فاٹا انضمام پختونخوا سے سینیٹرز کی کامیابی کا فارمولا تبدیل
جنرل سیٹ کیلیے19ارکان کے ووٹ درکار،پی ٹی آئی5،اپوزیشن کو 2سیٹیں ملنے کا امکان
فاٹا انضمام اور خیبرپختونخوا اسمبلی کے ارکان کی تعداد124 سے بڑھ کر145 ہونے کے بعد خیبرپختونخوا سے سینیٹرز کی کامیابی کا فارمولا تبدیل ہو گیا اور فتح کیلیے ووٹوں کی درکار تعداد میں بھی اضافہ ہوگیا۔
سینیٹ کی جنرل سیٹ پرکامیابی کے لیے 19ایم پی ایز کے ووٹوں کی ضرورت ہوگی۔ پی ٹی آئی اپنے طورپر5نشستوں پر کامیابی حاصل کرسکتی ہے جبکہ اپوزیشن کے حصے میں دو نشستیں آئیں گی۔
خواتین اور ٹیکنوکریٹس کی دو،دو نشستوں میں سے ہر نشست پر کامیابی کے لیے 49' 49 اور ایک اقلیتی نشست پر کامیابی کے لیے73 ووٹ درکار ہونگے جس کے باعث پی ٹی آئی کی کامیابی کے امکانات ہیں تاہم اپوزیشن خواتین اور ٹیکنوکریٹس کی ایک، ایک نشست پرمتفقہ اور زائد امیدوار میدان میں لاکر کامیابی حاصل کرسکتی ہے۔
ایوان میں پی ٹی آئی ارکان کی تعداد94ہے جبکہ دو آزاد ارکان، مسلم لیگ(ق )کے ایک رکن، بلوچستان عوامی پارٹی کے4ارکان کی حمایت سے یہ تعداد101ہوجائے گی ،دوسری جانب اپوزیشن ارکان کی تعداد41ہے جبکہ دو آزاد ارکان کی حمایت سے یہ تعداد بڑھ کر43 ہوجائے گی۔
اے این پی ارکان کی تعداد 12اورجے یوآئی ارکان کی تعداد15ہے جنھیں (ن )لیگ کے6، پیپلزپارٹی کے5 اورجماعت اسلامی کے3 ارکان کی حمایت ملنے سے دو جنرل نشستیں پکی ہوجائیں گی جبکہ امیدواروں کی تعداد زیادہ ہونے سے درکار ووٹوں کاتناسب بھی کم ہوجائے گا۔
خواتین اور ٹیکنوکریٹس کی دو،دو نشستوں پر خفیہ بیلٹ کی صورت میں دوسری اور تیسری ترجیح کے ووٹ اہم کردار ادا کریں گے ، مسلم لیگ(ن )اورپیپلزپارٹی کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے ان میں سے ایک پارٹی کو خاتون اور دوسری کو ٹیکنو کریٹ نشست مل سکتی ہے تاہم اکلوتی اقلیتی نشست تحریک انصاف کے حصے میں ہی آئے گی۔
واضح رہے کہ انتخابات میں قبائلی اضلاع کے 21ایم پی ایز پہلی بار ووٹ ڈالیں گے۔
سینیٹ کی جنرل سیٹ پرکامیابی کے لیے 19ایم پی ایز کے ووٹوں کی ضرورت ہوگی۔ پی ٹی آئی اپنے طورپر5نشستوں پر کامیابی حاصل کرسکتی ہے جبکہ اپوزیشن کے حصے میں دو نشستیں آئیں گی۔
خواتین اور ٹیکنوکریٹس کی دو،دو نشستوں میں سے ہر نشست پر کامیابی کے لیے 49' 49 اور ایک اقلیتی نشست پر کامیابی کے لیے73 ووٹ درکار ہونگے جس کے باعث پی ٹی آئی کی کامیابی کے امکانات ہیں تاہم اپوزیشن خواتین اور ٹیکنوکریٹس کی ایک، ایک نشست پرمتفقہ اور زائد امیدوار میدان میں لاکر کامیابی حاصل کرسکتی ہے۔
ایوان میں پی ٹی آئی ارکان کی تعداد94ہے جبکہ دو آزاد ارکان، مسلم لیگ(ق )کے ایک رکن، بلوچستان عوامی پارٹی کے4ارکان کی حمایت سے یہ تعداد101ہوجائے گی ،دوسری جانب اپوزیشن ارکان کی تعداد41ہے جبکہ دو آزاد ارکان کی حمایت سے یہ تعداد بڑھ کر43 ہوجائے گی۔
اے این پی ارکان کی تعداد 12اورجے یوآئی ارکان کی تعداد15ہے جنھیں (ن )لیگ کے6، پیپلزپارٹی کے5 اورجماعت اسلامی کے3 ارکان کی حمایت ملنے سے دو جنرل نشستیں پکی ہوجائیں گی جبکہ امیدواروں کی تعداد زیادہ ہونے سے درکار ووٹوں کاتناسب بھی کم ہوجائے گا۔
خواتین اور ٹیکنوکریٹس کی دو،دو نشستوں پر خفیہ بیلٹ کی صورت میں دوسری اور تیسری ترجیح کے ووٹ اہم کردار ادا کریں گے ، مسلم لیگ(ن )اورپیپلزپارٹی کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے ان میں سے ایک پارٹی کو خاتون اور دوسری کو ٹیکنو کریٹ نشست مل سکتی ہے تاہم اکلوتی اقلیتی نشست تحریک انصاف کے حصے میں ہی آئے گی۔
واضح رہے کہ انتخابات میں قبائلی اضلاع کے 21ایم پی ایز پہلی بار ووٹ ڈالیں گے۔