغان جنگ کے ساتھ پاکستان میں کلاشنکوف کی آمد ہوئی اور ساتھ ہی روسی ساختہ نائن ایم ایم پسٹل میکروف بھی فروخت ہونے لگا۔ پھر نائن ایم ایم پسٹل مارکیٹ پر حاوی ہو گیا جو آج تک سب سے زیادہ فروخت ہونیو الا ہتھیار ہے۔اگر 100 پسٹل فروخت ہوتے ہیں تو ان میں سے 90 پسٹل نائن ایم ایم ہوتے ہیں۔
پاکستان دہشت گردی کا شکار ملک ہے، پشاور میں سانحہ اے پی ایس کے بعد پنجاب حکومت نے تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی کیلئے ایس او پیز بنانے کا آغاز کیا تو مجھے بھی مشاورت میں شامل کیا گیا ۔میں نے ہی ایس اوپیز کی بنیاد بتائی کہ سکول گارڈ کے پاس کونسا ہتھیار ہونا چاہیے کون سی گولی یا کارتوس ہونا چاہئے، ہتھیار کیسے پکڑنا ہے اور ایمونیشن کو کیسے سنبھالنا ہے ،سکول کے گیٹ یا دیوار پر مورچہ کیسے بنانا ہے۔یہی ایس اوپیز سیکیورٹی گارڈز فراہم کرنے والی کمپنیوں کیلئے بھی نافذ کئے گئے ہیں۔
پنجاب میں سب سے زیادہ اسلحہ''ذاتی تحفظ'' کیلئے خریدا جاتا ہے ۔وائلڈ لائف کا ''شکار'' پیسوں کا کھیل ہے اور اس کیلئے جس قسم کے ہتھیار و دیگر سامان درکار ہوتا ہے اسے ہر کوئی افورڈ نہیں کر سکتا۔ بدقسمتی سے اس وقت یہ ہو رہا ہے کہ جس کے پاس بارہ بور گن ہے خواہ اس نے سیلف ڈیفنس کیلئے لے رکھی ہے وہ جاتا ہے اور درجنوں کی تعداد میں پرندے مار کر لے آتا ہے۔ وائلڈ لائف قوانین میں سخت سزائیں اور جرمانے شامل کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ غیر قانونی شکار کو روکا جا سکے۔ کچھ عرصہ قبل تک میں بھی شکار کا شوقین تھا لیکن اب میری زندگی کا اولین مقصد وائلڈ لائف کو بچانا ہے۔
شکار دو قسم کا ہوتا ہے پہلا پرندوں کا شکار اور دوسرا چوپائیوں کا شکار۔ دنیا بھر میں ماونٹین ہنٹنگ امیر ترین افراد کا شوق ہے، کلب بنائے ہوئے ہیں اور ہر شکاری زیادہ سے زیادہ ٹرافیاں سجا کر اپنا منفرد اعزاز بنانے کا خواہشمند ہوتا ہے، جانور کا شکار بہت مہنگا شوق ہے،نہایت جدید دور مار رائفلز، ٹیلی سکوپ درکار ہوتی ہیں،غیر ملکی شکاری اپنے ساتھ جو بندوقیں لاتے ہیں ان میں ایک ایک گن 50 تا80 لاکھ روپے مالیت کی ہوتی ہے جن پر لاکھوں روپے کی ٹیلی سکوپ بھی لگائی جاتی ہے ،پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں شکار کھیلنے کیلئے دنیا بھر سے شکاری آتے ہیں اور مہنگے داموںشکار(ٹرافی) کا لائسنس حاصل کرتے ہیں ۔ایک ایک ٹرافی کا لائسنس لاکھوں ڈالر میں فراہم کیا جاتا ہے۔
مارخورکو دنیا کی سب سے بڑی ٹرافی قرار دیا جاتا ہے۔ایک مار خور یا آئی بیکس کے شکار کرنے کے لائسنس کی فیس ڈیڑھ لاکھ ڈالر ہے ،اڑیال کے شکار کا لائسنس 18 ہزار ڈالر میں ملتا ہے ۔ سب سے زیادہ پہاڑی شکار گلگت بلتستان میں کیا جاتا ہے ،وہاں کے سیکرٹری وائلڈ لائف و جنگلات شاہد زمان نے غیر قانونی شکار کی روک تھام کیلئے سخت ترین قوانین بنانے کے ساتھ ساتھ وائلڈ لائف فورس منظور کروا لی ہے جسے 500 جدید گنز فراہم کی جائیں گی ۔مقامی آوٹ فٹر غیر ملکی شکاریوں سے ٹرافی لائسنس کے نام پر زیادہ پیسے لیتے تھے لیکن اب گلگت میں ٹرافی آکشن کے تحت لائسنس نیلام ہوتا ہے ۔
وہاں کے مقامی افراد کو بھی جانور کی اہمیت کا احساس ہو رہا ہے اور وہ خود بھی غیر قانونی شکار کے خلاف متحرک ہو گئے ہیں کیونکہ ٹرافی لائسنس کی رقم کا بڑا حصہ مقامی آبادی کی فلاح وبہبود پر خرچ کیا جاتا ہے ، اب مقامی افراد کیلئے بھی ٹرافی ہنٹنگ کی اجازت دے دی گئی ہے جیسا کہ بلیو شیپ کا لائسنس غیر ملکی کیلئے 8 ہزار ڈالر کا ہے لیکن مقامی شخص کیلئے 4 لاکھ قیمت ہے۔ پنجاب میں پرندوں کا غیر قانونی شکار بہت زیادہ ہوتا ہے ۔ تیتر سب سے زیادہ شکار ہونیوالا پرندہ ہے ۔
پنجاب وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ نے ایک عمدہ اقدام کیا ہے کہ اب وہ ایف آئی اے کی مدد سے سوشل میڈیا پر شکار کی تصاویر اپ لوڈ کرنے والے افراد کی تلاش کر کے کارروائی کر رہے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پنجاب کی وائلڈ لائف فورس کو قانونی طور پر ''لاء انفورسمنٹ فورس'' کا درجہ دیا جائے۔ اس وقت تو یہ عالم ہے کہ صدقہ کیلئے سڑکوں پر لوگ پرندے بیچ رہے ہوتے ہیں ،پنجاب میں گنتی کی چند نجی شکار گاہیں باقی رہ گئی ہیں باقی سب شکار حکومت کے مقررہ علاقوں میں کیا جاتا ہے ۔
ہتھیاروں کے استعمال کا آغاز زمین کے اولین باشندوں ہابیل کے ہاتھوں قابیل کے قتل سے ہوگیا تھا۔ قدیم ادوار سے ہتھیار انسانوں کی لازمی ضرورت کے طور پر اس کے ساتھ ساتھ پروان چڑھتے رہے ہیں ان میں نت نئی تبدیلیاں آتی رہیں اور انہیں عصری ضرورتوں کے مطابق ڈھالنے کا کام مسلسل جاری ہے۔
قبل از تاریخ کے زمانے میں جب انسان جنگلی جانوروں کے گوشت پر انحصار کرتا تھا ہتھیار شکار کرنے کا لازمی آلہ تھا۔ تیر تلوار اور خنجر کے دور میں اس وقت انقلابی تبدیلی کے دور کا آغاز ہوا جب 9 ویں صدی کے دوران چین میں گن پاؤڈر ایجاد ہوا اور اس کے ساتھ آتشیں ہتھیاروں کے عہد کا آغاز ہوا۔
جدید دور میں جیسے دیگر شعبوں میں تخصص کا اصول رائج ہوا اسی طرح ہتھیاروں کو بھی ان کے استعمال کے لحاظ سے مختلف گروپوں میں تقسیم کردیا گیا۔ آج میدان جنگ کے ہتھیار الگ ہیں۔ پولیس فورسز الگ طرح کے ہتھیاروں سے لیس ہوتی ہیں۔ ذاتی حفاظت کے لئے الگ قسم کے ہتھیار میسر ہیں جبکہ مختلف قسم کے جانوروں کے شکار کے لئے مختلف طرح کے ہتھیار دستیاب ہوتے ہیں۔ بہت سے معاشروں میں ہتھیار کو تہذیبی اور ثقافتی اہمیت بھی حاصل ہے اور ہتھیار کو لباس کے حصے کے طور پر ساتھ رکھا جاتا ہے۔
جیسے جیسے ہتھیار سازی میں جدت آتی گئی اور اس کی ہلاکت خیزی میں اضافہ ہوا اسی لحاظ سے اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ ریاستی اداروں کے کارندوں کے علاوہ تمام شہریوں کے لئے ہتھیار رکھنے کے کچھ قوائد و ضوابط ہونے چاہیں لہٰذا شہریوں کے لئے اسلحہ لائسنس اور دیگر قوانین متعارف کرائے گئے۔
پاکستان گزشتہ 40 برسوں میں کئی مشکل ادوار سے گزرا ہے۔ ہماری سرحدوں پر بہت خطرناک صورتحال رہی اور ملک کے اندر بدترین دہشت گردی کا سامنا رہا اور اس تمام صورتحال کا ایک مرکزی عنصر ہتھیار تھے۔ پاکستان میں ذاتی حفاظت اور شکار کے لئے ہتھیاروں کے استعمال، اس کے قوانین و ضوابط اور اس سے منسلک مختلف معاملات پر ایکسپریس نے پاکستان آرمز اینڈ ایمونیشن مرچنٹ اینڈ مینو فیکچرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین چودھری فرحان انور سے بات چیت کی جس کی تفصیل ذیل میں پیش کی جارہی ہے۔
افغانستان میں روس کی آمد ہوئی تو امریکہ کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے بھی ویتنام کا بدلہ لینے کیلئے میدان میں کود پڑی اور روس کے خلاف بر سر پیکار مجاہدین کو جدید اسلحہ کی وافر فراہمی کے ساتھ ہی جدید اسلحہ کی ایک بڑی مارکیٹ وجود میں آگئی جس کا زیادہ تر حصہ غیر قانونی کاروبار پر مشتمل تھا ۔ان ایام میں ''علاقہ غیر'' کے نام سے پکارے جانے والے علاقوں کے بازار روسی افواج سے چھینے گئے اسلحہ سے بھرے ہوتے تھے ۔
یہی وہ دور تھا جب پاکستان میں''کلاشنکوف کلچر'' نے جنم لیا ۔اس کے ساتھ ساتھ قبائلی علاقوں میں اسلحہ سازی کا بزنس بھی وسعت پانے لگا ،کلاشنکوف کے لائسنس پر سخت پابندی کے سبب قبائلی کاریگروں اور ڈیلرز نے کلاشنکوف کی اوریجنل بیرل میں تبدیلی کر کے اسے 222 (ٹرپل ٹو) کے نام سے فروخت کرنا شروع کردیا حالانکہ ٹرپل ٹو درحقیقت امریلی رائفل کیلیبر ہے جسے 5.45 بوربھی کہا جاتا ہے ۔حکومت نے ٹرپل ٹو رائفل کے حوالے سے سختی کی تو ایک نیا کیلیبر ایجاد کیا گیا،زیادہ استعمال شدہ کلاشنکوف رائفلز کی بیرل(نالی) میں بورنگ کر کے اسے 44 بور کے نام سے مارکیٹ میں لایا گیا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قبائلی اسلحہ ساز کاریگروں نے غیر ملکی ہتھیاروں کی ''کاپی''یعنی نقل تیار کرنا شروع کردی اور اس میں مہارت بھی حاصل کی ہے۔اس وقت امریکی رائفل M16 کی کاپیاں بہت بڑی تعداد میں بنائی جا رہی ہیں ،M4 کی کاپیاں بنا کر اسے سادہ لوح گاہکوں کو اصل کے طور پر فروخت کیا جاتا ہے ،اس وقت اسلحہ مارکیٹ میں دو نمبر ہتھیاروں کی انتہا ہو چکی ہے اور قانون سازی موجود نہ ہونے سے خریدار کے حقوق کاتحفظ نہیں ہوتا۔اصل ہتھیار کی تیار کردہ''کاپی'' کے اوپر بھی وہی سیریل نمبر پنچ کردیا جاتا ہے جو اصل ہتھیار پر کمپنی لگاتی ہے۔
خیبر پختونخواہ اور فاٹا کی اسلحہ ساز فیکٹریوں میں اب جدید ترین پنچنگ اور امبوزنگ مشینیں آ چکی ہیں ،لیزر پرنٹنگ مشین کے ذریعے گلاک، بریٹا، سی زیڈ اور دیگر معروف غیر ملکی برانڈز کے ہتھیاروں کی کاپی پر اصل کمپنی کا لوگو، ہتھیار کی تفصیل اور ملک کا نام اسقدر مہارت سے لکھا جاتا ہے کہ اصل اور نقل میں پہچان نہایت مشکل ہوتی ہے۔
1965 ء میں حکومت نے ملک میں نجی شعبے کو اسلحہ سازی کی اجازت دی تھی لیکن یہ اجازت مقامی برانڈ کے ہتھیار تیار کرنے کیلئے ہے ،REPLCA (یعنی نقل)کی تیاری کے لئے نہیں ۔سب سے اہم بات یہ کہ پاکستان نے انٹرنیشنل ٹریڈ مارک ریگولیشن کے عالمی معاہدے پر دستخط کیئے ہوئے ہیں اور پاکستان میں کسی غیر ملکی کمپنی کی اجازت کے بغیر اس کے ہتھیاروں کی مینو فیکچرنگ غیر قانونی ہے ۔
2015 ء میں حکومت نے اسلحہ کی امپورٹ پر پابندی عائد کر دی تھی پھر کچھ عرصہ قبل SRO112 کے تحت اسلحہ امپورٹ کی درخواستیں طلب کی گئیں اور اسلحہ امپورٹ کیلئے نہایت سخت شرائط پر مبنی SRO772 جاری کیا گیا ہے۔ان شرائط کے تحت اسلحہ امپورٹرز کیلئے کاروبار کو بہت مشکل اور پیچیدہ بنا دیا گیا ۔کسٹم کے WEBOC نظام میں کچھ خامیاں موجود ہیں لیکن مجموعی طور پر یہ بہتر ہے۔
اس وقت پنجاب میں 550 اسلحہ ڈیلرز موجود ہیں، سندھ میں 500 ، خیبر پختونخواہ میں 2 ہزار جبکہ بلوچستان میں 400 کے لگ بھگ اسلحہ ڈیلرز موجود ہیں۔پنجاب حکومت نے بہت اچھا اقدام کیا ہے اور انہوں نے اسلحہ ڈیلرز اور اسلحہ لائسنسوں کا تمام نظام ''نادرا'' کے سپرد کردیا ہے ،پنجاب کے تمام اسلحہ ڈیلرز کی سخت سکروٹنی ہو رہی ہے ان کے سٹاکس اور روزمرہ کی خریدو فروخت کو ایک ڈیش بورڈ کے تحت آن لائن کیا جارہا ہے اور ابتک ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو جاری کردہ جعلی لائسنس پکڑے جا چکے ہیں ۔کچھ عرصہ قبل تک ہتھیار پر پرنٹ مینوفیکچرنگ سیریل نمبر سے مالک یا اسلحہ ڈیلر ٹریس کرنا ممکن نہیں تھا لیکن نادرا کے آنے سے اب یہ ممکن ہو چکا ہے ۔
ماضی میں کچہریوں اور ڈپٹی کمشنر کے دفاتر میں مینوئل رجسٹر رکھے ہوتے تھے جہاں لائسنس اور دیگر کوائف کا اندراج کیا جاتا تھا لیکن اب ایک بٹن کلک کرنے سے کسی فرد کی سات نسلوں کا ڈیٹا سامنے آجاتا ہے۔
لیکن اس میں اب بھی ایک خامی موجود ہے کہ سمارٹ کارڈ سسٹم میں اسلحہ کا بور تبدیل کرنے یا ہتھیار تبدیل کرنے کا طریقہ کار بہت مشکل بنا دیا گیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اگر کوئی لائسنس ہولڈر اپنا ہتھیار تبدیل کرنا چاہتا ہے تو وہ نئے ہتھیار پر پرانا نمبر ہی پرنٹ کروا لیتا ہے جبکہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ لائسنس ہولڈر ہتھیار خریدتا نہیں لیکن کسی دوسرے کے ہتھیار کا نمبر لائسنس پر چڑھا دیا جاتا ہے جعلی اسلحہ لائسنس بنانے والے گروہوں کے خلاف حکومت نے شکنجہ کس دیا ہے لیکن ابھی بھی بعض مقامات پر یہ دھندہ ہو رہا ہے۔ عام فرد سے ہزاروں روپے لیکر اسے جعلی لائسنس بنا کر دے دیا جاتا ہے وہ اس پر ہتھیار بھی خرید لیتا ہے لیکن جب وہ نادرا کے پاس کارڈ بنوانے کیلئے جاتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جعلی لائسنس ہے۔ اس تمام نیٹ ورک میں بعض اسلحہ ڈیلرز بھی ملوث ہیں۔
1973 ء میں آئین کے آرٹیکل 11A کے تحت ممنوعہ بور کے لائسنس بنانے کا اختیار وفاق نے لے لیا تھا اور صوبوں کو صرف غیر ممنوعہ بور ہتھیاروں کے لائسنس جاری کرنے کا اختیار حاصل تھا ۔1991 ء مین حکومت نے ممنوعہ بور ہتھیاروں کی فہرست بنائی جسے 2000 ء میں دوبارہ اپ ڈیٹ کیا گیا ۔18 ویں ترمیم کے بعد 2014 ء میں صوبوں کو ممنوعہ بور ہتھیاروں کے لائسنس بنانے کا اختیار واپس مل گیا تھا لیکن پنجاب نے آج تک اس اختیار کا استعمال نہیں کیا ۔
2014 ء میں وفاقی و صوبائی حکومت کو آرمز رولز بنانے میں معاونت فراہم کی تھی اور پھر 2017 ء میں بنائے گئے رولز میں بھی مجھ سے مشاورت کی گئی بلکہ اس وقت ممنوعہ بور اور غیر ممنوعہ بور ہتھیاروں کی جو فہرست لاگو ہے اسے میں نے ہی مرتب کیا ۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنے دور میں جب ممنوعہ بور ہتھیاروں کے لائسنس منسوخ کیئے تو میں پہلا شخص تھا جو سپریم کورٹ میں کیس لیکر پہنچا اور میں نے وزیر اعظم کے احکامات منسوخ کروائے تھے۔
اس وقت ہمارے ملک میں امن وامان کی صورتحال بہت خراب ہے ، شہری علاقے بہت پھیل چکے ہیں، آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے ۔بے روزگاری بھی اسی رفتار سے بڑھ رہی ہے اور یہ سب عوامل جرائم کی شرح بڑھانے میں معاون ہیں۔
اس صورتحال میں لوگ اپنے جان ومال کے تحفظ کیلئے لائسنس یافتہ اسلحہ رکھ رہے ہیں ۔یاد رکھیں کہ لائسنس یافتہ اسلحہ سے کبھی چوری، ڈکیتی یا سٹریٹ کرائم نہیں کیا جاتا ،مجرم غیر قانونی اسلحہ استعمال کرتے ہیں تا کہ انہیں ٹریس نہ کیا جا سکے، لائسنس یافتہ اسلحہ کسی دشمنی یا غیرت کے معاملے میں تو استعمال ہو سکتا ہے لیکن آرگنائزڈ کرائم میں اس کا استعمال نہیں ہوتا۔ آپ سمجھیں کہ اگر کسی کے گھر چوری یا ڈکیتی ہوتی ہے تو گھر کے مالک کو اپنے لٹنے والے سامان میں سب سے زیادہ فکر لائسنس یافتہ اسلحہ کی ہوتی ہے کہ کہیں اسے کسی واردات میں استعمال نہ کیا جائے۔ حکومت کو چاہیئے کہ عام افراد کیلئے اسلحہ لائسنس کا حصول آسان اور عام کرے جبکہ آرمز رول میں لائسنس کے حصول کیلئے عمر کی حد میں بھی نرمی کی جائے۔ ڈپٹی کمشنرز کو لائسنس بنانے کیلئے اوپن کوٹہ دیا جانا چاہئے۔
ہمارے ملک میں ہتھیار کی کاپی بن رہی ہے کیونکہ پاکستان میں اس کی روک تھام کیلئے قانون موجود نہیں۔ قبائلی علاقے میں اب غیر ملکی ہتھیاروں کی کاپی تیار کی جارہی ہے۔ بریٹا کا اصل پسٹل 5 لاکھ روپے تک بکتا ہے لیکن اس کی کاپی 35 ہزار میں دستیاب ہے، اسی طرح گلاک پسٹل کی قیمت 7 لاکھ روپے تک ہے لیکن اس کی کاپی 50 ہزار روپے تک فروخت ہو رہی ہے ۔
حکومت کو اسکی روک تھام کیلئے رولز اور ریگولیشن بنانے کی ضرورت ہے۔مقامی اسلحہ ساز فیکٹریوں کیلئے ایس اوپیز بنائے جائیں کہ کس معیار کا ہتھیار تیار کرنا ہے اور ان تمام ہتھیاروں پر''میڈ ان پاکستان'' لکھنا لازم قرار دیا جانا چاہیے۔
اسلحہ ڈیلرز کو غیرممنوعہ بور ہتھیاروں کی امپورٹ کے معاملے میں شدید دشواریوں کا سامنا ہے ۔اسلحہ امپورٹ کی سابقہ پالیسی میں بہت غلطیاں تھیں اور اس پالیسی کا غلط استعمال بھی کیا جاتا رہا جس میں انڈر انوائسنگ کے ذریعے قومی خزانے کو بھاری نقصان بھی پہنچایا گیا ۔نئی پالیسی(موجودہ) میں بہت سی خامیاں دور کی گئی ہیں لیکن چند ایک تاحال موجود ہیں ۔سب سے بڑی خرابی اس پالیسی کی یہ ہے کہ عام فرد کو اسلحہ کی پرسنل امپورٹ کی اجازت دی گئی ہے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ اس ہتھیار کو لائسنس پر کیسے درج کروائے گا ،ہتھیار خریدنے کیلئے پیسہ باہر کیسے بھیجے گا ۔
مناسب یہی ہوگا کہ پرسنل امپورٹ کو اسلحہ ڈیلرز کے ذریعے کیا جائے تا کہ وفاقی حکومت کی اس رعایت کا غلط استعمال نہ ہو سکے۔ چند سال قبل تک ملک بھر میں 400 کے قریب اسلحہ امپورٹر تھے لیکن اب 20 کے لگ بھگ رہ گئے ہیں ۔سالانہ اسلحہ امپورٹ 3 ارب روپے کے لگ بھگ ہے ۔لوکل سیل پر کوئی ٹیکس نہیں ہے اور جی ایس ٹی ڈیلر پر لگتا ہے ۔ایک اہم معاملہ جسے حکومت نظر انداز کر رہی ہے وہ سیل پرچیز ایجنٹ کا ہے اس وقت سینکڑوں کی تعداد میں اسلحہ دکانیں ایسی ہیں جو لوگوں نے ٹھیکے پر دے رکھی ہیں اور ٹھیکے پر لینے والا خود کو سیل پرچیز ایجنٹ ظاہر کر کے کاروبار کر رہا ہے جو کہ غیر قانونی ہے۔
آجکل ترکی میں بنائے گئے ہتھیاروں کی پاکستان میں طلب بڑھ رہی ہے بالخصوص شارٹ گن کے حوالے سے ترکی ساختہ بندوق کو پسند کیا جا رہا ہے۔چین اس وقت دنیا کی بڑی معاشی سپر پاور ہے ،وہاں بھی سینکڑوں کی تعداد میں اسلحہ ساز فیکٹریاں ہیں جہاں سے پسٹلز پاکستان امپورٹ کئے جا رہے ہیں ۔وہاں ہتھیار سازی کیلئے معیار اور ریگولیشن مقرر ہیں جبکہ ہمارے ہاں ایسا کچھ بھی نہیں ہے حکومت اس بارے قانون سازی کرے۔
50 سال قبل تک پاکستان میں لوگوں کا پسندیدہ ہتھیار''ریوالور'' تھا بالخصوص دیہاتی افراد 32 بور ریوالور کے شوقین تھے ۔1991 ء میں 38 بور کو غیر ممنوعہ قرار دیا گیا تو لوگوں نے اس کا ریوالور رکھنا شروع کردیا۔ پھر ایک دور آیا جب 30 بور پسٹل مارکیٹ پر چھا گیا اسے لوگ ''ٹی ٹی'' کے نام سے پکارتے تھے،اس کی گولی بھی چند روپے میں مل جاتی تھی۔افغان جنگ کے ساتھ پاکستان میں کلاشنکوف کی آمد ہوئی اور ساتھ ہی روسی ساختہ نائن ایم ایم پسٹل میکروف بھی فروخت ہونے لگا۔ پھر نائن ایم ایم پسٹل مارکیٹ پر حاوی ہو گیا جو آج تک سب سے زیادہ فروخت ہونیو الا ہتھیار ہے۔اگر 100 پسٹل فروخت ہوتے ہیں تو ان میں سے 90 پسٹل نائن ایم ایم ہوتے ہیں۔
پاکستان دہشت گردی کا شکار ملک ہے، پشاور میں سانحہ اے پی ایس کے بعد پنجاب حکومت نے تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی کیلئے ایس او پیز بنانے کا آغاز کیا تو مجھے بھی مشاورت میں شامل کیا گیا ۔میں نے ہی ایس اوپیز کی بنیاد بتائی کہ سکول گارڈ کے پاس کونسا ہتھیار ہونا چاہیے کون سی گولی یا کارتوس ہونا چاہئے، ہتھیار کیسے پکڑنا ہے اور ایمونیشن کو کیسے سنبھالنا ہے ،سکول کے گیٹ یا دیوار پر مورچہ کیسے بنانا ہے۔یہی ایس اوپیز سیکیورٹی گارڈز فراہم کرنے والی کمپنیوں کیلئے بھی نافذ کئے گئے ہیں۔
پنجاب میں سب سے زیادہ اسلحہ''ذاتی تحفظ'' کیلئے خریدا جاتا ہے ۔وائلڈ لائف کا ''شکار'' پیسوں کا کھیل ہے اور اس کیلئے جس قسم کے ہتھیار و دیگر سامان درکار ہوتا ہے اسے ہر کوئی افورڈ نہیں کر سکتا۔ بدقسمتی سے اس وقت یہ ہو رہا ہے کہ جس کے پاس بارہ بور گن ہے خواہ اس نے سیلف ڈیفنس کیلئے لے رکھی ہے وہ جاتا ہے اور درجنوں کی تعداد میں پرندے مار کر لے آتا ہے۔ وائلڈ لائف قوانین میں سخت سزائیں اور جرمانے شامل کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ غیر قانونی شکار کو روکا جا سکے۔ کچھ عرصہ قبل تک میں بھی شکار کا شوقین تھا لیکن اب میری زندگی کا اولین مقصد وائلڈ لائف کو بچانا ہے۔
شکار دو قسم کا ہوتا ہے پہلا پرندوں کا شکار اور دوسرا چوپائیوں کا شکار۔ دنیا بھر میں ماونٹین ہنٹنگ امیر ترین افراد کا شوق ہے، کلب بنائے ہوئے ہیں اور ہر شکاری زیادہ سے زیادہ ٹرافیاں سجا کر اپنا منفرد اعزاز بنانے کا خواہشمند ہوتا ہے، جانور کا شکار بہت مہنگا شوق ہے،نہایت جدید دور مار رائفلز، ٹیلی سکوپ درکار ہوتی ہیں،غیر ملکی شکاری اپنے ساتھ جو بندوقیں لاتے ہیں ان میں ایک ایک گن 50 تا80 لاکھ روپے مالیت کی ہوتی ہے جن پر لاکھوں روپے کی ٹیلی سکوپ بھی لگائی جاتی ہے ،پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں شکار کھیلنے کیلئے دنیا بھر سے شکاری آتے ہیں اور مہنگے داموںشکار(ٹرافی) کا لائسنس حاصل کرتے ہیں ۔ایک ایک ٹرافی کا لائسنس لاکھوں ڈالر میں فراہم کیا جاتا ہے۔
مارخورکو دنیا کی سب سے بڑی ٹرافی قرار دیا جاتا ہے۔ایک مار خور یا آئی بیکس کے شکار کرنے کے لائسنس کی فیس ڈیڑھ لاکھ ڈالر ہے ،اڑیال کے شکار کا لائسنس 18 ہزار ڈالر میں ملتا ہے ۔ سب سے زیادہ پہاڑی شکار گلگت بلتستان میں کیا جاتا ہے ،وہاں کے سیکرٹری وائلڈ لائف و جنگلات شاہد زمان نے غیر قانونی شکار کی روک تھام کیلئے سخت ترین قوانین بنانے کے ساتھ ساتھ وائلڈ لائف فورس منظور کروا لی ہے جسے 500 جدید گنز فراہم کی جائیں گی ۔مقامی آوٹ فٹر غیر ملکی شکاریوں سے ٹرافی لائسنس کے نام پر زیادہ پیسے لیتے تھے لیکن اب گلگت میں ٹرافی آکشن کے تحت لائسنس نیلام ہوتا ہے ۔
وہاں کے مقامی افراد کو بھی جانور کی اہمیت کا احساس ہو رہا ہے اور وہ خود بھی غیر قانونی شکار کے خلاف متحرک ہو گئے ہیں کیونکہ ٹرافی لائسنس کی رقم کا بڑا حصہ مقامی آبادی کی فلاح وبہبود پر خرچ کیا جاتا ہے ، اب مقامی افراد کیلئے بھی ٹرافی ہنٹنگ کی اجازت دے دی گئی ہے جیسا کہ بلیو شیپ کا لائسنس غیر ملکی کیلئے 8 ہزار ڈالر کا ہے لیکن مقامی شخص کیلئے 4 لاکھ قیمت ہے۔ پنجاب میں پرندوں کا غیر قانونی شکار بہت زیادہ ہوتا ہے ۔ تیتر سب سے زیادہ شکار ہونیوالا پرندہ ہے ۔
پنجاب وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ نے ایک عمدہ اقدام کیا ہے کہ اب وہ ایف آئی اے کی مدد سے سوشل میڈیا پر شکار کی تصاویر اپ لوڈ کرنے والے افراد کی تلاش کر کے کارروائی کر رہے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پنجاب کی وائلڈ لائف فورس کو قانونی طور پر ''لاء انفورسمنٹ فورس'' کا درجہ دیا جائے۔ اس وقت تو یہ عالم ہے کہ صدقہ کیلئے سڑکوں پر لوگ پرندے بیچ رہے ہوتے ہیں ،پنجاب میں گنتی کی چند نجی شکار گاہیں باقی رہ گئی ہیں باقی سب شکار حکومت کے مقررہ علاقوں میں کیا جاتا ہے ۔