بے نظیر بھٹو ‘کیا پیغام دے گئیں
ہرسال دسمبرکا مہینہ ایسا ہے جو جاتے جاتے ہم سے اہم شخصیات کو لے جاتا ہے۔۔۔
ہرسال دسمبرکا مہینہ ایسا ہے جو جاتے جاتے ہم سے اہم شخصیات کو لے جاتا ہے جس میں کئی طبعی طریقے سے اس جہاں سے چلے جاتے ہیں اورکئی حادثات میں اپنی زندگی کھو بیٹھتے ہیں مگر کچھ ایسی امر شخصیات بھی ہیں جو اپنی جان کسی مقصد کے لیے نثارکرتی ہیں اور ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے جانے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں لوگوں کے دلوں میں۔ اس میں خاص وہ لوگ جو شہید ہوجاتے ہیں۔
ان میں ایک شخصیت ایسی بھی ہیں جنھوں نے موت کو تو گلے لگایا مگر بزدلی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ وہ ہیں شہید بے نظیر بھٹو، جس کے پورے خاندان نے ایک ایک کرکے اپنی جان کا نذرانہ ملک اور قوم کے لیے دیا۔ ان میں شہید ذوالفقار علی بھٹو جس نے پھانسی پہ چڑھنا قبول کیا مگر ملک چھوڑ کر نہیں گئے کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ وہ تاریخ میں مرنا نہیں چاہتے۔ اس کے بعد شاہنواز بھٹو، مرتضیٰ بھٹو اور پھر بے نظیر بھٹو باری باری اپنی جانوں کی قربانی دیتے گئے۔وہ دن دسمبر 27 کا تھا اور سال 2007 میں شام کو معمول کی طرح اپنے دفتر میں کام کر رہا تھا کہ اچانک کسی نے میرا دروازہ کھٹکھٹایا، میں نے دیکھا کہ ہمارے دفتر کا ایک بندہ ہانپتا ہوا میرے قریب آکر مجھ سے کہہ رہا ہے کہ صاحب !آپ نے دیکھا؟ میں نے کہا کیا دیکھا؟ سر! ٹی وی چلائیں محترمہ بے نظیر بھٹو حملے میں شدید زخمی ہوگئی ہیں اور انھیں راولپنڈی کے ایک اسپتال میں لے گئے ہیں۔ یہ خبر سنتے ہی میرے اوسان خطا ہوگئے اور میں نے ٹی وی کھولا۔ اتنے میں معلوم ہوا کہ بے نظیر بھٹو اس جہان فانی کو چھوڑ چکی ہیں۔
اب میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا اور آنکھوں میں آبشار کی طرح آنسو بہنے لگے اور میں سکتے میں آگیا۔ اب میرے دفتر کی کھڑکی سے باہر گاڑیوں کی لمبی قطاریں کھڑی ہوگئیں اور ایک سناٹا سا چھایا ہوا تھا۔میرے دفتر میں ہر طرف ہرچہرہ افسردہ تھا۔ پورے ملک میں ایک قیامت سی برپا ہوگئی، ہر چینل راولپنڈی اور دوسرے شہروں کی صورت حال دکھانے لگا، ہر طرف ماتم ہی ماتم نظر آرہا تھا ۔ موبائل فون نے کام کرنا بند کردیا، اب ہر طرف خاص طور پر سندھ میں چاروں طرف آگ ہی آگ پھیلی ہوئی تھی، گاڑیاں جلائی جا رہی تھیں، اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لٹیروں نے لوگوں کو، دکانوں کو لوٹا اور املاک کو آگ لگادی۔ اب ہر آدمی اس میں لگا ہوا تھا کہ وہ گھر کیسے پہنچے، گاڑیاں، موٹرسائیکلیں اور دوسری سواریاں راستے میں بند کرکے اپنے گھروں کی طرف چل پڑے یا پھر کسی محفوظ جگہ کی تلاش میں چل پڑے۔ میں نے شروع میں ہی اپنے گھر والوں سے رابطہ کیا تھا جن کی آواز نہیں نکل رہی تھی۔ بے نظیر نے کہا تھا کہ وہ اب پاکستان ضرورآئیں گی کیونکہ اب اور زیادہ وہ عوام سے دور نہیں رہ سکتی ہیں۔ حالانکہ انھیں آنے سے روکنے کے لیے دھمکیاں دی گئی تھیں جس کے جواب میں انھوں نے کہا تھا کہ موت کا ایک دن مقرر ہے اور زندگی اور موت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔
آپ نے دیکھا کہ وہ 18 اکتوبر 2007 کو دبئی سے کراچی آئیں جنھیں خوش آمدید کہنے کے لیے عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا ایک سمندر موجود تھا جو ایک دن پہلے ہی ایئرپورٹ پر ڈیرہ ڈال کر بیٹھا ہوا تھا۔ بھوک اور پیاس کی پرواہ کیے بغیر اپنی لیڈر کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے عورتیں، بچے اور مرد جس میں عمر رسیدہ لوگ بھی شامل تھے۔ جب وہ کراچی ایئرپورٹ پہنچیں تو لوگ چیونٹیوں کی طرح شاہراہ فیصل پر نظر آئے وہ نعرے مارتے مارتے تھکتے ہی نہیں تھے۔ انھوں نے پی پی پی کے جھنڈے کی ٹوپیاں اورکپڑے بناکر پہنے ہوئے تھے۔اب جب ان کا جلوس جو گھنٹوں کے بعد کارساز پل کے قریب پہنچا تو دشمنوں نے یکے بعد دیگرے دو بم دھماکے کیے جس میں خدا نے انھیں محفوظ رکھا اور وہ اپنے کچھ جاں نثاروں کے درمیان وہاں سے بلاول ہاؤس پہنچ گئیں جب کہ دوسروں نے اپنی جان ان پر نثار کردی جن کی یہ قربانی تا زندگی یاد رہے گی۔ یہ بہادر عورت موت کے منہ سے بچ کر نکلنے کے بعد اور بھی عظیم ہوگئیں۔ اور ان پر قربان ہونیوالوں کے لواحقین کے گھر جاکر ان سے افسوس کا اظہار کیا اور اس کے بعد انھیں بلاول ہاؤس بلاکر ان کے ساتھ وقت گزارا اور انھیں کہا کہ وہ بھی اپنا مشن جاری رکھے گی جب تک عام آدمی کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔
مارنیوالوں نے یہ سوچا کہ بے نظیر کو راستے سے ہٹا کر اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائیں گے مگر وہ یہ بھول گئے تھے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو مرنے کے بعد بھی امر ہوجاتے ہیں اور ان کی مقبولیت اور عقیدت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔نو برس کی مدت کے بعد اب جب پاکستان آئیں تو وہ اپنے ساتھ یہ پیغام لائیں کہ ہر سیاسی پارٹی سے مل کر کام کریں گی اور مل کر ملک اور قوم کی خدمت کی جائے گی اور اختلافات کو احسن طریقے اور باتوں سے (ڈائیلاگ سے) حل کیا جائے گا۔ اس پالیسی کی وجہ سے آپ دیکھیں کہ ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین نے محترمہ کی موت پر میڈیا والوں سے کہا کہ وہ بے نظیر کو شہید کہیں۔ نواز شریف بھی ان کے مزار پر فاتحہ پڑھنے اور آصف علی زرداری سے فاتحہ کرنے گڑھی خدا بخش آئے۔ بے نظیر نے بھی جمہوریت کے لیے اکیلے نہیں نواز شریف کو بھی آنے کی شرط عائد کی تھی۔محترمہ جلاوطنی میں اپنے بچوں کی پرورش کرنے میں ماں کا کردار ادا کیا، بچوں کی تربیت اچھے طریقے سے کی، اسی دوران وہ نماز بھی باقاعدگی کے ساتھ پڑھتی رہیں، مختلف ممالک میں جاکر جمہوریت اور دوسرے مضمونوں پر لیکچرز دیتی رہیں جس کے لیے انھیں نہ صرف خرچہ ملتا تھا بلکہ انھیں معاوضہ بھی دیا جاتا تھا۔
انھوں نے اپنے عوام سے رابطہ بحال رکھا اور وہ خط، ای میلز اور فیکس پر بھیجی ہوئی تحریروں کا جواب دیتیں۔ جو لوگ وہاں ان سے ملنے جاتے ان سے بھی ایک مہمان نواز کی طرح ملتیں۔ وہ پرائم منسٹر ہوکر بھی اپنے شوہر آصف علی زرداری کو ایک اچھی بیوی اور بچوں کو اچھی ماں اور عوام کو ان کا اپنا لیڈر بن کر دکھایا۔ انھوں نے عورتوں کو ترقی کی ایک نئی راہ دکھائی اور ایک آئیڈیل شخصیت بن کر ابھریں تاکہ عورتوں میں بھی اعتماد پیدا ہو کہ وہ ملک کی وزیر اعظم بننے کی صلاحیت رکھتی ہیں صرف موقع ملنا چاہیے۔بے نظیر کے والد ذوالفقار علی بھٹو نے بچپن ہی سے ان میں اہلیت دیکھ لی تھی اس لیے وہ جب بھی کہیں جاتے تو اپنی پنکی کو ساتھ لے جاتے۔ ان کا نام بے نظیر واقعی بے نظیر ہوگیا کیونکہ ان کی ڈریسنگ، بات کرنے کا انداز، لوگوں کے لیے اپنائیت، جرأت تو اسے اپنے خاندان سے ملی تھی۔ اس کے صبر کی کیا بات ہے کہ چھوٹی سی عمر میں ہی اسے باپ کی موت کا غم، بھائیوں کی موت اور ملک کی باگ ڈور انھیں اپنے کاندھوں پر اٹھائے پھرتی رہیں۔ مگر انھوں نے اس کے ساتھ کچھ اچھا نہیں کیا جس کو انھوں نے صدر بنایا یعنی فاروق لغاری اس نے ہی اس کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ مجھے یاد ہے کہ جب فاروق لغاری صدر بنے تو بے نظیر نے ایک دن کی چھٹی کا اعلان اور لغاری کے لیے بہت اچھے جملے استعمال کیے جن کا صلہ انھیں ابتر ملا۔ بھٹو کی پھانسی سے پہلے بے نظیر کے ساتھ ملاقاتیں ایک اور تربیت تھی جس میں حالات کو صبر و تحمل سے نمٹانا تھا۔
پھولوں میں پلنے والی بے نظیر جیل اور نظربندی کی کڑی گھڑیاں گزار چکی تھیں اس لیے ان میں ایک Maturity آگئی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ جب محترمہ وزیر اعظم تھیں تو وہ عید کے موقع پر ورکروں کے علاوہ عام آدمیوں سے بھی عید ملتی تھیں اور اپنے والد کی طرح کھلی کچہری منعقد کرتی تھیں جس میں پورے پاکستان سے لوگ شرکت کرتے تھے اور اپنے دکھ درد اور مسائل حل کرواتے تھے۔ محترمہ بغیر کسی امتیاز کے لوگوں میں نوکریاں تقسیم کرتی تھیں۔ الیکشن کے دوران وہ والد کی طرح پورا پورا دن ٹرک پر کھڑے ہوکر مختلف گاؤں اور شہروں کے دورے کرتی تھیں۔ ان میں مسلسل کئی گھنٹے کام کرنے، جلسوں میں شرکت کرنے اور جلسوں میں تقریر کرنے کی اہلیت کچھ زیادہ تھی۔ وہ پریس کانفرنس میں ہمیشہ کوشش کرکے سافٹ رہتی تھیں۔مگر افسوس ہے کہ ان کے جانے کے بعد پرانے ورکروں کو نظرانداز کیا گیا، لاڑکانہ شہر بے سہارا ہوگیا، عام آدمی سے لیڈرز دور چلے گئے۔ پی پی پی کی حکومت سندھ میں دو مرتبہ رہی مگر لوگوں کے کام اور شہروں میں ترقی، صفائی، محکموں میں نوکریاں مفت میں نہیں ملیں، وزرا اپنے علاقوں میں نہیں گئے اور صرف تقریریں سننے کو ملیں جس سے مجھے یقین ہے شہید بے نظیر بھٹو کی روح کو دکھ پہنچا ہوگا۔