بڑھتی ہوئی سمندری آلودگی سے کشتی رانی بند ہونے کا خدشہ

کراچی سے یومیہ 5 ملین گیلن آلودہ پانی اور 4 ہزار ٹن کچرا سمندر برد ہونے لگا، ہر جانب پلاسٹک کی تھیلیاں اور بوتلیں


Kashif Hussain December 21, 2020
سمندری آلودگی سے پریشان کھلاڑی کراچی کے ساحل پرکشتی رانی کی مشق کررہے ہیں

سمندری آلودگی کی وجہ سے کراچی کے ساحل سے قریب سمندر میں کشتی رانی (سیلنگ اسپورٹس) بند ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا، کراچی سے یومیہ 5 ملین گیلن آلودہ سیوریج کا پانی اور 4 ہزار ٹن کچرا یومیہ سمندر برد کیا جارہا ہے، ٹریٹمنٹ کے بغیر سمندر میں شامل ہونے والا پانی سمندری حیات کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔

دوسری جانب بڑے پیمانے پر پلاسٹک کی تھیلیاں اور پلاسٹک کی بوتلیں سمندر میں دور دور تک پھیل چکی ہیں، ماحولیاتی قوانین پرسختی سے عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے کراچی کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہونے والے بحری جہاز بھی اپنا فضلہ سمندر میں بہارہے ہیں جس سے پاکستان کو قدرت کی جانب سے ملنے والی نعمت آلودہ ہورہی ہے سمندر میں تیل کی مقدار میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔

سمندری آلوگی اب واٹر اسپورٹس کے لیے بھی خطرہ بن رہی ہے، کراچی سے سمندر میں گرنے والے فضلے اور آلودگی کی وجہ سے بین الاقوامی مقابلوں میں پاکستان کا نام روشن کرنے والے قومی کھلاڑی بھی تشویش کا شکار ہیں، پاکستان نیوی کی سیلنگ ٹیم سے وابستہ قومی چیمپئن اور انٹرنیشنل سیلنگ پلیئر قاسم عباس کے مطابق کراچی کے پانیوں میں 2008کے بعد سمندری آلودگی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جو سمندری حیات کے ساتھ سیلنگ یعنی کشتی رانی جیسے کھیلوں کیلیے بھی مشکلات کا سبب بن رہے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ کراچی سے سمندر میں گرنے والا فضلہ اور کچرا سمندر میں دور تک پھیلا ہوا ہے۔ کشتی رانی کی مشق اور مقابلوں کے دوران یہ کچرا بادبانی کشتیوں کے ساتھ چپک کر ان کی نقل و حرکت دشوار بنادیتا ہے اگر مقابلوں کے دوران پلاسٹک کی تھیلیاں بادبانی کشتیوں کے اسٹیئرنگ سے چپک جائیں تو کشتیوں کا رخ اور سمت تبدیل کرنا مشکل ہوجاتا ہے کشتیوں کے ساتھ چپکنے والے کچرے کی وجہ سے کھلاڑیوں کو بہت زیادہ دقت پیش آتی ہے۔

اس دوران محنت کرنے والے اور باصلاحیت کھلاڑیوں کی ٹیمیں پیچھے رہ جاتی ہیں اور جس کشتی سے کچرا نہ چپکا ہو وہ مقابلہ جیت جاتی ہے، انھوں نے کہا کہ کشتی رانی کے کھلاڑیوں اور ٹیموں کو یومیہ تین سے چار گھنٹے مشق کرنا ہوتی ہے کچرے اور آلودگی کی وجہ سے یہ مشقیں بھی دشوار ہورہی ہیں ۔

خدا نے ہمیں بہترین ساحل دیا اس سے فائدہ اٹھانا ہماری ذمے داری ہے
قاسم عباس نے گفتگو میں کہا کہ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ اسے بہترین ساحل اور سمندر سے نوازا اب اس سمندر کو محفوظ رکھنا اور اس سے فائدہ اٹھانا ہماری ذمے داری ہے، قاسم عباسی قومی مقابلوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ چکے ہیں ،نئے کھلاڑی تین سے چار گھنٹے یومیہ مشق کریں تو ایک سال میں قومی سطح پر مقابلوں میں شرکت کے قابل ہوسکتے ہیں ۔

کشتیاں کیل بوٹ، ڈینگی کلاس اور ونڈسرفنگ کلاس میں تقسیم ہیں
کشتی رانی کے لیے کشتیوں کو بنیادی طور پر تین درجوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جن میں کیل بوٹ، ڈینگی کلاس اور ونڈسرفنگ کلاس کی بوٹس شامل ہیں۔ ونڈ سرفنگ سمندر کی اونچی لہروں پر سیلنگ کیلیے استعمال ہوتی ہے جس میں ایک کھلاڑی سرفنگ بوٹ پر لگے بادبان سے کشتی چلاتا ہے اس کٹیگری میں دو طرح کی کشتیاں شامل ہیں جن میں آر ایس ایکس اور مسٹرال شامل ہیں، بین الاقوامی سطح پر مسٹرال بوٹس متروک ہوچکی ہیں آر ایس ایکس اولمپک کلاس کی بوٹ ہے جس کے پاکستان میں گنتی کے کھلاڑی ہیں، ڈینگی کلاس میں لیرز، لیزر ریڈیول اور فور پوائنٹ سیون اور فور سیونٹی ٹائپ کی بوٹس شامل ہیں۔

کلفٹن اورسی ویوکے اطراف میلوں تک کچراپھیل گیا

قاسم عباس نے بتایا کہ سی ویو، کلفٹن اور کراچی فش ہاربر کے اطراف بے پناہ کچرا موجود ہے جو میلوں دور تک پھیلا ہوا ہے، اگر حکومت اور شہریوں نے سمندر میں گرنے والے کچرے اور آلودگی کا سدباب نہ کیا تو مستقبل قریب میں کراچی کے پانیوں میں کشتی رانی ناممکن ہوجائے گی اور یہ سرگرمیاں گوادر کی جانب منتقل کرنا پڑینگی، قاسم عباس نے بتایا کہ بارشوں کے دوران لیاری ندی سے شہر کا تمام کچرا براہ راست سمندر میں آکر گرتا ہے ان دنوں کھلے سمندر سے بندرگاہ اور جیٹی تک آنیوالے چینلز مکمل طور پر کچرے سے بھر جاتے ہیں۔

سال کے دیگر مہینوں میں بھی کچرا اور آلودگی سمندر میں گرتی رہتی ہے، قاسم عباس نے کراچی کے شہریوں اور حکومت سے اپیل کی ہے کہ سمندری آلودگی کے تدارک کیلیے ہنگامی اقدامات کریں کراچی کے شہری کچرا کھلے مقامات اور سمندر میں نہ پھینکیں اور شہر کا کچرا سمندر میں ڈمپ کرنے کا سلسلہ فی الفور ترک کیا جائے سمندر میں پھیلے کچرے کو صاف کیا جائے تاکہ آنیو الی نسلوں کو قدرت کا یہ قیمتی ورثہ محفوظ شکل میں منتقل کیا جاسکے۔

نوجوان کسی نہ کسی کھیل کی سرگرمی کاحصہ بنیں،مزمل حسین

پاکستان کے قبائلی علاقے سے تعلق رکھنے والے کشتی رانی کے انٹرنیشنل کھلاڑی مزمل حسین بھی کراچی کے سمندر میں پھیلی آلودگی پر پریشان ہیں، مزمل حسین نے بتایا کہ وہ بچپن سے سمندر کے عشق میں گرفتار تھے اور نوعمری میں کراچی آکر سمندر کی سیر کو آیا کرتے تھے جب انھوں نے ہوا کے دوش پر بادبانی کشتیوں کو لہروں پر چلتے دیکھا تو انھیں بھی کشتی رانی کا شوق ہوا اور انھوں نے پاکستا ن نیوی سے وابستی اختیار کرلی، مزمل حسین کے مطابق کشتی رانی کا کھیل دیگر کھیلوں سے مختلف ہے۔

اس میں کھلاڑی جسمانی لحاظ سے مضبوط ہونے کے ساتھ ان کی ذہنی صلاحیتوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور وہ فوری فیصلہ لینے کی صلاحیت سے مالامال ہوجاتے ہیں اس کھیل میں سمندر کی لہروں کے اتارچڑھائو ہوا کی رفتار اور بدلتے ہوئے رخ کو بھانپ کر فوری فیصلے کیے جاتے ہیں اور ٹیم ورک کی صورت میں دیگر کھلاڑیوں کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنا پڑتی ہے جس سے ذہنی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے، انھوں نے نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ کسی نہ کسی اسپورٹس سرگرمی کا ضرور حصہ بنیں۔

انھوں نے کہا کہ کشتی رانی بہت اچھا کھیل ہے پاکستان میں اسے فروغ دیا جائے تو نوجوانوں کی جسمانی اور ذہنی تربیت کی جاسکتی ہے ساتھ ہی بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا نام روشن کیا جاسکتا ہے، مزمل حسین نے حکومت سے اپیل کی کہ پلاسٹک کے شاپروں پر پابندی لگائی جائے کیونکہ یہ اگلے 200 سال تک سمندر میں پڑے رہیں گے جس سے سمندری حیات بری طرح متاثر ہوگی انھوں نے شہریوں سے بھی اپیل کی کہ سمندر کو صاف رکھیں۔

7 افراد کی ٹیم کے لیے ''کیل بوٹ'' 70لاکھ کی ہے
کشتی رانی کے لیے مختلف اقسام کی چھوٹی بڑی کشتیاں استعمال کی جاتی ہیں چھ سے سات افراد کی ٹیم کے لیے ''کیل بوٹ'' استعمال کی جاتی ہے جس کی قیمت 60 سے 70لاکھ روپے تک ہوتی ہے اس میں دو عمودی سمت میں لگے ہوتے ہیں جن کا رخ ہوا کے مطابق تبدیل کرکے کشتی کو لہروں پر رواں دواں رکھاجاتا ہے۔

سمندری لہروں سے کھیلنے کاوقت مئی سے جولائی تک ہے

سمندری لہروں سے کھیلنے کا بہترین وقت مئی سے جولائی تک ہوتا ہے جب تیز ہواؤں کے ساتھ سمندر کی لہریں بھی اونچی اور تندہوتی ہیں، بین الاقوامی کھلاڑی قاسم عباس کے مطابق موسم سرما میں سمندر کی لہریں پرسکون ہوتی ہیں جن پر سیلنگ آسان ہوتی ہے۔

اس کے برعکس موسم گرما میں مئی تا جولائی سمندر میں اونچی اور تیز لہریں ہوتی ہیں جن پر سیلنگ کرنے میں مزا آتا ہے اور ہوا کی رفتار بھی بہت زیادہ ہوتی ہے جس پر کشتیاں بہت تیزی سے لہروں پر رقص کرتی ہیں، کشتی رانی کے لیے جسمانی اور ذہنی فٹنس ضروری ہوتی ہے اور عمر کی کوئی حد نہیں پچاس سال یا اس سے زائد عمر کے کھلاڑی بھی جو ذہنی طور پر چست ہو وہ اپنے تجربہ کی بنیاد پر بہتر کشتی رانی کرسکتے ہیں، قاسم عباس کے مطابق بچوں کی بڑی تعداد اب کشتی رانی کی جانب آرہی ہے لیکن پاکستان میں افواج پاکستان آرمی نیوی اور ایئرفورس کے علاوہ بہت کم سول ادارے اور تنظیمیں اس کھیل کی جانب توجہ دے رہی ہیں، انھوں نے بتایا کہ کشتی رانی کا سازو سامان اور کشتیاں بہت مہنگی ہوتی ہیں شاید یہ بھی اس کھیل کو محدود رکھنے کی ایک وجہ ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ وسائل کی کمی کی وجہ سے پاکستان زیادہ تر ایشیائی ملکوں میں ہونے والے ٹورنامنٹ میں حصہ لیتا ہے یورپ اور ترقی یافتہ ملکوں میں ہونیو الے کیمپس اور مقابلوں میں شرکت مہنگی ہوتی ہے جس میں محدود وسائل آڑے آتے ہیں اور پاکستان میں کشتی رانی کے لیے وسائل مہیا کیے جائیں تو اولپمک مقابلوں میں بھی پاکستان کا پرچم لہرایا جاسکتا ہے، تھائی لینڈ، ملائیشیا اور سنگا پور میں کشتی رانی کے کھیلوں کی سرکاری سطح پر سرپرستی کی جاتی ہے اور اس کھیل میں حصہ لینے والے نوجوان کھلاڑیوں اور طلبہ کو متعدد مراعات اور سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں۔

کیل بوٹ تربیت کیلیے موزوں کشتی ہے
کشتی رانی کی کشتیوں میں افقی رخ پر ایک بڑا اور ہلکا بادبان بھی استعمال کیا جاتا ہے جسے اسپن کہا جاتا ہے یہ بادبان عمودی بادبانوں سے رکنے والی ہوا کو کنٹرول کرکے کشتی کو تیزی سے آگے بڑھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے،کیل بوٹ تربیت کے لیے موزوں ہے اس کے علاوہ ابتدائی کھلاڑیوں کی تربیت کے لیے لیزر سکسٹین بوٹ استعمال ہوتی ہے بچوں کی تربیت کے لیے آپٹی مسٹ بوٹ استعمال کی جاتی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں