بہروپیا لوگوں میں ہنسی بانٹنے والالوک فنکار جو جدیدیت اور بدلتی اقدار کی دُھول میں کھو گیا
بہروپیے کا کمال یہ ہے کہ بے وقوف بننے والا خود اس کے فن کی داد دینے پر مجبور ہو جاتا ہے.
چل، اٹھو اوئے تھانے چلو،پولیس والے نے آ کر بڑے دبنگ لہجے میں کہا ۔
ناصر اور اس کے دوست بڑے پریشان ہوئے کہ یہ کیا افتاد ٹوٹ پڑی،انھوں نے تو ایساکوئی جرم نہیں کیاکہ انھیں تھانے میں طلب کیا جائے اور پھر تھانہ ایسی خوف ناک جگہ ہے کہ جس کا خیا ل آتے ہی ہر شریف آدمی کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔اس نے پہلے اپنے دوستوں کی طرف دیکھا اور پھر اس پولیس والے کی طرف ،ادھیڑ عمر کے اس سپاہی کی توند نکلی ہوئی تھی اور وہ بڑے غصے سے ان کی طر ف دیکھ رہا تھا جیسے انھوں نے کوئی خوف ناک جرم کیا ہو۔نا صر کے ذہن میں ایک ہی لمحے میں کئی خیال گزر گئے۔
اپنے دوستوں کے سامنے اپنی عزت کا بھرم رکھنے کے لیے اس نے ذرا کڑک لہجے میں پوچھا،کیو ں ہم نے کون سا جرم کیا ہے جو تمھارے ساتھ تھانے چلیں ۔بس اتنا پوچھنا تھاکہ سپاہی کی آنکھیں غصے سے جیسے پھٹنے والی ہو گئیں اور یوں لگنے لگا جیسے اس کی آواز نہیں نکل رہی اور وہ اپنے غصے کو کنٹرول کرنے کی پوری کوشش کر رہاہے، پھر بولا ،جرم پوچھتے ہو آگے سے ،جب تھانے والوں نے بلایا ہے تو کچھ نہ کچھ تو کیا ہی ہو گا زیادہ بحث کرو گے تو معاملے کو بگاڑو گے ۔
اسے غصے میں آتا دیکھ کر ناصر کے ایک دوست معین نے اس کا آہستگی سے گھٹنا دبایاکہ وہ چپ رہے ۔معین اٹھ کر پولیس والے کے پاس گیا اور کہا ،حوالدار صاحب (حالانکہ پولیس والا کہیں سے حوالدار نہیں دکھائی دیتا تھا ،اس کے حوالدار کہنے پرپولیس والے کی گردن تھوڑی تن گئی)چھوڑیں، آئیں بیٹھیں،آپ کو چائے وائے پلاتے ہیں ۔
اب آئے ہو ناں لائن پر ،پولیس والے نے کہا، اور بڑے تفاخر سے جا کر ان کے پاس کرسی پر بیٹھ گیا ۔
معین نے ایک دوست کو اشارہ کیا کہ وہ چائے کا آرڈر دے کر آئے ،ناصر کو رہ رہ کر اس پولیس والے پر غصے آ رہا تھا جو اس کے بشرے سے جھلک رہا تھا ،معین نے پولیس والے سے کہا کہ انھیں تھانے لے جانے سے پہلے ان کا قصور تو بتایا جانا چاہئے۔
قصور ہو نہ ہو تھانے کا دستور یہی ہے کہ جب بھی تھانے سے بلاوا آئے تو فورا حاضر ہوا جائے،کیوں کہ کسی کو بھی شک کی بنیاد پر طلب کیا جا سکتا ہے ۔پولیس والے نے بڑے آرام سے کہا ۔
مگر ہم پر کیا شک ہے ،ناصر پھر غصے سے بول پڑا۔
میں بات کر رہا ہوں ناں تم خاموش رہو،معین نے ناصر کو سمجھاتے ہوئے کہا ۔
دیکھو جوان تم ۔۔۔۔۔۔۔۔پولیس والے کی گردن میں پھر''سریا'' آ گیا تھا اور اس نے اپنا رخ انور پھر سے ناصر کی طر ف کر لیا ،وہ تو معین نے اسے بیچ میں ٹوک کر اسے پھر اپنی طرف متوجہ کر لیا، اسے چھوڑیں آ پ مجھ سے بات کریں ۔
ہاں تم سمجھ دار ہو،پولیس والا پھر سے شانت ہو گیا ۔
آپ ہمیں شک کی وجہ تو بتائیں ناں ،ہم تو بڑے شریف لوگ ہیں جرائم پیشہ افراد سے دوستی تو ایک طرف کبھی ان کے قریب سے بھی نہیں گزرے ،معین نے کہا
میں کیا کروں مجھے تو تھانے سے آرڈر ملے ہیں کہ آپ لوگوں کو بلا کر لائوں ،پولیس والے کے لب ولہجے سے اعتماد کی جھلک نمایاں تھی ۔ حوالدار صاحب کسی طریقے سے ہماری جان نہیں چھوٹ سکتی۔ معین نے پھر کہا۔
معین کے لجاجت بھرے رویے کی وجہ سے سپاہی کے تاثرات بھی کسی حد تک ہمدردانہ ہو چکے تھے' مگر اس کا مؤقف نہیں بدلا اور کہنے لگا۔ مشکل ہے کیوں کہ ایس ایچ او صاحب نے بلایا ہے اس لیے معاملہ میرے بس سے باہر ہے' آپ لوگوں کو چلنا ہی پڑے گا۔
تھوڑی سی بحث کے بعد معین ،ناصر اور ان کے دوست تھانے جانے کے لیے تیار ہوگئے،انھوں نے سوچا کہ پولیس والے سے بحث کرنا فضول ہے ساری صورت حال کا علم تھانے پہنچ کر ہی ہوگا۔
ابھی وہ تھوڑا ہی چلے تھے کہ پولیس والا جو ان سے دو قدم آگے تھا،ایک دم رک گیا اور ان کی طرف پلٹ کر مسکرانے لگا،اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھتے اس نے انھیں سلیوٹ کیااور بھانڈوں کے انداز میں نعرہ مارا ،چوہدری صاحب !اللہ خوش رکھے،رونقیں لگی رہیں،میں آپ کا نوکر۔
اوہ اللہ تیرا بھلاکرے یہ تو بہروپیا ہے،معین نے کہا ۔
جی چوہدری صاحب،آپ کا نوکر ،بھروپیے نے کہا
وہ سارے دوست یو ں بے وقوف بنائے جانے پر جہاں شرمندہ تھے وہیں ان کے چہروں سے خوشی بھی چھلک رہی تھی ۔
کمال کردیا تم نے،کیا نام ہے تمہارا،معین نے پوچھا
جی میرا نام شرفو ہے جی،بھروپیے نے کہا
لو شرفو میری طرف سے ،معین نے اپنی جیب سے پیسے نکالتے ہوئے کہا ،پھر سب دوستو ں نے بھروپیے کو پیسے دئیے اور وہ انھیں دعائیں دیتا ہوا چلا گیا ،یا ر کمال کا ایکٹر ہے،ناصر کے منہ سے نکلا اور وہ سب کھلکھلا کر ہنس پڑے۔
بہروپیا ہمارے معاشرے کا انتہائی اہم کردار ہے جو اپنی اداکارانہ صلاحیتوں سے سب کو متحیر کر کے ان میں خوشیاں بانٹتا ہے ،اگر یہ کہا جائے کہ وہ اداکاری کے فن میں یکتا ہوتا ہے تو غلط نہ گا کیوں کہ اس کی اداکاری کا کمال یہی ہوتا ہے کہ وہ کسی کو آخر تک احساس نہیں ہونے دیتا کہ وہ اداکاری کر رہا ہے۔بہروپیوں کا اپنا کہنا ہے کہ اگر ان کی اداکاری کا پتہ چل جائے تو پھر ان کے ہنر اور فن کاکیا فائدہ ۔جس طرح پہلوانی ،موسیقی اور اس جیسے دوسرے پیشے خاندانی طور پر اپنائے جاتے ہیں بالکل ویسے ہی بھروپیے بھی اس پیشے کو خاندانی طور پر اپناتے ہیں ۔
عمومًاخانہ بدوش ،گگڑے اور بھانڈ بھروپیے کے پیشے کو اپناتے ہیں ۔اس پیشے کو اپنانے والے افراد اداکار تو بہترین ہوتے ہی ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ انتہائی ذہین بھی ہوتے ہیں اور ہر قسم کی صورت حال کو اپنے حق میں کرنے کا فن بھی جانتے ہیں ،جس کے لیے خوشامد اور چرب زبانی ان کا سب سے بڑا ہتھیار ہوتاہے جو بڑے سے بڑے پتھر دل کو بھی موم کردیتا ہے ۔
وہ اپنی گفتگو سے ایک عام آدمی کو بھی آسمان پر بٹھا دیتے ہیں اور بے وقوف بننے کے باوجود انھیں جیب سے کچھ نہ کچھ دینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
ایک بڑی معروف مارکیٹ کی بڑی سڑک پر اچانک ایک پاگل کہیں سے نمودار ہوا ،یوں لگتا تھا جیسے اسے آسمان نے ٹپکا دیا یا پھر زمین نے اگل دیا ۔تاہم وہ دکانوں کے بالکل آخر میں تھوڑا ہٹ کر کھڑا تھا ،اس کے پھٹے ہوئے کپڑے ،چہرے سے ٹپکنے والی وحشت اورہاتھ میں پکڑی ہوئی آدھی اینٹ دیکھ کر انسان دور سے ہی خوف کھاتا تھا ۔وہ سڑک کنارے درختوں میں کھڑا تھا۔آصف اور اس کا بیٹا مارکیٹ سے شاپنگ کر کے نکلے تو ویگن پکڑنے کے لیے اس طرف چل پڑے جدھر وہ پاگل کھڑا تھا ۔ان باپ بیٹے کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ درختوں کے پاس کھڑا پاگل ان پر حملہ آور ہو جائے گا۔
وہ جیسے ہی اس کے قریب سے گزرنے لگے تو وہ نعرہ مستانہ مارتا ہوا ان کی طرف لپکا ،اس کے منہ سے نکلنے والی رال ،پراگندہ اور خاک آلودبال اورہاتھ میں پکڑی اینٹ دیکھ کر آصف کے اوسان خطا ہو گئے اور وہ اپنے بیٹے کا بازو پکڑ کر بھاگ نکلا ،تھوڑی دور جاکر اس نے پلٹ کر دیکھا تو وہ پاگل پھر سے درختوں کی چھائوں میں جا کھڑا ہو اتھا ۔آصف کو خطرہ محسوس ہوا کہ وہ پاگل کہیں کسی کو نقصان نہ پہنچا دے اس لیے اس نے سوچا کہ پولیس والوں کو اطلاع کرے ،ابھی وہ اسی مخمصے میں تھا کہ پاگل نے پھر ایک شخص پر حملہ کر دیا ۔
اس مرتبہ پاگل نے اس شخص کو اینٹ مارنے کی دھمکی دے کر بازو سے پکڑ لیا تھا اور اس شخص کی خوف کے مارے بری حالت ہو گئی تھی اور وہ اپنی جان چھڑا کر بھاگنے کے چکر میں تھا ۔پتہ نہیں پھر پاگل کو کیا ہوا کہ اچانک اس نے اینٹ پھینک دی اور اس شخص کو سلیوٹ کیا،اس شخص کے چہرے سے حیرانی نمایا ں تھی ۔یہ دیکھ کر آصف بھی اس طرف چل پڑا کہ دیکھیں تو سہی کیا معاملہ ہے تاہم اس کے دل میں خوف اب بھی تھا ۔اب وہ شخص پاگل کو پیسے نکال کر دے رہا تھا ۔
پاگل کے چہرے پر بھی اب خشونت اور پاگل پن کے تاثرات کی بجائے خوشامد نظر آ رہی تھی ،آصف اس کایا پلٹ پر بڑا حیران ہوا ،وہ پاگل آصف کو دیکھ کر مسکرا پڑا اور ماتھے پر ہاتھ رکھ کر دعائیں دینے لگا ،تب اسے سمجھ آیا کہ یہ تو بہروپیا ہے ،آصف اس کے بہروپ اور اداکاری سے بہت متاثر ہوا اور دل کھول کر داد دی ۔
بھروپیے عام طور پر پولیس مین ،پاگل ،ڈاکیے یا کسی سرکاری افسر کا بہروپ بھرتے ہیں ۔بعض اوقات وہ چھری بازوکے آر پار گزار کر دوسروں کو ڈراتے ہیں حالانکہ چھری آر پار نہیں ہوتی وہ صرف ایک شعبدہ ہوتا ہے۔اسی طرح مرچوں اور ہلدی کو ملا کر اپنے بازو یا ٹانگ پر نقلی زخم بنا لیتے ہیں جسے دیکھ کر بڑی کراہت ہوتی ہے اور لوگ انھیں تھوڑے بہت پیسے دے کر اپنی جان چھڑاتے ہیں ۔وہ مائوں کے سامنے بچوں کو ڈرا دیتے ہیں جس سے وہ وقتی طور پر تو بہت غصے میں آجاتی ہیں مگر پھر ان کی اداکاری کو سراہتے ہوئے انھیں کچھ نہ کچھ دے دیتی ہیں۔
ایسا ہی ایک دلچسپ واقعہ ایک گائوںمیں پیش آیا۔ایک سادھو جیسے حلیے کا آدمی بڑی بی بی کی حویلی میں داخل ہوا اور اس کے نوکروں پر دھونس جمانے لگا کہ وہ یہاں سے دومن گندم لے کر ہی جائے گاورنہ سب کچھ برباد کر کے رکھ دے گا نہ حویلی رہے گی نہ اس میں رہنے والے۔نوکروں نے اسے سمجھا کر ،دھمکا کر غرض ہر حربہ آزما کر دیکھ لیا کہ شاید وہ چلا جائے اور بڑی بی بی کو پتہ نہ چلے، جب وہ نہ ٹلا تو ایک نوکر نے اسے سمجھایا کہ بڑی بی بی بڑی سخت ہیں وہ تمھیں کچھ نہیں دے گی، جائو چلے جائو ورنہ پٹو گے ، اس کی بات سن کر سادھو جلال میں آ گیا اور کہنے لگاکہ جائو بڑی بی بی کو بتا دو وہ کسی سے نہیں ڈرتا ۔
نوکروں نے بڑی بی بی کو اطلاع دی تو وہ غصے سے تنتاتی ہوئی آئی اورسادھو کو ڈانٹنا شروع کر دیا ،سادھو نے پھر کہا کہ اگر اسے دومن گندم نہ دی گئی تو کچھ نہیں بچے گا۔بڑی بی بی کو اس کی بات سن کر مزید غصہ آ گیا اور کہا کہ جو تو نے کرنا ہے کر لے ۔سادھو نے بڑے آرام سے کہا کہ چاہے کچھ بھی ہو گندم تو میں لے کر ہی جائوں گا کیونکہ یہ میرا حق ہے ۔یہ کہتے ہوئے اس نے اپنی نقلی داڑھی اتار دی۔اس کی شکل دیکھ کر سب مسکرانے لگے ۔اچھا تو اس دفعہ سادھو بن کر آئے ہو ،بڑی بی بی نے اسے پہچانتے ہوئے کہا ،اگر آپ کو پہلے ہی میری پہچان ہو جاتی تو میرے بہروپ بھرنے کا کیا فائدہ ،بھروپیے نے کہا ۔وہ تو ہمیں پہلے بھی کبھی پتہ نہیں چلا،یہ کہتے ہوئے بڑی بی بی نے بہرو پیے کو کھا نا کھلانے اور دومن گندم دینے کے احکامات جار ی کر دئیے۔
بہروپیا کسی زمانے میں ہمارے معاشرے میں بڑی اہمیت رکھتا تھا جو جدیدیت اور بدلتی اقدار کی دھول میں کہیں کھو گیا ہے،اب شہروں میں بھروپیے شاذو نادر ہی دکھائی دیتے ہیںتاہم دیہات میں یہ روایتی فنکار اب بھی کہیں کہیں اپنے فن کے جوہر دکھاتا نظر آ جاتا ہے۔
بھروپیے عموماً سپاہی' ڈاکیا یا پاگل کا روپ دھار کر لوگوں کو بیوقوف بناتے ہیں.
بہروپیا اب شہروں میںتو کیا دیہات میں بھی کبھی کبھار نظر آتا ہے.
خانہ بدوش،گگڑے اور بھانڈاس پیشے کو خاندانی طور پر اپناتے ہیں.
ناصر اور اس کے دوست بڑے پریشان ہوئے کہ یہ کیا افتاد ٹوٹ پڑی،انھوں نے تو ایساکوئی جرم نہیں کیاکہ انھیں تھانے میں طلب کیا جائے اور پھر تھانہ ایسی خوف ناک جگہ ہے کہ جس کا خیا ل آتے ہی ہر شریف آدمی کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔اس نے پہلے اپنے دوستوں کی طرف دیکھا اور پھر اس پولیس والے کی طرف ،ادھیڑ عمر کے اس سپاہی کی توند نکلی ہوئی تھی اور وہ بڑے غصے سے ان کی طر ف دیکھ رہا تھا جیسے انھوں نے کوئی خوف ناک جرم کیا ہو۔نا صر کے ذہن میں ایک ہی لمحے میں کئی خیال گزر گئے۔
اپنے دوستوں کے سامنے اپنی عزت کا بھرم رکھنے کے لیے اس نے ذرا کڑک لہجے میں پوچھا،کیو ں ہم نے کون سا جرم کیا ہے جو تمھارے ساتھ تھانے چلیں ۔بس اتنا پوچھنا تھاکہ سپاہی کی آنکھیں غصے سے جیسے پھٹنے والی ہو گئیں اور یوں لگنے لگا جیسے اس کی آواز نہیں نکل رہی اور وہ اپنے غصے کو کنٹرول کرنے کی پوری کوشش کر رہاہے، پھر بولا ،جرم پوچھتے ہو آگے سے ،جب تھانے والوں نے بلایا ہے تو کچھ نہ کچھ تو کیا ہی ہو گا زیادہ بحث کرو گے تو معاملے کو بگاڑو گے ۔
اسے غصے میں آتا دیکھ کر ناصر کے ایک دوست معین نے اس کا آہستگی سے گھٹنا دبایاکہ وہ چپ رہے ۔معین اٹھ کر پولیس والے کے پاس گیا اور کہا ،حوالدار صاحب (حالانکہ پولیس والا کہیں سے حوالدار نہیں دکھائی دیتا تھا ،اس کے حوالدار کہنے پرپولیس والے کی گردن تھوڑی تن گئی)چھوڑیں، آئیں بیٹھیں،آپ کو چائے وائے پلاتے ہیں ۔
اب آئے ہو ناں لائن پر ،پولیس والے نے کہا، اور بڑے تفاخر سے جا کر ان کے پاس کرسی پر بیٹھ گیا ۔
معین نے ایک دوست کو اشارہ کیا کہ وہ چائے کا آرڈر دے کر آئے ،ناصر کو رہ رہ کر اس پولیس والے پر غصے آ رہا تھا جو اس کے بشرے سے جھلک رہا تھا ،معین نے پولیس والے سے کہا کہ انھیں تھانے لے جانے سے پہلے ان کا قصور تو بتایا جانا چاہئے۔
قصور ہو نہ ہو تھانے کا دستور یہی ہے کہ جب بھی تھانے سے بلاوا آئے تو فورا حاضر ہوا جائے،کیوں کہ کسی کو بھی شک کی بنیاد پر طلب کیا جا سکتا ہے ۔پولیس والے نے بڑے آرام سے کہا ۔
مگر ہم پر کیا شک ہے ،ناصر پھر غصے سے بول پڑا۔
میں بات کر رہا ہوں ناں تم خاموش رہو،معین نے ناصر کو سمجھاتے ہوئے کہا ۔
دیکھو جوان تم ۔۔۔۔۔۔۔۔پولیس والے کی گردن میں پھر''سریا'' آ گیا تھا اور اس نے اپنا رخ انور پھر سے ناصر کی طر ف کر لیا ،وہ تو معین نے اسے بیچ میں ٹوک کر اسے پھر اپنی طرف متوجہ کر لیا، اسے چھوڑیں آ پ مجھ سے بات کریں ۔
ہاں تم سمجھ دار ہو،پولیس والا پھر سے شانت ہو گیا ۔
آپ ہمیں شک کی وجہ تو بتائیں ناں ،ہم تو بڑے شریف لوگ ہیں جرائم پیشہ افراد سے دوستی تو ایک طرف کبھی ان کے قریب سے بھی نہیں گزرے ،معین نے کہا
میں کیا کروں مجھے تو تھانے سے آرڈر ملے ہیں کہ آپ لوگوں کو بلا کر لائوں ،پولیس والے کے لب ولہجے سے اعتماد کی جھلک نمایاں تھی ۔ حوالدار صاحب کسی طریقے سے ہماری جان نہیں چھوٹ سکتی۔ معین نے پھر کہا۔
معین کے لجاجت بھرے رویے کی وجہ سے سپاہی کے تاثرات بھی کسی حد تک ہمدردانہ ہو چکے تھے' مگر اس کا مؤقف نہیں بدلا اور کہنے لگا۔ مشکل ہے کیوں کہ ایس ایچ او صاحب نے بلایا ہے اس لیے معاملہ میرے بس سے باہر ہے' آپ لوگوں کو چلنا ہی پڑے گا۔
تھوڑی سی بحث کے بعد معین ،ناصر اور ان کے دوست تھانے جانے کے لیے تیار ہوگئے،انھوں نے سوچا کہ پولیس والے سے بحث کرنا فضول ہے ساری صورت حال کا علم تھانے پہنچ کر ہی ہوگا۔
ابھی وہ تھوڑا ہی چلے تھے کہ پولیس والا جو ان سے دو قدم آگے تھا،ایک دم رک گیا اور ان کی طرف پلٹ کر مسکرانے لگا،اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھتے اس نے انھیں سلیوٹ کیااور بھانڈوں کے انداز میں نعرہ مارا ،چوہدری صاحب !اللہ خوش رکھے،رونقیں لگی رہیں،میں آپ کا نوکر۔
اوہ اللہ تیرا بھلاکرے یہ تو بہروپیا ہے،معین نے کہا ۔
جی چوہدری صاحب،آپ کا نوکر ،بھروپیے نے کہا
وہ سارے دوست یو ں بے وقوف بنائے جانے پر جہاں شرمندہ تھے وہیں ان کے چہروں سے خوشی بھی چھلک رہی تھی ۔
کمال کردیا تم نے،کیا نام ہے تمہارا،معین نے پوچھا
جی میرا نام شرفو ہے جی،بھروپیے نے کہا
لو شرفو میری طرف سے ،معین نے اپنی جیب سے پیسے نکالتے ہوئے کہا ،پھر سب دوستو ں نے بھروپیے کو پیسے دئیے اور وہ انھیں دعائیں دیتا ہوا چلا گیا ،یا ر کمال کا ایکٹر ہے،ناصر کے منہ سے نکلا اور وہ سب کھلکھلا کر ہنس پڑے۔
بہروپیا ہمارے معاشرے کا انتہائی اہم کردار ہے جو اپنی اداکارانہ صلاحیتوں سے سب کو متحیر کر کے ان میں خوشیاں بانٹتا ہے ،اگر یہ کہا جائے کہ وہ اداکاری کے فن میں یکتا ہوتا ہے تو غلط نہ گا کیوں کہ اس کی اداکاری کا کمال یہی ہوتا ہے کہ وہ کسی کو آخر تک احساس نہیں ہونے دیتا کہ وہ اداکاری کر رہا ہے۔بہروپیوں کا اپنا کہنا ہے کہ اگر ان کی اداکاری کا پتہ چل جائے تو پھر ان کے ہنر اور فن کاکیا فائدہ ۔جس طرح پہلوانی ،موسیقی اور اس جیسے دوسرے پیشے خاندانی طور پر اپنائے جاتے ہیں بالکل ویسے ہی بھروپیے بھی اس پیشے کو خاندانی طور پر اپناتے ہیں ۔
عمومًاخانہ بدوش ،گگڑے اور بھانڈ بھروپیے کے پیشے کو اپناتے ہیں ۔اس پیشے کو اپنانے والے افراد اداکار تو بہترین ہوتے ہی ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ انتہائی ذہین بھی ہوتے ہیں اور ہر قسم کی صورت حال کو اپنے حق میں کرنے کا فن بھی جانتے ہیں ،جس کے لیے خوشامد اور چرب زبانی ان کا سب سے بڑا ہتھیار ہوتاہے جو بڑے سے بڑے پتھر دل کو بھی موم کردیتا ہے ۔
وہ اپنی گفتگو سے ایک عام آدمی کو بھی آسمان پر بٹھا دیتے ہیں اور بے وقوف بننے کے باوجود انھیں جیب سے کچھ نہ کچھ دینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
ایک بڑی معروف مارکیٹ کی بڑی سڑک پر اچانک ایک پاگل کہیں سے نمودار ہوا ،یوں لگتا تھا جیسے اسے آسمان نے ٹپکا دیا یا پھر زمین نے اگل دیا ۔تاہم وہ دکانوں کے بالکل آخر میں تھوڑا ہٹ کر کھڑا تھا ،اس کے پھٹے ہوئے کپڑے ،چہرے سے ٹپکنے والی وحشت اورہاتھ میں پکڑی ہوئی آدھی اینٹ دیکھ کر انسان دور سے ہی خوف کھاتا تھا ۔وہ سڑک کنارے درختوں میں کھڑا تھا۔آصف اور اس کا بیٹا مارکیٹ سے شاپنگ کر کے نکلے تو ویگن پکڑنے کے لیے اس طرف چل پڑے جدھر وہ پاگل کھڑا تھا ۔ان باپ بیٹے کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ درختوں کے پاس کھڑا پاگل ان پر حملہ آور ہو جائے گا۔
وہ جیسے ہی اس کے قریب سے گزرنے لگے تو وہ نعرہ مستانہ مارتا ہوا ان کی طرف لپکا ،اس کے منہ سے نکلنے والی رال ،پراگندہ اور خاک آلودبال اورہاتھ میں پکڑی اینٹ دیکھ کر آصف کے اوسان خطا ہو گئے اور وہ اپنے بیٹے کا بازو پکڑ کر بھاگ نکلا ،تھوڑی دور جاکر اس نے پلٹ کر دیکھا تو وہ پاگل پھر سے درختوں کی چھائوں میں جا کھڑا ہو اتھا ۔آصف کو خطرہ محسوس ہوا کہ وہ پاگل کہیں کسی کو نقصان نہ پہنچا دے اس لیے اس نے سوچا کہ پولیس والوں کو اطلاع کرے ،ابھی وہ اسی مخمصے میں تھا کہ پاگل نے پھر ایک شخص پر حملہ کر دیا ۔
اس مرتبہ پاگل نے اس شخص کو اینٹ مارنے کی دھمکی دے کر بازو سے پکڑ لیا تھا اور اس شخص کی خوف کے مارے بری حالت ہو گئی تھی اور وہ اپنی جان چھڑا کر بھاگنے کے چکر میں تھا ۔پتہ نہیں پھر پاگل کو کیا ہوا کہ اچانک اس نے اینٹ پھینک دی اور اس شخص کو سلیوٹ کیا،اس شخص کے چہرے سے حیرانی نمایا ں تھی ۔یہ دیکھ کر آصف بھی اس طرف چل پڑا کہ دیکھیں تو سہی کیا معاملہ ہے تاہم اس کے دل میں خوف اب بھی تھا ۔اب وہ شخص پاگل کو پیسے نکال کر دے رہا تھا ۔
پاگل کے چہرے پر بھی اب خشونت اور پاگل پن کے تاثرات کی بجائے خوشامد نظر آ رہی تھی ،آصف اس کایا پلٹ پر بڑا حیران ہوا ،وہ پاگل آصف کو دیکھ کر مسکرا پڑا اور ماتھے پر ہاتھ رکھ کر دعائیں دینے لگا ،تب اسے سمجھ آیا کہ یہ تو بہروپیا ہے ،آصف اس کے بہروپ اور اداکاری سے بہت متاثر ہوا اور دل کھول کر داد دی ۔
بھروپیے عام طور پر پولیس مین ،پاگل ،ڈاکیے یا کسی سرکاری افسر کا بہروپ بھرتے ہیں ۔بعض اوقات وہ چھری بازوکے آر پار گزار کر دوسروں کو ڈراتے ہیں حالانکہ چھری آر پار نہیں ہوتی وہ صرف ایک شعبدہ ہوتا ہے۔اسی طرح مرچوں اور ہلدی کو ملا کر اپنے بازو یا ٹانگ پر نقلی زخم بنا لیتے ہیں جسے دیکھ کر بڑی کراہت ہوتی ہے اور لوگ انھیں تھوڑے بہت پیسے دے کر اپنی جان چھڑاتے ہیں ۔وہ مائوں کے سامنے بچوں کو ڈرا دیتے ہیں جس سے وہ وقتی طور پر تو بہت غصے میں آجاتی ہیں مگر پھر ان کی اداکاری کو سراہتے ہوئے انھیں کچھ نہ کچھ دے دیتی ہیں۔
ایسا ہی ایک دلچسپ واقعہ ایک گائوںمیں پیش آیا۔ایک سادھو جیسے حلیے کا آدمی بڑی بی بی کی حویلی میں داخل ہوا اور اس کے نوکروں پر دھونس جمانے لگا کہ وہ یہاں سے دومن گندم لے کر ہی جائے گاورنہ سب کچھ برباد کر کے رکھ دے گا نہ حویلی رہے گی نہ اس میں رہنے والے۔نوکروں نے اسے سمجھا کر ،دھمکا کر غرض ہر حربہ آزما کر دیکھ لیا کہ شاید وہ چلا جائے اور بڑی بی بی کو پتہ نہ چلے، جب وہ نہ ٹلا تو ایک نوکر نے اسے سمجھایا کہ بڑی بی بی بڑی سخت ہیں وہ تمھیں کچھ نہیں دے گی، جائو چلے جائو ورنہ پٹو گے ، اس کی بات سن کر سادھو جلال میں آ گیا اور کہنے لگاکہ جائو بڑی بی بی کو بتا دو وہ کسی سے نہیں ڈرتا ۔
نوکروں نے بڑی بی بی کو اطلاع دی تو وہ غصے سے تنتاتی ہوئی آئی اورسادھو کو ڈانٹنا شروع کر دیا ،سادھو نے پھر کہا کہ اگر اسے دومن گندم نہ دی گئی تو کچھ نہیں بچے گا۔بڑی بی بی کو اس کی بات سن کر مزید غصہ آ گیا اور کہا کہ جو تو نے کرنا ہے کر لے ۔سادھو نے بڑے آرام سے کہا کہ چاہے کچھ بھی ہو گندم تو میں لے کر ہی جائوں گا کیونکہ یہ میرا حق ہے ۔یہ کہتے ہوئے اس نے اپنی نقلی داڑھی اتار دی۔اس کی شکل دیکھ کر سب مسکرانے لگے ۔اچھا تو اس دفعہ سادھو بن کر آئے ہو ،بڑی بی بی نے اسے پہچانتے ہوئے کہا ،اگر آپ کو پہلے ہی میری پہچان ہو جاتی تو میرے بہروپ بھرنے کا کیا فائدہ ،بھروپیے نے کہا ۔وہ تو ہمیں پہلے بھی کبھی پتہ نہیں چلا،یہ کہتے ہوئے بڑی بی بی نے بہرو پیے کو کھا نا کھلانے اور دومن گندم دینے کے احکامات جار ی کر دئیے۔
بہروپیا کسی زمانے میں ہمارے معاشرے میں بڑی اہمیت رکھتا تھا جو جدیدیت اور بدلتی اقدار کی دھول میں کہیں کھو گیا ہے،اب شہروں میں بھروپیے شاذو نادر ہی دکھائی دیتے ہیںتاہم دیہات میں یہ روایتی فنکار اب بھی کہیں کہیں اپنے فن کے جوہر دکھاتا نظر آ جاتا ہے۔
بھروپیے عموماً سپاہی' ڈاکیا یا پاگل کا روپ دھار کر لوگوں کو بیوقوف بناتے ہیں.
بہروپیا اب شہروں میںتو کیا دیہات میں بھی کبھی کبھار نظر آتا ہے.
خانہ بدوش،گگڑے اور بھانڈاس پیشے کو خاندانی طور پر اپناتے ہیں.