نیب حکام کیخلاف تحریک استحقاق سنجرانی اور مانڈوی والا آمنے سامنے آ گئے
رولز کے تحت ریکوزیشن اجلاس میں مذکورہ ایجنڈا کو زیرغور نہیں لایا جا سکتا،ظفرالحق کے نام سیکریٹریٹ کا خط
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا نیب حکام کیخلاف تحریک استحقاق اور قرارداد پر بحث کے لیے ایوان بالا کا اجلاس بلانے کے معاملے پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ گئے ہیں۔
اپوزیشن جماعتوں نے حال ہی میں مختلف اہم سیاسی معاملات بشمول نیب حکام کی طرف سے انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کو سینیٹ اجلاس میں زیر بحث لانے کے لیے سینیٹ سیکریٹریٹ میں ریکوزیشن جمع کرائی تھی جس پر سینیٹ سیکریٹریٹ نے متعدد اعتراضات عائد کر دیے ہیں۔
ان اعتراضات میں کہا گیا ہے کہ ریکوزیشن پر بلائے گئے اجلاس میںتحریک استحقاق اور قرارداد کی منظوری آئین، سینیٹ کے رولز آف پروسیجر اور اسٹینڈنگ آرڈرز کے مطابق نہیں ہے۔
ریکوزیشن کے ایجنڈا کے آئٹم نمبر ایک میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کی طرف سے نیب حکام کیخلاف تحریک استحقاق پر بحث اور منظوری جبکہ آئٹم نمبر دو اور تین نیب کیخلاف دوقراردادوں منظوری، آئٹم نمبر چار اور پانچ میں ملک بھر میں اپوزیشن کارکنوں کیخلاف کریک ڈاؤن اور گلگت بلتستان الیکشن میں دھاندلی کے بارے میں ہیں۔
سینیٹ میں قائد حزب اختلاف راجہ ظفر الحق کے نام خط میں سینیٹ سیکرٹریٹ نے کہا ہے کہ چیئرمین سینیٹ کی دس فروری 2016کو دی گئی رولنگ کے تحت رولز کے مطابق مذکورہ ایجنڈا میں شامل آئٹمز کو ریکوزیشن پر بلائے گئے اجلاس میں زیرغور نہیں لایا جا سکتا۔ اس رولنگ کی روشنی میں نظرثانی شدہ ایجنڈا جمع کرایا جاسکتا ہے جس کے موصول ہونے پر مزید کارروائی کی جائیگی۔
ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈووی والا نے ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے کہ صادق سنجرانی دباؤ کی وجہ سے تحریک استحقاق لانے کی اجازت نہیں دے رہے۔ چیئرمین اسے روک نہیں سکتے کیونکہ ایسا کرنا آئین اور سینیٹ قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ سنجرانی یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ اجلاس نہیں روک سکتے تاہم وہ تاخیری حربے استعمال کر رہے ہیں۔ صادق سنجرانی آئینی رکاوٹیں پیدا کر کے ایوان بالا میں آئینی بحران پیدا کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا قواعد کے تحت ریکوزیشن کے تحت بلائے گئے اجلاس میں ریکوزیشن میں بیان کئے گئے معاملات کو ترجیح دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ صادق سنجرانی تحریک استحقاق لانے کی اجازت نہ دے کر تاریخ میں آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہونگے۔
ذرائع کے مطابق سینیٹ سیکرٹریٹ کے اعتراضات کے بعد امکان ہے کہ اپوزیشن کل نئی ریکوزیشن جمع کرائے گی۔
اپوزیشن جماعتوں نے حال ہی میں مختلف اہم سیاسی معاملات بشمول نیب حکام کی طرف سے انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کو سینیٹ اجلاس میں زیر بحث لانے کے لیے سینیٹ سیکریٹریٹ میں ریکوزیشن جمع کرائی تھی جس پر سینیٹ سیکریٹریٹ نے متعدد اعتراضات عائد کر دیے ہیں۔
ان اعتراضات میں کہا گیا ہے کہ ریکوزیشن پر بلائے گئے اجلاس میںتحریک استحقاق اور قرارداد کی منظوری آئین، سینیٹ کے رولز آف پروسیجر اور اسٹینڈنگ آرڈرز کے مطابق نہیں ہے۔
ریکوزیشن کے ایجنڈا کے آئٹم نمبر ایک میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کی طرف سے نیب حکام کیخلاف تحریک استحقاق پر بحث اور منظوری جبکہ آئٹم نمبر دو اور تین نیب کیخلاف دوقراردادوں منظوری، آئٹم نمبر چار اور پانچ میں ملک بھر میں اپوزیشن کارکنوں کیخلاف کریک ڈاؤن اور گلگت بلتستان الیکشن میں دھاندلی کے بارے میں ہیں۔
سینیٹ میں قائد حزب اختلاف راجہ ظفر الحق کے نام خط میں سینیٹ سیکرٹریٹ نے کہا ہے کہ چیئرمین سینیٹ کی دس فروری 2016کو دی گئی رولنگ کے تحت رولز کے مطابق مذکورہ ایجنڈا میں شامل آئٹمز کو ریکوزیشن پر بلائے گئے اجلاس میں زیرغور نہیں لایا جا سکتا۔ اس رولنگ کی روشنی میں نظرثانی شدہ ایجنڈا جمع کرایا جاسکتا ہے جس کے موصول ہونے پر مزید کارروائی کی جائیگی۔
ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈووی والا نے ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے کہ صادق سنجرانی دباؤ کی وجہ سے تحریک استحقاق لانے کی اجازت نہیں دے رہے۔ چیئرمین اسے روک نہیں سکتے کیونکہ ایسا کرنا آئین اور سینیٹ قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ سنجرانی یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ اجلاس نہیں روک سکتے تاہم وہ تاخیری حربے استعمال کر رہے ہیں۔ صادق سنجرانی آئینی رکاوٹیں پیدا کر کے ایوان بالا میں آئینی بحران پیدا کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا قواعد کے تحت ریکوزیشن کے تحت بلائے گئے اجلاس میں ریکوزیشن میں بیان کئے گئے معاملات کو ترجیح دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ صادق سنجرانی تحریک استحقاق لانے کی اجازت نہ دے کر تاریخ میں آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہونگے۔
ذرائع کے مطابق سینیٹ سیکرٹریٹ کے اعتراضات کے بعد امکان ہے کہ اپوزیشن کل نئی ریکوزیشن جمع کرائے گی۔