’’پیٹرولیم بحران اور تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ‘‘

یہ پی ٹی آئی حکومت کی بدقسمتی ہے یا پھرناقص حکمت عملی کہ جب سے اقتدارمیں آئی ہے روز ایک نیا بحران پیدا ہوتا رہتا ہے۔



حکومت کے ڈھائی سالہ دور میں مہنگائی کا سیلاب رکنے میں نہیں آرہاہے، مہنگائی نے گزشتہ 10سالوں کا ریکارڈ توڑدیا ہے۔

عام استعمال کی روزمرہ اشیاء سے لے کر پٹرولیم مصنوعات، بجلی ، گیس اور ادویات کی قیمتوں میں 35 فیصد سے 200 فیصد تک کا ریکارڈ اضافہ ہوگیا ہے ۔ عوام مہنگائی کے طوفان کی لپیٹ میں ہیں ،لیکن کوئی ریلیف نہیں مل رہا۔ اب ایک بار پھر پٹرول و بجلی بم گرادیا گیا ہے ۔اِسی ہفتے جس دن فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر بجلی ایک روپے 11پیسے فی یونٹ مہنگی کردی گئی اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں 5روپے تک اضافہ کیا گیا جب کہ عین اُسی دن پٹرول بحران کی تحقیقاتی رپورٹ بھی میڈیا کی زینت بنی ہے۔

یہ پی ٹی آئی حکومت کی بدقسمتی ہے یا پھر ناقص حکمت عملی کہ جب سے اقتدار میں آئی ہے روز ایک نیا بحران پیدا ہوتا رہتا ہے۔بحرانوں کا یہ سلسلہ بغیر کسی بحران پر قابو پائے چلتا ہی رہتا ہے ۔ یوں لگتا ہے کہ یہ بحران بھی سیاسی بیانیے ہیں ، جن پر قابو پانے کے بجائے روز یوٹرن لے لیا جاتا ہے اور حکمران اُن پر قابو پانے کے بجائے انھیں پھر کسی نئے بحران سے پیچھے دھکیل دیتے ہیں ۔ ہر بحران پر بس انکوائری کمیشن تشکیل دیکر جان چھڑائی جاتی ہے اور کئی بحرانوں پر تو محض بیانات پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے۔

آٹے اور چینی کے بحران پر قائم کردہ کمیٹیوں کی رپورٹس ہوں یا نجی بجلی گھروں اور ادویات اسمگلنگ پر قائم کمیشن کی رپورٹس، ان تمام رپورٹس میں بحرانوں کے دوران صرف ''کسی کو نہیں چھوڑوں گا'' کی گردان سنائی دیتی ہے ۔کسی کے خلاف کوئی کارروائی ہوتی ہے نہ حکومت کا بیانیہ تبدیل ہوتا ہے ۔ یہی صورتحال کچھ پیٹرولیم بحران پر قائم کردہ پٹرولیم کمیشن کی حال ہی میں آنے والی رپورٹ پر بھی نظر آرہی ہے۔

رواں ہفتے وزیر اعظم کی صدارت میں کابینہ اجلاس میں پیش کی گئی پٹرولیم کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی مارکیٹ میں پٹرول سستا ہوا تو اُس وقت خریداری پر پابندی کی سفارش کی گئی، جب کہ مئی ، جون کے دوران پٹرول خریدا گیا لیکن تیل کمپنیوں کی جانب سے ملک میں اُس کی سپلائی تب تک روک دی گئی جب تک کہ حکومت کی جانب سے تیل کی قیمتوں میں اضافہ نہ کردیا گیا ۔

رواں سال کے آغاز میں جب کورونا کی وبائی صورتحال میں دنیا میں لاک ڈاؤن کے دوران تمام کاروبار و ٹرانسپورٹ بھی منجمند ہوکر رہ گئی تھی ، اُس دوران مارچ و اپریل میںروس اور سعودی عرب کے درمیان پٹرولیم کی پیداوار کم نہ کرنے پر کشیدگی کے باعث دنیا میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا یہ عالم تھا کہ کئی ممالک کی جانب سے ادھار پرف فروخت کی جارہی تھیں کچھ ممالک کی جانب سے پٹرول کے ساتھ خریدار کی مالی مدد بھی کی جارہی تھی۔

ایسے میں ہمارے حکمرانوں نے پٹرولیم مصنوعات خرید کر اپنے پاس ذخیرہ کرنے پر کوئی توجہ نہ دی بلکہ اُس دوران ہی ملک میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کردیا گیا۔ جب کہ اگلے ہی مہینوں یعنی مئی اور جون میں تو یہ حالت ہوئی کہ پٹرول ملنا محال ہوگیا ۔ اُس پر ظلم کی انتہا کہ گھنٹوں قطار میں انتظار کے بعد لوگوں کو اضافی قیمتوں میں بھی پٹرول میسر نہیں تھا۔ ملک میں پٹرول کا یہ بحران مصنوعی تھا کیونکہ بحران کے شدید ہونے پر حکومت کی جانب سے جب بلا شیڈول پٹرول قیمتوں میں اضافے کا اعلان کرتے ہی پٹرول مصنوعات بغیر کسی درآمد کے فوری طور پر پٹرول پمپس پر دستیاب ہوگئیں ۔ اس سے صاف ظاہر تھا کہ پٹرول مافیا نے اپنی بلیک میلنگ کے ذریعے حکومت سے تیل کی قیمتوں میں اضافہ کروایا ۔

اس صورتحال پر ملک بھر میں حکومت پر شدید تنقید ہوئی۔ جس کی گونج ایوانوں میں بھی سنائی دی گئی ۔ جس پر لامحالہ حکومت کو پٹرول کے اِس بحران پر انکوائری کمیشن بنانا پڑا۔ اس کمیشن نے 6ماہ کے عرصے کے بعد رواں ماہ میں اپنی رپورٹ حکومت کو دی ۔لیکن حکومت نے روایتی طریقہ اپناتے ہوئے 4 وفاقی وزراء پر مشتمل ایک اور تحقیقاتی سب کمیٹی بنادی، بالکل اِسی طرح چینی کمیشن کی رپورٹ پر سب کمیٹی بناکر رپورٹ میں اپنے مطلب کی تبدیلیاں کرادی گئی تھیں۔ شاید اِسی بات کے پیش نظر ہی لاہور ہائی کورٹ نے حکومت کی رپورٹ فوری طور پر پبلک کرنے کا حکم دیا ہے ۔ جب کہ اس بحران کے حوالے سے سابقہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی چند گہرے سوالات اُٹھائے ہیں ۔

دنیا اس وقت توانائی کے متبادل ذرایع کے استعمال پر بڑے پیمانے پر کام کر رہی ہے ۔ مگر ہمارے حکمران ایک طرف متبادل توانائی کے نئے ذرایع کو علاقہ غیر سمجھ کر قریب نہیں جارہے تو دوسری طرف گزشتہ حکومتوں کی جانب سے شروع کیے گئے متبادل توانائی کے منصوبوں کو ختم کرتے جارہے ہیں ۔ ایک طرف تھر کول سے بجلی بنائی جارہی ہے تو دوسری طرف لاکھڑا اور جامشورو میں کوئلے پر چلنے والے بجلی گھروں کو بند کیا جارہا ہے ۔ دنیا بیٹری اور سولر انرجی پر گاڑیوں کو منتقل کرنے کے ساتھ ساتھ پٹرولیم کی نئی مصنوعات تیار کرنے پر تجربے کررہی ہے مگر ہم مطلوبہ پٹرولیم مصنوعات کی طلب بھی پوری نہیں کرپارہے ۔

ملک میں اشیاء کی قیمتوں پر حکومت کا کوئی کنٹرول نظر نہیں آتا ۔جس کی سزا بے چارے عوام کو بھگتنی پڑ رہی ہے ۔حکومت اپنے قیام کے دن سے اِن ڈھائی برس کے دوران بارہ مرتبہ سے زیادہ پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ کرچکی ہے ۔ ہر چیز کی ملک میں قلت اور بحران کی صورتحال ہمیشہ جاری رہتی ہے ۔یہ ملک عملی طور پر سرمایہ دار مافیائی قوتوں کے فیصلوں پر چلتا دکھائی دے رہا ہے ، جو کبھی ٹماٹر کے نرخ 400روپے تک پہنچادیتی ہیں تو کبھی آٹا 75 اور چینی 105روپے تک پہنچادیتی ہے۔

کبھی سیمنٹ کی قیمتوں میں من پسند اضافہ کرکے ملک و ملت سے 40 ارب روپے کا ناجائز منافع کمالیتی ہیں ۔لیکن دیکھا جائے تو پٹرول اور ہائی اسپیڈ ڈیزل ایسی پیداوار ہیں جو پاکستان میں بہت زیادہ استعمال ہوتی ہیں ۔ یہ ایسے آئٹمز ہیں جن کا عوامی زندگی پر بالواسطہ و بلا واسطہ گہرا اثر پڑتا ہے ۔ ان کی قیمتوں میں اضافہ ملک میں تمام شعبوں میں مہنگائی کی وجہ بنتا ہے۔ حکومت ملک میں قیمتوں پر کنٹرول اور بحرانوں پر قابو پانے کے بجائے سرمایہ دار مافیائی خواہشوں کے آگے سر ِ تسلیم ِ خم کرتے ہوئے ہر چیز کے نرخ یا اُن پر عائد ڈیوٹیز کی شرح میں اضافہ کرکے تمام بوجھ عوام پر ڈال دیتی ہے اور اپنی اس نااہلی کو چھپانے کے لیے حکومتی ٹیم اِن چیزوں کا ذمے دار پچھلی حکومتوں کو قرار دینے کا واویلا کرتی رہتی ہے ۔

کوئی بھی حکومت محض نعروں اور بیانات کے بَل پر زیادہ دیر تک نہ تو عوام کو مطمئین نہیں کرسکتی ہے ۔ اُسے ملک کی دیرپا ترقی اور عوامی خوشحالی کی دور رس نتائج کی حامل پالیسیوں پر نظر آنیوالے عمل کے ساتھ ساتھ عوام کو بنیادی سہولیات کی آسان و مسلسل فراہمی ، اُن کے روز مرہ کے مسائل کے حل پر بھرپور توجہ ، انھیں میرٹ کی بنیاد پر روزگار کے مواقع اور خاص طور پر اشیائے خورد و نوش اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں پر کنٹرول کے ساتھ دستیابی کو یقینی بنانا ہی حکومت کو گڈ گورننس کی صف میں کھڑا کرسکتا ہے ۔یہ کپتان کو اب نظر آجانا چاہیے کہ 22سالہ طویل جدوجہد اور تبدیلی کی تحریک کا اگر یہی ثمر ہے تو عوام نے ایسی تبدیلی پر کان پکڑ لیے ہیں ۔۔۔!!!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں