کھائی جاؤ وے کھائی جاؤ
سرمایہ کاروں اور زرِ مبادلہ کی زیادہ سے زیادہ ترسیل کی حوصلہ افزائی کے لیے دوست پالیسیاں بھی وضع کر رہی ہے۔
ISLAMABAD:
موجودہ حکومت قومی خزانے کی گردن پر سے اسٹیل ملز اور پی آئی اے سمیت متعدد سفید ہاتھیوں کا بوجھ اتارنا چاہ رہی ہے ، اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبوں کو ملنے والے مالیاتی حصے پر بھی نظرِ ثانی کی خواہش مند ہے ، ٹیکس کا دائرہ بھی بڑھانا چاہ رہی ہے ، آئی ایم ایف کی سفارشات کی روشنی میں پانی ، بجلی ، گیس کی قیمتوں میں اضافہ بھی کر رہی ہے۔ عوامی استعمال کی متعدد ضروری اشیا پر سرکاری سبسڈی کو بھی کم سے کم کرنا چاہ رہی ہے۔
سرمایہ کاروں اور زرِ مبادلہ کی زیادہ سے زیادہ ترسیل کی حوصلہ افزائی کے لیے دوست پالیسیاں بھی وضع کر رہی ہے۔سول سروس میں مستعدی اور پیشہ ورانہ اہلیت بڑھانے کے لیے اصلاحات کا منصوبہ بھی تکمیل پذیر ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اتنا پیسہ میسر آ سکے کہ کسی غیر کے آگے ہاتھ پھیلائے بغیر ترقیاتی کام اور میگا پروجیکٹس کو تیزی سے آگے بڑھا کر معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جاسکے۔
مگر معیشت کی بالٹی میں سوراخ اتنا بڑا ہے کہ فوری مرمت کی خاطر پرانے قرضے تو خیر کیا کم ہوں گے۔ان پر پچھلے ڈھائی برس میں تئیس اعشاریہ چھ ارب ڈالر کے نئے قرضوں کی تہہ چڑھ گئی ہے۔ان میں سے ساڑھے چار ارب ڈالر کے قرضے صرف نئے مالی سال کے پہلے پانچ ماہ ( جولائی تا نومبر ) میں حاصل کیے گئے ہیں۔یہ کسی نجی ادارے کے نہیں بلکہ وزارتِ اقتصادی امور کے جاری کردہ تازہ ترین اعداد و شمار ہیں۔
پچھلے ڈھائی برس میں آٹا ، چینی ، سیمنٹ سمیت کئی سکینڈلز سامنے آئے ہیں۔ان کے ڈانڈے گزشتہ ادوار سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔مگر اچھی بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت نہ صرف ان کی تحقیقات کروا رہی ہے بلکہ تحقیقاتی رپورٹیں عام بھی کر رہی ہے۔ان سکینڈلز کے تالاب میں کئی نجی و سرکاری شارکیں اور وہیل مچھلیاں اور مگرمچھ تیرتے نظر آ رہے ہیں۔ان رپورٹوں کی اشاعت کے بعد اب ان پر بھی کمند ڈلے گی کہ نہیں ؟ یہ بالکل الگ موضوع ہے۔
ان تمام اسکینڈلز کا باپ پٹرولیم اسکینڈل ہے۔ اس کی تفصیلی رپورٹ نے سرکاری و نجی شعبے و فیصلہ سازی کی چادر میں پوشیدہ بڑے بڑے سوراخوں کو عریاں کر کے رکھ دیا ہے۔یہ اسکینڈل اس لحاظ سے بھی کلیدی اہمیت رکھتا ہے کہ پاکستان کا کم ازکم چالیس فیصد زرِ مبادلہ پٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر صرف ہو جاتا ہے۔مگر اس شعبے کو باقاعدہ و منظم رکھنے کے نظام میں ایسے ایسے کمالات دکھائے گئے ہیں کہ عوام کی جیب بھی خالی ہو جائے اور پتہ بھی نہ چلے اور عوام کیا حکومتوں کو بھی پتہ نہ چلے۔
چند برس قبل سپریم کورٹ کے ایک سابق چیف جسٹس بھگوان داس کی سربراہی میں ایک کمیٹی نے توانائی کے شعبے میں کرپشن اور بد انتظامی سے متعلق لگ بھگ ایسی ہی رپورٹ تیار کی تھی۔اگر اس پر نصف عمل بھی ہوجاتا تو اس سال کے شروع میں عالمی منڈی میں کوویڈ کے سبب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں انتہائی کمی کے باوجود آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا)کے ہوتے ہوئے مصنوعی ذخیرہ اندوزی اور بدانتظامی کو عوام لوٹ پروگرام میں بطور ہتھیار استعمال شائد نہ کیا جا سکتا۔
تازہ رپورٹ میں جو متعدد سفارشات کی گئی ہیں ان میں اوگرا کے موجودہ ڈھانچے کے خاتمے اور وزارت پٹرولیم کے کلیدی اہلکاروں کی برطرفی و پوچھ گچھ کا مطالبہ بھی شامل ہے۔
رپورٹ کے مطابق اوگرا کا قیام دو ہزار دو میں عمل میں آیا مگر اس کے آپریشنل قوانین دو ہزار سولہ تک نافذ نہ ہو سکے۔یعنی چودہ برس تک ایس آر اوز ( عبوری حکم ناموں) کے ذریعے کام چلایا گیا۔
تیل درآمد کرنے کے تمام فیصلے آئل مارکیٹنگ کمپنیوں اور ریفائنریز پر مشتمل مشاورتی کونسل ( او سی اے سی ) کے فراہم کردہ اعداد و شمار کی روشنی میں کیے جاتے ہیں۔اوگرا ان اعداد و شمار کی صحت کی اپنے طور پر جانچ کرنے کی پابند ہے مگر ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔
چنانچہ اوگرا محض ایک نمائشی ریگولیٹری کٹھ پتلی میں تبدیل ہو چکی ہے۔یہ نجی آئل مارکیٹنگ کمپنیوں پر مشتمل مشاورتی کونسل ہی ہے جو تیل بردار جہازوں کی بندرگاہ میں برتھنگ میں ترجیح و تاخیر کی سفارش کر کے کسی بھی فریق کو فائدے یا نقصان سے دوچار کر سکتی ہے۔
جنوبی ایشیا کے پانچ ممالک میں آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کی تعداد بیس مگر پاکستان میں چونتیس ہے۔ ان میں سے اکیس کو دو ہزار سولہ کے صرف چھ ماہ میں لائسنس جاری ہوئے۔ جواز یہ پیش کیا گیا کہ جتنی زیادہ کمپنیاں ہوں گی اتنی ہی پٹرولیم اسٹوریج کی گنجائش میں بھی اضافہ ہوگا اور ان کے درمیان کاروباری مسابقت سے حکومت اور عوام کو فائدہ ہوگا۔
اوگرا قوانین کے تحت کوئی بھی آئل مارکیٹنگ کمپنی مطلوبہ ذخیرہ گنجائش بنائے بغیر مارکیٹنگ نہیں کر سکتی۔ مگر چونتیس میں سے پچیس کمپنیاں جنھیں عبوری لائسنس جاری کیے گئے اس پابندی کی پاسداری نہیں کرتیں۔
متعدد مارکیٹنگ کمپنیاں رٹیل آؤٹ لیٹ نہ ہونے کے باوجود پٹرولیم مصنوعات درآمد کر رہی ہیں۔حالانکہ رٹیل آؤٹ لیٹ کے بغیرکوٹے درآمدی کوٹہ الاٹ نہیں ہو سکتا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کمپنیاں کوٹے کے بغیر تیل منگوا رہی ہیں وہ اسے بڑی آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو فروخت کر رہی ہیں حالانکہ اس حرکت کی بھی اوگرا قوانین کے تحت سختی سے ممانعت ہے مگر اوگرا نے اس بے قاعدگی سے بھی آنکھیں موند رکھی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ڈی جی آئل پیشے کے اعتبار سے ڈنگر ڈاکٹر رہے ہیں۔انھوں نے کئی کمپنیوں کو امپورٹ لائسنس کے بغیر درآمد کی اجازت دی۔اور جس دن درآمدی مصنوعات پہنچیں اسی دن ان کمپنیوں کو امپورٹ لائسنس جاری کر دیے۔اب آپ اس سے جو نتیجہ چاہے اخذ کر لیں۔
گزشتہ اپریل سے جون تک کے تیل بحران کے بارے میں رپورٹ کہتی ہے کہ جنوری سے جون تک کے چھ ماہ کے دوران نوے فیصد آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے کسی بھی ہنگامی حالت سے نمٹنے کے لیے بیس دن کی ضروریات کے لیے تیل ذخیرہ کرنے کی لازمی شرط پوری نہیں کی کیونکہ تیل کی قیمتیں تیزی سے نیچے آ رہی تھیں۔فروری اور مارچ میں حکومت نے ریفائنریز کا اسٹاک اٹھانا کم کر دیا۔اور پھر عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں تیزی سے کمی کے باوجود تیل کی مزید درآمد پر یہ کہہ کر پابندی لگا دی گئی کہ ہم مقامی ریفائنریز کو اضافی سپلائی سے پیدا ہونے والی بلا ضرورت بہتات کے سبب ممکنہ مالی نقصان سے بچانا چاہتے ہیں۔
مگر اس دعویٰ کے برعکس جون میں پٹرولیم مصنوعات کی قلت کو اربوں روپے کے مالی نقصان کی شکل میں بھگتنا پڑا۔تیل کمپنیوں کے فراہم کردہ اعداد و شمار کی جانچ کیے بغیر تیل کی درآمد پر عارضی پابندی کے سبب تین ریفائنریز کو بارہ سے اکتیس دن کے لیے کام معطل کرنا پڑا۔
جون میں سرکاری کمپنی پاکستان اسٹیٹ آئل کے علاوہ تمام آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے مارکیٹ شیئر میں زبردست کمی ظاہر کی اور اس کی آڑ میں مزید پٹرول درآمد نہ کرنے اور قیمتیں مستحکم ہونے تک ذخیرہ اندوزی کا فیصلہ کیا۔پی ایس او کو قلت کے سبب ہنگامی طلب پورا کرنے کے لیے تنہا چھوڑ دیا گیا۔قیمتِ خرید اور فروخت میں خاصے فرق کے سبب بھاری مالی خسارہ ہوا۔
جیسے ہی جون کے اواخر میں نئی قیمتوں کا اعلان ہوا بہت سی کمپنیوں نے تیل کا اسٹاک سوفیصد گنجائش کے ذخیرے تک پہنچا دیا۔اسے عام الفاظ میں ذخیرہ اندوزی کہتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پی ایس او کے سوا تمام آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے ذخیرہ اندوزی کی چنانچہ صرف جون کے مہینے میں نجی تیل مارکیٹنگ کمپنیوں کو ساڑھے پانچ ارب روپے کا فائدہ پہنچا۔
تیل کی قلت عروج پر تھی اس کے باوجود اسی ملین لیٹر تیل لانے والے ایک بحری جہاز کو پندرہ روز تک برتھ نہیں ملی۔جب قیمتوں میں رد و بدل ہوا تب اسے آف لوڈ کیا گیا۔صرف اس ایک حرکت سے ذخیرہ اندوزوں کو دو ارب روپے کا فائدہ ہوا۔ ایک بڑی نجی آئل مارکیٹنگ کمپنی نے تیل کا ذخیرہ کر کے چار سو ملین روپے کمائے۔یہ بس ایک مثال ہے۔
حالانکہ صارفین تک تیل کی سپلائی چوالیس فیصد تک کم ہو گئی تھی۔مگرکمپنیوں نے کاغذوں میں اپنی سیلز کو زیادہ سے زیادہ ظاہر کیا۔اس کا مطلب ہے کہ تیل کی اوور سپلائی کے دعوے مشکوک ہو گئے جن کی بنیاد پر سرکار نے آنکھیں بند کر کے فیصلے کیے تھے۔
مثلاً لاک ڈاؤن کے سبب خیبر پختون خوا کے ضلع دیر پائین میں سیاحت ٹھپ پڑی تھی مگر وہاں پٹرولیم مصنوعات کی سپلائی کی ریکارڈ ڈلیوری دکھائی گئی۔ گجرات میں صرف ایک پٹرول پمپ پر تین ملین لیٹر کی ڈلیوری دکھائی گئی جب کہ وہاں پٹرول زخیرہ کرنے کی گنجائش صرف اکتیس ہزار لیٹر ہے۔چنانچہ کاغذوں پر اس کرتب بازی کے ذریعے کروڑوں روپے کا فائدہ ایک سے دوسرے کو منتقل ہوا۔ رپورٹ کے مطابق ایسی بیسیوں مثالیں ہیں۔
رپورٹ کے مطابق تمام بڑی مارکیٹنگ کمپنیاں اوگرا قوانین کے برعکس تیل مصنوعات کی مشترکہ اسٹوریج کر رہی ہیں۔اوگرا نے جتنے سیلز آؤٹ لیٹس کی اجازت دی تھی اس سے کہیں زیادہ قائم ہیں۔
مثلاً ایک کمپنی کو ذخیرہ کرنے کے لیے ستر آؤٹ لیٹس کی اجازت دی گئی لیکن اس کے چھ سو آؤٹ لیٹس ہیں۔ اس وقت آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے اکیس سو رٹیل آؤٹ لیٹس چالیس ٹن پٹرولیم مصنوعات کے لازمی ذخیرے کی سہولت کے بغیر کام کر رہے ہیں۔
اوگرا ان خلاف ورزیوں پر دس لاکھ روپے روزانہ تک کا جرمانہ عائد کرنے کی مجاز ہے۔مگر عملاً ایک لاکھ روپے تک کا جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔ذخیرہ اندوزی کے سبب منافع میں سے ایک لاکھ روپے جرمانہ بھرنا کسی بھی کمپنی کے لیے کون سی بڑی بات ہے۔
رپورٹ کے مطابق تیل کی ترسیل کے لیے استعمال ہونے والے آئل ٹینکر ٹرکوں کے پاس کیو کیٹگری کا لائسنس ہونا چاہیے۔مگر ایک بھی آئل ٹینکر کے پاس یہ لائسنس نہیں۔
کھائی جاؤ وے کھائی جاؤ بھید کنے کھولنا
وچوں وچوں کھائی جاؤ اتوں رولا پائی جاؤ
(استاد دامن)
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)
موجودہ حکومت قومی خزانے کی گردن پر سے اسٹیل ملز اور پی آئی اے سمیت متعدد سفید ہاتھیوں کا بوجھ اتارنا چاہ رہی ہے ، اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبوں کو ملنے والے مالیاتی حصے پر بھی نظرِ ثانی کی خواہش مند ہے ، ٹیکس کا دائرہ بھی بڑھانا چاہ رہی ہے ، آئی ایم ایف کی سفارشات کی روشنی میں پانی ، بجلی ، گیس کی قیمتوں میں اضافہ بھی کر رہی ہے۔ عوامی استعمال کی متعدد ضروری اشیا پر سرکاری سبسڈی کو بھی کم سے کم کرنا چاہ رہی ہے۔
سرمایہ کاروں اور زرِ مبادلہ کی زیادہ سے زیادہ ترسیل کی حوصلہ افزائی کے لیے دوست پالیسیاں بھی وضع کر رہی ہے۔سول سروس میں مستعدی اور پیشہ ورانہ اہلیت بڑھانے کے لیے اصلاحات کا منصوبہ بھی تکمیل پذیر ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اتنا پیسہ میسر آ سکے کہ کسی غیر کے آگے ہاتھ پھیلائے بغیر ترقیاتی کام اور میگا پروجیکٹس کو تیزی سے آگے بڑھا کر معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جاسکے۔
مگر معیشت کی بالٹی میں سوراخ اتنا بڑا ہے کہ فوری مرمت کی خاطر پرانے قرضے تو خیر کیا کم ہوں گے۔ان پر پچھلے ڈھائی برس میں تئیس اعشاریہ چھ ارب ڈالر کے نئے قرضوں کی تہہ چڑھ گئی ہے۔ان میں سے ساڑھے چار ارب ڈالر کے قرضے صرف نئے مالی سال کے پہلے پانچ ماہ ( جولائی تا نومبر ) میں حاصل کیے گئے ہیں۔یہ کسی نجی ادارے کے نہیں بلکہ وزارتِ اقتصادی امور کے جاری کردہ تازہ ترین اعداد و شمار ہیں۔
پچھلے ڈھائی برس میں آٹا ، چینی ، سیمنٹ سمیت کئی سکینڈلز سامنے آئے ہیں۔ان کے ڈانڈے گزشتہ ادوار سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔مگر اچھی بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت نہ صرف ان کی تحقیقات کروا رہی ہے بلکہ تحقیقاتی رپورٹیں عام بھی کر رہی ہے۔ان سکینڈلز کے تالاب میں کئی نجی و سرکاری شارکیں اور وہیل مچھلیاں اور مگرمچھ تیرتے نظر آ رہے ہیں۔ان رپورٹوں کی اشاعت کے بعد اب ان پر بھی کمند ڈلے گی کہ نہیں ؟ یہ بالکل الگ موضوع ہے۔
ان تمام اسکینڈلز کا باپ پٹرولیم اسکینڈل ہے۔ اس کی تفصیلی رپورٹ نے سرکاری و نجی شعبے و فیصلہ سازی کی چادر میں پوشیدہ بڑے بڑے سوراخوں کو عریاں کر کے رکھ دیا ہے۔یہ اسکینڈل اس لحاظ سے بھی کلیدی اہمیت رکھتا ہے کہ پاکستان کا کم ازکم چالیس فیصد زرِ مبادلہ پٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر صرف ہو جاتا ہے۔مگر اس شعبے کو باقاعدہ و منظم رکھنے کے نظام میں ایسے ایسے کمالات دکھائے گئے ہیں کہ عوام کی جیب بھی خالی ہو جائے اور پتہ بھی نہ چلے اور عوام کیا حکومتوں کو بھی پتہ نہ چلے۔
چند برس قبل سپریم کورٹ کے ایک سابق چیف جسٹس بھگوان داس کی سربراہی میں ایک کمیٹی نے توانائی کے شعبے میں کرپشن اور بد انتظامی سے متعلق لگ بھگ ایسی ہی رپورٹ تیار کی تھی۔اگر اس پر نصف عمل بھی ہوجاتا تو اس سال کے شروع میں عالمی منڈی میں کوویڈ کے سبب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں انتہائی کمی کے باوجود آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا)کے ہوتے ہوئے مصنوعی ذخیرہ اندوزی اور بدانتظامی کو عوام لوٹ پروگرام میں بطور ہتھیار استعمال شائد نہ کیا جا سکتا۔
تازہ رپورٹ میں جو متعدد سفارشات کی گئی ہیں ان میں اوگرا کے موجودہ ڈھانچے کے خاتمے اور وزارت پٹرولیم کے کلیدی اہلکاروں کی برطرفی و پوچھ گچھ کا مطالبہ بھی شامل ہے۔
رپورٹ کے مطابق اوگرا کا قیام دو ہزار دو میں عمل میں آیا مگر اس کے آپریشنل قوانین دو ہزار سولہ تک نافذ نہ ہو سکے۔یعنی چودہ برس تک ایس آر اوز ( عبوری حکم ناموں) کے ذریعے کام چلایا گیا۔
تیل درآمد کرنے کے تمام فیصلے آئل مارکیٹنگ کمپنیوں اور ریفائنریز پر مشتمل مشاورتی کونسل ( او سی اے سی ) کے فراہم کردہ اعداد و شمار کی روشنی میں کیے جاتے ہیں۔اوگرا ان اعداد و شمار کی صحت کی اپنے طور پر جانچ کرنے کی پابند ہے مگر ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔
چنانچہ اوگرا محض ایک نمائشی ریگولیٹری کٹھ پتلی میں تبدیل ہو چکی ہے۔یہ نجی آئل مارکیٹنگ کمپنیوں پر مشتمل مشاورتی کونسل ہی ہے جو تیل بردار جہازوں کی بندرگاہ میں برتھنگ میں ترجیح و تاخیر کی سفارش کر کے کسی بھی فریق کو فائدے یا نقصان سے دوچار کر سکتی ہے۔
جنوبی ایشیا کے پانچ ممالک میں آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کی تعداد بیس مگر پاکستان میں چونتیس ہے۔ ان میں سے اکیس کو دو ہزار سولہ کے صرف چھ ماہ میں لائسنس جاری ہوئے۔ جواز یہ پیش کیا گیا کہ جتنی زیادہ کمپنیاں ہوں گی اتنی ہی پٹرولیم اسٹوریج کی گنجائش میں بھی اضافہ ہوگا اور ان کے درمیان کاروباری مسابقت سے حکومت اور عوام کو فائدہ ہوگا۔
اوگرا قوانین کے تحت کوئی بھی آئل مارکیٹنگ کمپنی مطلوبہ ذخیرہ گنجائش بنائے بغیر مارکیٹنگ نہیں کر سکتی۔ مگر چونتیس میں سے پچیس کمپنیاں جنھیں عبوری لائسنس جاری کیے گئے اس پابندی کی پاسداری نہیں کرتیں۔
متعدد مارکیٹنگ کمپنیاں رٹیل آؤٹ لیٹ نہ ہونے کے باوجود پٹرولیم مصنوعات درآمد کر رہی ہیں۔حالانکہ رٹیل آؤٹ لیٹ کے بغیرکوٹے درآمدی کوٹہ الاٹ نہیں ہو سکتا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کمپنیاں کوٹے کے بغیر تیل منگوا رہی ہیں وہ اسے بڑی آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو فروخت کر رہی ہیں حالانکہ اس حرکت کی بھی اوگرا قوانین کے تحت سختی سے ممانعت ہے مگر اوگرا نے اس بے قاعدگی سے بھی آنکھیں موند رکھی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ڈی جی آئل پیشے کے اعتبار سے ڈنگر ڈاکٹر رہے ہیں۔انھوں نے کئی کمپنیوں کو امپورٹ لائسنس کے بغیر درآمد کی اجازت دی۔اور جس دن درآمدی مصنوعات پہنچیں اسی دن ان کمپنیوں کو امپورٹ لائسنس جاری کر دیے۔اب آپ اس سے جو نتیجہ چاہے اخذ کر لیں۔
گزشتہ اپریل سے جون تک کے تیل بحران کے بارے میں رپورٹ کہتی ہے کہ جنوری سے جون تک کے چھ ماہ کے دوران نوے فیصد آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے کسی بھی ہنگامی حالت سے نمٹنے کے لیے بیس دن کی ضروریات کے لیے تیل ذخیرہ کرنے کی لازمی شرط پوری نہیں کی کیونکہ تیل کی قیمتیں تیزی سے نیچے آ رہی تھیں۔فروری اور مارچ میں حکومت نے ریفائنریز کا اسٹاک اٹھانا کم کر دیا۔اور پھر عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں تیزی سے کمی کے باوجود تیل کی مزید درآمد پر یہ کہہ کر پابندی لگا دی گئی کہ ہم مقامی ریفائنریز کو اضافی سپلائی سے پیدا ہونے والی بلا ضرورت بہتات کے سبب ممکنہ مالی نقصان سے بچانا چاہتے ہیں۔
مگر اس دعویٰ کے برعکس جون میں پٹرولیم مصنوعات کی قلت کو اربوں روپے کے مالی نقصان کی شکل میں بھگتنا پڑا۔تیل کمپنیوں کے فراہم کردہ اعداد و شمار کی جانچ کیے بغیر تیل کی درآمد پر عارضی پابندی کے سبب تین ریفائنریز کو بارہ سے اکتیس دن کے لیے کام معطل کرنا پڑا۔
جون میں سرکاری کمپنی پاکستان اسٹیٹ آئل کے علاوہ تمام آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے مارکیٹ شیئر میں زبردست کمی ظاہر کی اور اس کی آڑ میں مزید پٹرول درآمد نہ کرنے اور قیمتیں مستحکم ہونے تک ذخیرہ اندوزی کا فیصلہ کیا۔پی ایس او کو قلت کے سبب ہنگامی طلب پورا کرنے کے لیے تنہا چھوڑ دیا گیا۔قیمتِ خرید اور فروخت میں خاصے فرق کے سبب بھاری مالی خسارہ ہوا۔
جیسے ہی جون کے اواخر میں نئی قیمتوں کا اعلان ہوا بہت سی کمپنیوں نے تیل کا اسٹاک سوفیصد گنجائش کے ذخیرے تک پہنچا دیا۔اسے عام الفاظ میں ذخیرہ اندوزی کہتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پی ایس او کے سوا تمام آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے ذخیرہ اندوزی کی چنانچہ صرف جون کے مہینے میں نجی تیل مارکیٹنگ کمپنیوں کو ساڑھے پانچ ارب روپے کا فائدہ پہنچا۔
تیل کی قلت عروج پر تھی اس کے باوجود اسی ملین لیٹر تیل لانے والے ایک بحری جہاز کو پندرہ روز تک برتھ نہیں ملی۔جب قیمتوں میں رد و بدل ہوا تب اسے آف لوڈ کیا گیا۔صرف اس ایک حرکت سے ذخیرہ اندوزوں کو دو ارب روپے کا فائدہ ہوا۔ ایک بڑی نجی آئل مارکیٹنگ کمپنی نے تیل کا ذخیرہ کر کے چار سو ملین روپے کمائے۔یہ بس ایک مثال ہے۔
حالانکہ صارفین تک تیل کی سپلائی چوالیس فیصد تک کم ہو گئی تھی۔مگرکمپنیوں نے کاغذوں میں اپنی سیلز کو زیادہ سے زیادہ ظاہر کیا۔اس کا مطلب ہے کہ تیل کی اوور سپلائی کے دعوے مشکوک ہو گئے جن کی بنیاد پر سرکار نے آنکھیں بند کر کے فیصلے کیے تھے۔
مثلاً لاک ڈاؤن کے سبب خیبر پختون خوا کے ضلع دیر پائین میں سیاحت ٹھپ پڑی تھی مگر وہاں پٹرولیم مصنوعات کی سپلائی کی ریکارڈ ڈلیوری دکھائی گئی۔ گجرات میں صرف ایک پٹرول پمپ پر تین ملین لیٹر کی ڈلیوری دکھائی گئی جب کہ وہاں پٹرول زخیرہ کرنے کی گنجائش صرف اکتیس ہزار لیٹر ہے۔چنانچہ کاغذوں پر اس کرتب بازی کے ذریعے کروڑوں روپے کا فائدہ ایک سے دوسرے کو منتقل ہوا۔ رپورٹ کے مطابق ایسی بیسیوں مثالیں ہیں۔
رپورٹ کے مطابق تمام بڑی مارکیٹنگ کمپنیاں اوگرا قوانین کے برعکس تیل مصنوعات کی مشترکہ اسٹوریج کر رہی ہیں۔اوگرا نے جتنے سیلز آؤٹ لیٹس کی اجازت دی تھی اس سے کہیں زیادہ قائم ہیں۔
مثلاً ایک کمپنی کو ذخیرہ کرنے کے لیے ستر آؤٹ لیٹس کی اجازت دی گئی لیکن اس کے چھ سو آؤٹ لیٹس ہیں۔ اس وقت آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے اکیس سو رٹیل آؤٹ لیٹس چالیس ٹن پٹرولیم مصنوعات کے لازمی ذخیرے کی سہولت کے بغیر کام کر رہے ہیں۔
اوگرا ان خلاف ورزیوں پر دس لاکھ روپے روزانہ تک کا جرمانہ عائد کرنے کی مجاز ہے۔مگر عملاً ایک لاکھ روپے تک کا جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔ذخیرہ اندوزی کے سبب منافع میں سے ایک لاکھ روپے جرمانہ بھرنا کسی بھی کمپنی کے لیے کون سی بڑی بات ہے۔
رپورٹ کے مطابق تیل کی ترسیل کے لیے استعمال ہونے والے آئل ٹینکر ٹرکوں کے پاس کیو کیٹگری کا لائسنس ہونا چاہیے۔مگر ایک بھی آئل ٹینکر کے پاس یہ لائسنس نہیں۔
کھائی جاؤ وے کھائی جاؤ بھید کنے کھولنا
وچوں وچوں کھائی جاؤ اتوں رولا پائی جاؤ
(استاد دامن)
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)