’’مارچ‘‘ سے پہلے ’’پی ڈی ایم‘‘ کا شیرازہ بکھر جائے گا ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان

پارلیمنٹ سے باہرموجود افراداستعفوں کی خواہش کررہے ہیں، پاکستان پیپلزپارٹی استعفے نہیں دے گی، معاون خصوصی برائے اطلاعات

وزیراعلیٰ پنجاب کی معاون خصوصی برائے اطلاعات کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال

وزیراعلیٰ پنجاب کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے گزشتہ دنوں ''ایکسپریس فورم'' میں خصوصی شرکت کی اور مختلف اہم معاملات پر اظہار خیال کیا، ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

پنجاب کا سیاسی مزاج ترش و تیز اور تلخ ہے۔میرا تعلق پنجاب سے ہے اور میں نے 10 سال پارلیمنٹ میں گزارے ہیں ، 7 وفاقی وزارتیں چلانے کا تجربہ بھی ہے۔ اسی کے پیش نظر مجھے پنجاب میں اہم ذمہ داریاں دی گئی ہیں جن میں ایک ذمہ داری پنجاب حکومت کی کارکردگی کو ہائی لائٹ کرنا اور عوام کے سامنے صحیح معنوں میں پیش کرنا ہے۔

سرجن ہونے کے ناطے سرجری میرا مشغلہ ہے، اب مجھے زندہ انسانوں کی جگہ زندہ لاشوں کا پوسٹ مارٹم کرنا پڑ رہا ہے، میں یہ کام بھی بخوبی نبھائوں گی مگر عوام کے مسائل کے حل کی راہ میں اپوزیشن سمیت کسی کو نہیں آنے دوں گی۔

بدقسمتی سے سابق حکمرانوں نے پنجاب کو گروی رکھا اورچلے گئے ۔سابق حکومت کے 1300 ارب کے اوور ڈرافٹنگ بل تھے اور ان کی جانب سے مختلف بینکوں کو دیے جانے والے چیک بھی ڈس آنر ہوچکے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ پنجاب حکومت کا پہلا بجٹ خسارے کا بجٹ تھا۔

افسوس ہے کہ سابق حکمرانوں نے الیکشن کو سامنے رکھ کر ایسے منصوبے بنائے جن میں نمود ونمائش اور شوبازی زیادہ تھی جبکہ عوام کے بنیادی مسائل سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ کسی بھی مہذب معاشرے میں تعلیم، صحت، پینے کا صاف پانی، خوراک وغیرہ بنیادی حیثیت رکھتے ہیں اور ان پر زیادہ کام کیا جاتا ہے مگر ماضی میں اس طرف توجہ نہیں دی گئی کیونکہ سابق حکمرانوں میں عوام کے درد اور احساس کی کمی تھی۔

اوور ہیڈ برج، میٹرو بس، اوورنج لائن ٹرین بننی چاہیے مگر عوام کی ضروریات کو دیکھتے ہوئے ترجیحات طے کی جاتی ہیں۔ 1992ء کے بعد لاہور میں ایک بھی میگا ہسپتال نہیں بنا۔ یہاں آبادی تو تیزی سے بڑھی

مگر سہولیات میں تیزی سے اضافہ نہیں ہوا۔ ہمارے منشور میں صحت اور تعلیم بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ وزیراعظم کے ویژن کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب اس حوالے سے ترجیحی بنیادوں پر کام کر رہے ہیں۔ ہم نے

صحت کی بہترین سہولیات اور معیاری تعلیم کے حوالے سے تیزی سے اقدامات کیے ہیں۔ ملک کی 65 فیصد یوتھ کی تعلیمی ضروریات پوری کرنے کیلئے ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کا کلیدی کردار ہے۔ گزشتہ حکومت نے یونیورسٹیوں کو چارٹر نہیں دیے مگر ہم نے جاری کر دیے ہیں جس کے بعد ان اداروں کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا رہا ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ اب روایتی تعلیمی نظام نہیں چلے گا، ہم دو نہیں ایک پاکستان کے نعرے پر عمل کرتے ہوئے یکساں نظام تعلیم پر کام کر رہے ہیں، اب امیر اور غریب کیلئے علیحدہ علیحدہ تعلیمی نصاب نہیں ہوگا۔ ہمارے مدارس بچوں کو دین کے ساتھ تو جوڑ رہے ہیں مگر دنیا کے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے بچوں کی کردار سازی نہیں ہورہی۔

ہم مدارس کو بھی جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کر رہے ہیں۔ ہم نے انہیں جدید دنیا میں حصہ دار بنایا ہے تاکہ بچوں کو دین کے ساتھ ساتھ نئی ٹیکنالوجی، انوویشن اور دنیوی تعلیم بھی دی جاسکے۔ ہم نے مدارس کے امتحانی شعبے کو ری سٹرکچر کیا ہے تاکہ صحیح معنوں میں بہتری لائی جاسکے۔

ہم نظام اور سوچ بدلنے آئے ہیں۔ نظام اس وقت تک نہیں بدل سکتا جب تک اس سے جڑے قوانین نہ بدلے جائیں لہٰذا ہم نے پاکستان بننے سے لے کر آج تک کے بڑے مسائل کے حل کیلئے قانون بدلنے پر کام کیا اور اس حوالے سے کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں کیا خاص کر ایسی اسمبلی میں جہاں سخت اور متحرک اپوزیشن تھی، ہم نے وہاں تاریخی قانون سازی کی، 90 کے قریب قوانین بنائے، اداروں کو مضبوط، بااختیار بنایا اور ان سے جڑے قوانین بناکر عوام کی فلاح و بہبود کے راستے میں موجود رکاوٹیں دور کیں۔

ہم نے عوام کے بنیادی چیلنجز کو دور کرنے کی کوشش کی۔ عدالتوں میں دھکے کھانے والے سائلین، حکم امتناعی کی وجہ سے سالہا سال چلنے والے کیسز کے متاثرین اور وراثتی حق سے محروم خواتین کیلئے پنجاب حکومت نے آسانیاں پیدا کی ہیں۔ ہم نے عدالتوں و اداروں کو آزاد کیا اور روایتی حکومتی مداخلت کو ختم کیا۔ ڈیجیٹل پاکستان وزیراعظم کا ویژن ہے۔ اسی کے پیش نظر ہم نے کرپشن کے خاتمے کیلئے شفاف نظام متعارف کروایا اور آن لائن ڈیجیٹل ٹیکنالوجی پر مبنی ادارہ جاتی اصلاحات کی۔

کرپشن پر ہماری ''زیرو ٹالرنس'' کی پالیسی ہے۔ ہم نے کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز کے خاتمہ کیلئے یہ ماڈل بنایا کہ اگر ہماری صفوں میں بھی کسی پر انگلی اٹھتی ہے تو جب تک وہ کلیئر ہوکر نہیں آئے گا تب تک اسے ٹیم سے نکال دیا جائے گا، ہم نے ایسا ہی کیا اور یہی پالیسی اب بھی جاری ہے۔

زراعت ہماری ریڑھ کی ہڈی ہے اور صوبہ پنجاب ملک بھر کی 75 سے 80فیصد زرعی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کاٹیج انڈسٹری اور چھوٹی صنعت بھی اہم ہے۔ فیصل آباد،گوجرانوالہ اور سیالکوٹ ایسے شہر ہیں جو قیمتی زرمبادلہ کما کر دیتے ہیں۔ پنجاب کے ان اہم ستونوں میں جو اصلاحات چاہئیں تھی، جدید تقاضوں کے مطابق جو ری سٹرکچرنگ ضروری تھی،جس طرح کی انوویٹیو پالیسیاں چاہئیں تھی،عملدرآمد کا جو میکانزم اور جتنے فنڈز درکار تھے وہ نہیں دیے گئے۔ یہ پانچ اہم کام تھے جو سابق حکومتوں نے نہیں کیے جس کے باعث ہماری زراعت و صنعت تباہ ہوتی گئی۔

میں خود ایک کسان ہوں اور سمجھتی ہوں کہ ہمارے ہاں کسان پس رہا ہے۔ اس وقت بجلی، کھاد اور بیج مہنگا ہے جبکہ اجناس کی سپورٹ پرائس مناسب نہ ہونے کی وجہ سے جو منافع کسان کا حق بنتا ہے وہ بھی اسے نہیں ملتا۔ ان چیزوں سے بڑے کسانوں کو تو شاید فرق نہ پڑے مگر چھوٹے کسان کو ضرور پڑتا ہے۔ 10 سال مسلم لیگ (ن) کی حکومت رہی مگر انہوں نے پنجاب میں گندم کی سپورٹ پرائس کو نہیں بڑھایا جس کی وجہ سے کسان نے گندم اگانے میں لیت و لعل سے کام لیا اور بحران پیدا ہوگیا۔ زرعی ملک اور صوبہ ہونے کے باوجود آٹے اور روٹی کے حوالے سے چیلنجز سامنے آئے۔

ہم نے پنجاب کی پہلی زرعی پالیسی دی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہماری توجہ صنعت پر بھی ہے۔ کوئی بھی قوم قرضوں اور بیرونی امداد سے نہیں چل سکتی اور نہ ہی عوام کی ترقی اور خوشحالی کے خواب کو تعبیر دے سکتی ہے۔ ہمیں خود انحصاری کی طرف جانا ہے جو ہماری ٹریڈ، ایکسپورٹ، سکل ڈویلپمنٹ اور ہیومن ریسورس سے جڑی ہے۔

پنجاب کی کاٹیج انڈسٹری اور چھوٹی صنعت ناممکن کو ممکن بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ کھیلوں کا سامان، سرجیکل آلات، چمڑہ، ٹیکسٹائل و ہزاروں ایسی اشیاء ہیں جو پنجاب دنیا بھر کو ایکسپورٹ کرتا ہے، ان میں فیصل آباد، سیالکوٹ اور گوجرانوالہ انتہائی اہم ہیں۔ جب ہماری حکومت آئی تو فیصل آباد کی صنعت بند تھی، تاجر بے روزگار تھے، محنت کشوں اور مزدوروں کے گھروں کے چولہے ڈھنڈے ہوچکے تھے۔ ہم نے مزدور اور تاجردوست پالیسیاں بنائی جس سے صنعتیں دوبارہ بحال ہوئیں اور آج تاجر وزیراعظم عمران خان کے پیچھے کھڑے ہیں۔

وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے انڈسٹریل اسٹیٹ کا دائرہ کار وسیع کیا اور تمام صنعتوں کے مسائل کا حل وزیراعلیٰ یا سربراہ بن کر نہیں بلکہ ورکر بن کر کیا۔ اس وقت وزیراعلیٰ کی کاوشوں سے پنجاب کی صنعت کا پہیہ، غریب کے گھر کا چولہا اور ملکی معیشت چل رہی ہے۔

ملک میں مسائل بے شمار ہیں مگر ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک گورننس ٹھیک نہیں ہوگی اور افسر شاہی عوام کے سامنے جوابدہ نہیں ہوگی تب تک ملک اور قوم ترقی نہیں کرسکتی۔ وزیراعظم عمران خان ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں۔ اس ریاست میں حکمران عوام کو جوابدہ تھا۔ ہم ہر قدم پر عوام کو جوابدہ ہیں۔ یہ پہلی حکومت ہے جس میں ہر کوئی کھل کر بات کرتا ہے، اپنے مسائل کی نشاندہی کرتا ہے اور حکومت نے کسی کی زبان بندی نہیں کی۔ ہم نے کسی کے ساتھ ٹارگٹڈ ناانصافی نہیں کی۔


میں گزشتہ 20 برس سے اس صوبے میں سیاست کر رہی ہوں۔ میں نے دیکھا کہ تھانے شخصیات کے تابع کر دیے گئے اور سیاستدان تھانوں کو یرغمال بناتے رہے۔ یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے پنجاب پولیس کو ہر طرح کی سیاسی مداخلت سے پاک کر دیا ہے۔ اب وہاں میرٹ اور قانون کی حکمرانی ہے۔ ہم پہلے پولیس کے نظام میں اصلاحات لائے اور اب اس کے پورے ڈھانچے کو تبدیل کرنے پرکام کا آغاز کردیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک عوام کو ریلیف دینے والے تھانے اور کچہری کا نظام نہیں بدلیں گے تب تک مسائل حل نہیں ہوں گے۔

ہمارے مخالفین صرف پولیس کا یونیفارم بدل کر گئے مگر نظام اور سوچ اسی طرح زندہ رہی۔ ہم نے یونیفارم ہی نہیں بلکہ ان کی سوچ بدلنے کیلئے جدوجہد کی ہے تاکہ نچلی سطح پر عوام کے مسائل حل کرنے میں مدد ملے۔ ہماری سیاست تھانے اور کچہری کے گرد گھومتی ہے۔ آدھے لوگ مجرم کو پکڑوانے کیلئے عوامی نمائندوں کے پاس آتے تھے اور پکڑے جانے کے بعد آدھے لوگ چھڑوانے کیلئے آجاتے تھے۔

وزیراعظم کی ہدایت پر وزیراعلیٰ پنجاب نے اس ادارے کو سیاستدانوں کے چنگل سے آزاد کروا دیا اور تھانے کو ایک آزاد اور حقائق پر مبنی، میرٹ پر مبنی سٹرکچر میں تبدیل کر دیا۔ پولیس کے بعد اگلا نظام کچہری کا ہے جہاں تحصیل دار اور پٹواری سارا دن لوگوں کی جیبیں کاٹتے تھے، فرد بکتی تھی اور ذاتی ملکیت کے کاغذات لینے والوں کو بھی نذرانہ دینا پڑتا تھا۔ اس کرپشن کو ختم کرنے کیلئے وزیراعلیٰ کی ہدایت پر اراضی سینٹرز بنائے گئے جن کا آغاز دور دراز علاقوں اور دیہاتوں سے کیا گیا۔

پنجاب کے ان 18 ۱راضی سینٹرز کا مکمل ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ ہے ۔ گزشتہ حکومت نے بڑے شہروں میں یہ سینٹرز قائم کیے تو وہاں دور دراز علاقوں سے آنے والے لوگوں کا رش لگ جاتا تھا جنہیں شام کو واپس جانا ہوتا تھا۔ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کمپیوٹر پر بیٹھے افراد نے رشوت بڑھا دی، پٹواری جو کام 100 روپے میں کرتا تھا انہوں نے اس کے بدلے 1000 روپے رشوت لینی شروع کردی لہٰذا ان کی حوصلہ شکنی اور اجارہ داری توڑنے کیلئے ہم یہ سہولت لوگوں کے گھر کی دہلیز پر لے گئے۔

ایک سینٹر کا افتتاح وزیراعظم عمران خان نے میرے حلقے کے ایک چک میں کیا جس سے دیہی علاقوں کے لوگوں کو سہولت ملی۔ وہاں کیمرے نصب ہیں اور مکمل مانیٹرنگ کی جارہی ہے۔ یہ منصوبہ پنجاب حکومت نے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی سرپرستی متعارف کرایا جس سے لاکھوں لوگ مستفید ہورہے ہیں اور اس سے کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز کا خاتمہ ہوگیا ہے۔

ہم نے گزشتہ دو برسوں میں ماضی کے برعکس لوگوں کو عزت نفس دی اور اپنے مخالفین کو بھی جینے کا حق دیا۔وزیراعلیٰ پنجاب صوبے کو ترقی اور خوشحالی کی نئی سوچ کے ساتھ آگے لے کر چل رہے ہیں۔ سابقہ ادوار میں حکومت بدلنے کے ساتھ ہی گزشتہ حکومت کے تمام منصوبے روک دیے جاتے تھے مگر ہم نے روایتی سیاست نہیں کی بلکہ سابق حکومت کے زیرتکمیل منصوبوں کو مکمل کیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ منصوبے عوام کے پیسے سے شروع کیے گئے لہٰذا یہ پیسہ ضائع نہیں ہونا چاہیے بلکہ عوام کو سہولت ملنی چاہیے۔

وزیراعلیٰ عثمان بزدار کفایت شعاری کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور یہ پنجاب کا محور و مرکز ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے ویژن کے مطابق وزیراعلیٰ اور وزراء نے اس کا آغاز اپنی ذات سے کیا اور ایک نئی مثال قائم کی۔ سابق وزیراعلیٰ نے شہ خرچیاں کی، چار چار کیمپ آفس قائم کر رکھے تھے اور ان کی سکیورٹی پر عوام کے کروڑوں روپے خرچ کیے گئے۔ ان کے برعکس درویش صفت وزیراعلیٰ عثمان بزدار کا ٹارگٹ خودنمائی نہیں ہے۔ انہوں نے ڈھائی سال محنت کرکے عوام دوست پالیسیاں بنائی، عوامی فلاح کے منصوبے کیے جن کے ثمرات قوم کے سامنے آنا شروع ہوچکے ہیں۔

ہم نے پنجاب کو بدلا ہے اور تبدیلی کا یہ عمل ابھی بھی جاری ہے۔ آئندہ ڈھائی برسوں میں بھی عوام دوست سوچ کے ساتھ عوام کے مسائل حل کرنے پر توجہ دی جائے گی تاکہ عوامی توقعات پر پورا اترا جاسکے۔سابق حکومتوں کے لگائے گئے افسران گڈ گورننس میں رکاوٹ ہیں،یہی وجہ ہے کہ بار بار تبدیلیاں کرنا پڑتی ہیں، مہنگائی پر قابو پانے کیلئے سخت اقدامات کیے جارہے ہیں، مافیاز کو کسی بھی طور معاف نہیں کیا جائے گا۔

جلسے جلوس، حکومت پر تنقید کرنا اور بہتری کیلئے بیانیہ دینا اپوزیشن کا حق ہے، ہم اسے تسلیم کرتے ہیں ۔ اس کے لیے ان کی مدد کرناہماری آئینی ذمہ داری ہے اور یہی حقیقی جمہوریت ہے۔ اگر حالات معمول

کے مطابق ہوں تو ہمیں اپوزیشن کو روکنے کی ضرورت نہ پڑے مگر اس وقت ہم کورونا وائرس کی وجہ سے حالت جنگ میں ہیں۔ ایک ایسے دشمن کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں جو نظر ہی نہیں آتا۔ اس دشمن سے

نمٹنے کیلئے ابھی تک صحت کے شعبے میں اچھا مقام رکھنے والے ممالک نے بھی کوئی لائحہ عمل نہیں دیا بلکہ وہ بھی کسی حد تک اس میں ناکام نظر آئے ہیں۔ اب اس کی ویکسین آچکی ہے، امید ہے دنیا جلد اس وباء قابو پانے میں کامیاب ہوجائے گی۔ جلسے جلوس اپوزیشن کیلئے سیاسی ٹانک ہے۔ اس کے بغیر اپوزیشن کا زندہ رہنا مشکل ہے مگر ہمارے لیے اس وقت اپوزیشن کے بیانیے کو زندہ رکھنے سے زیادہ عوام کو زندہ رکھنا ضروری ہے اور یہ ہماری قانونی ذمہ داری ہے۔

13 دسمبر کو آر ہوا نہ پار ہوامگراپوزیشن کا بیانیہ سرحد پار ہوا۔ پی ڈی ایم نے جلسے کا خوب شور مچایا، مریم نواز نے جلسے کی کامیابی کے لئے لاہور کی گلیوں میں چکر لگائے لیکن اس کے باوجود لاہوریوں

نے غیرآئینی اور غیرقانونی اجتماع اور پی ڈی ایم کے بیانیے کو مسترد کیا۔ یہ جلسہ جاتی امراء کے محلات میں بسنے والوں کیلئے ایک ڈرائونا خواب ثابت ہوا۔ عوام کے سامنے اور میڈیا پر کامیاب جلسے کی بڑکیں مارنے والے اپنے اجلاس میں دست و گریباں نظر آئے اور اب ناکام جلسے کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں۔ مریم بی بی کو سمجھانا چاہیے کہ جلسہ ناکامی کی وجہ کارکنان نہیں بلکہ ان کا بیانیہ ہے۔ اس بیانیے کے ساتھ کوئی بھی ذی شعور انسان کھڑا نہیں ہو گا۔ اپوزیشن تصادم اور لاشیں چاہتی ہے۔

ملتان جلسے میں بھی ایسی ہی اطلاعات تھیں، لاہور جلسے میں بھی یہ ایسا ہی چاہتے تھے مگر ہم نے کسی قسم کی کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کی اور نہ ہی سابق حکومت کی طرح معصوم لوگوں پر شیلنگ، آنسو گیس اور سیدھی گولیاں برسائیں ۔ حکومت نے بہترین حکمت عملی سے تصادم، فساد اور انتشار کے جڑے ایجنڈے کو ناکام بنایا۔ وزیراعلی اور حکومت کی جانب سے پنجاب کی تمام سیکورٹی اداروں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ کورونا وائرس کے حوالے سے عدالتی فیصلے پر حکومت اپنی ذمہ داری پوری کرے گی، اس کے علاوہ انفیکشن ڈیزیز کنٹرول ایکٹ موجود ہے، این سی او سی کے فیصلے بھی ہیں لہٰذا غیرقانونی عمل کے حوالے سے قانون اپنا راستہ بنائے گا۔

یہ استعفے کی باتیں کرتے ہیں، لگتا ہے ان کے استعفے پیدل آ رہے ہیں اس لیے یہ لوگ تاریخ پر تاریخ دے رہے ہیں۔ جنہوں نے استعفے دینے ہوتے ہیں وہ اس طرح ڈرامے نہیں کرتے۔ پارلیمنٹ سے باہر موجود افراد

استعفوں کی خواہش کر رہے ہیں، پیپلز پارٹی کے گھر کا بھیدی ہونے کی حیثیت سے میں یہ بتانا چاہتی ہوں کہ پیپلز پارٹی کا جینا اور مرنا اقتدار کے ساتھ ہے، وہ کبھی خود کو شاہی خاندان کے تابع نہیں کرے گی اور نہ ہی اسمبلیوں سے استعفے دے گی۔ پی ڈی ایم والے محض ایک دوسرے کو تسلی دینے کیلئے استعفوں کی باتیں کر رہے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ عوام نے ان کے ہاتھوں سے اقتدار کی لکیریں مٹا دی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے صوبائی اسمبلیوں کے اراکین پارٹی چھوڑنے کیلئے تیار ہیں اور مسلسل رابطے میں ہیں، عثمان بزدار مناسب وقت پر یہ کارڈ کھیلیں گے۔

مولانافضل الرحمن، بلاول بھٹو اور مریم نواز کا ''اتحاد ثلاثہ'' اپنی مردہ سیاست میں جان ڈالنے کے لیے ملک میں داخلی انتشار کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں جسے حکومت ہر بار ناکام بنا دیتی ہے۔ مریم نواز گرفتاری سے اپنا سیاسی قد بڑھانا چاہتی ہے،انہیں کسی سیاسی مقدمے میں گرفتار کرکے سستی شہرت حاصل نہیں کرنے دی جائے گی، ان کے خلاف کرپشن کے کیسز موجود ہیں جن پر فیصلہ کرنے کیلئے عدالتیں آزاد ہیں۔

اپوزیشن نے "میں نہ مانوں کی رٹ "لگا کر کچھ حاصل نہیں کرسکتی۔ وزیراعظم نے ان کے استعفے کے مطالبے کو یکسر مسترد کر دیا ہے اور واضح کیا ہے کہ وہ انہیں ''این آر او'' نہیں دیں گے۔ لندن مفرور اشتہاری کی ریاست مخالف تقریر کے وقت عوام ناکام شو سے تنگ آکر جا چکے تھے، قومی سلامتی کے اداروں کو متازعہ بنانا اور ملکی دفاع کو کمزور کرنے کا بیانیہ پاکستان مخالف ہے، جو خود مفرور، اشتہاری اور مطلوب ہو، اسے نیک مطلوب ہی رہنا چاہیے۔

پی ڈی ایم کا لانگ مارچ ''دل پشاوری'' فارمولا ہے۔ مارچ ابھی بہت دور ہے، ''مارچ'' تک تو خود پی ڈی ایم کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ بیک ڈور رابطوں کی باتیں اپوزیشن کی ''شرلیاں''ہیں، اپوزیشن سے خفیہ رابطوں

کا مینڈیٹ کسی کو نہیں دیا گیا تاہم ریاست کے نزدیک ڈی فار ڈنڈا نہیں ڈی فار ڈائیلاگ ہے، سیاستدانوں کی نانی سانجھی ہے، جب انہیں لگا کہ کوئی تیسری قوت آسکتی ہے تو یہ سر جوڑ کر بیٹھ جائیں گے۔
Load Next Story