دل کی کسک
یہ قدرت کی بڑی کرم فرمائی ہے کہ آج ہزاروں، لاکھوں قارئین ان کی کمی محسوس کرتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ وقت بھی انسان کو بزدل بنا دیتا ہے۔ معصومیت کا دور بڑا ہی خوشکن اور حوصلہ مند ہوتا ہے۔ انسان جو چاہے کر گزرتا ہے۔ قدم درست سمت میں اٹھ گیا تو گرد و پیش میں تحسین بھری نظریں حوصلے کا باعث ثابت ہوتی ہیں، ورنہ کسی کے دل کو کو ئی حرکت نہ بھائی تو تھوڑی بہت جھینپ بھی کچھ دیر کے لیے دل شکستگی کا ساماں بن جا تی ہے۔
غلطی کا احساس ہو جائے تو گرانقدر تجربہ بن جا تا ہے۔ بصورت دیگر یہ احساس بھی ایک بہترین اثاثہ ہی نہیںبلکہ عمر بھر کے لیے ایک عمدہ ساتھی بھی ثا بت ہو تا ہے۔ وگرنہ ایک اور غلطی سرزد ہو نے کا امکان تو بہر طور ہمہ وقت قائم ہی رہتا ہے۔ بہت کم لو گ ہو تے ہوں گے جنھیں قلم اٹھاتے ہوئے کو ئی کوتا ہی سر زد ہو نے کے رد عمل کا اندیشہ نہ ہو تا ہو گا۔
یہ راقم تواپنے آپکو کسی شمار میں ہی ہو نے کا مستحق نہیں سمجھتا۔ چنانچہ ہمیشہ کی طرح اس مر تبہ بھی ہفتہ آخیر کو تھا اور کو ئی موضوع اور اس کے خدوخال ذہن میں را سخ کر نے میں مشکل در پیش تھی۔ انھی سوچوں میں غلطاں تھا کہ جھٹ سے روزمرہ کے ساتھی ہا کر صاحب نے سا منے آکر روزنامہ ایکپریس کا پرچہ ہاتھ میں تھمایا اور چلتا بنا۔ حسب معمول ورق گردانی ہو نے لگی۔
نگاہیں بھی ایک ایک کر کے سبھی خبروں سے ہو تی ہو ئیں ادارتی صفحے پر آکر ٹک گئیں۔ گزتہ کئی دنوں سے دل میں ایک عجیب سی بے چینی محسوس ہو رہی تھی۔ در حقیقت اس خاندان کا ایک بزرگ فرد کچھ ہی روز ہو ئے اس دار فانی کو داغ مفارقت دے چکا تھا۔ کچھ دنوں تک بعض دیگر بزرگوں نے یکے بعد دیگرے اس حوالے سے اپنی یادداشتیں اور احساسات بھی رقم کیے تھے۔ مرحوم عبدالقادر حسن صا حب کا کالم اسی صفحے پر سب سے نما یاں شایع ہوتا تھا۔
شعبہ ادارت نے بھی ان کی بزرگانہ حیثیت کا ہمیشہ ہی خوب احترام یقینی بنایا تھا۔ دیگر سبھی معزز اہل قلم کی تحریروں کی جگہ مختص نہیں رہی لیکن مر حوم عبدالقادر حسن کا کالم ان کی تصویر کے ساتھ اس صفحے پر سر سطور شایع ہوتا تھا ۔ ذہنی مطابقت بھی رشتوں کے استحکام کا ایک اہم وسیلہ ہوا کر تی ہے۔لہٰذا سوچ و فکر کے انداز بھی اس ساخت کے مطابق ڈھلنے لگتے ہیں۔ یہ تسلسل آگے چلکر سماجی، تہذیبی ،روحانی و تاریخی تعلق کی صورت با ہم قربت کو بتدریج مظبوط سے مظبوط تر بنانے کا ذریعہ بنتا ہے۔ اس راقم کے ساتھ یقینا ایسا ہی ہوا ہے۔
مرحوم عبد القادر حسن کی ہر تحریر نگاہوں سے گزرنے کے بعد متعدد حوالوں سے ذہنی ہم آہنگی کی حامل دکھائی دیا کرتی تھی۔ کسی حد تک ذہنی مطابقت کی بنا پر اس راقم کے ذہن میں بھی ان کی تحریر پڑھے بغیر ایک تشنگی سی رہتی تھی ۔ وہ جب بھی اپنے آبائی علاقے کو ہستان نمک، ہم عصر لوگوں، ان کے روائتی، سماجی و معاشی حا لات زندگی اور تہذیب و تمدن کا ذکر کر تے تو اس راقم کو بھی اپنائیت کا احساس ہو تا تھا۔ یوں لگتا کہ جیسے خیبر پختونخوا خصو صا اس کے ہزارہ و ملاکنڈ ریجنز یا پھر کسی قبائلی ضلعے کا ذکر کر رہے ہوں جہاں ایک وسیع آبادی بارانی کھیتی با ڑی سے منسلک ہے ۔
کھیت کھلیانوں، بنیروں اور گاؤں کی پگڈنڈیوں کا ذکر ان کی تحریروں میں اکثر عجیب سی چاشنی کا احساس دلاتا تھا۔کئی دنوں کے بعد آج احساس ہوا ذہن میں اس غیر ارادی کسک کی وجہ کیا تھی۔ یوں ان کی رحلت کے بعد جب اس خاندان کے دیگر بزرگوں نے ان کے ما ضی کے بعض پہلو اجا گر کیے تو اس راقم کو بھی اپنا ئیت کا احساس مزیدگہرا ہو تا ہوا محسوس ہوا۔ یہی بات دلی احساس کو ضبط قلم کرنے پر مجبور کر نے لگی۔ لہٰذا جوں جوں الفاظ رقم ہو نے لگے ہیں، احساسات کی نوعیت بھی بدلتی محسوس ہو ئی۔ دل بھی حقیقت کو تسلیم کر نے لگا ۔ جذبات کے تا بع دل کی دنیا بھی خوب ہو تی ہے۔
احساسات سے عاری دل میں جذبات کا عالم کیا ہو سکتا ہے، یہ بھی سمجھ آ جاتا ہے۔ قلمی رشتے کے بل بوتے یہ خاندان بھی عجیب تعلق کا حامل ہے ۔ ایک دوسرے کا آمنا سامنا ہو ئے بغیر بھی اس قدر قربت کہ ادارتی صفحے پر نگا ہ پڑتے ہی مرحوم عبدالقادر حسن کے حوالے سے احساسات پھر سے جاگ اٹھتے ہیں ۔ بہر طور یہ انسانی فطرت ہے کہ کسی کے اس جہان فانی سے اٹھ جا نے کا احساس رفتہ رفتہ مند مل ہو ہی جا تا ہے۔ مرحوم عبد القادر حسن صا حب کی یادیں بھی کچھ دنوں تک ان صفحات پر اجاگر ہو نے کے بعد ان کی تحریر اور تصویر کی طرح ایک دن غا ئب ہی ہو جا ئیں گی۔
ہاں البتہ ان کی تحریروں کی صورت یاد ما ضی ایک تا ریخی حقیقت کے طور پر قائم رہنے کے امکانات سب سے زیادہ ہیں۔ ایک تلخ یاد مرحوم عبدالقادر حسن بھی دیگر لاکھوں کروڑوں اہل ایمان خصو صا اہل پا کستان کی طرح اپنے دل میں بسائے اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں۔ یہ تلخ حقیقت سقوط ڈھا کہ کی یاد ہے۔ بزرگوں کی تحریروں سے یہ علم بھی ہوا کہ یہ واقعہ ان کے ذہن میں بہت گہرائی تک راسخ تھا۔
یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ وہ 16 دسمبر سے بھی قبل ہی رخصت ہو گئے۔ یوں اس حوالے سے ایک اور درد مند دل، ایک کسک کی صورت اپنے دلی احساسات کو اجاگر کرنے کا اعادہ کیے بغیر ہی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گیا۔ کیا کیا حسرتیں انھوں نے اپنے دل و دماغ میں سمیٹ رکھی ہو ں گی، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ وطن عزیز پاکستان کا مشرقی با زوکٹ جا نا کسی بھی اہل وطن کے لیے ہمیشہ ہی دکھ، بے چینی اور اضطراری کا باعث رہے گا۔
عبد القادر حسن صاحب کی نسل کے لوگوں کی تو بات ہی اور ہے۔ انھوں نے پا کستان بنتے دیکھا؛ تحریک آزادی کے راہنما ئوں اور کارکنوں کے ہمراہ زندگی کا ایک طویل سفر طے کیا ؛خیالات و احساسات سے آگہی حا صل کی؛ تلخ و شیریں یادوں کے امین بھی رہے اور وطن کا حال بنتا، بگڑتا اور سنورتا بھی دیکھا۔ یوں ان کا اس دنیا سے کوچ کر جا نے سے تحریک آزادی کے قیمتی ورثے میں سے ایک اور اثاثہ نظروں سے اوجھل ہوگیاہے۔
یہ قدرت کی بڑی کرم فرمائی ہے کہ آج ہزاروں، لاکھوں قارئین ان کی کمی محسوس کرتے ہیں۔ بلا شبہ ان کی تحریروں کا عام فہم ہو نا اس تعلق کے استحکام کی بڑی وجہ تھی جو یقینا ایک منفرد صفت ہے۔ دعا ہے باری تعالی مر حوم عبد القادر حسن صاحب کو اپنے جوار رحمت کا سا یہ اور پسماندگان کو یہ نا قابل تلافی نقصان صبر و حوصلے سے بر داشت کر نے کی توفیق عطا فرمائے۔
غلطی کا احساس ہو جائے تو گرانقدر تجربہ بن جا تا ہے۔ بصورت دیگر یہ احساس بھی ایک بہترین اثاثہ ہی نہیںبلکہ عمر بھر کے لیے ایک عمدہ ساتھی بھی ثا بت ہو تا ہے۔ وگرنہ ایک اور غلطی سرزد ہو نے کا امکان تو بہر طور ہمہ وقت قائم ہی رہتا ہے۔ بہت کم لو گ ہو تے ہوں گے جنھیں قلم اٹھاتے ہوئے کو ئی کوتا ہی سر زد ہو نے کے رد عمل کا اندیشہ نہ ہو تا ہو گا۔
یہ راقم تواپنے آپکو کسی شمار میں ہی ہو نے کا مستحق نہیں سمجھتا۔ چنانچہ ہمیشہ کی طرح اس مر تبہ بھی ہفتہ آخیر کو تھا اور کو ئی موضوع اور اس کے خدوخال ذہن میں را سخ کر نے میں مشکل در پیش تھی۔ انھی سوچوں میں غلطاں تھا کہ جھٹ سے روزمرہ کے ساتھی ہا کر صاحب نے سا منے آکر روزنامہ ایکپریس کا پرچہ ہاتھ میں تھمایا اور چلتا بنا۔ حسب معمول ورق گردانی ہو نے لگی۔
نگاہیں بھی ایک ایک کر کے سبھی خبروں سے ہو تی ہو ئیں ادارتی صفحے پر آکر ٹک گئیں۔ گزتہ کئی دنوں سے دل میں ایک عجیب سی بے چینی محسوس ہو رہی تھی۔ در حقیقت اس خاندان کا ایک بزرگ فرد کچھ ہی روز ہو ئے اس دار فانی کو داغ مفارقت دے چکا تھا۔ کچھ دنوں تک بعض دیگر بزرگوں نے یکے بعد دیگرے اس حوالے سے اپنی یادداشتیں اور احساسات بھی رقم کیے تھے۔ مرحوم عبدالقادر حسن صا حب کا کالم اسی صفحے پر سب سے نما یاں شایع ہوتا تھا۔
شعبہ ادارت نے بھی ان کی بزرگانہ حیثیت کا ہمیشہ ہی خوب احترام یقینی بنایا تھا۔ دیگر سبھی معزز اہل قلم کی تحریروں کی جگہ مختص نہیں رہی لیکن مر حوم عبدالقادر حسن کا کالم ان کی تصویر کے ساتھ اس صفحے پر سر سطور شایع ہوتا تھا ۔ ذہنی مطابقت بھی رشتوں کے استحکام کا ایک اہم وسیلہ ہوا کر تی ہے۔لہٰذا سوچ و فکر کے انداز بھی اس ساخت کے مطابق ڈھلنے لگتے ہیں۔ یہ تسلسل آگے چلکر سماجی، تہذیبی ،روحانی و تاریخی تعلق کی صورت با ہم قربت کو بتدریج مظبوط سے مظبوط تر بنانے کا ذریعہ بنتا ہے۔ اس راقم کے ساتھ یقینا ایسا ہی ہوا ہے۔
مرحوم عبد القادر حسن کی ہر تحریر نگاہوں سے گزرنے کے بعد متعدد حوالوں سے ذہنی ہم آہنگی کی حامل دکھائی دیا کرتی تھی۔ کسی حد تک ذہنی مطابقت کی بنا پر اس راقم کے ذہن میں بھی ان کی تحریر پڑھے بغیر ایک تشنگی سی رہتی تھی ۔ وہ جب بھی اپنے آبائی علاقے کو ہستان نمک، ہم عصر لوگوں، ان کے روائتی، سماجی و معاشی حا لات زندگی اور تہذیب و تمدن کا ذکر کر تے تو اس راقم کو بھی اپنائیت کا احساس ہو تا تھا۔ یوں لگتا کہ جیسے خیبر پختونخوا خصو صا اس کے ہزارہ و ملاکنڈ ریجنز یا پھر کسی قبائلی ضلعے کا ذکر کر رہے ہوں جہاں ایک وسیع آبادی بارانی کھیتی با ڑی سے منسلک ہے ۔
کھیت کھلیانوں، بنیروں اور گاؤں کی پگڈنڈیوں کا ذکر ان کی تحریروں میں اکثر عجیب سی چاشنی کا احساس دلاتا تھا۔کئی دنوں کے بعد آج احساس ہوا ذہن میں اس غیر ارادی کسک کی وجہ کیا تھی۔ یوں ان کی رحلت کے بعد جب اس خاندان کے دیگر بزرگوں نے ان کے ما ضی کے بعض پہلو اجا گر کیے تو اس راقم کو بھی اپنا ئیت کا احساس مزیدگہرا ہو تا ہوا محسوس ہوا۔ یہی بات دلی احساس کو ضبط قلم کرنے پر مجبور کر نے لگی۔ لہٰذا جوں جوں الفاظ رقم ہو نے لگے ہیں، احساسات کی نوعیت بھی بدلتی محسوس ہو ئی۔ دل بھی حقیقت کو تسلیم کر نے لگا ۔ جذبات کے تا بع دل کی دنیا بھی خوب ہو تی ہے۔
احساسات سے عاری دل میں جذبات کا عالم کیا ہو سکتا ہے، یہ بھی سمجھ آ جاتا ہے۔ قلمی رشتے کے بل بوتے یہ خاندان بھی عجیب تعلق کا حامل ہے ۔ ایک دوسرے کا آمنا سامنا ہو ئے بغیر بھی اس قدر قربت کہ ادارتی صفحے پر نگا ہ پڑتے ہی مرحوم عبدالقادر حسن کے حوالے سے احساسات پھر سے جاگ اٹھتے ہیں ۔ بہر طور یہ انسانی فطرت ہے کہ کسی کے اس جہان فانی سے اٹھ جا نے کا احساس رفتہ رفتہ مند مل ہو ہی جا تا ہے۔ مرحوم عبد القادر حسن صا حب کی یادیں بھی کچھ دنوں تک ان صفحات پر اجاگر ہو نے کے بعد ان کی تحریر اور تصویر کی طرح ایک دن غا ئب ہی ہو جا ئیں گی۔
ہاں البتہ ان کی تحریروں کی صورت یاد ما ضی ایک تا ریخی حقیقت کے طور پر قائم رہنے کے امکانات سب سے زیادہ ہیں۔ ایک تلخ یاد مرحوم عبدالقادر حسن بھی دیگر لاکھوں کروڑوں اہل ایمان خصو صا اہل پا کستان کی طرح اپنے دل میں بسائے اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں۔ یہ تلخ حقیقت سقوط ڈھا کہ کی یاد ہے۔ بزرگوں کی تحریروں سے یہ علم بھی ہوا کہ یہ واقعہ ان کے ذہن میں بہت گہرائی تک راسخ تھا۔
یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ وہ 16 دسمبر سے بھی قبل ہی رخصت ہو گئے۔ یوں اس حوالے سے ایک اور درد مند دل، ایک کسک کی صورت اپنے دلی احساسات کو اجاگر کرنے کا اعادہ کیے بغیر ہی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گیا۔ کیا کیا حسرتیں انھوں نے اپنے دل و دماغ میں سمیٹ رکھی ہو ں گی، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ وطن عزیز پاکستان کا مشرقی با زوکٹ جا نا کسی بھی اہل وطن کے لیے ہمیشہ ہی دکھ، بے چینی اور اضطراری کا باعث رہے گا۔
عبد القادر حسن صاحب کی نسل کے لوگوں کی تو بات ہی اور ہے۔ انھوں نے پا کستان بنتے دیکھا؛ تحریک آزادی کے راہنما ئوں اور کارکنوں کے ہمراہ زندگی کا ایک طویل سفر طے کیا ؛خیالات و احساسات سے آگہی حا صل کی؛ تلخ و شیریں یادوں کے امین بھی رہے اور وطن کا حال بنتا، بگڑتا اور سنورتا بھی دیکھا۔ یوں ان کا اس دنیا سے کوچ کر جا نے سے تحریک آزادی کے قیمتی ورثے میں سے ایک اور اثاثہ نظروں سے اوجھل ہوگیاہے۔
یہ قدرت کی بڑی کرم فرمائی ہے کہ آج ہزاروں، لاکھوں قارئین ان کی کمی محسوس کرتے ہیں۔ بلا شبہ ان کی تحریروں کا عام فہم ہو نا اس تعلق کے استحکام کی بڑی وجہ تھی جو یقینا ایک منفرد صفت ہے۔ دعا ہے باری تعالی مر حوم عبد القادر حسن صاحب کو اپنے جوار رحمت کا سا یہ اور پسماندگان کو یہ نا قابل تلافی نقصان صبر و حوصلے سے بر داشت کر نے کی توفیق عطا فرمائے۔