خالی ہاتھ آیا ہے اور خالی ہاتھ جائے گا
ایسا دوست جو رازوں کو دوسروں کے سامنے بیان کرے ایسے دوست سے تنہائی بہتر ہے۔
انسان فقط انسانی ڈھانچوں کا نام ہے جس نے کثرت میں زمین کو تنگ کر دیا ہے جن کی مٹی نے زمین کو آلودہ کر دیا ہے۔ جن کے فتنے اور فساد نے خود اسی کی نسل نوع کو خطرے میں ڈال دیا ہے، جب کہ دوسری جانب اللہ ہے جو انسانی ڈھانچوں کو اشرف المخلوقات بنا دیتا ہے۔
انسانیت شریف شرافت، عزت و کرامت، پاکیزگی اور طہارت، عشق و محبت، ایثار و قربانی، جاں بازی و جاں نثاری، معرفت آگاہی جذبہ احساس ہے۔ خدا پرستی، بندگی، بیدار و شعور، عہد و پیما کی وفاداری، آزادی و نجات، عفت سے پاک، حیا و شجاع، حرکت و تکمیل جس کے اندر یہ اقدار ان کی مقصود ہونے کی صورت میں اسے انسانی معاشرہ کہنا بجا ہو گا۔ رینگنے والے حشرات الارض ہوں یا چوپائے جو دل رکھتے ہیں لیکن شعور نہیں، جو دین رکھتے ہیں لیکن فکر نہیں، جو آنکھ رکھتے ہیں بصیرت نہیں، جو کان رکھتے ہیں سماعت نہیں، جو زبان رکھتے ہیں حق گوئی نہیں۔ انسانوں میں بھی کچھ لوگ ان جانوروں سے مشابہہ ہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کے نزدیک رینگنے والے وہی ہیں جنھوں نے کفر اختیار کیا اور ایمان نہیں لائے۔ یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے عہد توڑا، یہ کبھی بھی تقویٰ نہیں کرتے۔ ہم نے جن و انسانوں میں سے بڑی تعداد کو جہنم کے لیے رکھا ہوا ہے، کیونکہ ان کے ذہن و دل ہیں لیکن ان کے ذریعے سوچتے نہیں، ان کے کان ہیں مگر ان سے سنتے نہیں، ان کی آنکھیں ہیں مگر ان سے دیکھتے نہیں۔ یہ انسان جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے ہیں۔ اگر کوئی معاشرہ یا قوم اس حالت تک جا پہنچے وہ انسانیت کے دائرے سے باہر ہے۔ انسانی جسموں کو انسانیت کے دائرے میں رکھنے کے لیے انسانی حیا کی ضرورت ہے۔
یہ امر واضح ہے انسان کی قدروں کا حیا کا کتنا دشوار کام، کس کو شک ہے ۔ ہمیں اپنی آخری منزل کی طرف جانا ہے قبر میں ہم کیا اپنے ساتھ سامان لے جا رہے ہیں؟ جی نہیں خالی ہاتھ ہیں۔ اس بارے میں ہمیں غور کرنا ہو گا، اپنے آپ پر نظر دوڑائیں تو ہم اس عارضی دنیا میں رہنے کے لیے دھڑا دھڑ مال و اسباب جمع کر رہے ہیں؟ پیسے بنانے میں مصروف ہیں، عمارات تعمیر کر رہے ہیں۔ شاید ہم بھول چکے ہیں یہ تو عارضی ٹھکانہ ہے، اصل ٹھکانہ تو کہیں اور ہے۔ یہاں عمارتیں تعمیر کریں مال و زر بنائیں لیکن آخری آرام گاہ کے لیے کچھ نہ کچھ انتظام کر لیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم جانے لگیں اور ہمارے پاس کچھ بھی نہ ہو۔
دنیا میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے چھ سزائیں:
(۱) عمر سے برکت ختم ہو جائے گی۔
(۲) اس کے چہرے سے لوگوں کی علامات مٹا دے گا۔
(۳)اس کے کسی بھی عمل کا اجر و ثواب نہیں رہے گا۔
(۴)اس کی کوئی دعائیں حق تعالیٰ آسمان تک بلند نہ ہونے دے گا۔
(۵)دنیا میں مخلوق اس سے نفرت کرے گی۔
(۶)نیک لوگوں کی دعا میں ان کا کوئی حصہ نہ ہوگا۔
ان نمازیوں کے لیے خرابی ہے جو اپنی نماز بھولے بیٹھے ہیں۔ جو شخص نماز کی ادائیگی میں سست روی کرے گا اسے اللہ تعالیٰ پندرہ سزائیں دے گا۔ ہر مسلمان جانتا ہے نماز ہم پر فرض ہے اس کی ادائیگی ضروری ہے نماز کی چھوٹ بالکل نہیں۔ جیساکہ اسلام میں پانچ ارکان فرض ہیں۔ (۱)کلمہ۔ (۲) نماز۔ (۳)روزہ۔ (۴)۔حج۔ (۵) زکوٰۃ۔ حج اور زکوٰۃ صاحب استطاعت کے لیے فرض ہے بقیہ تین ارکان ہر مسلمان کے لیے لازم فرض ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے عشق میں وہ مقام بھی آتا ہے کہ دعا تو دور کی بات ہے انسان دل میں سوچتا ہے اور رب نواز دیتا ہے۔
ہر کسی کو ہر بات کا جواب دینا ضروری نہیں ہوتا، بہت سی جگہ پر واقعی دل بڑا کرنا پڑتا ہے، کڑوی کسیلی باتوں کو، سخت گفتار کو درگزر کرنا پڑتا ہے۔ میری ذاتی رائے ہے کہ ایک خوبصورت دل ہزار خوبصورت چہروں سے بہتر ہے اس لیے زندگی میں ہمیشہ ایسے لوگوں کا انتخاب کرنا چاہیے جن کے دل ان کے چہروں سے زیادہ خوبصورت اور صاف ہوں۔ یاد رہے ادب اخلاق کی بلندیوں پر لے جاتا ہے لیکن علم نہیں کیونکہ علم تو شیطان کے پاس بھی تھا لیکن ادب نہ تھا۔ کوئی تکلیف دے تو خاموش رہنا بہتر ہے، یہ خاموشی اسے تکلیف دیتی رہے گی، یقین کیجیے ہمیں یقین نے مارا۔
اگر کوئی برائی کرے تو مسکرا کر اس کا شکریہ ادا کرو، خوش ہو جاؤ، اس لیے کہ تمہارے گناہ اس کے بڑھ رہے ہیں۔ اگر کوئی تعریف کرے تو رب تبارک وتعالیٰ کا شکر بجا لاؤ، ایک یہ جہاں دوسرا وہ جہاں ان دونوں جہانوں کے درمیان صرف ایک سانس کا فاصلہ ہے۔ سانس جو چل رہی ہے وہ یہ جہاں اور اگر رک گئی تو پھر وہ جہاں۔ رشتے موتیوں جیسے ہوتے ہیں اگر گر بھی جائیں تو ذرا سا جھک کر اٹھا لینا چاہیے۔ دوسروں کی تلخی و سختی سنیں اور مسکرا دیں پھر بھول جائیں۔
ایسا دوست جو رازوں کو دوسروں کے سامنے بیان کرے ایسے دوست سے تنہائی بہتر ہے۔ یاد رہے ایسا دوست تباہی و بربادی کا باعث ہوتا ہے۔ گھر کا ایسا فرد جو گھریلو باتیں جا کر دوسروں تک پہنچاتا ہو وہ برباد تو کر سکتا ہے آباد نہیں۔ ایسے رشتے دار، قرابت دار، عزیز و اقارب اگر حاسد ہوں یا تعصب کرتے ہوں ایسوں سے دوری بہتر ہے۔ بلند اخلاق، اعلیٰ کردار کا ضامن ہے، ہر کسی سے اچھے اخلاق سے پیش آئیں، سچائی کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ سچ بات کہیں گے تو جھوٹ بولنے والا بھی محتاط رہے گا۔ سچائی بیان کرنے کی کوشش کرے گا۔ لفظ، الفاظ، جملہ پھر مضمون میں الفاظ کا چناؤ قلم کار کا خاصا ہے۔
ضروری نہیں میری تمام باتیں سب پر اثر کریں، اگر صرف ایک پر بھی اثر کر گئیں تو یہ میرے لیے بہت ہے ہندسہ ایک سے آگے بڑھتا ہے۔ آخر میں عرض کروں گا ہمیں اپنے دلوں میں کسی کی نفرت یا کدورت نہ رکھیں ذہن میں اچھی باتیں آئیں گی آگے بڑھیں گے۔ راہ مستقیم پر چلیں گے آنے والی نسل ضرور اس پر عمل کرے گی معاشرتی جزیات ہیں۔
میری قسمت میں بھی ایسا سجدہ کر دے
جو میرے سارے گناہوں کا مداوا کر دے