کوویڈ ویکسین کی آپا دھاپی
جن ممالک کے پاس نوٹوں کی بہتات تھی انھوں نے منہ مانگی قیمتوں پر اگلے ایک سال کی پروڈکشن پیشگی خرید لی۔
جب تک کورونا کی ویکسین تیار نہیں ہوئی تھی۔ وائرس نے محمود و ایاز کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا تھا۔ اسے کسی ایک قوم یا خطے کی بیماری کے بجائے ایسی عالمی وبا قرار دیا جا رہا تھا جس سے نپٹنے کی ذمے داری کسی ایک ادارے ، ویکسین ساز کمپنی یا ملک پر نہیں بنی نوع انسان پر عائد ہوتی ہے۔
پر جیسے ہی پہلے فائزر ، پھر موڈرنا ، پھر آسٹرا زنیکا آکسفورڈ اور پھر روسی سپوتنک فائیو ویکسین نے اپنی کامیابی کا اعلان کیا۔کوویڈ وائرس کے خلاف عالمی بھائی چارہ تاش کے پتوں کی طرح بکھرتا چلا گیا۔وائرس سے لڑنے کا مشترکہ عالمی عزم یا شیخ اپنی اپنی دیکھ میں بدل گیا۔
جن ممالک کے پاس نوٹوں کی بہتات تھی انھوں نے منہ مانگی قیمتوں پر اگلے ایک سال کی پروڈکشن پیشگی خرید لی۔مثلاً فائزر ، موڈرنا اور آسٹرا زنیکا کی اگلے برس کی بارہ ارب خوراکوں میں سے نو ارب خوراکیں امریکا سمیت امیر ممالک نے پہلے ہی سے بک کر لی ہیں۔ کینیڈا نے اپنی کل آبادی کی ضروریات سے پانچ گنا زائد خوراکیں خریدنے کے لیے پیشگی رقم ادا کر دی ہے۔
اگرچہ اس وقت مختلف ممالک میں لگ بھگ پچاس ادارے کوویڈ ویکسینز کی تیاری پر کام کر رہے ہیں۔ان میں سے بیس کے بارے میں امید ہے کہ اگلے ایک برس میں مارکیٹ میں آ جائیں گی۔مگر وہ کتنی موثر ہوں گی اور ان کے ذیلی نقصانات کتنے کم یا زیادہ ہوں گے۔اس کی جان کاری میں وقت لگے گا۔
اس دوڑ میں جو کمپنیاں پہلے شامل ہوئی ہیں لامحالہ وہ سب سے زیادہ منافع کمائیں گی۔مگر کیا وہ اس ویکسین کی تیاری کے عمل میں اپنے تحقیق و ترقی کے اخراجات پورے کرنے اور اپنے حصص یافتگان کو بھاری منافع تقسیم کرنے کے بعد اس ویکسین کا فارمولا عام استعمال کے لیے کھول دیں گی ؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہی اس بات کو یقینی بنائے گا کہ دنیا کے آخری آدمی تک کہ جس کے پاس دو وقت کی روٹی کے لیے بھی بمشکل پیسے ہیں۔اس تک ویکسین کب پہنچے گی۔
امیر ممالک چاہیں تو ویکسین کی عالمی سطح پر تقسیم کی راہ میں حائل ناہمواری کو دور کرنے میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کر سکتے ہیں۔مگر نجی شعبے کی بے لگام طاقت کیا انھیں ایسا کرنے دے گی ؟
جو عوام دوست تنظیمیں کوویڈ ویکسین کے حقوق عام کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ پچھلے دس ماہ کے دوران ویکسین کی تیاری کے لیے دوا ساز کمپنیوں کو جو سرمایہ ملا ہے اس میں سے اسی فیصد پیسہ حکومتوں نے لگایا ہے جب کہ کمپنیوں نے ویکسین کی تحقیق و ترقی کی مد میں اپنی جیب سے صرف بیس تا پچیس فیصد پیسے خرچ کیے ہیں۔
یعنی دس ارب ڈالر کی فنڈنگ میں ان کمپنیوں کی فنڈنگ کا تناسب دو سے ڈھائی ارب ڈالر ہے۔ چنانچہ ان کمپنیوں کی اخلاقی ذمے داری ہے کہ وہ پیسہ فراہم کرنے والے امیر ممالک کی ضروریات پوری کرنے اور ایک مناسب منافع کمانے کے بعد زیادہ سے زیادہ دو برس میں اپنے پیٹنٹ حقوق سے بنی نوع انسان کے عام استعمال کی خاطر دستبردار ہوجائیں تاکہ سستے داموں اچھی ویکسین تیزی سے دنیا کے آخری کونے تک دستیاب ہو سکے۔
مگر آزاد معیشت کے حامی دلیل دیتے ہیں کہ ان کمپنیوں کو نئی ادویات اور ویکسینز کی تحقیق و ترقی پر خرچ کرتے رہنے کی ترغیب دینے کے لیے ضروری ہے کہ انھیں منافع سے محروم نہ کیا جائے۔ ماضی میں زیادہ تر کمپنیاں یہ سوچ کر مختلف وباؤں کی ویکسینز تیار کرنے میں بہت زیادہ پرجوش نہیں رہیں کیونکہ ان وباؤں کا ہدف غریب ممالک کی اکثریت ہوتی ہے اور غریب ممالک میں ویکسین خریدنے کی سکت بھی نہیں ہوتی۔ یوں کمپنیاں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر جو اربوں ڈالر خرچ کرتی ہیں اس تناسب سے انھیں منافع حاصل نہیں ہوتا۔
یہ وہ بحث ہے جو تاقیامت جاری رہ سکتی ہے البتہ ویکسین کی مساوی تقسیم کے لیے مالی طور پر کمزور ممالک نے اپنا ایک ویکسین اتحاد کوویڈ انیشیٹو کے نام سے تشکیل دیا ہے۔پاکستان سمیت ایک سو بہتر ممالک اس اتحاد میں شامل ہیں جسے عالمی ادارہِ صحت کی سرپرستی حاصل ہے۔
یہ اتحاد غریب ممالک کی کم ازکم بیس فیصد آبادی کو اگلے ایک برس میں ویکسین کی چھتری تلے لانے کے لیے کوشاں ہے۔اس مقصد کے لیے سات ارب ڈالر کے فنڈز جمع کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔اب تک لگ بھگ دو ارب ڈالر ہی جمع ہو پائے ہیں۔یہ فنڈ اب تک مختلف کمپنیوں سے ڈھائی سو ملین ویکسین خوراکوں کی خریداری میں ہی کامیاب ہو پایا ہے جب کہ اس کا اگلے ایک برس کا ہدف کم ازکم دو ارب خوراکوں کی خریداری ہے۔
اب تک صفِ اول کی جو دو ویکسینز ( فائزر اور موڈرنا ) سامنے آئی ہیں انھیں منفی ستر سے لے کر منفی بیس تک درجہِ حرارت برقرار رکھنے والے سرد خانے درکارہیں۔امیر ممالک کے پاس یہ سہولت موجود ہے۔ البتہ دنیا کی لگ بھگ تین ارب آبادی ایسی ہے جو ایسی سہولتوں سے بہت دور ہے۔اگر ویکسین دستیاب بھی ہوجائے تب بھی ان تین ارب انسانوں تک اس کی ترسیل کیسے ہوگی۔یہ دوسرا بڑا چیلنج ہے۔
مثلاً مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ کی پچیس لاکھ آبادی کو اگر فائزر یا موڈرنا ویکسین مل بھی جائے تو اس کا ذخیرہ کیسے ہوگا۔کیونکہ پورے غربِ اردن میں صرف جیریکو شہر میں مطلوبہ ٹھنڈک پیدا کرنے والا صرف ایک سسٹم ہے۔جب کہ غزہ کی دس لاکھ آبادی کے پاس ایک بھی مطلوبہ ریفریجریشن سسسٹم موجود نہیں اور اگر ہو بھی تو کس کام کا کیونکہ غزہ میں ویسے بھی چوبیس میں سے اوسطاً بیس گھنٹے بجلی کا کال ہے۔
اس کے برعکس اسرائیل کے پاس نہ صرف ویکسین خریدنے کی مالی استطاعت بلکہ اسے موثر درجہِ حرارت پر ذخیرہ کرنے کا ریفریجریشن نظام بھی موجود ہے۔ اسرائیل نے فائزر سے آٹھ ملین اور موڈرنا سے تین ملین ویکسین خوراکوں کا سودا کیا ہے۔یہ ذخیرہ نوے لاکھ کی آبادی میں سے نصف کی ویکسینیشن کے لیے کافی ہے۔اس آبادی میں مقبوضہ فلسطین میں قائم یہودی آبادکار بستیاں بھی شامل ہیں۔
اسرائیل میں روزانہ ساٹھ ہزار شہریوں کی ویکسینشن کا کام شروع ہوچکا ہے۔مگر مقبوضہ فلسطینی اس انتظام سے باہر ہیں۔جب اسرائیل کے نائب وزیرِ صحت یوو کیش سے پوچھا گیا کہ اسرائیل کے فوجی انتظام کے تحت مقبوضہ علاقوں کی فلسطینی آبادی کی ویکسینشن کے بارے میں کیا سوچا گیا ہے۔تو آپ نے فرمایا کہ اگر تمام اسرائیلی شہریوں کی ویکسینیشن کے بعد خوراکیں بچ گئیں تو ہم وہ کھیپ فلسطینی اتھارٹی کو عطیہ کر دیں گے کیونکہ لاکھوں فلسطینی دیہاڑی دار اسرائیل میں بھی محنت مزدوری کے لیے آتے ہیں اور ان کی ویکسینیشن بھی اسرائیلی شہریوں کی سلامتی کے لیے ضروری ہے۔
اسرائیلی اہلکار کا یہ انسانیت دوست بیان سن کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے )