کورونا کی نئی صورتحال اور خدشات

کورونا کی دوسری لہرکے نکتہ عروج پر وائرس کی نئی شدت پر ارباب اختیار اور وزارت صحت ہنگامی صورتحال کا ادراک کریں۔


Editorial December 22, 2020
کورونا کی دوسری لہرکے نکتہ عروج پر وائرس کی نئی شدت پر ارباب اختیار اور وزارت صحت ہنگامی صورتحال کا ادراک کریں۔ فوٹو: فائل

سرکاری اعداد وشمارکے مطابق ملک بھر میں گزشتہ 24 گھنٹوں میں کورونا وائرس کے 34 ہزار 772ٹیسٹ کیے گئے، جس میں سے ایک ہزار 792 کے نتائج مثبت آئے جب کہ 62 افراد اس وائرس کے باعث انتقال کرگئے، تاہم خوش آیند بات یہ رہی کہ مزید ایک ہزار 680 مریض صحتیاب ہوگئے جب کہ 10 نومبرکے بعد ملک میں یومیہ کیسز میں 40 روز بعد یہ سب سے کم تعداد ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ کیسزکا یہ شارٹ فال قابل غور ہے، یوں اب تک ملک میں کورونا وائرس کے مجموعی کیسز کی تعداد 4 لاکھ 58 ہزار 968 ہوگئی جس میں سے 4 لاکھ 9 ہزار 85 صحتیاب ہوئے ہیں جب کہ 9 ہزار 392 کا انتقال ہوا ہے جب کہ فعال کیسز کی مجموعی تعداد 40 ہزار 491 ہے۔

میڈیا کے مطابق سعودی حکومت نے کورونا کی نئی صورتحال کے باعث پروازوں پر پابندی عائد کردی ہے جس کے پیش نظر مملکت میں زمینی اور سمندری راستوں سے داخلہ بھی اس عرصے کے دوران معطل رہے گا، جسے مزید ایک ہفتے تک توسیع دی جاسکتی ہے۔

سعودی پریس ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق یہ فیصلے متعدد ممالک میں کورونا وائرس کی نئی قسم کے پھیلاؤ کے باعث کیے گئے جب تک وائرس کی نوعیت واضح نہ ہوجائے اور اس وقت تک شہریوں، تارکین وطن کی صحت عامہ کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات کرتے ہوئے پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق کچھ پروازوں کو غیر معمولی صورتحال میں آنے کی اجازت ہوگی اور جو غیر ملکی پروازیں پہلے سے ہی مملکت میں موجود ہیں انھیں واپسی کی اجازت ہوگی۔

عرب نیوزکی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب نے مذکورہ فیصلے برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں وائرس کی نئی قسم کی لہرکے ردِ عمل میں کیے ۔ نئے فیصلوں کے تحت جو فرد بھی کسی یورپی ملک سے 8 دسمبرکے بعد سعودی عرب پہنچا اسے آمد کی تاریخ سے 2 ہفتوں تک قرنطینہ میں رہنا ہوگا، اس کے علاوہ سیلف آئیسولیشن کے عرصے کے دوران ان کا کورونا ٹیسٹ کیا جائے گا جو ہر 5 روز بعد دوبارہ ہوگا۔

علاوہ ازیں جو کوئی بھی گزشتہ 3 ماہ کے عرصے میں کسی زیادہ خطرے والے یا یورپی ملک سے گزر کر سعودی عرب پہنچا اسے بھی لازماً ٹیسٹ کروانا ہوگا۔ تاہم جن ممالک میں تبدیل شدہ وائرس سامنے نہیں آیا وہاں سے اشیا، اناج کی نقل و حرکت اور فراہمی کا سلسلہ جاری رہے گا، مذکورہ پابندیوں پرکورونا وائرس کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت کے تناظر میں دوبارہ جائزہ لیا جائے گا۔ خیال رہے کہ سعودی عرب میں اب تک 3 لاکھ 61 ہزار سے زائد کورونا کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں جب کہ 6 ہزار 100 مریض اس وبا کے باعث لقمہ اجل بن چکے ہیں۔

سعودی عرب کی جانب سے پروازوں کی معطلی کے فیصلے کی روشنی میں پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز نے بھی اسلام آباد، کراچی، لاہور اور ملتان سے سعودی عرب کے لیے اپنی متعدد پروازیں منسوخ کردی ہیں۔ ترجمان پی آئی اے نے اس سلسلے میں بتایا کہ جب تک پروازوں کے اجازت نامے دوبارہ حاصل نہیں ہوتے پروازیں منسوخ رہیں گی اور تمام متاثرہ مسافروں کو پروازیں بحال ہوتے ہی پروازوں پر ایڈجسٹ کیا جائے گا۔ وفاق وزیر مذہبی امور نور الحق قادری نے کہا ہے کہ حج پالیسی 2021 پر مشاورت ہو رہی ہے، اگرکورونا وائرس کے ایس اوپیز پر حج ہوا تو بہت مہنگا ہوگا ، تاہم ان کا کہنا تھا کہ کوشش ہوگی کہ عازمین حج کو کم اخراجات پر حج کی سہولت دی جا سکے۔

حقیقت یہ ہے کہ کورونا کی دوسری لہر کی شدت میں اضافہ اورکمی کی اطلاعات میں گہرے تضادات کے باعث دنیا میں عجیب سی ہڑبونگ مچی ہوئی ہے، برطانیہ میں وائرس کی نئی اطلاع نے سراسیمگی پھیلا دی ہے، لوگ اتنی بڑی تعداد میں لندن سے نقل مکانی کررہے ہیں کہ وزارتی حکام نے اس پر لندن کے مکینوں پر شدید تنقیدکی ہے، وزیراعظم بورس جانسن نے آنے والے ایام کوکورونا کے تناظر میں بدترین قرار دیا ہے، ''ٹیلیگراف ''کی ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ کی جانب سے 19 دسمبرکو عالمی ادارہ صحت کو بتایا گیا کہ کورونا وائرس کی یہ نئی قسم دیگرکے مقابلے میں زیادہ تیزی سے پھیل رہی ہے۔

برطانوی حکومت کے چیف سائنٹیفک آفیسر سر پیٹرک ویلانس نے نئی قسم کے پھیلاؤکی رفتار کے اعدادوشمار تو نہیں بتائے، مگر یہ اسے وی یو آئی 2020/12/01 کا نام دیتے ہوئے کہا کہ یہ پھیل رہی ہے۔نیدرلینڈز نے 19 دسمبرکو اس قسم والے ایک کیس کو شناخت کیا تھا اور اس کے بعد ڈچ حکومت نے برطانیہ سے تمام مسافر پروازوں کو یکم جنوری تک روک دیا۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق ڈنمارک میں اس قسم کے اب تک 9 کیسز سامنے آچکے ہیں جب کہ ایک کیس کی تشخیص آسٹریلیا میں ہوئی۔

عالمی ادارہ صحت نے یورپی ممالک کو برطانیہ میں نئی قسم کے پھیلاؤ کے حوالے سے اقدامات کی ہدایت کی تھی۔ عالمی ادارہ صحت کے یورپ آفس کی ایک ترجمان نے اے ایف پی کو بتایا ، یورپ بھر میں وائرس کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا ہے، تمام ممالک کو بیماری کو قابوکرنے اور روک تھام کی حکمت عملیوں کو بہتر بنانا چاہیے۔برطانیہ میں وائرس کی نئی قسم کے انکشاف کے بعد اٹلی، بیلجیئم اور آسٹریا نے وہاں سے آنے والی تمام پروازوں اور ٹرینوں کو 21 دسمبر تک کے لیے روک دیا تھا، جب کہ آئرلینڈ، فرانس اور جرمنی کی جانب سے بھی ایسے اقدامات پر غورکیا جارہا ہے۔

جنوری میں نئے کورونا وائرس کے پہلے جینیاتی سیکوئنس کو تیار کرنے کے بعد سے اب تک اس میں جینیاتی تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا جاچکا ہے۔ ان میں سے کچھ اس کے پھیلاؤ میں اضافے سے منسلک ہیں، مگرکسی بھی تبدیلی سے وائرس کی شدت میں اضافہ یا کمی نہیں آئی۔ سر پیٹرک کا کہنا تھا کہ یہ نئی قسم ایسی تبدیلیوں کا مجموعہ ہے جو ہمارے خیال میں اہم ہیں۔ انھوں نے مزید بتایا کہ ایسے شواہد اب تک نہیں ملے کہ یہ نئی قسم زیادہ خطرناک ہے، مگرکچھ وجوہات سے لگتا ہے کہ یہ انسانی مدافعتی ردعمل کو بدل سکتی ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ہمیں اس حوالے سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ سائنسدانوں کی جانب سے یہ جاننے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کیا یہ نئی قسم زیادہ تیزی سے پھیل سکتی ہے، کیا اس سے لوگوں میں بیماری کی شدت سنگین ہوسکتی ہے اور کیا ویکسینز اس کے خلاف موثر ثابت ہوں گی یا نہیں۔جب برطانوی وزیر صحت میٹ ہینکوک نے اس نئی قسم کی موجودگی کا اعلان کیا تھا تو بیشتر سائنسدانوں نے اس پر شکوک ظاہر کیے تھے،مگرگزشتہ چند دنوں میں حالات میں تبدیلی آئی اور متعدد سائنسدانوں کا اب کہنا ہے کہ یہ وبا کی روک تھام کے حوالے سے ایک سنجیدہ چیلنج ہوسکتا ہے۔

ویلکم ٹرسٹ کے ڈائریکٹر سرجرمی فارار نے کہا کہ کووڈ 19 کی نئی قسم فکرمند کردینے والی اور باعث تشویش ہے، اس کے بارے میں جاننے کے لیے مزید تحقیق جاری ہے مگر اس حوالے سے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ برطانیہ کے چیف میڈیکل آفیسر پروفیسرکرس وائٹی نے کہا کہ ابتدائی ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ نئی قسم زیادہ تیزی سے پھیل رہی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ہم نے عالمی ادارہ صحت کو اس حوالے سے آگاہ کردیا ہے اور دستیاب ڈیٹا پر تجزیہ جاری ہے تاکہ اس بارے میں زیادہ جان سکیں۔ انھوں نے مزید بتایا کہ ایسے شواہد موجود نہیں جن سے عندیہ ملتا ہوکہ یہ نئی قسم زیادہ اموات یا ویکسینز یا علاج پر اثرانداز ہورہی ہے، تاہم اس کی تصدیق کے لیے فوری تحقیق کی ضرورت ہے۔ امپیریل کالج لندن کے امیونولوجی پروفیسر ڈینیئل الٹامان نے کہا کہ ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ وائرس کی یہ قسم ساؤتھ ایسٹ لندن میں زیادہ پھیل چکی ہے۔

ملک میں عوام کورونا کے ووہان سے پھیلائو پر جس خوف میں مبتلا ہوئے، اب نئے وائرس کی ممکنہ آمد اور خطرناک پھیلائوکی اطلاع بھی دہشت پھیلا سکتی ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پھیلائو میوٹیشن کا سبب بھی ہوسکتا ہے، بل گیٹس کا کہنا ہے کہ وباء کے بارے میں قیاس آرائیوں اور پیشگوئیوں کا سلسلہ کافی عرصہ پہلے شروع ہوچکا تھا، ڈاکٹروں اور ماہر تحقیق کاروں کے مطابق نیا کورونا سپر وائرس انسانی دماغ پر بھی حملہ کرتا ہے، اس میں سپائیک پروٹین ،خون اور دماغ کے درمیان رکاوٹ کرسکتا ہے، سپائیک پروٹین خلیات میں داخل ہونے کے لیے اپنی قوت کو استعمال کرتا ہے، اسی لیے اسے ایس ون پروٹین بھی کہا جاتا ہے، ایسے پروٹین بذات خود بھی اس وقت تباہی مچاتے ہیں جب وہ وائرس سے الگ ہوجاتے ہیں اور ورم بھی بڑھاتے ہیں۔

دنیا میں کورونا سے ہونے والی ہلاکتیں بہت ہوچکی ہیں، اس سیاق وسباق میں اگر ویکسین کی منظوری کی اطلاعات کا جائزہ لیا جائے تو صورتحال خاصی دلچسپ محسوس ہوتی ہے، ایک نرس تو ویکسین لگتے ہی سر چکرانے کے بعد گر پڑی ، طبی عملہ نے انھیںفوری طبی امداد فراہم کی، ادھر متعدد فرنٹ لائن طبی عملے کو ویکسین دی گئی ، پاکستان میں اس کی آمد اور استعمال کے انتظامات ہورہے ہیں، حکومت نے ڈیڑھ ارب کا فنڈ بھی مختص کیا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ کورونا کی دوسری لہرکے نکتہ عروج پر وائرس کی نئی شدت پر ارباب اختیار اور وزارت صحت ہنگامی صورتحال کا ادراک کریں، اورکیسزکی تعداد میں حالیہ کمی پر بھی اپنی جائزہ رپورٹ میں اس کے اسباب اور نتائج کو مصدقہ ڈیٹا کا حصہ بنائیں،کیونکہ وسوسوں اور اندیشوں میں گرفتار عوام کو اس وقت انمول مسیحائی اور چارہ گری کی اشد ضرورت ہے، لازم ہے کہ کورونا کی ہلاکتیں قوم کی اعصابی قوت اور فرنٹ لائن طبی ٹیموں کے عزم کو متزلزل کرنے میں کامیاب نہ ہوں، اس کے لیے حکومت کو کمربستہ ہوکر ہر قیمت پرکورونا کے نئے حملہ سے نمٹنا کا تہیہ کرنا ہوگا اور قوم کو اعتماد میں لینا ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔