قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کو دنیا چھوڑے 38 برس بیت گئے
حفیظ جالندھری کی کردارسازی میں جنگ آزادی کی تحریکوں کا بھی بڑا حصہ رہا
قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کی 38 ویں برسی ملک بھرمیں عقیدت واحترام کے ساتھ منائی گئی۔
حفیظ جالندھری 14 جنوری 1900 کومشرقی پنجاب کے شہرجالندھرمیں پیدا ہوئے، ان کا نام محمد حفیظ رکھا گیا، قلمی نام حفیظ جالندھری تھا، ابتدائی تعلیم محلے کی جامع مسجد میں حاصل کی، اس کے بعد اسکول میں داخل ہوگئے جہاں انہوں نے ساتویں جماعت تک تعلیم حاصل کی تھی۔
انہوں نے نہ صرف سیلانی زندگی کو ترجیح دی بلکہ اردو، فارسی، ہندی اور انگریزی پر عبورحاصل کیا، ان کی شخصیت میں نکھار لانے میں ان کے ہم عصرمشاہیر سرعبدالقادر، سید سجاد حیدر یلدرم، سر راس مسعود، خواجہ حسن نظامی، مولانا محمد علی جوہر، حکیم اجمل خان اورنواب لوہار جیسی شخصیتوں کی قربت نے بھی اہم کردار ادا کیا۔
حفیظ جالندھری کی کردار سازی میں جنگ آزادی کی تحریکوں کا بھی بڑا حصہ رہاجن سےمتاثر ہوکرانہوں نےانقلابی نظمیں لکھیں، حفیظ جالندھری نے جہاد کشمیر میں بھی حصہ لیا، انہوں نے کشمیر کے لیے ترانہ وطن ہمارا آزاد کشمیر بھی تحریر کیا، ادبی کاوشوں کی ابتداء 1922 میں کی، 1922 سے1929 تک متعدد ادبی جرائد جن میں نونہال، گلزار داستان، محزن اور1962 سے 1963 تک کراچی کےاردو روزنامے میں کالم نگاری بھی کی، نظموں کا پہلا مجموعہ نغمہ زار1935 میں شائع ہوا۔
حفیط جالندھری 1948 میں پاک فوج کے ڈائریکٹر آف مورلز بھی معتین ہوئے، صدر ایوب کے مشیر کی حیثیت سے بھی فرائض سرانجام دیئے، رائرٹرز گِلڈ کے ڈائریکٹر جنرل بھی رہے، ان کی مقبول نظموں میں تصویر کشمیر اور ابھی تو میں جوان ہوں گیت بھی بہت مقبول ہوا جسے ملکہ پکھراج نے گایا، حفیظ جالندھری نے شاہ نامہ اسلام بھی تخیلق کیا۔
21 دسمبر1982 کو حفیظ جالندھری کا 82 سال کی عمرمیں انتقال ہوگیا، انہیں امانتاً ماڈل ٹاؤن کے قبرستان میں دفن کیا گیا، کسی اور جگہ دفن کرنے کے حوالے سے معاملہ سات سال تک التوا کا شکاررہا پھر اقبال پارک میں انہیں دفن کیا گیا، حفیظ جالندھری کو ان کی ادبی خدمات پرہلال امتیاز اورپرائڈ آف پرفارمنس سے نوازاگیا۔
حفیظ جالندھری 14 جنوری 1900 کومشرقی پنجاب کے شہرجالندھرمیں پیدا ہوئے، ان کا نام محمد حفیظ رکھا گیا، قلمی نام حفیظ جالندھری تھا، ابتدائی تعلیم محلے کی جامع مسجد میں حاصل کی، اس کے بعد اسکول میں داخل ہوگئے جہاں انہوں نے ساتویں جماعت تک تعلیم حاصل کی تھی۔
انہوں نے نہ صرف سیلانی زندگی کو ترجیح دی بلکہ اردو، فارسی، ہندی اور انگریزی پر عبورحاصل کیا، ان کی شخصیت میں نکھار لانے میں ان کے ہم عصرمشاہیر سرعبدالقادر، سید سجاد حیدر یلدرم، سر راس مسعود، خواجہ حسن نظامی، مولانا محمد علی جوہر، حکیم اجمل خان اورنواب لوہار جیسی شخصیتوں کی قربت نے بھی اہم کردار ادا کیا۔
حفیظ جالندھری کی کردار سازی میں جنگ آزادی کی تحریکوں کا بھی بڑا حصہ رہاجن سےمتاثر ہوکرانہوں نےانقلابی نظمیں لکھیں، حفیظ جالندھری نے جہاد کشمیر میں بھی حصہ لیا، انہوں نے کشمیر کے لیے ترانہ وطن ہمارا آزاد کشمیر بھی تحریر کیا، ادبی کاوشوں کی ابتداء 1922 میں کی، 1922 سے1929 تک متعدد ادبی جرائد جن میں نونہال، گلزار داستان، محزن اور1962 سے 1963 تک کراچی کےاردو روزنامے میں کالم نگاری بھی کی، نظموں کا پہلا مجموعہ نغمہ زار1935 میں شائع ہوا۔
حفیط جالندھری 1948 میں پاک فوج کے ڈائریکٹر آف مورلز بھی معتین ہوئے، صدر ایوب کے مشیر کی حیثیت سے بھی فرائض سرانجام دیئے، رائرٹرز گِلڈ کے ڈائریکٹر جنرل بھی رہے، ان کی مقبول نظموں میں تصویر کشمیر اور ابھی تو میں جوان ہوں گیت بھی بہت مقبول ہوا جسے ملکہ پکھراج نے گایا، حفیظ جالندھری نے شاہ نامہ اسلام بھی تخیلق کیا۔
21 دسمبر1982 کو حفیظ جالندھری کا 82 سال کی عمرمیں انتقال ہوگیا، انہیں امانتاً ماڈل ٹاؤن کے قبرستان میں دفن کیا گیا، کسی اور جگہ دفن کرنے کے حوالے سے معاملہ سات سال تک التوا کا شکاررہا پھر اقبال پارک میں انہیں دفن کیا گیا، حفیظ جالندھری کو ان کی ادبی خدمات پرہلال امتیاز اورپرائڈ آف پرفارمنس سے نوازاگیا۔