امن کا بھاری پتھر
1947 سے 1964 تک پاکستان مثالی ترقی کر رہا تھا
1947سے1964 تک پاکستان مثالی ترقی کر رہا تھا۔پوری دنیابالخصوص مسلمان ممالک سے طلباء اورطالبات کی کثیرتعدادہمارے ملک میں تعلیم حاصل کرنے آتی تھی۔معیشت چارفیصدسے لے کر نو فیصدکے حساب سے بڑھ رہی تھی۔
ملکی دارالحکومت میں غیرملکی وفودصرف یہ دیکھنے کے لیے آتے رہتے تھے کہ ہماراملک بالاخراتنی حیرت انگیز ترقی کیسے کررہا ہے۔زراعت اور صنعت کے میدان میں ہماری بالادستی بھرپوراورقطعی تھی۔ 1965 میں کشمیربنے گا پاکستان کانعرہ بلند ہوا۔پاکستان اور ہندوستان کے درمیان باقاعدہ جنگ شروع ہوگئی۔ اس جنگ سے کیانقصان ہوااورکیافائدہ۔مگرایک اہم ترین نتیجہ یہ سامنے آیاکہ ہماری اقتصادی ترقی کی شرح کم ہوگئی۔ اس نقصان سے ہم دوبارہ واپس نہیں نکل سکے۔ترقی کے گھوڑے نے ایسی ٹھوکرکھائی کہ پھراپنے پاؤں پرکھڑاہونامشکل سے مشکل تر ہوتا چلا گیا۔ پھر دنیا میں ہمارا وجودایک بھکاری ملک کا سا ہوگیا۔
لائل پورزرعی یونیورسٹی میں اتنے غیرملکی مرداور خواتین تعلیم حاصل کررہے تھے کہ ایک پوراہاسٹل ان کے لیے مختص کردیاگیاتھا۔شام کوغیرملکی طلباء اور طالبات عام بازاروں میں سائیکلوں پرسوارنظرآتے تھے۔ میڈیکل کالج یعنی کنگ ایڈورڈاورفاطمہ جناح میڈیکل کالج میں سیکڑوں غیرملکی افراد ڈاکٹربننے کے لیے قطاروں میں لگ کرداخلہ لیتے تھے۔انجینئرنگ یونیورسٹی کا بھی یہی حال تھا۔مجموعی طورپر1965 تک پوری دنیامیں پاکستان ایک محترم اورقابل قدرملک کے طورپراُٹھ رہا تھا۔ذوالفقارعلی بھٹونے عوامی دکھتی رگ پرہاتھ رکھتے ہوئے،صدرایوب کو قائل کرلیاکہ پاکستان کو کشمیر حاصل کرلینا چاہیے۔
آخر یہ مشورہ کیونکردیا گیا۔ صدر ایوب کے سوال پرکہ کیا ہندوستان،بین الاقوامی سرحدعبور کرکے بھرپورجنگ تونہیں شروع کردیگا۔ اسکا جواب وزیرخارجہ کی طرف سے دوبارہ ایک سوالیہ نشان تھا۔ بالکل نہیں۔پاکستان نے کشمیرپریلغارکی اور تھوڑے عرصے کے بعد ہندوستان نے پاکستان پرحملہ کردیا۔ 1965 کی جنگ ہوئی۔کون جیتا،کون ہارا۔اس سے صرفِ نظرکرکے صرف ایک سچ سامنے آیاکہ پاکستان کی ترقی یک دم رُک گئی۔شرح نموبھی کم ہونی شروع ہوگئی۔حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمارے پورے ملک میں ترقی کرنے یاجنگ کرنے کے بارے میں زندہ مکالمہ بہت ہی کمزورہے۔
1970 میں اپنے والدمحترم کے ساتھ لاہور آنا ہوا۔واپڈاہاؤس کے سامنے بھارت کے خلاف کسی سیاسی جماعت کاپُرامن جلسہ ہورہاتھا۔اچانک ایک نوجوان آیااورہماری گاڑی کی ونڈاسکرین پرایک پوسٹر چپکا دیا۔اس پرلکھاتھا۔Crush India اور ساتھ ہی ایک آہنی مکا بناہواتھا۔میں بہت چھوٹاتھا۔ایک دم ذہن میں آیاکہ اپنے ہاتھ سے انڈیاکومکھی کی طرح مَسل دوں۔ خیریہ ایک ناپختہ ذہن کی بات تھی۔
70 کی جنگ میں مشرقی پاکستان ہم سے کٹ گیا۔مگرمغربی پاکستان پرقبضہ کرنے کی ہندوستانی اسکیم کوامریکی صدرنے روکا۔ یہ حددرجہ تلخ حقیقت ہے کہ آج کے پاکستان کا وجود، اس وقت کے امریکی صدرکی بھارتی وزیراعظم کودھمکی کی وجہ سے قائم ہے۔مگرجوہری بات یہ ہے کہ ہماری معاشی ترقی مکمل طورپررُک گئی۔بعدازاںہم نے اپنے ملک کو آگے بڑھانے کے بجائے ایک ایساراستہ منتخب کر لیا جو آج تک قائم ہے۔یعنی ہرسطح پربھارت سے حددرجہ دشمنی۔دونوں ملکوں میں اس درجہ نفرت عودکرآئی کہ امن کی بات کرنے والے کوغدار،ہندوستانی ایجنٹ اورملک دشمن قراردیاجانے لگا۔
اس بیانیے نے جیسے جیسے طاقت پکڑی،پاکستان کی ترقی اسی شرح سے اندھیری گھاٹی میں اُترنے لگی۔ہمارے قومی لیڈران نے اپنے ملک کی سالمیت اورمعاشی ترقی کوپسِ پشت ڈال کر، ہندوستان سے لڑائی،جنگ،جھڑپیں اورمخالفت کوقومی پالیسی بنا دیا۔جس سیاستدان نے ہندوستان سے ذراسے تعلقات بہترکرنے کی کوشش کی،اسے نشانِ عبرت بنادیا گیا۔یہ سلسلہ اب کبھی رُکے گا نہیں۔ ہندوستان میں انتہا پسند ہندوجماعتوں نے حکومت حاصل کرلی۔ بی جے پی کا بیانیہ،مکمل طورپرہمارے بیانیے کے برابرمگر متضاد تھا اور ہے۔
یہاں سے معاملات کی سنگینی اس سطح پرچلی گئی، جہاں سے معاملہ سنبھل نہیں پارہا۔پاکستان دشمنی میں ہندوستان نے انتہائی سفاکی سے ہماری سفارت کاری پرضرب لگائی۔ پورا مشرقِ وسطیٰ جو ہمارا حلیف تھا۔ ہمارے ''ہندوستان مخالف بیانیے''سے دور جاکھڑا ہوا۔ امریکا جوآج بھی سُپرپاور ہے، ہندوستان کے قریب ہوگیا۔جب ہندوستان کو یقین ہوگیاکہ ہم معاشی طور پر حددرجہ کمزورہیں اور اندرونی خلفشارکی بدولت ٹھوس بنیادوں پرترقی کرنے پرناکام ہیں تو بی جے پی نے کمال مہارت سے وہ عوامی پتہ کھیلاجوعرصہ پہلے ہمارے وزیرخارجہ نے1964 میں یکطرفہ طورپرکھیلنے کی کوشش کی تھی۔
ہندوستان کے نیاسیاسی بیانیے کی سوائے چین کے کسی نے بھی بھرپورمذمت نہیں کی۔بیانیہ تھااور ہے، کہ ہماری سلامتی کوہرطریقے سے نقصان پہنچایا جائے۔ اندرونی بغاوتوں کوبڑھاوادیاجائے۔ہمارے چند سیاسی لیڈروں کے اوپراعتمادکیاجائے اورانکوکامیاب بنایاجائے۔آج کی تاریخ تک ہندوستان کایہ خوفناک بیانیہ ہمارے لیے ہرمقام پرآزارپیداکررہا ہے۔ بھارتی وزیراعظم کایہ کہناکہ وہ پاکستان پرسرجیکل اسٹرائیک کے لیے تیارہیں،اب ایک کھلا راز ہے۔ ہندوستانی آرمی چیف،بی جے پی کی اعلیٰ قیادت گزشتہ تین چاربرسوں سے پاکستان کی سالمیت کے خلاف کھل کرمنفی باتیں کررہی ہے۔
تھوڑے دن پہلے ہمارے وزیرخارجہ نے دبئی میں ایک پریس کانفرنس کی جس میں انھوں نے ہندوستان کے عزائم کا ذکر کیا۔ مگر کیایہ عجیب بات نہیں ہے کہ دنیا کے کسی مضبوط ملک نے ہمارے وزیرخارجہ کے بیانیہ پرمثبت ردِعمل کااظہارنہیں کیا۔یہ مسئلہ حددرجہ تشویش ناک ہے اوراسے صرف اورصرف جنگی جنون اورعسکری منصوبہ بندی کے تحت حل کرنا،کافی مشکل ہے۔ طالبعلم کے نقطہ ِ نظرکے مطابق،مضبوط فوج،امن کی ضمانت ہوتی ہے۔
ان کی طاقت صرف ایک نتیجہ کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ہماری سرحدوں پرحملہ کرنے کی کوئی بھی حماقت نہ کرے۔ امن کے دورانیہ میں ملکی حالات کو بہتر کرنا سیاسی حکومتوں کااولین فرض ہوتاہے۔تکلیف دہ سچ ہے کہ ہماری جمہوری اورغیرجمہوری قوتوں نے امن سے وہ فوائدحاصل نہیں کیے جوساؤتھ کوریا، جاپان،چین یاویت نام نے حاصل کرلیے۔ہمیں مکمل طورپرصرف ایک طرف سوچنے کی عادت ڈال دی گئی کہ کچھ نہ کچھ بُرا ہونے والاہے۔لہٰذااپنے مالی حالات بہترکرواورملک سے بھاگ جاؤ۔اس کی لاکھوں مثالیں موجودہیں۔
ہندوستان اگرپاکستان کے خلاف جنگ کرتاہے تواس کے نتائج بالکل بھی اَخذنہیں کیے جاسکتے۔مکمل جنگ ہونا قدرے دشوارہے۔مگرسرجیکل اسٹرائیک ہوسکتی ہے اوراس سے معاملات کس طرف جائینگے۔ اس پرفی الحال کوئی پیشن گوئی کرناناممکن ہے۔سرجیکل اسٹرائیک کی وجوہات میں ایک تووہ باہمی بداعتمادی اورنفرت ہے جودونوں ملکوں میں ایک خاص منصوبہ بندی کرکے بڑھائی گئی ہے۔
دوسرا، ہندوستان، اس وقت شدید اندرونی مسائل کا شکار ہے۔ ریاستوں کے الیکشنوں میں بی جے پی،طاقت کا سہارالے کرجیت رہی ہے۔ مگر اس کے خلاف صوبوں میں شدیدردِعمل سامنے آرہا ہے۔ بہار، حیدرآباد،بنگال اورکئی صوبوں میں مرکزی حکومت کے خلاف جذبات بھڑک رہے ہیں۔ پنجاب اور ہریانا کے کسان اس وقت دہلی کے اردگردلاکھوں کی تعداد میں موجود، چند قوانین کی منسوخی کے لیے دھرنادیے بیٹھے ہیں۔ ان اندرونی معاملات سے توجہ ہٹانے کے لیے مودی، ایک محدود جنگ کرسکتاہے۔
اس صورتحال میں ہماری سویلین حکومت کوکیا کرنا چاہیے۔سرجیکل اسٹرائیک کے ردِعمل کوسامنے رکھتے ہوئے بھارت بھی تذبذب کاشکار ہے۔ مگر میراسوال حددرجہ مختلف ہے۔تدبیرکیاہونی چاہیے۔ ہمارے سیاسی لیڈران کوامن کی طرف بھرپورقدم بڑھانا چاہیے۔ علم میں ہے،کہ میری اس تجویز پر بہت نکتہ چینی ہوگی۔ مگرتجربہ یہ بتاتاہے کہ ہماری پوری ترقی، ہندوستان سے جنگوں اورمحاذآرائی میں برباد ہوگئی۔ وقت کاتقاضہ یہ ہے کہ ملکی سیاسی رہنما،انتہائی سنجیدگی سے ہرطرح کی سفارت کاری کواستعمال کرکے ہندوستان سے امن قائم کرنے کی کوشش کریں اوریہ ممکن ہے۔
یہ مشکل کام ہے مگرناممکن نہیں۔جنگ کسی بھی مسئلے کاکوئی حل نہیں۔ اس سے قومیں پامال ہوجاتی ہیں۔امن کے لیے کوشش ملکی مفادمیں ہے۔مگریہ بھاری پتھر کون اُٹھائے گا۔مجھے تو دور دورتک سیاسی بونے نظر آرہے ہیں جوجذباتیت پر مبنی نعرے لگارہے ہیں۔امن کی بات کرنے والا ہو سکتا ہے، ملک دشمن قرار دیدیا جائے گا۔ مگر، امن ہی ہماری ترقی کا واحدضامن ہے۔باقی جنگ کرنی ہے توشوق سے کیجیے؟
ملکی دارالحکومت میں غیرملکی وفودصرف یہ دیکھنے کے لیے آتے رہتے تھے کہ ہماراملک بالاخراتنی حیرت انگیز ترقی کیسے کررہا ہے۔زراعت اور صنعت کے میدان میں ہماری بالادستی بھرپوراورقطعی تھی۔ 1965 میں کشمیربنے گا پاکستان کانعرہ بلند ہوا۔پاکستان اور ہندوستان کے درمیان باقاعدہ جنگ شروع ہوگئی۔ اس جنگ سے کیانقصان ہوااورکیافائدہ۔مگرایک اہم ترین نتیجہ یہ سامنے آیاکہ ہماری اقتصادی ترقی کی شرح کم ہوگئی۔ اس نقصان سے ہم دوبارہ واپس نہیں نکل سکے۔ترقی کے گھوڑے نے ایسی ٹھوکرکھائی کہ پھراپنے پاؤں پرکھڑاہونامشکل سے مشکل تر ہوتا چلا گیا۔ پھر دنیا میں ہمارا وجودایک بھکاری ملک کا سا ہوگیا۔
لائل پورزرعی یونیورسٹی میں اتنے غیرملکی مرداور خواتین تعلیم حاصل کررہے تھے کہ ایک پوراہاسٹل ان کے لیے مختص کردیاگیاتھا۔شام کوغیرملکی طلباء اور طالبات عام بازاروں میں سائیکلوں پرسوارنظرآتے تھے۔ میڈیکل کالج یعنی کنگ ایڈورڈاورفاطمہ جناح میڈیکل کالج میں سیکڑوں غیرملکی افراد ڈاکٹربننے کے لیے قطاروں میں لگ کرداخلہ لیتے تھے۔انجینئرنگ یونیورسٹی کا بھی یہی حال تھا۔مجموعی طورپر1965 تک پوری دنیامیں پاکستان ایک محترم اورقابل قدرملک کے طورپراُٹھ رہا تھا۔ذوالفقارعلی بھٹونے عوامی دکھتی رگ پرہاتھ رکھتے ہوئے،صدرایوب کو قائل کرلیاکہ پاکستان کو کشمیر حاصل کرلینا چاہیے۔
آخر یہ مشورہ کیونکردیا گیا۔ صدر ایوب کے سوال پرکہ کیا ہندوستان،بین الاقوامی سرحدعبور کرکے بھرپورجنگ تونہیں شروع کردیگا۔ اسکا جواب وزیرخارجہ کی طرف سے دوبارہ ایک سوالیہ نشان تھا۔ بالکل نہیں۔پاکستان نے کشمیرپریلغارکی اور تھوڑے عرصے کے بعد ہندوستان نے پاکستان پرحملہ کردیا۔ 1965 کی جنگ ہوئی۔کون جیتا،کون ہارا۔اس سے صرفِ نظرکرکے صرف ایک سچ سامنے آیاکہ پاکستان کی ترقی یک دم رُک گئی۔شرح نموبھی کم ہونی شروع ہوگئی۔حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمارے پورے ملک میں ترقی کرنے یاجنگ کرنے کے بارے میں زندہ مکالمہ بہت ہی کمزورہے۔
1970 میں اپنے والدمحترم کے ساتھ لاہور آنا ہوا۔واپڈاہاؤس کے سامنے بھارت کے خلاف کسی سیاسی جماعت کاپُرامن جلسہ ہورہاتھا۔اچانک ایک نوجوان آیااورہماری گاڑی کی ونڈاسکرین پرایک پوسٹر چپکا دیا۔اس پرلکھاتھا۔Crush India اور ساتھ ہی ایک آہنی مکا بناہواتھا۔میں بہت چھوٹاتھا۔ایک دم ذہن میں آیاکہ اپنے ہاتھ سے انڈیاکومکھی کی طرح مَسل دوں۔ خیریہ ایک ناپختہ ذہن کی بات تھی۔
70 کی جنگ میں مشرقی پاکستان ہم سے کٹ گیا۔مگرمغربی پاکستان پرقبضہ کرنے کی ہندوستانی اسکیم کوامریکی صدرنے روکا۔ یہ حددرجہ تلخ حقیقت ہے کہ آج کے پاکستان کا وجود، اس وقت کے امریکی صدرکی بھارتی وزیراعظم کودھمکی کی وجہ سے قائم ہے۔مگرجوہری بات یہ ہے کہ ہماری معاشی ترقی مکمل طورپررُک گئی۔بعدازاںہم نے اپنے ملک کو آگے بڑھانے کے بجائے ایک ایساراستہ منتخب کر لیا جو آج تک قائم ہے۔یعنی ہرسطح پربھارت سے حددرجہ دشمنی۔دونوں ملکوں میں اس درجہ نفرت عودکرآئی کہ امن کی بات کرنے والے کوغدار،ہندوستانی ایجنٹ اورملک دشمن قراردیاجانے لگا۔
اس بیانیے نے جیسے جیسے طاقت پکڑی،پاکستان کی ترقی اسی شرح سے اندھیری گھاٹی میں اُترنے لگی۔ہمارے قومی لیڈران نے اپنے ملک کی سالمیت اورمعاشی ترقی کوپسِ پشت ڈال کر، ہندوستان سے لڑائی،جنگ،جھڑپیں اورمخالفت کوقومی پالیسی بنا دیا۔جس سیاستدان نے ہندوستان سے ذراسے تعلقات بہترکرنے کی کوشش کی،اسے نشانِ عبرت بنادیا گیا۔یہ سلسلہ اب کبھی رُکے گا نہیں۔ ہندوستان میں انتہا پسند ہندوجماعتوں نے حکومت حاصل کرلی۔ بی جے پی کا بیانیہ،مکمل طورپرہمارے بیانیے کے برابرمگر متضاد تھا اور ہے۔
یہاں سے معاملات کی سنگینی اس سطح پرچلی گئی، جہاں سے معاملہ سنبھل نہیں پارہا۔پاکستان دشمنی میں ہندوستان نے انتہائی سفاکی سے ہماری سفارت کاری پرضرب لگائی۔ پورا مشرقِ وسطیٰ جو ہمارا حلیف تھا۔ ہمارے ''ہندوستان مخالف بیانیے''سے دور جاکھڑا ہوا۔ امریکا جوآج بھی سُپرپاور ہے، ہندوستان کے قریب ہوگیا۔جب ہندوستان کو یقین ہوگیاکہ ہم معاشی طور پر حددرجہ کمزورہیں اور اندرونی خلفشارکی بدولت ٹھوس بنیادوں پرترقی کرنے پرناکام ہیں تو بی جے پی نے کمال مہارت سے وہ عوامی پتہ کھیلاجوعرصہ پہلے ہمارے وزیرخارجہ نے1964 میں یکطرفہ طورپرکھیلنے کی کوشش کی تھی۔
ہندوستان کے نیاسیاسی بیانیے کی سوائے چین کے کسی نے بھی بھرپورمذمت نہیں کی۔بیانیہ تھااور ہے، کہ ہماری سلامتی کوہرطریقے سے نقصان پہنچایا جائے۔ اندرونی بغاوتوں کوبڑھاوادیاجائے۔ہمارے چند سیاسی لیڈروں کے اوپراعتمادکیاجائے اورانکوکامیاب بنایاجائے۔آج کی تاریخ تک ہندوستان کایہ خوفناک بیانیہ ہمارے لیے ہرمقام پرآزارپیداکررہا ہے۔ بھارتی وزیراعظم کایہ کہناکہ وہ پاکستان پرسرجیکل اسٹرائیک کے لیے تیارہیں،اب ایک کھلا راز ہے۔ ہندوستانی آرمی چیف،بی جے پی کی اعلیٰ قیادت گزشتہ تین چاربرسوں سے پاکستان کی سالمیت کے خلاف کھل کرمنفی باتیں کررہی ہے۔
تھوڑے دن پہلے ہمارے وزیرخارجہ نے دبئی میں ایک پریس کانفرنس کی جس میں انھوں نے ہندوستان کے عزائم کا ذکر کیا۔ مگر کیایہ عجیب بات نہیں ہے کہ دنیا کے کسی مضبوط ملک نے ہمارے وزیرخارجہ کے بیانیہ پرمثبت ردِعمل کااظہارنہیں کیا۔یہ مسئلہ حددرجہ تشویش ناک ہے اوراسے صرف اورصرف جنگی جنون اورعسکری منصوبہ بندی کے تحت حل کرنا،کافی مشکل ہے۔ طالبعلم کے نقطہ ِ نظرکے مطابق،مضبوط فوج،امن کی ضمانت ہوتی ہے۔
ان کی طاقت صرف ایک نتیجہ کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ہماری سرحدوں پرحملہ کرنے کی کوئی بھی حماقت نہ کرے۔ امن کے دورانیہ میں ملکی حالات کو بہتر کرنا سیاسی حکومتوں کااولین فرض ہوتاہے۔تکلیف دہ سچ ہے کہ ہماری جمہوری اورغیرجمہوری قوتوں نے امن سے وہ فوائدحاصل نہیں کیے جوساؤتھ کوریا، جاپان،چین یاویت نام نے حاصل کرلیے۔ہمیں مکمل طورپرصرف ایک طرف سوچنے کی عادت ڈال دی گئی کہ کچھ نہ کچھ بُرا ہونے والاہے۔لہٰذااپنے مالی حالات بہترکرواورملک سے بھاگ جاؤ۔اس کی لاکھوں مثالیں موجودہیں۔
ہندوستان اگرپاکستان کے خلاف جنگ کرتاہے تواس کے نتائج بالکل بھی اَخذنہیں کیے جاسکتے۔مکمل جنگ ہونا قدرے دشوارہے۔مگرسرجیکل اسٹرائیک ہوسکتی ہے اوراس سے معاملات کس طرف جائینگے۔ اس پرفی الحال کوئی پیشن گوئی کرناناممکن ہے۔سرجیکل اسٹرائیک کی وجوہات میں ایک تووہ باہمی بداعتمادی اورنفرت ہے جودونوں ملکوں میں ایک خاص منصوبہ بندی کرکے بڑھائی گئی ہے۔
دوسرا، ہندوستان، اس وقت شدید اندرونی مسائل کا شکار ہے۔ ریاستوں کے الیکشنوں میں بی جے پی،طاقت کا سہارالے کرجیت رہی ہے۔ مگر اس کے خلاف صوبوں میں شدیدردِعمل سامنے آرہا ہے۔ بہار، حیدرآباد،بنگال اورکئی صوبوں میں مرکزی حکومت کے خلاف جذبات بھڑک رہے ہیں۔ پنجاب اور ہریانا کے کسان اس وقت دہلی کے اردگردلاکھوں کی تعداد میں موجود، چند قوانین کی منسوخی کے لیے دھرنادیے بیٹھے ہیں۔ ان اندرونی معاملات سے توجہ ہٹانے کے لیے مودی، ایک محدود جنگ کرسکتاہے۔
اس صورتحال میں ہماری سویلین حکومت کوکیا کرنا چاہیے۔سرجیکل اسٹرائیک کے ردِعمل کوسامنے رکھتے ہوئے بھارت بھی تذبذب کاشکار ہے۔ مگر میراسوال حددرجہ مختلف ہے۔تدبیرکیاہونی چاہیے۔ ہمارے سیاسی لیڈران کوامن کی طرف بھرپورقدم بڑھانا چاہیے۔ علم میں ہے،کہ میری اس تجویز پر بہت نکتہ چینی ہوگی۔ مگرتجربہ یہ بتاتاہے کہ ہماری پوری ترقی، ہندوستان سے جنگوں اورمحاذآرائی میں برباد ہوگئی۔ وقت کاتقاضہ یہ ہے کہ ملکی سیاسی رہنما،انتہائی سنجیدگی سے ہرطرح کی سفارت کاری کواستعمال کرکے ہندوستان سے امن قائم کرنے کی کوشش کریں اوریہ ممکن ہے۔
یہ مشکل کام ہے مگرناممکن نہیں۔جنگ کسی بھی مسئلے کاکوئی حل نہیں۔ اس سے قومیں پامال ہوجاتی ہیں۔امن کے لیے کوشش ملکی مفادمیں ہے۔مگریہ بھاری پتھر کون اُٹھائے گا۔مجھے تو دور دورتک سیاسی بونے نظر آرہے ہیں جوجذباتیت پر مبنی نعرے لگارہے ہیں۔امن کی بات کرنے والا ہو سکتا ہے، ملک دشمن قرار دیدیا جائے گا۔ مگر، امن ہی ہماری ترقی کا واحدضامن ہے۔باقی جنگ کرنی ہے توشوق سے کیجیے؟