جاگو جاگو
غربت ایک ایسا موضوع ہے جس پر لکھنے کے لیے جب بھی قلم ا ٹھایا ہے ایسا محسوس ہوا کہ قلم کی نوک سے الفاظ نہیں۔۔۔
غربت ایک ایسا موضوع ہے جس پر لکھنے کے لیے جب بھی قلم ا ٹھایا ہے ایسا محسوس ہوا کہ قلم کی نوک سے الفاظ نہیں آنسو ٹپک رہے ہیں ۔جہاں تک بات ہے غربت لفظ کی تشریح کی تو یقین کیجیے اسے کیا لکھوں ، ملامت ، عذاب، میرے پاس الفاظ کی قوسین میں وہ لفظ موجود نہیں جو اس کی تشریح کرسکیں ۔ذاتی مشاہدات کی روشنی میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ یہ انسان کو اتنا ستاتی ہے،اتنا ذلیل و رسوا کرتی ہے کہ وہ زندہ درگور ہوجاتا ہے اور پھر جس گھرکو یہ چمٹ جائے اس کے ایک ایک فرد کاجینا محال کردیتی ہے ۔تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور میں اقتدار کے پجاریوں نے غربت کے خاتمے کے دعوے کرکے عوام کو بے وقوف بناکر اقتدار کے مزے لوٹے اور تاریخ اس بات کی بھی شاہد ہے کہ پاکستان میں جب کبھی بھی عوام کے نام پر جمہوری حکومت بر سرِ اقتدار آئی اس کے بھیانک ثمرات اورنتائج عوام نے بھگتے اور عام آدمی کو بجائے ریلیف ملنے کے وہ مزید مسائل کی دلدل میں دھنستا چلا گیا ۔
آج بھی ہمارے ملک میں اگر غربت کی صورتحال پر ایک نظرڈالیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ملک کی تقریباً60فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور ہے ۔نصف سے زائد آبادی بنیادی سہولیات سمیت پینے کے صاف پانی کو ترس رہی ہے ۔غریب اور غربت دونوں کی تشریح کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ آج متوسط طبقہ ناپید ہورہا ہے اور اس کا شمار غریبوں میں ہونے لگا ہے ۔متوسط طبقے میں اتنی بھی سکت نہیں رہی کہ وہ کسی درمیانے درجے کے اسپتال میں علاج کراس کے ،گھر میں کوئی بیمار ہو تو پہلے یہ کوشش کی جاتی ہے کہ خود ہی کوئی سستی دوا خرید کر استعمال کر لی جائے ۔ڈاکٹر کے پاس یا اسپتال نہ جانے کی بنیادی وجہ کیا ہوسکتی ہے آپ بہتر سمجھ سکتے ہیں ۔نہ بچوں کو اچھے اسکولوں میں تعلیم دلائی جاسکتی ہے ،نہ ہی اچھے کپڑے،جوتے خرید سکتے ہیں اور نہ مہینے میں نہ ہی سال میں خاندان کے ہمراہ کبھی اچھے ہوٹل میں کھانے کا تصور کیا جاسکتا ہے ۔متوسط طبقے کی یہ حالت ہے تو سوچیے غریب کی حالت کیا ہوگی اور انتہائی غریب کس حال میں ہوگا ؟موجودہ جمہوری حکومت کے ثمرات تو یہ ہیں کہ غریب جو آلو ،سبزی کھا کر گزارہ کرلیتا تھا ، سبزی کی قیمتیں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ وہ بھی دسترس سے باہر ہے۔آ خر وہ کرے تو کیا کرے، بس ہوا ہی کھا کر گزارہ کرے۔
بجلی ،گیس سمیت دیگر پٹرولیم مصنوعات کی بندش ان کی قیمتوں میںہوش ربا اضافہ بڑے مسائل کا سبب بن رہا ہے ۔عام آدمی پر عرصہ حیات تنگ ہورہا ہے مگر افسوس کسی کے کان پر جوں نہیں رینگ رہی اور حکمران اور ان کے حواری سب اچھا کے راگ الاپتے نظر آتے ہیں ۔ملک میں کروڑوں مردوخواتین ایسے ہیں جن کے پاس اتنی رقم بھی نہیں کہ وہ اپنے شناختی کارڈ بنواسکیں،اس کے لیے ضروری کاغذات نکلواسکیں اوران کے معاشی حالات اتنے خراب ہیںکہ وہ اس سلسلے میں کوئی دلچسپی بھی نہیں رکھتے۔ ان کی پہچان کھورہی ہے انہیں اس بات کا کوئی احساس نہیں ہے۔انہیں فکر ہے تو فقط دو وقت کی روٹی کی ،کہ کسی طرح اتنا ہوجائے کہ ان کے بچے بھوکے نہ رہیں۔میں اس تحریر کے ذریعے اربابِ اختیار سے سوال کرتا ہوں کہ کیا ان کے بارے میں کوئی سوچ رہا ہے ؟کیا عوام کو دکھائے گئے خواب کبھی حقیقت بن سکیں گے؟عوام سے جو وعدے کیے گئے وہ سب جھوٹے تھے ؟لوگ آج بھی بجلی اور گیس کے بغیر تڑپ رہے ہیں ،آٹا ،گھی،چینی ،گوشت ان کی قوت خرید سے باہر ہے ،بے گناہ آج بھی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں، ڈرون حملے آج بھی جاری ہیں، مہنگائی، بیروزگاری، غربت، افلاس کے باعث آج بھی خود کشیاں عام ہیں ،اشیائے خورونوش تو کیا اب تو روز مرہ استعمال کی اشیاء سمیت سبزی تک بھی قوت خرید سے باہر ہے۔
کیا تمہارا یومِ حساب بھی قریب آچکا ہے ؟ کیا یہی وہ جمہوری ،عوامی حکومت ہے جس کا خواب ملک کے غریب عوام کا دکھایا گیا تھا ،اتنی بھیانک ،اتنی شرمناک کہ غربت اور غریب کی حالت کو ضبطِ تحریر میں لانا مشکل ہوگیا ہے ۔جہاں تک کارکردگی نظر آنے کا سوال ہے تو عوام پر بجٹ کے وقت ہی نئے ٹیکسز کی مد میں جو بوجھ ڈالا گیا تھا۔ اس نے آج تک ان کی کمر سیدھی نہیں ہونے دی اور اب گزشتہ 6ماہ میں جو عوام کی درگت بنی ہے۔ حالات سے اکتائے عوام یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ آخرکون انہیں حقوق دلائے گا؟ لٹیروں کا احتساب کون کرے گا ؟کون ٹیکس چوروں کے خلاف شکنجہ کسے گا؟کون لوٹی دولت ، معاف کرائے گئے قرضے واپس وصول کرے گا ؟کون حقیقی معنوں میں ملک سے غربت ،مہنگائی اور جہالت کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کرے گا؟کون تعلیم وصحت کی مفت سہولیات اور انصاف عوام کی دہلیز پر دلائے گا ؟کون موروثی سیاست ، تھانہ پٹواری کلچر کا خاتمہ کرے گا ؟آخر کب تک جھوٹے دلاسوں پر جیا جائے؟
اے کاش ! اس ملک کی سادہ لوح عوام کو یہ بات سمجھ میں آجائے کہ تبدیلی چہروں کے بدلنے سے نہیں آتی۔ بلکہ حقیقی تبدیلی کے لیے ملک میں 66سال سے قائم فرسودہ جاگیردارنہ ،وڈیرانہ،سرمایہ دارانہ نظام کواپنے ووٹ کی طاقت سے جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنا ہوگا اور اپنے اندر سے قیادت کو کامیاب کراکر اقتدار کے ایوانوں میں پہنچانا ہوگا۔اس کے لیے ہمیںغفلت کی نیند سے جاگنا ہوگا اور سب کو جگانا ہوگا۔ اگر آج بھی ہم نہ جاگے اور اپنے ووٹ کی طاقت کو نہیں پہچانا ،اپنے حقوق و فرائض کو نہیں جانا تو پھر یاد رکھیے! چاہے مزید ساٹھ سال گذر جائیں ،چاہے جمہوریت آئے ،چاہے آمریت ہماری حالت کبھی نہ بدلے گی۔غریب یوں ہی غریب تر ہوکر غربت کی بھینٹ چڑھ کر خودکشیاں کرتے رہیں گے،اپنے بچے قتل کرتے رہیں گے،انہیں فروخت کرتے رہیں گے، بچے پیدا کرکے مزدوری پر لگاتے رہیں گے، مدارس میں جمع کراتے رہیں گے اور اس کے بھیانک نتائج سب بھگتتے رہیں گے۔