ہیروں کے کھیت میں
جہاں موجود ہو، جن لوگوں کے ساتھ موجود ہو، جس جگہ موجود ہو، وہیں خزانہ موجود ہے۔
"تم جانتے ہو کہ آخر عورتوں کو ہیرے کیوں پسند ہیں؟۔ اس نے ایک طائرانہ نظر اپنی طرف متوجہ ہجوم پر ڈالی اور پوچھا۔ اس کا سوال سن کر کئی پیشانیاں شکن آلود ہوگئیں۔
"اس لیے کہ ہیرے قدرت کی سب سے بہترین معدنیاتی تخلیق ہیں۔ جب کہ عورت خداوند کی سب سے خوبصورت حیوانی تخلیق ہے۔یوں بہترین، بہترین کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اس نے اپنی طرف سے یہ معمہ حل کر دیا اور کئی ناظرین کو سر ہلاتے دیکھا۔
پھر اس نے انھیں الحفیظ کی ہیرے کے کھیتوں والی کہانی سنائی۔
الحفیظ، دریائے سندھ کے کنارے طویل جائیداد کا مالک تھا۔ اس کی جاگیر میں پھل تھے، پھول تھے، باغات تھے، نہریں تھیں۔ وہ اپنے حساب کتاب سے علاقے کا بڑا چوہدری تھا اور شان سے زندگی گزار رہا تھا۔ مگر شاید اس کی قسمت میں کچھ مختلف لکھا تھا کہ ایک دن اس کی ملاقات اس سائیں لوک بدھ بھکشو سے ہوگئی جو کئی ملکوں کی خاک چھانتا ہوا اس کی جاگیر تک آن پہنچا تھا۔ ایک رات بکرے کی سجی پر ہاتھ صاف کرتے ہوئے اس پنکھ پکھیرو نے ہیرے کی کہانی شروع کر دی تھی اور جب ہیروں کی کہانی شروع ہو جائے تو تاریخ گواہ ہے کہ کچھ نہ کچھ دنگا ہو کر رہتا ہے۔
الحفیظ پر ہیروں کی کہانی سن کر سحر سا طاری ہو گیا۔ اس نے بھکشو سے لاتعداد سوالات پوچھے۔ اس نے زندگی بھر کوئی ہیرا نہیں دیکھا تھا۔ اس رات اس کے لیے سونا دشوار ہو گیا۔ وہ ایک ایسی چیز کی محبت میں گرفتار ہو چکا تھا جس کے بارے میں وہ بہت کم جانتا تھا۔ مگر اسے یقین تھا کہ اگر وہ ہیروں کی کان تک پہنچ گیا تو پھر اس دنیا کا سب سے طاقتور اور امیر ترین انسان بننے سے اسے کوئی نہیں روک سکتا۔
الحفیظ سے نیند اور چین روٹھ گیا۔ اسے اپنی جاگیر، اونٹ، گھوڑے، باغات اور ساری نعمتیں ہیچ لگنے لگیں۔ اسے محسوس ہوا کہ ہیروں کی کان پر تصرف جمائے بغیر وہ غربت میں لپٹا ہوا شخص ہے، جس کی عسرت سے اس کے گرد و نواح کے لوگ آگاہ نہیں ہیں، مگر وہ خود جانتا ہے کہ اس کے پلے کچھ نہیں ہے۔ انسانی دماغ بھی عجب چیز ہے۔ اس پر کچھ چھا جائے تو عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے۔ اگلے کچھ مہینوں میں الحفیظ نے اپنی ساری جاگیر فروخت کر دی اور ہیروں کی تلاش کے لیے ایک مہم تشکیل دے دی۔
اگلے کئی سال درد اور مشقت والے سال تھے۔ الحفیظ کی مہم کا آغاز تو دھوم دھام سے ہوا اور وہ پہاڑوں، ندیوں، دریاؤں اور صحراؤں میں ہیرے ڈھونڈتا رہا۔ پھر رفتہ رفتہ اس کا قافلہ ہلکا ہوتا گیا، اس کے پاس موجود ذرایع ختم ہونے لگے، اور ایک دن ایسا آیا کہ وہ اس مہم میں اکیلا رہ گیا۔ کہتے ہیں کہ ایک دن ایک پردرد صحرا میں بھوک، پیاس اور تھکن کے مارے اس نے اپنے آپ کو نخلستان کے پانیوں میں ڈبو لیا۔
الحفیظ کی جاگیر کچھ عرصہ تک بے آباد پڑی رہی۔ ایک دن اس کے نئے مالک نے اسے بسانے کا فیصلہ کیا اور بہت سے اونٹ اس مقصد کے لیے لائے گئے۔ نیا مالک اونٹوں کو پانی پلانے کے لیے نکلا۔ جب اس کے خدمت گزار اونٹوں کو پانی پلا رہے تھے تو اس نے پانی میں کوئی دمکتا ہوا پتھر دیکھا۔ تجسس کے مارے اسے اٹھایا اور اپنی جیب میں ڈال لیا۔ یہ ایک کالے رنگ کا پتھر تھا جس میں سے شعائیں نکل رہی تھیں۔ گھر آ کر اس نے اسے آتشدان کے پاس رکھ دیا اور بھول گیا۔
مہینوں بعد اس سائیں لوک کا گزر دوبارہ اس علاقے سے ہوا اور اس کی مہمان خانے میں خاطر مدارت کی گئی۔ باتوں باتوں میں اس کی نظر اس دمکتے ہوئے کالے پتھر پر پڑی تو وہ چونک اٹھا اور پوچھا کہ کیا الحفیظ واپس آ چکا ہے۔ نئے مالک نے بتایا کہ نہیں اور پھر اسے پتھر کے ملنے کی کہانی سنائی۔
بھکشو نے اُس کالے پتھر کو اٹھا کر خوب جانچا، پرکھا اور پھر اس کے منہ سے سسکاریاں سی نکلنے لگیں۔ وہ اپنی زندگی میں خام شکل کا سب سے بڑا ہیرا دیکھ رہا تھا۔ اس نے نئے مالک کو ہیروں کے بارے میں بتایا اور اس کے ساتھ جا کر پانی کے ذخیرے اور آس پاس کھدائی شروع کرا دی۔ معلوم ہوا کہ ایکڑوں تک پھیلے کھیتوں کے نیچے ہیروں کا سب سے بڑا خزانہ موجود ہے۔ یوں گولکنڈہ کے ہیروں کی کانوں کی بنیاد رکھی گئی جو دنیا میں سب سے بیش قیمت ہیروں کی سب سے بڑی دریافت تھی۔
ہیروں کے ایکڑوں کی کہانی کا نتیجہ بہت سادہ سا ہے۔ جہاں موجود ہو، جن لوگوں کے ساتھ موجود ہو، جس جگہ موجود ہو، وہیں خزانہ موجود ہے۔ ہاں بس یہ ہے کہ ہم اپنے صحن میں کھدائی نہیں کرتے۔ ہم امکانات کو کہیں اور کھوجتے ہیں اور اپنی زمین کے نیچے جھانکنا گوارا نہیں کرتے جس کی وجہ سے ہم مواقع اپنے ہاتھوں سے گنوا بیٹھتے ہیں۔ کوئی اور وہ کھدائی کرتا ہے تو وہ وہیں سے نئی دنیا پیدا کر لیتا ہے۔
دوسرا نتیجہ بھی واضح ہے کہ ہیرے کو پرکھنے والی آنکھ بھی ہیرے جتنی ضروری ہے۔ تبھی تومربی، مرشد، مینٹور اور استاد کی ضرورت ہے۔ ورنہ الحفیظ کو ہیروں کا سب سے بڑا خزانہ چھوڑ کر دربدر نہ ہونا پڑتا۔ یہ جاننا کہ ہم کس کان کے اوپر بیٹھے ہیں، ایک اور بڑی مہارت ہے جس کے لیے لازمی ہے کہ انسان کی آنکھ اس کے اپنے اوپر کھل جائے۔
الحفیظ کو ہیروں کی لالچ میں اپنی جاگیر بیچنے سے پہلے بہت کچھ کر لینا چاہیے تھا۔ سب سے پہلے تو اسے یہ سیکھنے کی ضرورت تھی کہ وہ ہیرے کی جانچ کا علم حاصل کرتا، پھر پتہ کرتا کہ وہ کس طرح کی زمینوں پر پائے جاتے ہیں، پھر بہتر ہوتا وہ کسی اور صاحب علم سے ہاتھ ملاتا اور مل جل کر وہ سارے مالامال ہو جاتے۔
ایک اور سبق بھی ہے۔ اگر آپ کو معلوم نہیں ہے کہ آپ کسے تلاش کر رہے ہیں تو اسے پانا ناممکن ہو جائے گا۔
یا پھر سب سے بڑا سبق ایک اور ہے۔ تم پہلے سے ہی ہیروں کی کان کے اندر موجود ہو۔ ہیروں کی کان میں ہی پیدا ہوئے ہو۔ اب بس کان کنی سیکھو۔ صاحب علم لوگوں سے ہیروں کی کان کنی سیکھو۔ کان کنی سے مراد ان مختلف مسائل کا علاج دریافت کرنا ہے جو ہمارے ارد گرد موجود ہیں۔ یہ ذہن میں رکھیں دنیا کے اکثر ارب پتی کسی نہ کسی مسئلے کا حل فراہم کر کے وہاں پہنچے ہیں۔ تاہم یاد رکھو ہیروں سے مراد صرف مال و دولت نہیں، جسم، عقل اور روح کے معاملات میں مہارت اور ماسٹری بھی ہے۔ اگر تم نے خاک چھاننے میں، کان کنی میں مہارت حاصل کر لی تو پھر تم خود ایک ہیرا بن جاؤ گے جو جتنا کٹتا جائے گا، اس کی روشنی اور قیمت میں اضافہ ہوتا جائے گا۔
( یہ شاندار کہانی امریکی پادری اور مصنف رسل کارنویل کی داستان "ایکڑ آف ڈائمنڈز" سے ماخوذ ہے جو اس نے 1869 میں سنانی شروع کی تھی۔ اس نے یہی داستان سنا کر لاکھوں ڈالرز اکٹھے کیے اور ساری رقم ٹیمپل یونیورسٹی کے قیام پر خرچ کر دی)
"اس لیے کہ ہیرے قدرت کی سب سے بہترین معدنیاتی تخلیق ہیں۔ جب کہ عورت خداوند کی سب سے خوبصورت حیوانی تخلیق ہے۔یوں بہترین، بہترین کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اس نے اپنی طرف سے یہ معمہ حل کر دیا اور کئی ناظرین کو سر ہلاتے دیکھا۔
پھر اس نے انھیں الحفیظ کی ہیرے کے کھیتوں والی کہانی سنائی۔
الحفیظ، دریائے سندھ کے کنارے طویل جائیداد کا مالک تھا۔ اس کی جاگیر میں پھل تھے، پھول تھے، باغات تھے، نہریں تھیں۔ وہ اپنے حساب کتاب سے علاقے کا بڑا چوہدری تھا اور شان سے زندگی گزار رہا تھا۔ مگر شاید اس کی قسمت میں کچھ مختلف لکھا تھا کہ ایک دن اس کی ملاقات اس سائیں لوک بدھ بھکشو سے ہوگئی جو کئی ملکوں کی خاک چھانتا ہوا اس کی جاگیر تک آن پہنچا تھا۔ ایک رات بکرے کی سجی پر ہاتھ صاف کرتے ہوئے اس پنکھ پکھیرو نے ہیرے کی کہانی شروع کر دی تھی اور جب ہیروں کی کہانی شروع ہو جائے تو تاریخ گواہ ہے کہ کچھ نہ کچھ دنگا ہو کر رہتا ہے۔
الحفیظ پر ہیروں کی کہانی سن کر سحر سا طاری ہو گیا۔ اس نے بھکشو سے لاتعداد سوالات پوچھے۔ اس نے زندگی بھر کوئی ہیرا نہیں دیکھا تھا۔ اس رات اس کے لیے سونا دشوار ہو گیا۔ وہ ایک ایسی چیز کی محبت میں گرفتار ہو چکا تھا جس کے بارے میں وہ بہت کم جانتا تھا۔ مگر اسے یقین تھا کہ اگر وہ ہیروں کی کان تک پہنچ گیا تو پھر اس دنیا کا سب سے طاقتور اور امیر ترین انسان بننے سے اسے کوئی نہیں روک سکتا۔
الحفیظ سے نیند اور چین روٹھ گیا۔ اسے اپنی جاگیر، اونٹ، گھوڑے، باغات اور ساری نعمتیں ہیچ لگنے لگیں۔ اسے محسوس ہوا کہ ہیروں کی کان پر تصرف جمائے بغیر وہ غربت میں لپٹا ہوا شخص ہے، جس کی عسرت سے اس کے گرد و نواح کے لوگ آگاہ نہیں ہیں، مگر وہ خود جانتا ہے کہ اس کے پلے کچھ نہیں ہے۔ انسانی دماغ بھی عجب چیز ہے۔ اس پر کچھ چھا جائے تو عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے۔ اگلے کچھ مہینوں میں الحفیظ نے اپنی ساری جاگیر فروخت کر دی اور ہیروں کی تلاش کے لیے ایک مہم تشکیل دے دی۔
اگلے کئی سال درد اور مشقت والے سال تھے۔ الحفیظ کی مہم کا آغاز تو دھوم دھام سے ہوا اور وہ پہاڑوں، ندیوں، دریاؤں اور صحراؤں میں ہیرے ڈھونڈتا رہا۔ پھر رفتہ رفتہ اس کا قافلہ ہلکا ہوتا گیا، اس کے پاس موجود ذرایع ختم ہونے لگے، اور ایک دن ایسا آیا کہ وہ اس مہم میں اکیلا رہ گیا۔ کہتے ہیں کہ ایک دن ایک پردرد صحرا میں بھوک، پیاس اور تھکن کے مارے اس نے اپنے آپ کو نخلستان کے پانیوں میں ڈبو لیا۔
الحفیظ کی جاگیر کچھ عرصہ تک بے آباد پڑی رہی۔ ایک دن اس کے نئے مالک نے اسے بسانے کا فیصلہ کیا اور بہت سے اونٹ اس مقصد کے لیے لائے گئے۔ نیا مالک اونٹوں کو پانی پلانے کے لیے نکلا۔ جب اس کے خدمت گزار اونٹوں کو پانی پلا رہے تھے تو اس نے پانی میں کوئی دمکتا ہوا پتھر دیکھا۔ تجسس کے مارے اسے اٹھایا اور اپنی جیب میں ڈال لیا۔ یہ ایک کالے رنگ کا پتھر تھا جس میں سے شعائیں نکل رہی تھیں۔ گھر آ کر اس نے اسے آتشدان کے پاس رکھ دیا اور بھول گیا۔
مہینوں بعد اس سائیں لوک کا گزر دوبارہ اس علاقے سے ہوا اور اس کی مہمان خانے میں خاطر مدارت کی گئی۔ باتوں باتوں میں اس کی نظر اس دمکتے ہوئے کالے پتھر پر پڑی تو وہ چونک اٹھا اور پوچھا کہ کیا الحفیظ واپس آ چکا ہے۔ نئے مالک نے بتایا کہ نہیں اور پھر اسے پتھر کے ملنے کی کہانی سنائی۔
بھکشو نے اُس کالے پتھر کو اٹھا کر خوب جانچا، پرکھا اور پھر اس کے منہ سے سسکاریاں سی نکلنے لگیں۔ وہ اپنی زندگی میں خام شکل کا سب سے بڑا ہیرا دیکھ رہا تھا۔ اس نے نئے مالک کو ہیروں کے بارے میں بتایا اور اس کے ساتھ جا کر پانی کے ذخیرے اور آس پاس کھدائی شروع کرا دی۔ معلوم ہوا کہ ایکڑوں تک پھیلے کھیتوں کے نیچے ہیروں کا سب سے بڑا خزانہ موجود ہے۔ یوں گولکنڈہ کے ہیروں کی کانوں کی بنیاد رکھی گئی جو دنیا میں سب سے بیش قیمت ہیروں کی سب سے بڑی دریافت تھی۔
ہیروں کے ایکڑوں کی کہانی کا نتیجہ بہت سادہ سا ہے۔ جہاں موجود ہو، جن لوگوں کے ساتھ موجود ہو، جس جگہ موجود ہو، وہیں خزانہ موجود ہے۔ ہاں بس یہ ہے کہ ہم اپنے صحن میں کھدائی نہیں کرتے۔ ہم امکانات کو کہیں اور کھوجتے ہیں اور اپنی زمین کے نیچے جھانکنا گوارا نہیں کرتے جس کی وجہ سے ہم مواقع اپنے ہاتھوں سے گنوا بیٹھتے ہیں۔ کوئی اور وہ کھدائی کرتا ہے تو وہ وہیں سے نئی دنیا پیدا کر لیتا ہے۔
دوسرا نتیجہ بھی واضح ہے کہ ہیرے کو پرکھنے والی آنکھ بھی ہیرے جتنی ضروری ہے۔ تبھی تومربی، مرشد، مینٹور اور استاد کی ضرورت ہے۔ ورنہ الحفیظ کو ہیروں کا سب سے بڑا خزانہ چھوڑ کر دربدر نہ ہونا پڑتا۔ یہ جاننا کہ ہم کس کان کے اوپر بیٹھے ہیں، ایک اور بڑی مہارت ہے جس کے لیے لازمی ہے کہ انسان کی آنکھ اس کے اپنے اوپر کھل جائے۔
الحفیظ کو ہیروں کی لالچ میں اپنی جاگیر بیچنے سے پہلے بہت کچھ کر لینا چاہیے تھا۔ سب سے پہلے تو اسے یہ سیکھنے کی ضرورت تھی کہ وہ ہیرے کی جانچ کا علم حاصل کرتا، پھر پتہ کرتا کہ وہ کس طرح کی زمینوں پر پائے جاتے ہیں، پھر بہتر ہوتا وہ کسی اور صاحب علم سے ہاتھ ملاتا اور مل جل کر وہ سارے مالامال ہو جاتے۔
ایک اور سبق بھی ہے۔ اگر آپ کو معلوم نہیں ہے کہ آپ کسے تلاش کر رہے ہیں تو اسے پانا ناممکن ہو جائے گا۔
یا پھر سب سے بڑا سبق ایک اور ہے۔ تم پہلے سے ہی ہیروں کی کان کے اندر موجود ہو۔ ہیروں کی کان میں ہی پیدا ہوئے ہو۔ اب بس کان کنی سیکھو۔ صاحب علم لوگوں سے ہیروں کی کان کنی سیکھو۔ کان کنی سے مراد ان مختلف مسائل کا علاج دریافت کرنا ہے جو ہمارے ارد گرد موجود ہیں۔ یہ ذہن میں رکھیں دنیا کے اکثر ارب پتی کسی نہ کسی مسئلے کا حل فراہم کر کے وہاں پہنچے ہیں۔ تاہم یاد رکھو ہیروں سے مراد صرف مال و دولت نہیں، جسم، عقل اور روح کے معاملات میں مہارت اور ماسٹری بھی ہے۔ اگر تم نے خاک چھاننے میں، کان کنی میں مہارت حاصل کر لی تو پھر تم خود ایک ہیرا بن جاؤ گے جو جتنا کٹتا جائے گا، اس کی روشنی اور قیمت میں اضافہ ہوتا جائے گا۔
( یہ شاندار کہانی امریکی پادری اور مصنف رسل کارنویل کی داستان "ایکڑ آف ڈائمنڈز" سے ماخوذ ہے جو اس نے 1869 میں سنانی شروع کی تھی۔ اس نے یہی داستان سنا کر لاکھوں ڈالرز اکٹھے کیے اور ساری رقم ٹیمپل یونیورسٹی کے قیام پر خرچ کر دی)