ختم ہونے والے سال کا کچھ ذکر

بجلی گیس تو اس بھرے پُرے ملک کیلئے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہونا چاہیے تھا مگرملک کا سب سے بنیادی مسئلہ تو ہمارے حکمران ہیں

Abdulqhasan@hotmail.com

تاریخ پر نظر پڑی تو معلوم ہوا کہ سال ختم ہونے والا ہے اور اس کے ساتھ ہی میرے وہ تمام منصوبے بھی ختم ہو گئے ہیں جو میں نے اس سال میں مکمل کرنے تھے۔ مجھ میں ایک خرابی تو یہ ہے کہ میں تاریخ نہیں دیکھتا اور اسے یاد رکھنا تو بہت دور کی بات ہے چنانچہ جب کبھی کہیں تاریخ درج کرنی پڑتی ہے تو اخبار تلاش کرتا ہوں اور اس کی خبروں سے اندازہ لگاتا ہوں کہ وہ اخبار تازہ ہے یا پرانا ورنہ تاریخ کے غلط ہونے کا قوی امکان ہوتا ہے۔ میرے اخبار نویس ہونے کے باوجود تاریخ نہ دیکھنے اور اسے یاد نہ رکھنے کی وجہ بھی اخبارات ہی ہوتے ہیں۔ ہر روز ایک جیسی خبریں اور ایک جیسی سیاسی پیش گوئیاں اور پیش بندیاں اور اس پر ایک جیسے کالمانہ تبصرے۔ ہر روز کی مسلسل گرانی اور بدامنی۔ ہر وقت جان و مال کو خطرہ۔ یہ مال تو میں نے محاورتاً لکھ دیا ہے ورنہ خطرہ صرف جان کو رہتا ہے جو چیز ہوتی ہے خطرہ بھی ظاہر ہے کہ اسی کو ہوتا ہے۔

دوسری خطرناک شے کے بارے میں بھی شاعر نے کہہ رکھا ہے کہ ''رہا خطرہ نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو'' ہمارے رہزن ہمارے لیڈر ہیں۔ ان کے بارے میں بھی شاعر نے کا ہے کہ ''چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھ' پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں'' اس شاعر کی معلومات محدود تھیں نہ اس کے پاس روزانہ کے اخبارات اور نہ ٹی وی کے تبصرے اور خبریں۔ ہماری معلومات چونکہ شاعر سے زیادہ ہیں اس لیے ہمیں ہر راہبر کی پہچان ہے۔ ان میں ایک راہبر تو سالانہ سیاسی سرگرمی کے سلسلے میں آج لاہور میں نغمہ سرا ہوں گے کیونکہ کینیڈا میں ان دنوں سوائے برف اور سخت ترین موسم کے اور کچھ نہیں۔

بات اس افسوس سے شروع کی تھی کہ تاریخیں یاد نہ رکھنے کی وجہ سے کئی ایسے قلمی منصوبے رہ گئے ہیں جو اس سال میں مکمل کرنے تھے مثلاً ایک منصوبہ یہ تھا کہ سیاستدانوں پر یہ سال کیسے گزرا یا انھوں نے اس سال کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ اس پر جب غور کیا تو اندازہ ہوا کہ ہماری نئی حکومت کی آمد کے کچھ بعد یہ سال شروع ہوا تھا چنانچہ وہی ہوا جو حکومت کے شروع میں ہوا کرتا ہے یعنی وعدے وعید اور وہ بھی بے پایاں۔ البتہ اس حکومت نے ایک نئی بات یہ کی کہ سرکاری ملازمین کے بے شمار تبادلے کیے اتنے زیادہ کہ بعض اوقات کسی تبدیل شدہ ملازم کو پھر تبدیل کر دیا گیا یا تو اس لیے کہ اس کا تبادلہ یاد نہیں رہا تھا یا اس لیے کہ اس کو غلطی سے جلدی میں تبدیل کر دیا گیا اور پھر اس کی تصحیح کر دی گئی۔ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے اور جب تک حکمرانوں کے خیال میں حکومت مستحکم نہیں ہو جاتی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔


ہمارے ہاں نہ بجلی ہے نہ گیس ہے اور نہ باقاعدگی سے پانی ہے۔ صرف حکومت ہے جو وافر مقدار میں ہر وقت موجود ہے۔ مجھے ان دنوں ایک پاکستانی کی بات یاد آ رہی ہے، یہ تھے ایک سچے اور بے حد درد مند پاکستانی ہمدرد والے حکیم محمد سعید دہلوی شہید جو اپنی ہر دم زندہ حب الوطنی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ وہ بار بار اپنی تقریروں میں اسی بات کی نشاندہی کرتے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورۂ رحمن میں اپنی جن نعمتوں کا ذکر کیا ہے پاکستان میں تین نعتمیں ان سے زیادہ ہیں اور یہ بیان کرتے ہوئے حکیم صاحب جذباتی ہو جایا کرتے تھے۔ آج ہمیں ان زیادہ تین نعمتوں کا احساس ہی نہیں ہوتا کیوں کہ ہم دوسری کسی نعمت سے سرفراز نہیں ہیں۔

بجلی گیس وغیرہ تو اس بھرے پُرے ملک کے لیے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہونا چاہیے تھا مگر معلوم ہوا کہ اس ملک کا سب سے بنیادی مسئلہ تو ہمارے حکمران ہیں۔ قائد اعظم کے کھوٹے سکے جو آزادی کی گزشتہ عمر میں ہم پر مسلط چلے آ رہے ہیں اور ان سے نجات کا کوئی راستہ ہمیں دکھائی نہیں دے رہا اس لیے جب تک یہ لوگ حکمران ہیں اور اس طبقے کے آسیب ہم پر مسلط ہیں، ہم بجلی گیس وغیرہ سے اسی طرح محروم رہیں گے اور ادھر آئی اور ادھر چلی گئی اور ہم دیکھتے رہ گئے، اپنی حالت پر ماتم کرتے رہے۔ بہرحال اب دو ایک روز میں اس سال سے بھی نجات ملنے والی ہے۔ اس عاشق والی امید کے ساتھ جس نے ایک جوگی سے جب یار کی ملاقات کا پوچھا تو یہ بھی احتیاطاً کہا کہ ''تو خدا کرے کہ کہے یہی اس سال میں اسی ماہ میں'' اسی ماہ میں اور اسی سال میں نہ جانے کتنی ہی امیدیں تھیں جو گزر گئیں اور خاک ہو گئیں۔

اب میں ایک ذاتی منصوبے کا ذکرکرتا ہوں جو میں اپنی ذات گرامی کے بارے میں لکھنا چاہتا تھا، وہ یہ کہ میں ایک مدت سے دیکھ رہا ہوں کہ میرے ساتھی کالم نویس ہر کالم اپنی مدح میں لکھ رہے ہیں یا لکھتے لکھتے جب بھی داؤ لگتا ہے تو وہ اپنی تعریف کا کوئی نہ کوئی پہلو بیچ میں سے نکال لیتے ہیں اور ظاہر ہے کہ وہ یہی چاہتے ہیں کہ ان کے قارئین ان میں موجود تعریفوں کا اعتراف کریں۔ میں نے بھی دیکھا دیکھی اس کی کوشش کی اور اپنے اندر ان خوبیوں کو تلاش کرنے کی بسیار مشقت کی جن پر میں اپنے کالموں میں کسی نہ کسی بہانے وقتاً فوقتاً لکھتا رہوں مگر افسوس صد افسوس کہ مجھے اپنی ذات اور اپنے کالموں میں کوئی ایسی خوبی دکھائی نہیں دی جس کو میں قارئین کی نذر کر سکوں یا ان پر تھونپ سکوں، اس لیے کہ مجھے (بدصورت) رونے سے چپ ہی بھلی۔

چنانچہ میں نے خاصی محنت اور کوشش کے بعد در مدح خود قسم کے کالم کو ترک کر دیا۔ میں نے مدتیں ہوئیں ہیر وارث شاہ کا ایک پرانا نسخہ دیکھا جس میں پنجابی زبان کی شاعری کا کچھ حصہ' شاعر در مدح خود می گوئد'' کے فارسی زبان کے عنوان سے درج کیا جاتا تھا۔ میرا بھی اس درمدح خود کا خیال تھا جو میں عرض کر چکا ہوں کہ ناکام ہو کر اسے ترک کر دیا ہے لیکن کوشش جاری رہے گی۔ عین ممکن کبھی مجھے اپنی ذات یا تحریر میں کوئی خوبی دکھائی دے جائے اور میں اس سے آپ کو مطلع کر سکوں۔ بہرکیف یہ سال تو گزر ہی گیا ایک آدھ دن کی بات ہے۔ خدا حافظ۔
Load Next Story