پنجاب میں فضاٗئی آلودگی برقرار سانس اورجلدی امراض کی بیماریاں پھیلنے لگیں
حکومت ماحولیاتی آلودگی کے مستقل خاتمے کے لئے اقدامات اٹھانے کی بجائے ڈیٹا کو متنازعہ بنارہی ہے، ماہرین
پنجاب حکومت کے اقدامات کے باوجود صوبے میں فضاٗئی آلودگی برقرار ہے اور لوگوں میں سانس اور جلدی بیماریاں پھیلنے لگی ہیں۔
لاہورسمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں فضائی آلودگی کی وجہ سے شہری سانس، ٹی بی، آنکھوں کی جلن اورجلدی امراض کا شکار ہورہے ہیں جبکہ دل کے امراض کے لئے بھی فضائی آلودگی خطرناک ثابت ہورہی ہے،رات کے وقت سردی سے بچنے کے لئے لکڑیاں اورکوئلہ جلائے جانے سے آلودگی بڑھ رہی ہے۔ ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے شہرکے انتہائی آلودہ علاقوں میں جانے سے گریزکیاجائے جبکہ موٹرسائیکل سواربھی ماسک کا استعمال لازمی کریں۔
لاہور میں گزشتہ کئی ہفتوں سے فضا آلودہ ہے، اس کی بڑی وجہ سردیوں میں آگ جلانے کے لئے لکڑیوں اورکوئلے کا استعمال، کوڑا کرکٹ کا جلایاجانا، گاڑیوں، فرنس ملوں اور کارخانوں کا دھواں، اینٹوں کے بھٹوں کا دھواں اور جرنیٹرز کے دھویں میں شامل زہریلے عناصر ہیں۔
ماہرماحولیات داورحمید بٹ نے ٹربیون سے بات کرتے ہوئے کہا مختلف پاورپلانٹس، فرنس ملوں اورکارخانوں میں ہیوی جنریٹراستعمال ہوتے ہیں ان سے خارج ہونیوالادھواں فضاکوآلودہ کررہا ہے، اسی طرح ہرسال صرف لاہور میں 16 فیصد عام گاڑیاں جبکہ 36 فیصد موٹرسائیکل فروخت ہوتے ہیں۔ان میں استعمال ہونیوالاغیرمعیاری ایندھن بھی فضائی آلودگی کا سبب بن رہا ہے۔ اسی طرح آج کل سردیوں میں شہروں اوردیہاتوں میں رات کے وقت مختلف علاقوں میں لکڑیوں اورکوئلے کی مدد سے آگ جلائی جاتی ہے۔گرم دھواں رات کے وقت دھندمیں شامل ہوکرناصرف سموگ کا سبب بنتا ہے بلکہ فضائی آلودگی بھی پیداہوتی ہے۔
کیا لاہورواقعی دنیا کی آلودہ ترین شہروں میں سرفہرست ہے؟ اس سوال کے جواب میں داورحمیدبٹ کہتے ہیں لاہورمیں آلودگی ہے لیکن پورے دن کے مخصوص اوقات اورعلاقے کے ڈیٹا کو لے کر پورے شہر کو آلودہ قراردینا درست نہیں ہے۔ لاہور میں یوایس قونصل خانے کی طرف سے آلودگی کی جانچ کی جدید ترین ڈیوائسز لگائی گئی ہیں، خود محکمہ تحفظ ماحولیات نے مختلف ایریازمیں ڈیوائسز نصب کررکھی ہیں اس کے علاوہ بڑے تعلیمی اورصعنتی اداروں نے بھی نجی طورپر ایئر کوالٹی کی جانچ کے لئے ڈیوائسز لگارکھی ہیں۔ یوایس کی طرف سے لگائی گئی ڈیوائسزکا ڈیٹا ہر ایک گھنٹے بعد اپ ڈیٹ کیاجاتا ہے۔ جن اوقات میں آلودگی کی شرح زیادہ آتی ہے میڈیا اسی ڈیٹا کو نشر کرنا شروع کردیتا ہے جوکہ درست نہیں ہے، کسی بھی شہرکی ایئرکوالٹی کی جانچ کے لئے 24 گھنٹوں کی اوسط شرح نکالنی چاہیے لیکن یہاں ایسانہیں ہوتا ہے۔
دوسری طرف محکمہ تحفظ ماحولیات پنجاب کی طرف اسے الزام لگایاجاتا ہے کہ غیر سرکاری اداروں کی طرف سے فضاٗئی آلودگی سے متعلق غلط اعدادوشمار جاری کیئے جاتے ہیں جس سے ملک کی بدنامی ہوتی ہیں، محکمہ ماحولیات کے حکام کے مطابق ایئر کوالٹی انڈیکس اور امریکی قونصل خانے کی طرف سے نصب ڈیوائسز درست ڈیٹا فراہم نہیں کرتیں اور یہ ڈیوائسز دھند اورآلودگی میں بھی فرق نہیں کرپاتیں لیکن ماہرماحولیات داورحمید بٹ کہتے ہیں امریکی قونصل خانے نے جدید ترین ڈیوائسز نصب کررکھی ہیں ان سمیت ماحولیات پرتحقیق کرنیوالے کئی ادارے یوایس قونصل خانے کے ڈیٹا کو مستند مانتے ہیں۔ حکومت ماحولیاتی آلودگی کے مستقل خاتمے کے لئے اقدامات اٹھانے کی بجائے ڈیٹا کو متنازع بنارہی ہے۔
پنجاب حکومت صوبے میں آلوگی کے مستقل خاتمے کے لیے کیااقدامات اٹھارہی ہے اس بارے صوبائی وزیر تحفظ ماحولیات باؤ محمدرضوان نے بتایا پہلے نمبرپر اینٹوں کے روایتی بھٹوں کوزگ زیگ پرمنتقل کیا گیا ہے۔ اسی طرح گاڑیوں میں یوروفائیوفیول استعمال کرنے جارہے ہیں،اب ہمارا فوکس غیرمعیاری اورجعلی موبل آئل ہے ، اس حوالے سے تمام اضلاع کے متعلقہ حکام کو ہدایات جاری کردی گئی ہیں کہ جعلی موبل آئل تیارکرنیوالوں کیخلاف کریک ڈاؤن کیاجائے۔ اسی طرح فصلوں کوباقیات کو جلانے کے عمل میں کمی آئی ہے اورمحکمہ زراعت نے ایسی مشینری خریدناشروع کردی ہے جس سے فصلوں کومڈھوں سمیت کاٹاجاسکے گا۔ انہوں نے کہا فرنس ملزہوں، زگ زیگ پرمنتقل ہونیوالے بھٹے یاعام کارخانے جو بھی ایساایندھن استعمال کریگا جس سے فضاٗئی آلودگی پیداہوتی ہے اسے بند کردیا جائے گا۔
محمد رضوان کے مطابق تحفظ ماحولیات پنجاب کی آفیشل ویب سائٹ پر لاہورسمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں ائیرانڈیکس کوالٹی، فضا میں موجود ناٗٹروجن ڈاٗئی آکسائیڈ این او2 مقدارسے متعلق مستنداعدادوشمار فراہم کیے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فضاٗئی آلودگی کی جانچ کرنیوالی ڈیوائسزمرمت کروالی گئی ہیں جبکہ مزید 30 ڈیوائسزخریدی گئی ہیں جوآئندہ 6 ماہ تک مختلف شہروں میں انسٹال کی جائیں گی، یہ منصوبہ ورلڈبنک کی معاونت سے مکمل کیاجارہا ہے، ایک ڈیوائس کی قیمت ڈھائی سے تین کروڑ روپے تک ہے۔
ماہرماحولیات داورحمید بٹ کہتے ہیں سردیوں میں لکڑی اورکوئلہ جلانے پر پابندی لگائی جائے اورلوگوں کو متبادل کے طور پر گیس سمیت سستا ایندھن استعمال کے لئے دیا جائے اور لوگوں میں آگاہی پیداکی جائے کہ آگ جلانے کی بجائے سردی سے بچنے کے لئے گرم کپڑے استعمال کریں، اسی طرح ایل این جی جلدسے جلدپاکستان لائی جائے، سولرانرجی کوفروغ دیاجائے اورسب سے بڑھ کریہ کہ آلودگی پیداکرنیوالے ذرائع کی مانیٹرنگ ہونی چاہیے۔
لاہورسمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں فضائی آلودگی کی وجہ سے شہری سانس، ٹی بی، آنکھوں کی جلن اورجلدی امراض کا شکار ہورہے ہیں جبکہ دل کے امراض کے لئے بھی فضائی آلودگی خطرناک ثابت ہورہی ہے،رات کے وقت سردی سے بچنے کے لئے لکڑیاں اورکوئلہ جلائے جانے سے آلودگی بڑھ رہی ہے۔ ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے شہرکے انتہائی آلودہ علاقوں میں جانے سے گریزکیاجائے جبکہ موٹرسائیکل سواربھی ماسک کا استعمال لازمی کریں۔
لاہور میں گزشتہ کئی ہفتوں سے فضا آلودہ ہے، اس کی بڑی وجہ سردیوں میں آگ جلانے کے لئے لکڑیوں اورکوئلے کا استعمال، کوڑا کرکٹ کا جلایاجانا، گاڑیوں، فرنس ملوں اور کارخانوں کا دھواں، اینٹوں کے بھٹوں کا دھواں اور جرنیٹرز کے دھویں میں شامل زہریلے عناصر ہیں۔
ماہرماحولیات داورحمید بٹ نے ٹربیون سے بات کرتے ہوئے کہا مختلف پاورپلانٹس، فرنس ملوں اورکارخانوں میں ہیوی جنریٹراستعمال ہوتے ہیں ان سے خارج ہونیوالادھواں فضاکوآلودہ کررہا ہے، اسی طرح ہرسال صرف لاہور میں 16 فیصد عام گاڑیاں جبکہ 36 فیصد موٹرسائیکل فروخت ہوتے ہیں۔ان میں استعمال ہونیوالاغیرمعیاری ایندھن بھی فضائی آلودگی کا سبب بن رہا ہے۔ اسی طرح آج کل سردیوں میں شہروں اوردیہاتوں میں رات کے وقت مختلف علاقوں میں لکڑیوں اورکوئلے کی مدد سے آگ جلائی جاتی ہے۔گرم دھواں رات کے وقت دھندمیں شامل ہوکرناصرف سموگ کا سبب بنتا ہے بلکہ فضائی آلودگی بھی پیداہوتی ہے۔
کیا لاہورواقعی دنیا کی آلودہ ترین شہروں میں سرفہرست ہے؟ اس سوال کے جواب میں داورحمیدبٹ کہتے ہیں لاہورمیں آلودگی ہے لیکن پورے دن کے مخصوص اوقات اورعلاقے کے ڈیٹا کو لے کر پورے شہر کو آلودہ قراردینا درست نہیں ہے۔ لاہور میں یوایس قونصل خانے کی طرف سے آلودگی کی جانچ کی جدید ترین ڈیوائسز لگائی گئی ہیں، خود محکمہ تحفظ ماحولیات نے مختلف ایریازمیں ڈیوائسز نصب کررکھی ہیں اس کے علاوہ بڑے تعلیمی اورصعنتی اداروں نے بھی نجی طورپر ایئر کوالٹی کی جانچ کے لئے ڈیوائسز لگارکھی ہیں۔ یوایس کی طرف سے لگائی گئی ڈیوائسزکا ڈیٹا ہر ایک گھنٹے بعد اپ ڈیٹ کیاجاتا ہے۔ جن اوقات میں آلودگی کی شرح زیادہ آتی ہے میڈیا اسی ڈیٹا کو نشر کرنا شروع کردیتا ہے جوکہ درست نہیں ہے، کسی بھی شہرکی ایئرکوالٹی کی جانچ کے لئے 24 گھنٹوں کی اوسط شرح نکالنی چاہیے لیکن یہاں ایسانہیں ہوتا ہے۔
دوسری طرف محکمہ تحفظ ماحولیات پنجاب کی طرف اسے الزام لگایاجاتا ہے کہ غیر سرکاری اداروں کی طرف سے فضاٗئی آلودگی سے متعلق غلط اعدادوشمار جاری کیئے جاتے ہیں جس سے ملک کی بدنامی ہوتی ہیں، محکمہ ماحولیات کے حکام کے مطابق ایئر کوالٹی انڈیکس اور امریکی قونصل خانے کی طرف سے نصب ڈیوائسز درست ڈیٹا فراہم نہیں کرتیں اور یہ ڈیوائسز دھند اورآلودگی میں بھی فرق نہیں کرپاتیں لیکن ماہرماحولیات داورحمید بٹ کہتے ہیں امریکی قونصل خانے نے جدید ترین ڈیوائسز نصب کررکھی ہیں ان سمیت ماحولیات پرتحقیق کرنیوالے کئی ادارے یوایس قونصل خانے کے ڈیٹا کو مستند مانتے ہیں۔ حکومت ماحولیاتی آلودگی کے مستقل خاتمے کے لئے اقدامات اٹھانے کی بجائے ڈیٹا کو متنازع بنارہی ہے۔
پنجاب حکومت صوبے میں آلوگی کے مستقل خاتمے کے لیے کیااقدامات اٹھارہی ہے اس بارے صوبائی وزیر تحفظ ماحولیات باؤ محمدرضوان نے بتایا پہلے نمبرپر اینٹوں کے روایتی بھٹوں کوزگ زیگ پرمنتقل کیا گیا ہے۔ اسی طرح گاڑیوں میں یوروفائیوفیول استعمال کرنے جارہے ہیں،اب ہمارا فوکس غیرمعیاری اورجعلی موبل آئل ہے ، اس حوالے سے تمام اضلاع کے متعلقہ حکام کو ہدایات جاری کردی گئی ہیں کہ جعلی موبل آئل تیارکرنیوالوں کیخلاف کریک ڈاؤن کیاجائے۔ اسی طرح فصلوں کوباقیات کو جلانے کے عمل میں کمی آئی ہے اورمحکمہ زراعت نے ایسی مشینری خریدناشروع کردی ہے جس سے فصلوں کومڈھوں سمیت کاٹاجاسکے گا۔ انہوں نے کہا فرنس ملزہوں، زگ زیگ پرمنتقل ہونیوالے بھٹے یاعام کارخانے جو بھی ایساایندھن استعمال کریگا جس سے فضاٗئی آلودگی پیداہوتی ہے اسے بند کردیا جائے گا۔
محمد رضوان کے مطابق تحفظ ماحولیات پنجاب کی آفیشل ویب سائٹ پر لاہورسمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں ائیرانڈیکس کوالٹی، فضا میں موجود ناٗٹروجن ڈاٗئی آکسائیڈ این او2 مقدارسے متعلق مستنداعدادوشمار فراہم کیے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فضاٗئی آلودگی کی جانچ کرنیوالی ڈیوائسزمرمت کروالی گئی ہیں جبکہ مزید 30 ڈیوائسزخریدی گئی ہیں جوآئندہ 6 ماہ تک مختلف شہروں میں انسٹال کی جائیں گی، یہ منصوبہ ورلڈبنک کی معاونت سے مکمل کیاجارہا ہے، ایک ڈیوائس کی قیمت ڈھائی سے تین کروڑ روپے تک ہے۔
ماہرماحولیات داورحمید بٹ کہتے ہیں سردیوں میں لکڑی اورکوئلہ جلانے پر پابندی لگائی جائے اورلوگوں کو متبادل کے طور پر گیس سمیت سستا ایندھن استعمال کے لئے دیا جائے اور لوگوں میں آگاہی پیداکی جائے کہ آگ جلانے کی بجائے سردی سے بچنے کے لئے گرم کپڑے استعمال کریں، اسی طرح ایل این جی جلدسے جلدپاکستان لائی جائے، سولرانرجی کوفروغ دیاجائے اورسب سے بڑھ کریہ کہ آلودگی پیداکرنیوالے ذرائع کی مانیٹرنگ ہونی چاہیے۔