اورنگزیب اور پھر قتیل شفائی
دبئی میں جب جشن ِ قتیل منایا گیا، تو میں برطانیہ سے وہاں پہنچا اور ان یادگار لمحوں کو میں نے کیمرے میں محفوظ کر لیا۔
اسکول کی آٹھویں جماعت سے مرے کالج سیالکوٹ کے دور تک مجھے اپنی شاعری کی اصلاح کے لیے تین معروف ہستیوں سے رابطے کا شرف حاصل رہا۔
ان میں سے عبدالمجید سالک سے ایک بار ملاقات ہوئی جب کہ باقی دو میں سے احمد ندیمؔ قاسمی صاحب کا ذکر کچھ عرسہ قبل ایک کالم میں کر چکا ہوں جب کہ قتیلؔؔ شفائی صاحب کی یاد اُنکے ایک بیٹے سے ایک ہی ملاقات کے بعد اس کی قتیل صاحب پر لکھی کتاب الماری میں سے نکال کر پڑھتے ہوئے آئی جس کا عنوان ہے ''قتیل شفائی میرا باپ میرا دوست '' پرویز قتیل نے یہ کتاب 29 ستمبر 2005 کو اپنے دستخطوں کے ساتھ مجھے دی تھی۔
اس کی سکونت چونکہ برطانیہ میں ہے اس لیے دوبارہ ملنا نہیں ہوا لیکن نوید قتیل چونکہ قتیل صاحب کا مستقل ڈرائیور تھا اور اس کی ملازمت کسٹمز کے محکمے میں لاہور ہی میں تھی اس لیے ملاقاتوں کی تعداد انگنت ہے ۔ نوید نے قتیل صاحب جیسے شعراء اور دوستوں کو گھر پر بلا کر مشاعرے اور کھانے کی روایت تو قائم نہ رکھی لیکن کبھی کبھار رات کو کھانے کی دعوت کو یاد رکھا ہے۔ پرویز قتیل کی کتاب میں سے چند اقتباسات مختصراً درج ہیں:
'' ابا جی وفات کے وقت بیاسی برس کے تھے۔ عمر کا آخری سال ان کی تکلیف دہ بیماری میں کٹا۔ ورنہ اس سے پہلے وہ واقعی مکمل طور پر ''تن درست'' تھے۔ مشاعروں میں لپک کر جانا، بھارت یاترا کے لیے بے چین رہنا، اور ہم ایسے نام نہاد جوانوں سے زیادہ ایکٹو (چست) رہنا۔ اس کی اَسویں (80) سالگرہ لاہور میں طمطراق سے منائی گئی تھی، ان کے نیاز مندوں نے انھیں اَسی (80) ہزار روپے کا تحفہ بھی دیا اور تقریب کو اتنا پرشکوہ بنایا کہ چند ہی دن بعد ابا جی بیماری کے نرغے میں آ گئے جس پر ان کے قریبی دوستوں اور عزیزوں نے کہاـ کہ انھیں نظر لگ گئی ہے۔چندر کانتا اور اقبال بانو سے تعلقات اسی زمانے میں ہوئے جب میں ابھی پاکستان ہی میں تھا۔ چندر کانتا کے زمانے میں، بہت چھوٹا تھا مگر اقبال بانو سے وابستگی کے دنوں میں میری مسیں بھیگ چکی تھیں۔ ابا جی کا یہ سلسلہ کافی گمبھیر صورت اختیار کر گیا تھا اور امی بہت پریشان رہنے لگی تھیں۔
ابا جی نے ''گلنار'' فلم کے گیت لکھے تھے، اس کے ہدایت کار امتیاز علی تاج تھے اور فلم ساز شوکت حسین رضوی ۔ ان دنوں نور جہاں اور شوکت حسین رضوی ابھی اکٹھے تھے۔ میں جب والد کے ساتھ شاہ نور اسٹوڈیو جاتا تو ان کے بیٹوں اکبر اور اصغر سے کھیلا کرتا۔ ''گلنار'' مکمل ہوئی تو اس کے رش پرنٹ دیکھنے کا اہتمام ہوا۔ موسیقار ماسٹر غلام حیدر تھے۔ ہال میں سب لوگ کرسیوں پر بیٹھ گئے ، تو مجھے کہیں جگہ نہ ملی، نور جہاں نے مجھے اپنی گود میں بٹھا لیا اور پوری فلم اس طرح، ہم دونوں نے دیکھی ۔
ایک دن ایک شخص، میلے کچیلے سیاہ کپڑے پہنے، لٹیں لہراتا آیا، مجھے خیال ہوا، کوئی مانگنے والا ہے اور خواہ مخواہ اندر گھس آیا ہے۔ میں ابھی کچھ بولنے ہی والا تھاکہ ابا جی نے بڑے تپاک سے اس کا خیر مقدم کیا۔ ''آئیے، ساغرؔ صاحب، یہاں تشریف رکھیے۔'' معلوم ہوا، وہ ساغرؔ صدیقی تھے۔
ایک دن میں والد صاحب کے ساتھ ٹانگے میں بیٹھا تھا۔ ہم شاید بھاٹی دروازے کی طرف سے رائل پارک لاہور آ رہے تھے۔ لوہاری دروازے کے پاس ایک شخص، صاف شفاف سفید کر ُتے اور پاجامے میں ملبوس، نظر کی عینک لگائے، قتیل قتیل کر کے آوازیں دے رہا ہے۔ ٹانگہ رکوایا۔ اس شخص نے کہا، ''دس روپے نکالو۔ ابا جی نے بڑے مؤدب انداز سے دس روپے نکا ل کر دیے، وہ شخص اور کچھ کہے سنے بغیر، اپنی منزل کو چل دیا۔ معلوم ہوا، سعادت حسن منٹو ہیں۔
دبئی میں جب جشن ِ قتیل منایا گیا، تو میں برطانیہ سے وہاں پہنچا اور ان یادگار لمحوں کو میں نے کیمرے میں محفوظ کر لیا۔ وہ جشن کئی حوالوںسے نا قابل فراموش ہو گیا۔
جشن قتیل کی دو اور اہم باتیں رہیں۔ مشاعرے سے دوسری شام، موسیقی کی محفل تھی۔ اس میں نوید قتیل نے بھی شرکت کی۔ اگرچہ، یہ نوید کی پہلی بین الاقوامی اور بڑی تقریب تھی، مگر اس نے یوں جم کے گایا کہ تمام موسیقی نواز بے ساختہ داد دیتے رہے۔
اقبال بانو نے بھی اس رات کو گائیکی کا کمال دکھایا۔ سامنے قتیل تھے اور ادھر اسٹیج پر گلوکارہ انھی کا کلام گا رہی تھی۔ جو رمزیں اور کنایے تھے، واقفان ِ حال اس کیفیت پر مسکرا رہے تھے اور یوں داد برسار رہے تھے کہ قتیل اور اقبال بانو دونوں اس کی زد میں آتے رہے۔
ابا جی کے جن دوستوں کی میٹھی یادیں میرے ساتھ ہیں، ان میں سے عبدالحمید عدمؔؔ، ابراہیم جلیس اور قمرؔ اجنالوی زیادہ نمایاں ہیں۔جب ہم مصری شاہ میں مقیم تھے تو ایک دن عدمؔؔ صاحب وہاں آئے۔ دروازہ کھٹکنے پر میں باہر نکلا تو انھوں نے کہا، قتیل کہاں ہے؟ میں نے کہا، سور رہے ہیں۔ انھوں نے با رعب آواز میں حکم دیا، جائو۔ اسے جگائو، کہو، عدمؔؔ آیا ہے۔
اب کچھ قتیل صاحب کے شعر :۔
درد سے میرا دامن بھر دے یا اللہ
پھر چاہے دیوانہ کر دے یا اللہ
......
انگڑائی پر انگڑائی لیتی ہے رات جدائی کی
تم کیا سمجھو، تم کیا جانو، بات مری تنہائی کی
......
ہو نہ ہو یہ کوئی سچ بولنے والا ہے قتیلؔ
جس کے ہاتھوں میں قلم پائوں میں زنجیریں ہیں
......
دنیا میں قتیلؔ اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا
وہ دل ہی کیا ترے ملنے کی جو دُعا نہ کرے
میں تجھ کو بھول کے زندہ رہوں خدا نہ کرے
......
پریشان رات ساری ہے، ستارو تم تو سو جائو
سکوتِ مرگ طاری ہے، ستارو تم تو سو جائو
......
اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں بسا لے مجھ کو
میں ہوں تیرا تو نصیب اپنا بنا لے مجھ کو
......
میں قتیلؔ وہ مسافر ہوں جہانِ بے بسی کا
جو بھٹک کے رہ گیا ہو کسی اجنبی وطن میں
......
یہ دُنیا ہے خود غرضوں کی لیکن یار قتیلؔ
تو نے ہمارا ساتھ دیا تو جئے ہزاروں سال
ان میں سے عبدالمجید سالک سے ایک بار ملاقات ہوئی جب کہ باقی دو میں سے احمد ندیمؔ قاسمی صاحب کا ذکر کچھ عرسہ قبل ایک کالم میں کر چکا ہوں جب کہ قتیلؔؔ شفائی صاحب کی یاد اُنکے ایک بیٹے سے ایک ہی ملاقات کے بعد اس کی قتیل صاحب پر لکھی کتاب الماری میں سے نکال کر پڑھتے ہوئے آئی جس کا عنوان ہے ''قتیل شفائی میرا باپ میرا دوست '' پرویز قتیل نے یہ کتاب 29 ستمبر 2005 کو اپنے دستخطوں کے ساتھ مجھے دی تھی۔
اس کی سکونت چونکہ برطانیہ میں ہے اس لیے دوبارہ ملنا نہیں ہوا لیکن نوید قتیل چونکہ قتیل صاحب کا مستقل ڈرائیور تھا اور اس کی ملازمت کسٹمز کے محکمے میں لاہور ہی میں تھی اس لیے ملاقاتوں کی تعداد انگنت ہے ۔ نوید نے قتیل صاحب جیسے شعراء اور دوستوں کو گھر پر بلا کر مشاعرے اور کھانے کی روایت تو قائم نہ رکھی لیکن کبھی کبھار رات کو کھانے کی دعوت کو یاد رکھا ہے۔ پرویز قتیل کی کتاب میں سے چند اقتباسات مختصراً درج ہیں:
'' ابا جی وفات کے وقت بیاسی برس کے تھے۔ عمر کا آخری سال ان کی تکلیف دہ بیماری میں کٹا۔ ورنہ اس سے پہلے وہ واقعی مکمل طور پر ''تن درست'' تھے۔ مشاعروں میں لپک کر جانا، بھارت یاترا کے لیے بے چین رہنا، اور ہم ایسے نام نہاد جوانوں سے زیادہ ایکٹو (چست) رہنا۔ اس کی اَسویں (80) سالگرہ لاہور میں طمطراق سے منائی گئی تھی، ان کے نیاز مندوں نے انھیں اَسی (80) ہزار روپے کا تحفہ بھی دیا اور تقریب کو اتنا پرشکوہ بنایا کہ چند ہی دن بعد ابا جی بیماری کے نرغے میں آ گئے جس پر ان کے قریبی دوستوں اور عزیزوں نے کہاـ کہ انھیں نظر لگ گئی ہے۔چندر کانتا اور اقبال بانو سے تعلقات اسی زمانے میں ہوئے جب میں ابھی پاکستان ہی میں تھا۔ چندر کانتا کے زمانے میں، بہت چھوٹا تھا مگر اقبال بانو سے وابستگی کے دنوں میں میری مسیں بھیگ چکی تھیں۔ ابا جی کا یہ سلسلہ کافی گمبھیر صورت اختیار کر گیا تھا اور امی بہت پریشان رہنے لگی تھیں۔
ابا جی نے ''گلنار'' فلم کے گیت لکھے تھے، اس کے ہدایت کار امتیاز علی تاج تھے اور فلم ساز شوکت حسین رضوی ۔ ان دنوں نور جہاں اور شوکت حسین رضوی ابھی اکٹھے تھے۔ میں جب والد کے ساتھ شاہ نور اسٹوڈیو جاتا تو ان کے بیٹوں اکبر اور اصغر سے کھیلا کرتا۔ ''گلنار'' مکمل ہوئی تو اس کے رش پرنٹ دیکھنے کا اہتمام ہوا۔ موسیقار ماسٹر غلام حیدر تھے۔ ہال میں سب لوگ کرسیوں پر بیٹھ گئے ، تو مجھے کہیں جگہ نہ ملی، نور جہاں نے مجھے اپنی گود میں بٹھا لیا اور پوری فلم اس طرح، ہم دونوں نے دیکھی ۔
ایک دن ایک شخص، میلے کچیلے سیاہ کپڑے پہنے، لٹیں لہراتا آیا، مجھے خیال ہوا، کوئی مانگنے والا ہے اور خواہ مخواہ اندر گھس آیا ہے۔ میں ابھی کچھ بولنے ہی والا تھاکہ ابا جی نے بڑے تپاک سے اس کا خیر مقدم کیا۔ ''آئیے، ساغرؔ صاحب، یہاں تشریف رکھیے۔'' معلوم ہوا، وہ ساغرؔ صدیقی تھے۔
ایک دن میں والد صاحب کے ساتھ ٹانگے میں بیٹھا تھا۔ ہم شاید بھاٹی دروازے کی طرف سے رائل پارک لاہور آ رہے تھے۔ لوہاری دروازے کے پاس ایک شخص، صاف شفاف سفید کر ُتے اور پاجامے میں ملبوس، نظر کی عینک لگائے، قتیل قتیل کر کے آوازیں دے رہا ہے۔ ٹانگہ رکوایا۔ اس شخص نے کہا، ''دس روپے نکالو۔ ابا جی نے بڑے مؤدب انداز سے دس روپے نکا ل کر دیے، وہ شخص اور کچھ کہے سنے بغیر، اپنی منزل کو چل دیا۔ معلوم ہوا، سعادت حسن منٹو ہیں۔
دبئی میں جب جشن ِ قتیل منایا گیا، تو میں برطانیہ سے وہاں پہنچا اور ان یادگار لمحوں کو میں نے کیمرے میں محفوظ کر لیا۔ وہ جشن کئی حوالوںسے نا قابل فراموش ہو گیا۔
جشن قتیل کی دو اور اہم باتیں رہیں۔ مشاعرے سے دوسری شام، موسیقی کی محفل تھی۔ اس میں نوید قتیل نے بھی شرکت کی۔ اگرچہ، یہ نوید کی پہلی بین الاقوامی اور بڑی تقریب تھی، مگر اس نے یوں جم کے گایا کہ تمام موسیقی نواز بے ساختہ داد دیتے رہے۔
اقبال بانو نے بھی اس رات کو گائیکی کا کمال دکھایا۔ سامنے قتیل تھے اور ادھر اسٹیج پر گلوکارہ انھی کا کلام گا رہی تھی۔ جو رمزیں اور کنایے تھے، واقفان ِ حال اس کیفیت پر مسکرا رہے تھے اور یوں داد برسار رہے تھے کہ قتیل اور اقبال بانو دونوں اس کی زد میں آتے رہے۔
ابا جی کے جن دوستوں کی میٹھی یادیں میرے ساتھ ہیں، ان میں سے عبدالحمید عدمؔؔ، ابراہیم جلیس اور قمرؔ اجنالوی زیادہ نمایاں ہیں۔جب ہم مصری شاہ میں مقیم تھے تو ایک دن عدمؔؔ صاحب وہاں آئے۔ دروازہ کھٹکنے پر میں باہر نکلا تو انھوں نے کہا، قتیل کہاں ہے؟ میں نے کہا، سور رہے ہیں۔ انھوں نے با رعب آواز میں حکم دیا، جائو۔ اسے جگائو، کہو، عدمؔؔ آیا ہے۔
اب کچھ قتیل صاحب کے شعر :۔
درد سے میرا دامن بھر دے یا اللہ
پھر چاہے دیوانہ کر دے یا اللہ
......
انگڑائی پر انگڑائی لیتی ہے رات جدائی کی
تم کیا سمجھو، تم کیا جانو، بات مری تنہائی کی
......
ہو نہ ہو یہ کوئی سچ بولنے والا ہے قتیلؔ
جس کے ہاتھوں میں قلم پائوں میں زنجیریں ہیں
......
دنیا میں قتیلؔ اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا
وہ دل ہی کیا ترے ملنے کی جو دُعا نہ کرے
میں تجھ کو بھول کے زندہ رہوں خدا نہ کرے
......
پریشان رات ساری ہے، ستارو تم تو سو جائو
سکوتِ مرگ طاری ہے، ستارو تم تو سو جائو
......
اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں بسا لے مجھ کو
میں ہوں تیرا تو نصیب اپنا بنا لے مجھ کو
......
میں قتیلؔ وہ مسافر ہوں جہانِ بے بسی کا
جو بھٹک کے رہ گیا ہو کسی اجنبی وطن میں
......
یہ دُنیا ہے خود غرضوں کی لیکن یار قتیلؔ
تو نے ہمارا ساتھ دیا تو جئے ہزاروں سال