بھارتی جارحیت عالمی قوانین کی خلاف ورزی
ایل او سی کی خلاف ورزی کرنا اور بلااشتعال فائرنگ کرنا بھارت نے اپنی عادت بنا لی
پاکستانی دفترخارجہ نے گزشتہ روز ایل او سی پراقوام متحدہ کی فوجی مبصر گاڑی کو جان بوجھ کر نشانہ بنانے پر بھارتی ناظم الامور کو طلب کرکے احتجاج کیا اور مطلع کیا گیا کہ یہ اقدام بین الاقوامی اقدار کی کھلی ورزی ہے اور اقوام متحدہ چارٹر میں موجود اصولوں کی نفی ہے۔
بھارت بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزیاں بند کرے۔ درحقیقت ایل او سی کی خلاف ورزی کرنا اور بلااشتعال فائرنگ کرنا بھارت نے اپنی عادت بنا لی ہے۔بھارت کا مائنڈ سیٹ خطے میں بالادستی کا ہے ، لہٰذا اس نے پاکستان سمیت تمام ہمسایہ ممالک کے خلاف سازشی تھیوری کو اپنا رکھا ہے جب کہ سچ تو یہ ہے کہ بھارت اندرونی طور پر انسانی آزادی کی بدترین صورتحال سے دوچار ہے ،اسی سچ کو امریکی تھنک ٹینک نے اپنی ایک رپورٹ میں بیان کیا ہے ۔
بھارت دنیا بھر میں شخصی ومعاشی آزادی انڈیکس سترہ درجے تنزلی کے بعد 162 ملکوں کی فہرست میں 111 ویں نمبر پر آگیا ہے، اس طرح سابقہ انڈیکس کے مقابلے میں بھارت میں انسانی آزادی میں سترہ پوائنٹس کی تنزلی آئی ہے ۔انڈیکس پوائنٹس قانون کی عملداری ، مذہبی وعوام تحفظ ، نظام قانون کی صورتحال دیکھ کر دیے جاتے ہیں ۔معروف بھارتی صحافی اور ادیب خشونت سنگھ نے اپنی کتاب، دی اینڈ آف انڈیا، میں کہا تھا ''بھارت کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے'پاکستان یا دنیا کا کوئی بھی ملک بھارت کو تباہ نہیں کرے گا بلکہ یہ اپنے آپ ہی تعصبانہ رویوں کی بدولت خودکشی کا ارتکاب کر ے گا'' سچ تو یہ ہے کہ بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے سیکولر بھارت کا چہرہ مسخ کر دیا ہے۔
آج ہندوستان میں اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک برتا جا رہا ہے ناصرف مسلمان بلکہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ بھی نام نہاد جمہوری ملک ہونے کا دعویدار ہندوستان انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔ اقلیتوں کو مذہبی فرائض کی ادائیگی سے روکا جا رہا ہے۔
ہر جرم کا الزام مسلمانوں پر تھوپنے اور پھر انھیں اذیتیں دینے سے کون واقف نہیں۔ خودکو سیکولر ملک کہنے والے ہندوستان کی کشمیر میں جاری کارستانیوں جہاں ہندو فوج نے کشمیریوں کے حق خودارادیت اور آزادی کی تحریک کو کچلنے کے لیے نہتے کشمیریوں کا عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے اور تنگ نظر ہندو ازم کا زہر پوری ریاست میں پھیل رہا ہے اور اقلیتوں کو مختلف ہتھکنڈوں سے دیوار کے ساتھ لگایا جا رہا ہے۔
عیسائیوں، مسلمانوں اور سکھوں کو یہ کہہ کر ان کا استحصال کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنی اپنی ریاستوں میں چلے جائیں کیونکہ بھارت صرف ہندوؤں کی سرزمین ہے، یہاں کسی اور گروہ، فرقے یا مذہب کی جگہ نہیں۔ یوں اپنی مذموم اور گھٹیا حرکات سے سیکولر بھارت کے منہ پر کالک مل دی گئی اور ''سیکولر ریاست''اپنا منہ چھپاتی پھر رہی ہے۔
وی ایچ پی (ویشوا ہندو پریشد)، بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی)، آر ایس ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ)، بجرنگ دَل اور ڈی جے ایس (دھرم جاگرن سمیتی) جیسی ہندو انتہا پسند تنظیمیں مسلسل طاقت پکڑ رہی ہیں اور ان شدت پسند تنظیموں نے ہندو نوجوانوں کو ''سنگھ پریوار''کے نام پر متحد کرنے کی تحریک شروع کر رکھی ہے۔بھارتی مصنفہ اور سماجی کارکن اروندھتی رائے انتہا پسندی کو ''بھارت کا کورونا وائرس' 'قرار دے چکی ہیں، جب کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو 'بدترین آمر' اور ریاستی سر پرستی میں مسلمانوں پر حملوں کا ذمے دار قرار دیتی ہے۔ درحقیقت مودی سرکار نے بغیر سوچے سمجھے ملک بھر میں مکمل لاک ڈاؤن کیے رکھا اس سے کاروبار تباہ ہوئے معیشت کو نقصان پہنچا اور زرعی شعبے کو بہت دھچکا لگا۔ آج کسان ان کے خلاف سراپا احتجاج اور بہت سی اپوزیشن پارٹیاں اس احتجاج میں کسانوں کے ساتھ کھڑی ہیں۔انتہا پسندی وہ بیماری ہے جس میں بھارت مبتلا ہے۔
کشمیر میں آزادی کی آواز کو گولی سے دبانے کی روش پر بھارت مدتوں سے چل رہا ہے۔ مسلمانوں کے علاوہ سکھ برادری جو مدتوں سے اپنے خلاف جاری کارروائیوں پہ سراپا احتجاج ہے اورظلم و نا انصافیوں کے خلاف آواز بلند کیے خالصتان تحریک چلا رہے ہیں،بظاہر ان کی منزل بھی قریب نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ بھی ہندوؤں کے دہرے معیار اور معتصبانہ رویوں نے دنیا کے سامنے ہمیشہ اس کا چہرہ بے نقاب کر دیا ہے۔ مودی سرکار کے دوسرے دور کی بنیاد ہی مسلم کشی سے شروع ہوئی ہے۔
شہریت کے متنازعہ قانون کا نفاذ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ،مسلمانوں سے بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں سے غیرانسانی سلوک کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، متنازعہ قوانین ، شہریتی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والے مسلمانوں کے خلاف غداری کے مقدمات درج کیے گئے۔
دہلی میں منظم انداز میں مسلمانوں کی املاک کو نذرآتش اور ان کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ جاڑکھنڈ، اُترپردیش اور بعض دوسری ریاستوں میں نہ صرف مسلمانوں کو بدترین حالات کا سامنا کرنا پڑا بلکہ کورونا وبا کے حالیہ دنوں میں اسپتالوں میں ڈاکٹروں نے ان کے علاج سے انکار کر دیا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ہندوتوا کی علمبردار بی جے پی سرکار کے ناروا اقدامات کے باعث بھارت میں آج مسلمان آبادی مکمل طور پر غیرمحفوظ ہے۔ بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں آئے روز ایسے قانون کا نفاذ کیا جا رہا ہے جس سے مسلمان سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
تعلیم، روزگار اور دوسرے شعبوں میں مسلمانوںکو بطور خاص نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد وادی میں بھارتی بربریت کے نئے دور کا آغاز ہوا، آئے دن ایسے متنازعہ قوانین کے نفاذ کا معاملہ جاری ہے جس سے کشمیر کی مسلم آبادی کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جا سکے۔
عالمی برادری اور اداروں کے اس ساری صورتحال پر بیانات کو اگر بھارت کے مسلمان محض نمائشی بیانات قرار دیتے ہیں تو یہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں، عالمی ادارے اور طاقتور ممالک کی مجرمانہ خاموشی نے بھارت میں مسلمانوں اور دوسری اقلیتی برادریوں پر زندگی کے دروازے بند کر نے والوں کوشہ دی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس کی بنیادی وجہ عالمی برادری کے مؤثر ممالک کے بھارت سے وابستہ مالیاتی مفادات ہیں، ترقی یافتہ ممالک کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی بھارت میں مجموعی سرمایہ کاری180ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔
اس طرح بااثر مسلم ممالک بھی بھارت سے لگ بھگ 300ارب ڈالر کے کاروباری رشتوں میں بند ھے ہوئے ہیں، اقوام کی برادری کے باہمی مالیاتی، تجارتی وسیاسی مفادات اور اشتراک پر حرف گیری مقصود نہیں بلکہ یہ عرض کرنا ہے کہ اگر ترقی پذیر ممالک اور بااثر مسلم ریاستوں کے حکمران چاہتے تو تجارتی مفادات کی محبت سے بندھے بھارت کی توجہ اس معاملے پر دلا سکتے تھے۔ افسوس کہ اس مرحلہ پر پاکستان، ترکی، ملیشیا اور ایران کے علاوہ کسی ملک نے بھی بھارتی حکومت کو مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کی حالت زار کی جانب توجہ نہیں دلائی۔
غور طلب امر یہ ہے کہ آخر اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل اس انسانی مسئلہ پر اپنے کردار کی ادائیگی سے پہلوتہی کیوں برتے چلے آرہے ہیں؟پاکستانی دفترخارجہ کا یہ کہنا درست ہے کہ ''بھارت اپنے داخلی مسائل خصوصاً مسلمانوں کے خلاف جاری حکومتی اور انتہاپسند ہندوؤں کی کارروائیوں سے توجہ ہٹانے کے لیے لائن آف کنٹرول پر اشتعال انگیزی میں مصروف ہے'' جب کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا بھارت کے انسانیت وامن دشمن کردار کی نہ صرف کھل کر مذمت کرے بلکہ طاقتور ممالک اور عالمی ادارے اس امر کو یقینی بنائیں کہ بھارت اپنی جغرافیائی وحدت میں مساوی انسانی حقوق کے احترام کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے موجود سلامتی کونسل کی قراردادوں کا بھی احترام کرے۔ کشمیریوں کی وحدت کو تقسیم کرنے اور اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی سازشوں سے باز رہے۔
بھارت کی داخلی صورتحال کے پیش نظر اگر دنیا بھر کے مسلمان یہ سوال کرتے ہیں کہ بھارتی مسلمانوں اور کشمیریوں کے تحفظ کے لیے عالمی طاقتیں اور ادارے مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان جیسی پالیسیاں کیوں نہیں اپناتے تو ہر سوال درست ہے۔
عالمی اداروں طاقتور ممالک کو اپنا کردار مؤثر انداز میں ادا کرنا ہوگا تاکہ بھارت میں مسلمان اور دوسری اقلیتی برادریوں پر زمین مزید تنگ نہ ہونے پائے۔ ہندوستان اپنی اسی روش پر چلتا رہا، تو وہ دن دور نہیں جب اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے۔ دوسروں کے لیے گڑھا کھودنے والے اکثر اس میں خود گر جاتے ہیں۔ بھارت نے اپنے ہمسایہ ممالک کو پریشان کر رکھا ہے، وہ ممالک جن کی آبادی کی اکثریت ہندومت سے تعلق رکھتی ہے جوکہ بھارت کے ہم مذہب ہیں لیکن پھر بھی بھارت نے انھیں ہر طرف سے گھیر کر صرف اپنا دست نگر رکھنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے اور ان کے ساتھ اس اشتراک مذہب پر بھی ان کے لیے رعایت موجود نہیں ہے، بھارت کا یہ چہرہ برہمن ذہنیت کا عکاس ہے ۔
دوسری جانب بھارت ایک مرتبہ پھر خطے کے امن کو تباہ کرنے کے لیے سر گرم ہوگیا ہے جس کے باعث پاکستان کی مسلح افواج ہائی الرٹ ہیں۔بھارت اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک، کسانوں کے احتجاج، مقبوضہ کشمیر میں بڑھتے مظالم اور عالمی میڈیا اور اداروں کی تنقید سے توجہ ہٹانے کے لیے ایک اور فالس فلیگ آپریشن کی کوشش کر رہا ہے جس کے باعث مسلح افواج کو ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے۔
بھارت کو یہ حقیقت نہیں بھولنی چاہیے کہ پاکستانی افواج کا شمار دنیا کی بہترین پروفیشنل فورسز میں ہوتا ہے، لہٰذا اگر بھارت نے کسی قسم کا ایڈونچر کرنے کی کوشش کی تو اسے منہ کی کھانی پڑے گی۔
بھارت بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزیاں بند کرے۔ درحقیقت ایل او سی کی خلاف ورزی کرنا اور بلااشتعال فائرنگ کرنا بھارت نے اپنی عادت بنا لی ہے۔بھارت کا مائنڈ سیٹ خطے میں بالادستی کا ہے ، لہٰذا اس نے پاکستان سمیت تمام ہمسایہ ممالک کے خلاف سازشی تھیوری کو اپنا رکھا ہے جب کہ سچ تو یہ ہے کہ بھارت اندرونی طور پر انسانی آزادی کی بدترین صورتحال سے دوچار ہے ،اسی سچ کو امریکی تھنک ٹینک نے اپنی ایک رپورٹ میں بیان کیا ہے ۔
بھارت دنیا بھر میں شخصی ومعاشی آزادی انڈیکس سترہ درجے تنزلی کے بعد 162 ملکوں کی فہرست میں 111 ویں نمبر پر آگیا ہے، اس طرح سابقہ انڈیکس کے مقابلے میں بھارت میں انسانی آزادی میں سترہ پوائنٹس کی تنزلی آئی ہے ۔انڈیکس پوائنٹس قانون کی عملداری ، مذہبی وعوام تحفظ ، نظام قانون کی صورتحال دیکھ کر دیے جاتے ہیں ۔معروف بھارتی صحافی اور ادیب خشونت سنگھ نے اپنی کتاب، دی اینڈ آف انڈیا، میں کہا تھا ''بھارت کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے'پاکستان یا دنیا کا کوئی بھی ملک بھارت کو تباہ نہیں کرے گا بلکہ یہ اپنے آپ ہی تعصبانہ رویوں کی بدولت خودکشی کا ارتکاب کر ے گا'' سچ تو یہ ہے کہ بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے سیکولر بھارت کا چہرہ مسخ کر دیا ہے۔
آج ہندوستان میں اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک برتا جا رہا ہے ناصرف مسلمان بلکہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ بھی نام نہاد جمہوری ملک ہونے کا دعویدار ہندوستان انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔ اقلیتوں کو مذہبی فرائض کی ادائیگی سے روکا جا رہا ہے۔
ہر جرم کا الزام مسلمانوں پر تھوپنے اور پھر انھیں اذیتیں دینے سے کون واقف نہیں۔ خودکو سیکولر ملک کہنے والے ہندوستان کی کشمیر میں جاری کارستانیوں جہاں ہندو فوج نے کشمیریوں کے حق خودارادیت اور آزادی کی تحریک کو کچلنے کے لیے نہتے کشمیریوں کا عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے اور تنگ نظر ہندو ازم کا زہر پوری ریاست میں پھیل رہا ہے اور اقلیتوں کو مختلف ہتھکنڈوں سے دیوار کے ساتھ لگایا جا رہا ہے۔
عیسائیوں، مسلمانوں اور سکھوں کو یہ کہہ کر ان کا استحصال کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنی اپنی ریاستوں میں چلے جائیں کیونکہ بھارت صرف ہندوؤں کی سرزمین ہے، یہاں کسی اور گروہ، فرقے یا مذہب کی جگہ نہیں۔ یوں اپنی مذموم اور گھٹیا حرکات سے سیکولر بھارت کے منہ پر کالک مل دی گئی اور ''سیکولر ریاست''اپنا منہ چھپاتی پھر رہی ہے۔
وی ایچ پی (ویشوا ہندو پریشد)، بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی)، آر ایس ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ)، بجرنگ دَل اور ڈی جے ایس (دھرم جاگرن سمیتی) جیسی ہندو انتہا پسند تنظیمیں مسلسل طاقت پکڑ رہی ہیں اور ان شدت پسند تنظیموں نے ہندو نوجوانوں کو ''سنگھ پریوار''کے نام پر متحد کرنے کی تحریک شروع کر رکھی ہے۔بھارتی مصنفہ اور سماجی کارکن اروندھتی رائے انتہا پسندی کو ''بھارت کا کورونا وائرس' 'قرار دے چکی ہیں، جب کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو 'بدترین آمر' اور ریاستی سر پرستی میں مسلمانوں پر حملوں کا ذمے دار قرار دیتی ہے۔ درحقیقت مودی سرکار نے بغیر سوچے سمجھے ملک بھر میں مکمل لاک ڈاؤن کیے رکھا اس سے کاروبار تباہ ہوئے معیشت کو نقصان پہنچا اور زرعی شعبے کو بہت دھچکا لگا۔ آج کسان ان کے خلاف سراپا احتجاج اور بہت سی اپوزیشن پارٹیاں اس احتجاج میں کسانوں کے ساتھ کھڑی ہیں۔انتہا پسندی وہ بیماری ہے جس میں بھارت مبتلا ہے۔
کشمیر میں آزادی کی آواز کو گولی سے دبانے کی روش پر بھارت مدتوں سے چل رہا ہے۔ مسلمانوں کے علاوہ سکھ برادری جو مدتوں سے اپنے خلاف جاری کارروائیوں پہ سراپا احتجاج ہے اورظلم و نا انصافیوں کے خلاف آواز بلند کیے خالصتان تحریک چلا رہے ہیں،بظاہر ان کی منزل بھی قریب نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ بھی ہندوؤں کے دہرے معیار اور معتصبانہ رویوں نے دنیا کے سامنے ہمیشہ اس کا چہرہ بے نقاب کر دیا ہے۔ مودی سرکار کے دوسرے دور کی بنیاد ہی مسلم کشی سے شروع ہوئی ہے۔
شہریت کے متنازعہ قانون کا نفاذ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ،مسلمانوں سے بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں سے غیرانسانی سلوک کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، متنازعہ قوانین ، شہریتی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والے مسلمانوں کے خلاف غداری کے مقدمات درج کیے گئے۔
دہلی میں منظم انداز میں مسلمانوں کی املاک کو نذرآتش اور ان کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ جاڑکھنڈ، اُترپردیش اور بعض دوسری ریاستوں میں نہ صرف مسلمانوں کو بدترین حالات کا سامنا کرنا پڑا بلکہ کورونا وبا کے حالیہ دنوں میں اسپتالوں میں ڈاکٹروں نے ان کے علاج سے انکار کر دیا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ہندوتوا کی علمبردار بی جے پی سرکار کے ناروا اقدامات کے باعث بھارت میں آج مسلمان آبادی مکمل طور پر غیرمحفوظ ہے۔ بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں آئے روز ایسے قانون کا نفاذ کیا جا رہا ہے جس سے مسلمان سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
تعلیم، روزگار اور دوسرے شعبوں میں مسلمانوںکو بطور خاص نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد وادی میں بھارتی بربریت کے نئے دور کا آغاز ہوا، آئے دن ایسے متنازعہ قوانین کے نفاذ کا معاملہ جاری ہے جس سے کشمیر کی مسلم آبادی کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جا سکے۔
عالمی برادری اور اداروں کے اس ساری صورتحال پر بیانات کو اگر بھارت کے مسلمان محض نمائشی بیانات قرار دیتے ہیں تو یہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں، عالمی ادارے اور طاقتور ممالک کی مجرمانہ خاموشی نے بھارت میں مسلمانوں اور دوسری اقلیتی برادریوں پر زندگی کے دروازے بند کر نے والوں کوشہ دی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس کی بنیادی وجہ عالمی برادری کے مؤثر ممالک کے بھارت سے وابستہ مالیاتی مفادات ہیں، ترقی یافتہ ممالک کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی بھارت میں مجموعی سرمایہ کاری180ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔
اس طرح بااثر مسلم ممالک بھی بھارت سے لگ بھگ 300ارب ڈالر کے کاروباری رشتوں میں بند ھے ہوئے ہیں، اقوام کی برادری کے باہمی مالیاتی، تجارتی وسیاسی مفادات اور اشتراک پر حرف گیری مقصود نہیں بلکہ یہ عرض کرنا ہے کہ اگر ترقی پذیر ممالک اور بااثر مسلم ریاستوں کے حکمران چاہتے تو تجارتی مفادات کی محبت سے بندھے بھارت کی توجہ اس معاملے پر دلا سکتے تھے۔ افسوس کہ اس مرحلہ پر پاکستان، ترکی، ملیشیا اور ایران کے علاوہ کسی ملک نے بھی بھارتی حکومت کو مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کی حالت زار کی جانب توجہ نہیں دلائی۔
غور طلب امر یہ ہے کہ آخر اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل اس انسانی مسئلہ پر اپنے کردار کی ادائیگی سے پہلوتہی کیوں برتے چلے آرہے ہیں؟پاکستانی دفترخارجہ کا یہ کہنا درست ہے کہ ''بھارت اپنے داخلی مسائل خصوصاً مسلمانوں کے خلاف جاری حکومتی اور انتہاپسند ہندوؤں کی کارروائیوں سے توجہ ہٹانے کے لیے لائن آف کنٹرول پر اشتعال انگیزی میں مصروف ہے'' جب کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا بھارت کے انسانیت وامن دشمن کردار کی نہ صرف کھل کر مذمت کرے بلکہ طاقتور ممالک اور عالمی ادارے اس امر کو یقینی بنائیں کہ بھارت اپنی جغرافیائی وحدت میں مساوی انسانی حقوق کے احترام کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے موجود سلامتی کونسل کی قراردادوں کا بھی احترام کرے۔ کشمیریوں کی وحدت کو تقسیم کرنے اور اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی سازشوں سے باز رہے۔
بھارت کی داخلی صورتحال کے پیش نظر اگر دنیا بھر کے مسلمان یہ سوال کرتے ہیں کہ بھارتی مسلمانوں اور کشمیریوں کے تحفظ کے لیے عالمی طاقتیں اور ادارے مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان جیسی پالیسیاں کیوں نہیں اپناتے تو ہر سوال درست ہے۔
عالمی اداروں طاقتور ممالک کو اپنا کردار مؤثر انداز میں ادا کرنا ہوگا تاکہ بھارت میں مسلمان اور دوسری اقلیتی برادریوں پر زمین مزید تنگ نہ ہونے پائے۔ ہندوستان اپنی اسی روش پر چلتا رہا، تو وہ دن دور نہیں جب اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے۔ دوسروں کے لیے گڑھا کھودنے والے اکثر اس میں خود گر جاتے ہیں۔ بھارت نے اپنے ہمسایہ ممالک کو پریشان کر رکھا ہے، وہ ممالک جن کی آبادی کی اکثریت ہندومت سے تعلق رکھتی ہے جوکہ بھارت کے ہم مذہب ہیں لیکن پھر بھی بھارت نے انھیں ہر طرف سے گھیر کر صرف اپنا دست نگر رکھنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے اور ان کے ساتھ اس اشتراک مذہب پر بھی ان کے لیے رعایت موجود نہیں ہے، بھارت کا یہ چہرہ برہمن ذہنیت کا عکاس ہے ۔
دوسری جانب بھارت ایک مرتبہ پھر خطے کے امن کو تباہ کرنے کے لیے سر گرم ہوگیا ہے جس کے باعث پاکستان کی مسلح افواج ہائی الرٹ ہیں۔بھارت اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک، کسانوں کے احتجاج، مقبوضہ کشمیر میں بڑھتے مظالم اور عالمی میڈیا اور اداروں کی تنقید سے توجہ ہٹانے کے لیے ایک اور فالس فلیگ آپریشن کی کوشش کر رہا ہے جس کے باعث مسلح افواج کو ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے۔
بھارت کو یہ حقیقت نہیں بھولنی چاہیے کہ پاکستانی افواج کا شمار دنیا کی بہترین پروفیشنل فورسز میں ہوتا ہے، لہٰذا اگر بھارت نے کسی قسم کا ایڈونچر کرنے کی کوشش کی تو اسے منہ کی کھانی پڑے گی۔