نیو لبرل ازم اور خواتین
عورتوں کے حقوق کی تحریک نے نیو لبرل مزاج میں ایک اورعنصر بھی شامل کیا ہے۔۔۔
اقتصادیات اور سماجی علوم میں نیو لبرل ازم اس نقطہ نظرکو کہتے ہیں جس میں اقتصادی عوامل کا کنٹرول سرکاری شعبے کی بجائے نجی شعبے کو منتقل کردیا جاتا ہے۔نیو لبرل ازم حکومت کے خسارے کے اخراجات کو کم کرنے ، سبسڈیزمحدود کرنے کو، ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے کے لیے ٹیکس کے قانون میں اصلاحات کی،مبادلہ کی مقررہ شرح کو ختم کرنے، تجارت کے لیے منڈیوں کو کھولنے، سرکاری کاروبار کو نجی ملکیت میں لینے، نجی ملکیت کی اجازت دینے اور ڈی ریگولیشن کی حمایت کرنے پر زور دیتا ہے۔اقتصادیات میں لبرل کی اصطلاح سیاست سے مختلف طور پر استعمال ہوتی ہے۔اقتصادیات میں لبرل ازم کی اصطلاح کا مطلب رکاوٹیں اور پابندیاں دورکرکے معیشت کو آزاد کرنا ہے۔نیو لبرل ازم کی پالیسیوں کا مقصد اقتصادی ترقی کے لیے آزادانہ ماحول پیدا کرنا ہے۔
یہ نئی عالمگیری دنیا سرمائے کی تشکیل نو سے متعلق عوامل کا نتیجہ ہے۔اس نے جنسوں یا سیکس کے درمیان تعلقات کو تبدیل کیا ہے۔لوگوں کی آرا اور اقدار تبدیل کی ہیں اور دنیا کے سیاسی لینڈ اسکیپ کی ترتیب بدل ڈالی ہے۔عالمگیریت کے عمل کا ارتقا مختلف علاقوں، سماجی و اقتصادی گروہوں اور جنسوں یا سیکس کے درمیان غیر مساوی طور پر ہوا ہے۔اس کے گونا گوں اثرات آج بھی لوگوں کے معیار زندگی کو منفی طور پر متاثر کر رہے ہیں۔عورتیں اس سے نہ صرف خاندان کا حصہ ہونے کی وجہ سے متاثر ہوتی ہیں بلکہ معاشرے کا محروم طبقہ ہونے کی وجہ سے بھی متاثر ہوتی ہیں اور کام کی جنسی تقسیم میں اپنی حیثیت کی وجہ سے بھی متاثر ہوتی ہیں۔خاندان کی دیکھ بھال چونکہ عورت کی ذمے داری ہے اس لیے حکومت کی جانب سے سماجی بہبود کے اخراجات میں کمی کے نتیجے میںعورت پر کام کا بوجھ بڑھ گیا ہے۔سرکاری اخراجات میں کمی اقتصادی عالمگیریت کی اہم ضرورت ہے۔
وسائل کو مختص کرنے کے انداز میں تبدیلی لاتے ہوئے اور پیداواریت میں اضافے کے ساتھ اخراجات میں کمی کے پروگرامز لانے کی توقع بھی کی جاتی ہے لیکن کوئی یہ نہیں سوچتا کہ یہ اخراجات مارکیٹ سے گھر کی طرف منتقل ہو سکتے ہیں بلکہ ہو جاتے ہیں۔سماجی بہبود کے پروگراموں میں تخفیف کے نتیجے میں اور آمدنی میں کمی کی وجہ سے عورتوں کو پہلے سے زیادہ محنت مشقت کرنا پڑتی ہے۔ گھریلو ذمے داریوں کی وجہ سے عورتیں جاب مارکیٹ میں اور بھی بے بس ہو جاتی ہیںاور انہیں کم تر معیار کی ملازمتیں قبول کرنا پڑتی ہیں جن میں لیبر پروٹیکشن یا سوشل سیکیورٹی نہیں ہوتی مگر عورتیں اپنی گھریلو ذمے داریوں کے پیش نظر ایسی ملازمتیں قبول کر لیتی ہیں۔مزید برآںگھریلو کام کاج اور خاندان کی دیکھ بھال کی وجہ سے عورتوں کو جاب مارکیٹ میں اپنی پوزیشن کو بہتر بنانے کے لیے تربیت اور معلومات حاصل کرنے کے مواقعے محدود ہو جاتے ہیں،عورتوں کے خلاف امتیاز انہیں cheap labourسستی محنت بناتا ہے جو عالمی معیشت کو چلانے کے لیے ضروری ہے۔عورتوں کے ان مسائل کا ذکر کرتے ہوئے ایک مشہور رہنما نینسی فریزرکہتی ہیں کہ اگر ہم عورتوں کی تحریک کے ماضی پر نظر دوڑائیں تو اب ہم دیکھ سکتے ہیںکہ عورتوں کی آزادی کی تحریک کے دو ممکنہ مستقبل ہو سکتے تھے۔
پہلے منظر میں ایک ایسا مستقبل نظر آتا تھا جس میں صنفی آزادی کے ساتھ ساتھ شراکتی جمہوریت اور سماجی یک جہتی بھی نظر آتی تھی۔دوسری طرف یہ ایک نئے لبرل ازم کا وعدہ کرتی تھی جس میں عورتوں کو اور مردوں کو بھی انفرادی آزادی اور خود مختاری ہو گی، پسند اور انتخاب کے زیادہ مواقعے ہوں گے اورصلاحیتوں کی بنا پر ترقی ہو گی۔اگرآپ غور کریں تو حالیہ برسوں میں یہ دوسرا منظر زیادہ دیکھنے میں آ رہا ہے لیکن اس لیے نہیں کہ عورتیں نیو لبرل تحریصات کا مجہول شکار بنی ہیں بلکہ خود عورتوں نے بھی اس تبدیلی کے لیے تین اہم تصورات پیش کیے ۔ایک تو انھوں نے خاندانی معاوضہ /اجرت پر تنقید کی یعنی ایک کماؤ مرد اور گھریلو بیوی والا مثالی خاندان کا تصورجو ریاست کی تشکیل کردہ سرمایہ داری کا مرکزی حصہ تھا۔اس آئیڈیل پر حقوق نسواں کی سرگرم کارکنوں کی تنقید اب لچکدار سرمایہ داری کا جواز فراہم کر رہی ہے ۔دنیا بھر میں لیبر مارکیٹ میں عورتوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے ریاست کی منظم کردہ سرمایہ داری کے خاندانی معاوضہ /اجرت کی جگہ ایک نیا جدید تصورابھر رہا ہے جسے بظاہر تحریک نسواں کی کارکنوں کی حمایت بھی حاصل ہے اور وہ ہے،دو کماؤ افراد والا گھرانہ۔اس تصور کو نیو لبرل ازم عورتوں کی با اختیاری کا نام دے کر پیش کر رہا ہے۔
خاندانی معاوضہ /اجرت پر عورتوں کی تنقید کو استحصال کا جواز بنایا جا رہا ہے۔عورتوں کی آزادی کے خواب کو سرمایہ اکٹھا کرنے کے عمل سے جوڑ دیا گیا ہے۔عورتوں کے حقوق کی تحریک نے نیو لبرل مزاج میں ایک اورعنصر بھی شامل کیا ہے۔ریاست کی منظم کردہ سرمایہ داری کے دور میں عورتوں نے بجا طور پر طبقاتی عدم مساوات پر مرتکز سیاسی بصیرت پر یہ تنقید کی تھی کہ وہ گھریلو تشدد، جنسی حملوں اور تولیدی مظالم جیسے،غیر اقتصادی،مظالم کو دیکھ نہیں پاتی۔ اکنامک ازم یا اقتصادیت کو مسترد کرتے ہوئے اور پرسنل (ذاتی) کو سیاسی بناتے ہوئے حقوق نسواں کی تحریک نے سیاسی ایجنڈا کو واضح کیا تاکہ صنفی فرق کے ثقافتی بنیاد پر نظام مراتب کو چیلنج کیا جا سکے۔اس کا نتیجہ تو یہ ہونا چاہیے تھاکہ انصاف کے لیے جدوجہد کو وسیع کیا جاتا تاکہ ثقافت اور اقتصادیات دونوں کو اس جدوجہد میں شامل کیا جا سکتا لیکن اصل نتیجہ یہ نکلا کہ روٹی اور روزگار کے مسائل کو بھلا کر یک طرفہ طور پر صنفی شناخت پر توجہ مرکوز کر دی گئی۔
اس سے بھی برا یہ ہوا کہ حقوق نسواں کی تحریک شناختی سیاست میں تبدیل ہو گئی اور اس کے ساتھ بڑی صفائی کے ساتھ نیو لبرل ازم کو بھی ملا دیا گیاجو سماجی مساوات کی ہر یاد کو دفن کر دینا چاہتا ہے۔عورتوں کے حقوق کی تحریک نے نیو لبرل ازم کو جو تیسرا آئیڈیا دیا،وہ تھا فلاحی ریاست کے پدرانہ کردار پر تنقید۔ریاست کی منظم کردہ سرمایہ داری کے دور میں یہ ایک انتہائی ترقی پسندانہ تنقید تھی۔وقت گزرنے کے ساتھ یہ تنقید نیو لبرل ازم کی 'THE NANNYstate ) کہلائی یا آیا ریاست کے خلاف جنگ کے ساتھ جڑ گئی اور اب این جی اوزنے بھی اسے اپنا لیا ہے۔اس کی واضح مثال مائیکرو کریڈٹ کی ہے جس کے تحت جنوبی ایشیا کے ممالک میں غریب عورتوں کو چھوٹے قرضے دیے جاتے ہیں۔اگرچہ اس اسکیم کا مقصد شہریوں کو با اختیار بنانے کے لیے ریاستی اقتدار کو جمہوری بنانا تھامگر اب اسے منڈیاں بنانے یا مارکیٹائزیشن اور ریاستی تخفیف کے جواز کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔حالیہ عالمی مالیاتی بحران عورتوں کے حقوق کی تحریک کو موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنی جدوجہد کو پھر سے شروع کریں اور عورتوں کی آزادی کے خواب کو ایک بار پھر سماجی یک جہتی اور انصاف کے ساتھ جوڑ دیں۔