بلاول نے ماں کا حق ادا کردیا

بلاول اپنی ماں کی اس تحریر کو کیسے فراموش کرسکتے ہیں جو بلاول کے حوالے سے لکھی گئی تھی


Zahida Hina December 28, 2013
[email protected]

بلاول بھٹو نے مسیحی برادری کوکرسمس کی مبارکباد دی اور ساتھ ہی یہ خواہش بھی ظاہر کی کہ وہ اپنی زندگی میں کسی مسیحی کو پاکستان کی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کی یہ آرزو شہید بے نظیر بھٹو کی اس تربیت کی عکاس ہے جو انھوں نے اپنے چہیتے بیٹے کو دی تھی۔ بینظیر بھٹو بیسویں صدی کے نصف آخر میں پیدا ہوئیں اور اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں اس لیے قتل کی گئیں کہ وہ انتہاپسند اور عسکریت پسند گروہوں کی نگاہوں میں اپنے روادار اور معتدل خیالات کے سبب کھٹکتی تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اگر انھیں سیاسی پس منظر کا اثاثہ دیا تھا، وہیں نصرت صابونچی سے شاندار عجمی تاریخ و تہذیب انھیں ورثہ میں ملی تھی۔ ہند ایرانی حسب نسب اور جدید مغربی علوم اور فنون لطیفہ سے آگہی بے نظیر بھٹو کا اثاثہ تھا۔ اس نے انھیں دنیا کی چند اہم ترین خواتین میں سے ایک ہونے کا شرف بخشا اور ہم پاکستانیوں کے حصے میں یہ اعزاز آیا کہ وہ مسلم امہ کی پہلی منتخب وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوئیں۔

بلاول کے لیے یہ بات ہمیشہ افتخار کا سبب ہوگی کہ ان کی ماں دنیا کی ان چند عورتوں میں سے تھی جنھوں نے مقتل کا رخ شان سے کیا۔ یہ ایک ایسی بے مثال وراثت ہے جس پر وہ اور ان کی بہنیں جس قدر ناز کریں، وہ کم ہے۔ ایسی پرُجلال ماں کا بیٹا ہی پاکستانی مسیحیوں کے لیے یہ آرزو کرسکتا ہے۔ بلاول جس عمر میں اپنی سورما ماں سے محروم ہوئے اس صدمۂ جاں کاہ کا ان کی زندگی پر ہمیشہ گہرا اثر رہے گا۔ ایک روشن خیال اور کشادہ دل تربیت کے بعد ہی یہ ممکن تھا کہ بلاول مسیحیوں کو وہ پیغام دے سکیں جو پاکستان کے کچھ لوگوں کو یقینا ًناگوار گزرا ۔

بلاول اپنی ماں کی اس تحریر کو کیسے فراموش کرسکتے ہیں جو بلاول کے حوالے سے لکھی گئی تھی۔ بے نظیرنے لکھا کہ'' میں اپنی زندگی کا وہ منظر کبھی نہیں بھلا سکوں گی جب میں بلاول کو پڑھائی کی خاطر چھوڑ کر اور بختاور کو ساتھ لے کر پاکستان جا رہی تھی۔ وہ سفید قمیص' دھاریوں والے نیلے پتلون' سفید موزے اور سیاہ جوتے پہنے راہداری میں خاموش بیٹھا اپنی بھوری آنکھوں سے مجھے تک رہا تھا۔ اس کی آنکھوں کی اداسی میں کبھی نہیں بھول سکتی۔ وہ وقت کبھی کسی ماں پر نہ آئے کہ جب اسے دو برس کے اپنے بیٹے کو پیچھے چھوڑنا پڑے اور کوئی بچہ کبھی یہ صدمہ نہ سہے کہ اس کی ماں اپنی ایک اولاد کوساتھ لے گئی ہے اور اسے تنہا چھوڑ گئی ہے۔''ماں سورما بے نظیر جب یہ لکھ رہی تھیں تو نہیں جانتی تھیں کہ صرف سترہ برس بعد وہ انیس برس کے بلاول کو' بختاور اورآصفہ کو ہمیشہ کے لیے تنہا چھوڑ جائیں گی اور ان کے بچے اپنی مقتول ماں کا آخری دیدار کریں گے۔

بلاول نے چھوٹی سی عمر میں بہت سے صدمے سہے ہیں، شاید ان ہی تجربوں نے ان کے دل میں وہ گداز پیدا کیا کہ وہ اپنے ملک کی اقلیتوں کے بارے میں سوچ سکیں اور کرسمس کے موقعے پر پاکستان کے مسیحیوں کو اپنی اس خواہش سے آگاہ کرسکیں کہ وہ اپنی زندگی میں کسی مسیحی کو پاکستان کا وزیر اعظم دیکھ سکیں۔ ہم نے قیام پاکستان کے بعد سے آج تک اپنی اقلیتوں کے ساتھ جوسلوک کیا ہے، وہ پہلے افسوسناک کے زمرے میں آتا تھا اور اب اسے شرمناک کہے بنا چارہ نہیں۔ہندو، مسیحی، پارسی، سکھ ، بہائی ہم تمام غیر مسلم پاکستانیوں کے گلے کے گرد شکنجہ تنگ کرتے گئے اور اب یہ عالم ہے کہ کراچی جیسا شہر جہاں مسیحیوں کی ایک بڑی تعداد رہتی تھی، وہاں اب صرف دس ہزار مسیحی آباد ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جواتنی استطاعت نہیں رکھتے کہ کسی محفوظ ملک میں جاکر آباد ہوسکیں۔ متوسط اور اعلیٰ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک سے بھی کم ہے۔

یہ میری خوش نصیبی ہے کہ میں ایک ایسے گھر میں پروان چڑھی جہاں والد کے ہندو، مسیحی، پارسی دوستوں کا آنا جانا تھا۔ کرسمس ، نیا سال ، نو روز اور دیوالی اہتمام سے منائے جاتے۔ والد کے دوستوں کے گھر جاکر کرسمس کیک اور پڈنگ کھانا، کرسمس ٹری کو رشک سے دیکھنا اور واپس آتے ہوئے شفاف سیلوفین میںلپٹی ہوئی بادام اور شکر سے بنائی جانے والی ننھی سبزیاں اور پھل جو مارزیپان کہلاتی تھیں، انھیں تحفے کے طور پر ساتھ لانا۔ اس بات پر حسد کرنا کہ ان کے بچوں کو نیند میں سانتا کلاز کھلونے اور خوبصورت تحفے دے کر جاتا ہے... مجھے یاد ہے سب ذرا ذرا... عمر بڑھی تو مسیحی شاعروں اور ادیبوں سے دوستیاں ہوئیں۔ حمید ہنری، فادر عمانویل عاصی، ڈاکٹر چارلس امجد علی، نسرین انجم بھٹی جونظم کی بہت اچھی شاعرہ ہیں۔فادر سلیم انجم، نذیرقیصر، شیراز راج، گلزار وفا چوہدری، بشپ ڈاکٹر جان جوزف، کیسے پیارے اور محبت کرنیوالے لوگ۔

کرسمس کے بارے میں سب سے پہلے قرۃ العین حیدر کے افسانوں میں پڑھا۔ ''یاد کی ایک دھنک جلے'' میں گریسی کا کردار۔ ایک محنت کش مسیحی خاتون جس کی ساری زندگی ایک مسلمان گھرانے کی خدمت میں تمام ہوئی۔ اردو ادب میں یہ ایک یادگار مسیحی کردار ہے۔مصری کی طرح میٹھی گریسی اور ایسے ہی ان گنت لوگ جن سے زندگی کی معنویت بڑھ جاتی تھی۔ وہ ہماری عدم رواداری اور تنگ نظری کی آندھی میں ہم سے چھن گئے۔ کونونٹ اسکولوں، کالجوں اور سیمینریز میں اسپتالوںاور سینی ٹوریم میں کام کرنے والی شفیق عورتیں اور مرد جنھوں نے کسی امتیاز کے بغیر ہماری نسلوں کی بے لوث خدمت کی، وہ سب ہم سے بچھڑ گئے۔

چند دنوں پہلے میں اسلام آباد میں تھی اور اکادمی ادبیات پاکستان میں ''مسیحی سخنور تنظیم'' کی شعری نشست میں شریک تھی۔ یہ شعری نشست کرسمس کے استقبال کے لیے منعقد ہوئی تھی۔ ہارمونیم پر پنجابی میں کرسمس کیرول گائے جارہے تھے۔ مسند نشین حضرات میں اکیڈمی کے چئرمین عبدالمجید، حلیم قریشی اور سید ثاقب اکبر تھے۔ شعرا میں پادری نوبل جان، شہباز چوہان، دانیال صلیبی اور خالد عمانویل تھے۔ علی یاسر دھیمی آواز میں مجھے ان شعراء کے بارے میں بتاتے رہے اور میں سوچتی رہی کہ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ جوظلم کیا سو کیا، اصل ظلم تو ہم نے اپنے ساتھ کیا کہ ایک تنگ سی آب جُو بن گئے اور اس پر اتراتے ہیں۔

22 ستمبر 2013ء کو پشاور کے آل سینٹس چرچ پر جو بارودی حملہ ہوا اس نے درجنوں مسیحیوں کا ستھراؤ کردیا۔ یہ وہ لوگ تھے جو اتوار کی عبادت کے لیے چرچ آئے تھے۔ ان میں سے چند ایسے تھے جو اپنے 6 بھائیوں اور بھتیجوں سے محروم ہوئے۔ وہ مائیں تھیں جن کی ذہین اور مستقبل کے لیے پرُامید بیٹیاں نفرت اور جنون کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ ان کے لیے کیسا کرسمس اور کیسا نیا سال۔ ان سے تمام امیدیں چھین لی گئیں۔

اس ظلم و ستم کے باوجود مسیحی برادری میں اب بھی وہ لوگ موجود ہیں جو اس دھرتی سے جڑے ہوئے ہیں اور جن کے ہاتھ سے امید کا دامن نہیں چھوٹا ہے۔ ان ہی میں سے ایک اعظم معراج ہیں جنھوں نے وطن کی مٹی کے لیے جانیں قربان کرنے والے مسیحیوں کی داستان اکٹھا کی ہے اور اسے ''سبز و سفید ہلالی پرچم کے محافظ شہدا'' کے عنوان سے کتابی صورت میں ہمارے سامنے رکھ دیا ہے۔

اعظم نے کتاب کی ابتداء میں لکھا ہے کہ '' جہاد کشمیر 1948ء ہو یا1965ء کی پاک وہند جنگ ہو یا 1971ء کا معرکہ، 1999ء میں جنگ کارگل ہو یا 2003ء سے جاری حالیہ شورش، مسیحی جانبازوں نے اپنے ملک کے دفاع کے لیے اپنے مسلمان بھائی کے شانہ بہ شانہ حصہ لیا اور جہاں بھی ارض مقدس پر جان نچھاور کرنے کا مرحلہ آیا وہاں وہ کبھی کسی سے پیچھے نہیںرہے۔ ان شہدا میں 16 پنجاب کے یونس ولد قیصر شہید 1948، (شہید پانڈو)،ہو یا دفاع وطن کے لیے پیشہ ورانہ مہارت کو بڑھانے کے لیے اٹک کے پل کے نیچے سے اپنا طیارہ گزارتے ہوئے مشقوں کے دوران پائلٹ آفیسر شہید نو ون تھیوڈور فضل الٰہی یا 1994ء میں کوئٹہ میں ڈیوٹی کے دوران F-6 طیارے کے حادثے میں جان دینے والے فلائٹ لیفٹیننٹ ایڈون شہید کے علاوہ حالیہ سانحہ گیاری جو 7 اپریل 2012ء کو گیاری سیکٹر سیاچن میں پیش آیا۔ اس میں شہید ہونیوالے افواج پاکستان کے 139 شہداء میں سے چار کا تعلق مسیحی خاندانوں سے تھا۔ جن کے نام آصف مسیح، امونِ گل، عادل مسیح ِاور نوید مسیحِ ہیں، ان مسیحی سپاہیوں نے ایسٹر کا تہوار (جوکہ 8 اپریل کو تھا) اپنے ساتھیوں کے ساتھ محاذ گیاری میں دفاع وطن کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرکے منایا۔''

وہ لوگ جو دفاعِ وطن کا گردان کرتے نہیں تھکتے اور جن کا خیال ہے کہ حب وطن سے صرف وہی سرشار ہیں جو کلمہ گو ہیں، انھیں یہ کتاب ضرورپڑھنی چاہیے۔ بلاول خوش رہیں کہ انھوں نے اپنی ماں کی وراثت کا حق ادا کردیا۔ وہ پاکستان کی نئی نسل سے تعلق رکھتے ہیں، وہ اگر اس سوچ کو نوجوانوں میں عام کر سکیں کہ ہر پاکستانی کو بلا امتیاز مساوی حقوق حاصل ہیں تو مستقبل میں اس ملک کی رہنمائی کے واقعی حق دار ٹھہرینگے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں