لاشعور کا عکس
استغراق کا عالم ہو یا خواب کی حالت، دونوں میں بڑی مماثلت اور مشابہت پائی جاتی ہے
ISLAMABAD:
گزشتہ کالم میں ہم نے بحث کی کہ کس طرح التصویر کی مشق کے دوران گلاس میں پانی کی سطح پر جو عکس ہمیں نظر آتے ہیں دراصل وہ ہمارے ہی لاشعور کا عکس ہوتی ہیں جو استغراق کی کیفیت طاری ہوتے اور عملی شعور کا بہاؤ سست ہونے پر ابھر کر سامنے آجاتے ہیں۔ میر تقی میر کیا نکتہ بیان کرگئے ہیں ؎
یہ تواہم کا کارخانہ ہے
یاں وہی ہے جو اعتبار کیا
استغراق کا عالم ہو یا خواب کی حالت، دونوں میں بڑی مماثلت اور مشابہت پائی جاتی ہے۔ اونگھ طاری ہوتے ہی بالعموم خواب کے مناظر ہمارے سامنے آجاتے ہیں اور ایک فلم سی نگاہِ باطن کے سامنے چلنے لگتی ہے۔ اس فلم کی نمائش اختیاری نہیں غیر اختیاری ہوتی ہے۔ جس طرح ہم خواب دیکھتے ہوئے مختلف مناظر کا انتخاب نہیں کرتے بلکہ وہ خود اپنی رو میں گزرتے چلے جاتے ہیں، اسی طرح ڈوب جانے کے بعد جب ارادہ ملتوی اور معطل ہوجاتا ہے تو لاشعور کا تصویری مواد (مثلاً گرد و غبار، کہر، بادل، باغ وغیرہ) خود بخود ابھر آتا ہے۔ ارتکاز توجہ کی مشقوں میں مشہود یعنی نقطہ توجہ کی حیثیت پردہ فلم کی ہوتی ہے اور لاشعور پروجیکٹر کا کام کرتا ہے۔ پروجیکٹر سے تصویروں اور آوازوں کا دھارا روشنی کی لہروں کی شکل میں بہہ کر پردہ فلم پر پڑتا ہے اور ہمیں اسکرین پر مختلف ناطق تصویریں متحرک نظر آنے لگتی ہیں۔ سالہا سال قبل جب میں نے ارتکاز توجہ کی مشقیں شروع کی تھیں تو اسی گورکھ دھندے سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ کاغذات کی چھان بین کے دوران ایک بڑی پرانی ڈائری ہاتھ لگی، اس ڈائری میں ''بلور بینی'' کے تجربات درج تھے، میں نے خود کو بلور بینی کی ہدایات ان الفاظ میں دی تھیں کہ:
''بلور کی گیند یاشفاف و منور پانی سے بھرا ہوا شیشے کا گلاس (مقطر پانی ہو تو اچھا ہے) اپنے سامنے رکھ لو اور اس پر نظریں جمادو، چار ہفتے کے بعد تم دیکھو گے یا محسوس کرو گے کہ اس گیند یا گلاس پر کچھ تصویریں نمودار ہورہی ہیں۔ اس طرح تم میں مشاہدے ادراک کی خفیہ قوتیں بیدار ہوں گی کہ مراد و مطلوب یہی ہے۔ متعدد الجھنوں اور رکاوٹوں کے بعد تم اس پر قادر ہوجاؤ گے کہ اپنے ذہن کی پوری توجہ اس نقطے پر مرکوز کرسکو جو پیش نظر ہے۔''رئیس امروہوی مرحوم نے بلور بینی کی اس مشق میں حاضرات ارواح کے عمل کا ذکر بھی کیا ہے، جسے ہم من و عن پیش کرتے ہیں۔
''گلاس پر نظریں جمانے کے بعد اب تم اپنے کسی مردہ محبوب یا مرحوم والدین میں سے کسی کا تصور کرو کہ اس کی شبیہہ گلاس پر ابھر رہی ہے۔ بلور یا گلاس کو بغور دیکھو اور محسوس کرو کہ اس مرحوم کی روح نمودار ہورہی ہے۔ یہ تجربہ دس بیس بلکہ پچاس مرتبہ دہراؤ۔ اب تمھیں پتا چلے گا کہ وہ روح رفتہ رفتہ نقطہ توجہ پر ظاہر ہورہی ہے۔ یہ مشق کافی ریاض چاہتی ہے، ہرگز مت خیال کرو کہ واقعی روحانی دنیا تمھارے پیش نظر ہے۔ بہت دن تک تمھاری اپنی لاشعوری پرچھائیاں مشہود پر منعکس ہوتی رہی گی۔ اب تم گہرے باطنی مراقبے کا تجربہ شروع کرو، کیونکہ یہ نکتہ بہرحال پیش نظر رکھنا چاہیے کہ بصری مشاہدات (آنکھ کے ذریعے جو چیزیں نظر آئیں) اور حسی تجربات (حواس خمسہ کے ذریعے جو تجربے ہوں) ہمیشہ روحانی ترقی کے راستے میں رکاوٹ ثابت ہوتی ہیں۔ واضح مشاہدہ صرف ابتدائی قدم ہے، روحانی تجربہ ہرگز نہیں۔
بلوری گیند یا شیشے کے گلاس پر روحوں کا عکس ہماری لاشعوری مصوری ہے اور بس۔ امر واقعہ یہ ہے کہ مشاہدے کی ریاضت کے ذریعے توجہ کی قوت کو ترقی دینا مقصود ہے۔ رفتہ رفتہ تمھارا وجدان اور وہ بصیرت جو حواس سے بلند ہوتی ہے یعنی E.S.P بیدار ہوجائے گی اور تم ایک لطیف دنیا میں باخبر مسافر کی طرح جو ہر چیز کو دیکھ بھال کر آگے بڑھتا ہے مسلسل پیش قدمی کرتے چلے جاؤ گے اور اس راہ میں تمھیں ایسی عجیب و غریب چیزیں نظر آئیں گی جن کی تشریح الفاظ کے ذریعے ممکن نہیں، کیونکہ زبان احساسات کی ترجمانی کے لیے وجود میں آئی ہے، کم سے کم مروجہ زبانوں کے ذریعے ماورائے حواس کی کیفیات، واردات اور تاثرات کا بیان اور تشریح ممکن نہیں۔''
ارتکاز توجہ اور غیب بینی (Clairvoyance) کے عمل میں بنیادی حیثیت آنکھ کو حاصل ہے۔ آنکھ آلہ بصیرت ہے اور روح تک پہنچنے کا براہ راست راستہ۔ آنکھ کے ذریعے ہی باہر کی تصویریں اور اندر کی شبیہیں بنتی ہیں اور ان ہی تصویروں اور شبیہوں کے ذریعے فہم، ادراک، وجدان اور کشف کے دریچے کھلتے ہیں۔ بیرونی حلقہ چشم جس میں پہلے روشنی کی شعاع داخل ہوتی ہے، آنکھ ڈھیلوں کے کھنچاؤ اور پھیلاؤ کے ذریعے ضروری تصویریں اور عکس مرتب کرتا ہے... پردہ شبکیہ (Retina) اک طرح کا تاریک باکس ہے جس میں بیرونی دنیا کی شعاعیں کسی غیر محسوس کیمیاوی عمل کے ذریعے غیر مادی ذہنی تصویروں میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ اتنی سائنسی ترقی کے باوجود اب تک یہ عقدہ حل نہیں ہوسکا کہ آخر وہ کون سا جادو ہے جو باہر سے آنے والی روشنی کی شعاعوں کو جو آنکھ سے گزر کر دماغ میں پہنچتی ہیں مخصوص کیمیاوی تبدیلیوں کے ذریعے کروڑوں رنگوں، جلووں اور بے شمار وضع کی تصویروں، شکلوں اور مناظر میں تبدیل کردیتا ہے۔
لاشعوری ذہن ہی خارق العادات تجربات اور کشف و وجدان کا سرچشمہ ہے لیکن لاشعور کو متحرک کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آنکھیں کسی ایک نقطے پر مرکوز کردی جائیں اور پلکیں نہ جھپکائی جائیں، پلکیں جھپکانا ایک معکوسی حرکت (Conditioned Reflex) ہے جس کا تعلق لاشعور سے ہے۔ پلکیں نہ جھپکانے سے نظام اعصاب معطل سا ہوجاتا ہے اور دماغ پر اونگھ سی طاری ہونے لگتی ہے اور یہی اونگھ، یہی نیم خوابی کیفیت تمام روحانی بیداریوں کی محرک ہے۔ ارتکاز توجہ کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ کسی چیز کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے کے وقت کوشش کی جائے کہ صرف مشہود (جس چیز کو آپ ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہے ہیں) کا خیال ذہن میں اور اسی کی تصویر نظر میں رہے۔
ظاہر ہے کہ اس عمل میں پہلے پہلے بہت دقت اور مشکل پیش آئے گی، ذہن بار بار بھٹکے گا (ذہن کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ برابر خیالات کی وادی میں جست و خیز کرتا رہے) لیکن آپ ہر بار اسے پھر اسی ایک نقطے کی طرف لگادیں، اسے اعادے اور تکرار کا عمل کہتے ہیں۔ ہر علم اور فن اعادے اور تکرار (بار بار دہرانے، بار بار کرنے) سے سیکھا جاسکتا ہے، ٹائپ کرنا ہو یا سائیکل سواری سیکھنا، ستار بجانا ہو یا شعر کہنا، ان سب میں اعادے اور تکرار کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگلے کالم میں ہم رئیس امروہوی مرحوم کی ڈائری سے کچھ اقتباس پیش کریں گے کہ وہ ان معاملات میں کس طرح خود کو ہدایات دیا کرتے تھے۔
گزشتہ کالم میں ہم نے بحث کی کہ کس طرح التصویر کی مشق کے دوران گلاس میں پانی کی سطح پر جو عکس ہمیں نظر آتے ہیں دراصل وہ ہمارے ہی لاشعور کا عکس ہوتی ہیں جو استغراق کی کیفیت طاری ہوتے اور عملی شعور کا بہاؤ سست ہونے پر ابھر کر سامنے آجاتے ہیں۔ میر تقی میر کیا نکتہ بیان کرگئے ہیں ؎
یہ تواہم کا کارخانہ ہے
یاں وہی ہے جو اعتبار کیا
استغراق کا عالم ہو یا خواب کی حالت، دونوں میں بڑی مماثلت اور مشابہت پائی جاتی ہے۔ اونگھ طاری ہوتے ہی بالعموم خواب کے مناظر ہمارے سامنے آجاتے ہیں اور ایک فلم سی نگاہِ باطن کے سامنے چلنے لگتی ہے۔ اس فلم کی نمائش اختیاری نہیں غیر اختیاری ہوتی ہے۔ جس طرح ہم خواب دیکھتے ہوئے مختلف مناظر کا انتخاب نہیں کرتے بلکہ وہ خود اپنی رو میں گزرتے چلے جاتے ہیں، اسی طرح ڈوب جانے کے بعد جب ارادہ ملتوی اور معطل ہوجاتا ہے تو لاشعور کا تصویری مواد (مثلاً گرد و غبار، کہر، بادل، باغ وغیرہ) خود بخود ابھر آتا ہے۔ ارتکاز توجہ کی مشقوں میں مشہود یعنی نقطہ توجہ کی حیثیت پردہ فلم کی ہوتی ہے اور لاشعور پروجیکٹر کا کام کرتا ہے۔ پروجیکٹر سے تصویروں اور آوازوں کا دھارا روشنی کی لہروں کی شکل میں بہہ کر پردہ فلم پر پڑتا ہے اور ہمیں اسکرین پر مختلف ناطق تصویریں متحرک نظر آنے لگتی ہیں۔ سالہا سال قبل جب میں نے ارتکاز توجہ کی مشقیں شروع کی تھیں تو اسی گورکھ دھندے سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ کاغذات کی چھان بین کے دوران ایک بڑی پرانی ڈائری ہاتھ لگی، اس ڈائری میں ''بلور بینی'' کے تجربات درج تھے، میں نے خود کو بلور بینی کی ہدایات ان الفاظ میں دی تھیں کہ:
''بلور کی گیند یاشفاف و منور پانی سے بھرا ہوا شیشے کا گلاس (مقطر پانی ہو تو اچھا ہے) اپنے سامنے رکھ لو اور اس پر نظریں جمادو، چار ہفتے کے بعد تم دیکھو گے یا محسوس کرو گے کہ اس گیند یا گلاس پر کچھ تصویریں نمودار ہورہی ہیں۔ اس طرح تم میں مشاہدے ادراک کی خفیہ قوتیں بیدار ہوں گی کہ مراد و مطلوب یہی ہے۔ متعدد الجھنوں اور رکاوٹوں کے بعد تم اس پر قادر ہوجاؤ گے کہ اپنے ذہن کی پوری توجہ اس نقطے پر مرکوز کرسکو جو پیش نظر ہے۔''رئیس امروہوی مرحوم نے بلور بینی کی اس مشق میں حاضرات ارواح کے عمل کا ذکر بھی کیا ہے، جسے ہم من و عن پیش کرتے ہیں۔
''گلاس پر نظریں جمانے کے بعد اب تم اپنے کسی مردہ محبوب یا مرحوم والدین میں سے کسی کا تصور کرو کہ اس کی شبیہہ گلاس پر ابھر رہی ہے۔ بلور یا گلاس کو بغور دیکھو اور محسوس کرو کہ اس مرحوم کی روح نمودار ہورہی ہے۔ یہ تجربہ دس بیس بلکہ پچاس مرتبہ دہراؤ۔ اب تمھیں پتا چلے گا کہ وہ روح رفتہ رفتہ نقطہ توجہ پر ظاہر ہورہی ہے۔ یہ مشق کافی ریاض چاہتی ہے، ہرگز مت خیال کرو کہ واقعی روحانی دنیا تمھارے پیش نظر ہے۔ بہت دن تک تمھاری اپنی لاشعوری پرچھائیاں مشہود پر منعکس ہوتی رہی گی۔ اب تم گہرے باطنی مراقبے کا تجربہ شروع کرو، کیونکہ یہ نکتہ بہرحال پیش نظر رکھنا چاہیے کہ بصری مشاہدات (آنکھ کے ذریعے جو چیزیں نظر آئیں) اور حسی تجربات (حواس خمسہ کے ذریعے جو تجربے ہوں) ہمیشہ روحانی ترقی کے راستے میں رکاوٹ ثابت ہوتی ہیں۔ واضح مشاہدہ صرف ابتدائی قدم ہے، روحانی تجربہ ہرگز نہیں۔
بلوری گیند یا شیشے کے گلاس پر روحوں کا عکس ہماری لاشعوری مصوری ہے اور بس۔ امر واقعہ یہ ہے کہ مشاہدے کی ریاضت کے ذریعے توجہ کی قوت کو ترقی دینا مقصود ہے۔ رفتہ رفتہ تمھارا وجدان اور وہ بصیرت جو حواس سے بلند ہوتی ہے یعنی E.S.P بیدار ہوجائے گی اور تم ایک لطیف دنیا میں باخبر مسافر کی طرح جو ہر چیز کو دیکھ بھال کر آگے بڑھتا ہے مسلسل پیش قدمی کرتے چلے جاؤ گے اور اس راہ میں تمھیں ایسی عجیب و غریب چیزیں نظر آئیں گی جن کی تشریح الفاظ کے ذریعے ممکن نہیں، کیونکہ زبان احساسات کی ترجمانی کے لیے وجود میں آئی ہے، کم سے کم مروجہ زبانوں کے ذریعے ماورائے حواس کی کیفیات، واردات اور تاثرات کا بیان اور تشریح ممکن نہیں۔''
ارتکاز توجہ اور غیب بینی (Clairvoyance) کے عمل میں بنیادی حیثیت آنکھ کو حاصل ہے۔ آنکھ آلہ بصیرت ہے اور روح تک پہنچنے کا براہ راست راستہ۔ آنکھ کے ذریعے ہی باہر کی تصویریں اور اندر کی شبیہیں بنتی ہیں اور ان ہی تصویروں اور شبیہوں کے ذریعے فہم، ادراک، وجدان اور کشف کے دریچے کھلتے ہیں۔ بیرونی حلقہ چشم جس میں پہلے روشنی کی شعاع داخل ہوتی ہے، آنکھ ڈھیلوں کے کھنچاؤ اور پھیلاؤ کے ذریعے ضروری تصویریں اور عکس مرتب کرتا ہے... پردہ شبکیہ (Retina) اک طرح کا تاریک باکس ہے جس میں بیرونی دنیا کی شعاعیں کسی غیر محسوس کیمیاوی عمل کے ذریعے غیر مادی ذہنی تصویروں میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ اتنی سائنسی ترقی کے باوجود اب تک یہ عقدہ حل نہیں ہوسکا کہ آخر وہ کون سا جادو ہے جو باہر سے آنے والی روشنی کی شعاعوں کو جو آنکھ سے گزر کر دماغ میں پہنچتی ہیں مخصوص کیمیاوی تبدیلیوں کے ذریعے کروڑوں رنگوں، جلووں اور بے شمار وضع کی تصویروں، شکلوں اور مناظر میں تبدیل کردیتا ہے۔
لاشعوری ذہن ہی خارق العادات تجربات اور کشف و وجدان کا سرچشمہ ہے لیکن لاشعور کو متحرک کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آنکھیں کسی ایک نقطے پر مرکوز کردی جائیں اور پلکیں نہ جھپکائی جائیں، پلکیں جھپکانا ایک معکوسی حرکت (Conditioned Reflex) ہے جس کا تعلق لاشعور سے ہے۔ پلکیں نہ جھپکانے سے نظام اعصاب معطل سا ہوجاتا ہے اور دماغ پر اونگھ سی طاری ہونے لگتی ہے اور یہی اونگھ، یہی نیم خوابی کیفیت تمام روحانی بیداریوں کی محرک ہے۔ ارتکاز توجہ کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ کسی چیز کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے کے وقت کوشش کی جائے کہ صرف مشہود (جس چیز کو آپ ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہے ہیں) کا خیال ذہن میں اور اسی کی تصویر نظر میں رہے۔
ظاہر ہے کہ اس عمل میں پہلے پہلے بہت دقت اور مشکل پیش آئے گی، ذہن بار بار بھٹکے گا (ذہن کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ برابر خیالات کی وادی میں جست و خیز کرتا رہے) لیکن آپ ہر بار اسے پھر اسی ایک نقطے کی طرف لگادیں، اسے اعادے اور تکرار کا عمل کہتے ہیں۔ ہر علم اور فن اعادے اور تکرار (بار بار دہرانے، بار بار کرنے) سے سیکھا جاسکتا ہے، ٹائپ کرنا ہو یا سائیکل سواری سیکھنا، ستار بجانا ہو یا شعر کہنا، ان سب میں اعادے اور تکرار کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگلے کالم میں ہم رئیس امروہوی مرحوم کی ڈائری سے کچھ اقتباس پیش کریں گے کہ وہ ان معاملات میں کس طرح خود کو ہدایات دیا کرتے تھے۔