قمر راہی بھی راہی ملک عدم ہوئے

کچھ خبریں ایسی ہوتی ہیں جو متوقع ہونے کے باوجود بھی انتہائی شدید صدمات کا باعث بن جاتی ہیں


Saad Ulllah Jaan Baraq December 28, 2013
[email protected]

کچھ خبریں ایسی ہوتی ہیں جو متوقع ہونے کے باوجود بھی انتہائی شدید صدمات کا باعث بن جاتی ہیں، ایسی ہی ایک خبر جناب قمر راہی کی وفات کی بھی ہے جو کافی عرصے سے متوقع تو تھی کیوں کہ مرحوم (یہ لفظ لکھتے ہوئے کلیجہ کٹ کٹ گیا) قمر راہی ایک مدت سے صاحب فراش تھے، جب بھی ٹیلی فون کے راستے بات چیت ہوتی تھی تو وہ یہی کہتے

برقہ یار مونگ خو پہ مڑو حساب یو

یعنی برق یار ہم تو مردوں کے حساب میں ہیں، ابھی کچھ دنوں پہلے فون پر اس کی آواز سنائی دی، بولے، یار میرا تو خیال تھا کہ لوگ مجھے بھلا چکے ہیں لیکن سنا ہے تم نے کسی کالم میں میرا ذکر کیا ہے، بڑی خوشی ہوئی کہ کم از کم ایک دو لوگ تو ایسے ہیں جو ہمیں بھولے نہیں ہیں، حالانکہ قمر راہی کوئی بھلانے یا بھولنے والا آدمی تھا ہی نہیں... وہ پشتو ادب اور صحافت کا ''چاند'' ہی نہیں تھا بلکہ اپنے عہد کی ایک ایسی شخصیت تھی کہ جب تک پشتو زبان و ادب زندہ ہیں وہ زندہ ہی رہے گا۔ قمر راہی پشتو کے ان پہلے ادیبوں میں سے ہے جنھوں نے دنیائے ادب کے نئے رجحانات کو پشتو میں رواج دیا۔ قمر راہی کے ساتھ ہماری جان پہچان اس وقت ہوئی جب وہ ایک ادبی مجلے قند کے ایڈیٹر تھے اور ادبی چمنستان کے تناور درخت تھے اور ہم ابھی نئے نئے اگ رہے تھے۔

اس وقت ویسے بھی پشتو میں ادبی مجلے نہ ہونے کے برابر تھے کیونکہ کچھ حکومت کی مہربانی سے اور کچھ خود بعض منافع پسند اور نام نہاد لکھنے والوں کی وجہ سے ''پشتو'' کا نام لینا بھی خطرناک تھا، ہوا یوں تھا کہ افغانستان کی طرف سے کچھ لوگ رقومات حاصل کرنے کے لیے ادبی رسالے نکالتے تھے۔ ان لوگوں نے منافع تو کما لیا لیکن ساتھ ہی پشتو ادب اور مخلص لکھنے والے بھی بدنام ہو گئے چنانچہ پشتو اخبار یا مجلہ نکالنا اور اسے چلانا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا، اسی پت جھڑ اور ابتلا کے دور میں ایک مجلہ ''قند'' کے نام سے شروع ہوا جو اچھا خاصا ضخیم ادبی مجلہ ہوتا تھا اور پشتو اردو دونوں زبانوں میں الگ الگ چھپتا تھا۔ اردو مجلے کا ایڈیٹر تاج سعید تھا اور پشتو مجلے کی ادارت قمر راہی کرتا تھا جو خود بڑے ٹیلنٹڈ اور روشن طبع لکھنے والے اور بہترین شاعر تھے۔ ابھی ہماری اتنی ہستی تو نہیں ہوئی تھی کہ قند میں چھپنے کا اعزاز حاصل کر پاتے،

حسن فروغ شمع سخن دور ہے اسدؔ
پہلے دلِ گداختہ پیدا کرے کوئی

اور دلِ گداختہ پیدا کرنے میں ہم نے جن قندیلوں سے روشنی حاصل کی ان میں قمر راہی بھی تھے، اس وقت پشتو کے چند اہل قلم جو اس قافلے کے سرخیل تھے ان میں حمزہ شنواری، اجمل خٹک، قلندر مومند، ایوب صابر اور قمر راہی کے نام سرفہرست تھے۔ ان میں ہر ایک اپنی جگہ ایک دبستان کی حیثیت رکھتا تھا اور نئے لکھنے والوں کے رہنماء تھے، قمر راہی اگرچہ مردان میں رہتے تھے لیکن سایہ پورے صوبے بلکہ افغانستان پر رکھتے تھے چنانچہ ہم بھی نام لیواؤں میں تو تھے لیکن صرف ذہنی قربت رکھتے تھے، جسمانی طور پر اتنا ہی فاصلہ تھا جتنا کہ بنوں اور مردان میں ہے کیونکہ ان دنوں روزی روٹی کی کھوج ہمیں بنوں لے گئی تھی اور وہاں سے رابطے کا ذریعہ صرف خط و کتابت ہوتی تھی، عام طور پر قمر راہی کو انتہائی دبنگ اور منہ پھٹ قسم کا ادیب سمجھا جاتا تھا کیونکہ طبیعت کے لحاظ سے وہ بالکل ہماری طرح تھے، پیسوں کا تو پتہ نہیں کہ ان کے پاس ہوتے تھے یا نہیں لیکن دل میں ''بات'' رکھنے کے بالکل قائل نہیں تھے البتہ ہم نے اس بری عادت کو تھوڑا ڈیولپ کیا ہے، جیب میں ''پیسے'' اور دل میں ''بات'' رکھنا ہم نے نہ تب سیکھا تھا اور نہ اب سیکھ پائے ہیں ۔۔۔ یعنی

سب کچھ سیکھا ہم نے نہ سیکھی ہوشیاری

لیکن اس میں تعجب کی بات ہے کہ قمر راہی کی زور آور زبان کا شکار ہم کبھی نہیں ہوئے بلکہ جب بھی ان سے بات ہوئی نہایت شیر و شکر قسم کی ہوئی بلکہ اکثر تو دونوں طرف سے ،
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
البتہ ایک موقع پر انھوں نے بہت برا بھلا کہا جو ہمیں بالکل برا نہیں لگا بلکہ بھلا ہی لگا، یہ اس وقت ہوا جس ہم نے مشرف کے دور میں ستارہ امتیاز قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا،اس گناہ عظیم کی سزا ہمیں جنرل مشرف نے تو نہیں دی حالانکہ انکاری بیان اور کالم میں ہم نے ان کے بخیئے ادھیڑے تھے لیکن جرم تو بہرحال جرم تھا اور اس کی سزا ہمیں ملنا ہی تھی سو وہ سزا جو پینڈنگ تھی وہ پیپلز پارٹی اور اے این پی کی حکومتوں نے دی اور دل کھول کر دی، خیر یہ تو سیاق سباق تھا قمر راہی سے چند روز قبل ملاقات ہوئی جب ہم ان کی عیادت کو گئے تو انھوں نے ہمیں آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا، یہ کیا کیا تم نے ۔۔۔ کیا اس قسم کے اعزازات یا انعامات کسی کے باپ کے ہوتے ہیں۔کیا وہ لوگ جیب سے دیتے ہیں، کیا یہ ان کے ذاتی اعزازات ہوتے ہیں، یہ تو ملک کے ہوتے ہیں اور ملک پر ہمارا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کسی اور کا ہو سکتا ہے، تم سمجھتے ہو کہ تم نے انکار کر کے بڑا تیر مار دیا، اس سے کیا ہو جائے گا ،وہ کسی اپنے چمچے کو دے دیں گے یا کوئی بے ایمان اسے بے ایمانی سے ہڑپ کر لے گا، سمجھ میں نہیں آتا تم لوگ اس قسم کی ضد کر کے اوراسٹوپڈ خودداری دکھا کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہو۔

ادھر وہ اجمل خٹک کو دیکھو پانچ لاکھ روپے ملے تو اکیڈمی کو واپس کر دیے، اس سے اچھا تھا کہ یہ رقم لے لیتے ، خود کھانا اچھا نہیں سمجھتے تھے تو مستحق شاعروں اور ادیبوں کو کتابیں چھپوانے کے لیے دے دیتے، اور یہ پہلی مرتبہ تھا جب ہمیں کسی کا برا بھلا ۔۔۔ برا نہیں بلکہ اچھا لگا تھا، ان کا یہ نظریہ بالکل ٹھیک تھا اور ہے ۔۔۔ واقعی اس قسم کے اعزازات اور رقومات کسی کے باپ کے نہیں ہوتے آگے بڑھ کر لے لینا چاہیے اور اگر خود نہ کھانا چاہو تو کسی اور کھانے والے کو دے دو کیوں کہ چھینا جھپٹی کے اس دور میں بے چارا کون سا ادیب اور شاعر ہے جو بھوکا نہیں ہے، اور آج وہ قمر راہی ہم میں نہیں رہا جس کے ڈانٹنے میں بھی پیار کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا تھا، جس کی دشمنی بھی ''دوستی'' سے زیادہ فائدہ مند ہوتی تھی اور ظاہر ہے کہ ''دوستی اور پیار'' تو گنے جیسا ہوتا تھا، شاید اس لیے کہ گنے کے کارخانے سے متعلق تھا ''گنے'' کی یہ خاصیت تو ہر کسی کو معلوم ہے کہ ہر بند کے بعد دوسرا بند اور زیادہ میٹھا ہوتا ہے،

پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میرؔ سے صحبت نہیں رہی

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں