اجازت ضروری ہے…
مہمان اللہ کی رحمت ہوتے ہیں مگر مہمان اور بلائے جان بننے میں بہت معمولی سا فاصلہ ہے، اسے پاٹنے سے گریز کریں۔
BAGHDAD:
تیار ہو کر آپ گھر سے نکلنے ہی والے ہوتے ہیں کہ دروازے کی گھنٹی بجتی ہے... آپ یہ سوچ کر دروازہ کھولتے ہیں کہ جانے کوئی کچھ دینے یا لینے آیا ہو گا، کوئی مانگنے والاہو گا، کوئی پارسل یا ڈاکیہ۔ دروازہ کھولنے پر آپ کی حیرت کا سامان کرنے کو باہر آپ کے چھ دوست یا خاندان کے کوئی چھ لوگ کھڑے ہوں! ''السلام علیکم... کیا حال ہے؟ ارسلان کی طرف آئے تھے، ادھر سے گزر رہے تھے، سوچا آپ کو بھی ملتے جائیں... آپ سو تو نہیں رہے تھے؟ ''
''نہیں بھئی میں اتنا تیار ہو کر سوتا نہیں... کہیں جا رہا تھا ... آپ ایک منٹ کی تاخیر سے آتے تو ہم نکل گئے ہوتے!'' آپ وضاحت کرتے ہیں۔
''اچھا ہوا کہ ہم نے وقت پر پکڑ لیا ورنہ ملاقات کہاں ہوتی... اکیلے اکیلے کہاں جا رہے تھے؟''
''نہیں بھئی ہم سب گھر والے جا رہے تھے، میری بہن کے نئے سسرالی رشتہ داروں میں کہیں دعوت ہے!'' آپ ذرا مجبور سا انداز اپنا کر کہتے ہیں، ''پہلے ہی تاخیر ہو رہی ہے، سوری تم لوگوں کے لیے وقت نہیں، تم لوگ پھر کیوں نہیں کسی وقت آ جاتے؟'' آپ کے اس انداز پر دو طرح کا رد عمل ہو سکتا ہے، تیسرا ہرگز نہیں، یعنی وہ آپ کے کہنے پر اٹھ کر جانے والے ہرگز نہیں ہوتے۔
یا تو وہ آپ سے ناراض ہو کر فوراً غصے میں آ جائیں گے، آپ کو بتائیں گے کہ وہ آپ کی چاہت میں وہاں رک گئے تھے اور آپ ہیں کہ آپ کو پرواہ ہی نہیں ... اور دس باتیں سنا کر آپ سے اپنا تعلق توڑنے کا عہد کرتے ہوئے وہاں سے رخصت ہو ں گے، آپ انھیں سمجھانے کی ناکام کوشش کرتے رہ جائیں گے اور اس سارے عمل میں بھی وہ آپ کا آدھا گھنٹہ لگا کر جائیں گے۔دوسری صورت میں وہ کہیں گے کہ وہ دس منٹ میں چائے کا ایک کپ پی کر فوراً چلے جائیں گے... پہلے تو جلتی بھنتی، بنی سنوری خاتون خانہ کے لیے چائے کا ایک کپ بنانا مسئلہ، اوپر سے گھر پر جانے چائے کے لوازمات میں سے کچھ ہو نہ ہو، خالی چائے پیش کر کے بھی عمر بھر کی بد نامی گلے مول لینے والی بات ہے۔ آپ کے رشتہ دار ہیں تو آپ کی بیگم کے خلاف ایک کدورت دل میں لے کر جائیں گے اور اگر بیگم کے رشتہ دار ہیں تو وہ آپ کو برا سمجھیں گے... جان بوجھ کر آہستہ آہستہ چائے پئیں گے کہ آپ کی برداشت جواب دے جائے اور آپ ایسا کچھ کہیں جسے وہ ہر جگہ خاندان میں اور دوستوں میں بیٹھ کر حوالے کے طور پر پیش کریں اور آپ کا ڈھول بجائیں۔
قرآن پاک کی سورہ نور میں ارشاد باری تعالی ہے:
''مومنو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے لوگوں کے گھروں میں گھر والوں سے اجازت لیے اور ان کو سلام کیے بغیر داخل نہ ہوا کرو۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اور ہم یہ نصیحت اس لیے کرتے ہیں کہ شاید تم یاد رکھو۔ اگر تم گھر میں کسی کو موجود نہ پاؤ تو جب تک تم کو اجازت نہ دی جائے اس میں مت داخل ہو۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ اس وقت لوٹ جاؤ تو لوٹ جایا کرو۔ یہ تمہارے لیے بڑی پاکیزگی کی بات ہے۔ اور جو کام تم کرتے ہو خدا سب جانتا ہے''۔
ہماری کتاب ہدایت ہماری زندگی کے ہر ہر گوشے کااحاطہ کرتی ہے، اس میں چھوٹے سے چھوٹے مسئلے کا حل بھی ملتا ہے اور بہترین زندگی گزارنے کے سنہری اصول بھی۔ یہ کتاب اس وقت کے لیے نازل نہیں ہوئی تھی بلکہ اس میں ہمارے لیے وہ مواد ہے جو تا قیامت تبدیل ہونے والا نہیں، وقت کے تقاضے بدلتے رہتے ہیں مگر اس کتاب ہدایت کے احکام نہیں اور اس میں تو ہر پہلو کو پہلے ہی مدنظر رکھا گیا ہے۔ موجودہ دور کی تیز رفتار زندگی میں جہاں ہمارے پاس کسی بھی طرح کے مطالعے کا وقت نہیں وہیں ہم نے اس کتاب کو بھی بالائے طاق سجا رکھا ہے اور اسے پڑھنے اور اس سے ہدایت کی روشنی حاصل کرنے کی کاوش نہیں کرتے۔
کسی کے ہاں جانے سے پہلے اس کی موجودگی اور فراغت کا جاننا ایک بنیادی اخلاقی بات ہے، ہر کوئی اپنی زندگی میں مصروف سے مصروف تر ہوتا جا رہا ہے، جہاں ہم ایک دوسرے سے یوں ہی دور ہوتے جا رہے ہیں اور دوست احباب اور رشتہ داروں سے ملاقات کا وقت کم کم ہی ملتا ہے وہاں جب کوئی ایسے ''ہلہ نما'' انداز میں ملنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ یونہی نا پسندیدہ لوگوں کی فہرست میں آ جاتا ہے۔ دور نبوی ﷺ میں جب ان آیات کی وضاحت فرمائی گئی تو حکم ہوا کہ کسی کے دروازے پر جاؤ تو اپنی موجودگی کا احساس دلاؤ، کھانس کر یا کھنکار کر... یا پکار کر دیکھ لو، اگر تین دفعہ تمہارا یہ عمل کرنے پر جواب نہ آئے تو سمجھو کہ گھر پر کوئی موجود نہیں، اگر تمہیں علم ہو کہ اندر کوئی ہے اور وہ جواب نہیں دے رہا تو بھی اس کا مطلب ہے کہ تم لوٹ جاؤ، کسی کے آرام یا نیند میں مخل مت ہو۔ اگر کوئی اندر ہے، تمہیں اجازت دینے کی بجائے کہتا ہے کہ لوٹ جاؤ تو بھی اس بات کا برا مت مناؤ اور خاموشی سے لوٹ جاؤ۔
کتنی سادگی سے ہمیں بتا دیا گیا ہے کہ اخلاقیات کی حدود کیا ہیں اور ان کا طریقہ کار کتنا سادہ۔ یہ اس وقت کی باتیں ہیں جب ٹیلی فون نہ تھے اور لوگوں کو ایک دوسرے کے پاس جانے کے لیے ان کے دروازے تک جانا اور اجازت نہ ملنے کی صورت میں لوٹ جانے کا حکم تھا۔ آج کے دور میں جب ہمارے پاس ہر طرح کی سہولیات موجود ہیں، ہم ٹیلی فون کر کے کسی سے اجازت طلب کر سکتے ہیں اور جان سکتے ہیں کہ جہاں ہم جانا چاہتے ہیں وہ موجود اور فارغ ہیں کہ نہیں... کسی کو میں نے ایک بار سمجھایا تو انھوں نے مجھے جواب میں کہا کہ میں نے تو انھیں کال کیا تھا، مگر وہ جان بوجھ کر میری کال نہیں اٹھا رہے تھے... تو آپ سمجھ جاتے کہ جو آپ کی کال نہیں اٹھا رہے تو اس کا کیا مطلب ہوا۔ اگر کوئی شخص کسی وجہ سے دانستہ آپ سے ملنے سے گریز کرتا ہے تو اس پر خود کو مسلط نہ کریں۔
ہر کسی کی اپنی زندگی اور اپنی مصروفیات ہیں... جہاں ہر کوئی خود کار مشینوں کی طرح ہے، بمشکل اپنے لیے وقت نکال پاتا ہے، اگر کوئی آپ کو ملنا نہیں چاہتا تو ممکن ہے کہ اس کے پاس وقت نہ ہو، اس کے پاس کوئی اور وجہ ہو آپ کو نہ ملنے کی۔ پہلے پہل دیکھتے تھے کہ گاؤں کے لوگ ٹیلی فون کر کے کسی کام کے لیے کہتے تھے، دو دن کا وقفہ ڈال کر وہ خود پہنچ جاتے ہیں۔ ''بھئی آپ نے فون پر جو کہہ دیا تھا کافی تھا، اتنا پٹرول اور وقت ضایع کر کے آپ آئے ہیں تو اس سے کیا فرق پڑنے والا ہے؟''
''ہم نے سوچا کہ جا کر آپ سے کہیں گے تو زیادہ اثر ہو گا!'' جواب ملتا۔ انھیں سمجھ میں نہیں آتا کہ کوئی بھی کام اتنی جلدی ممکن نہیں ہوتا۔
ہم میں سے بہت سے لوگ بلا ارادہ، بغیر کسی پیشگی پروگرام یا اطلاع کے دوسروں کے گھروں میں ٹپک پڑتے ہیں، ان کے نزدیک بغیر اطلاع دیے جانا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ آپ کا رشتہ ان سے کتنا نزدیکی ہے، حالانکہ یہ بد تہذیبی کی انتہا ہے۔ ہم پڑھے لکھے ہو کر بھی بسا اوقات ایسی غلطیوں کا ارتکاب کرتے ہیں جنھیں ان پڑھ لوگ بھی نہیں کرتے۔ میں نے اپنے گاؤں میں بھی دیکھا ہے کہ گھروں کے بزرگ اور عمر رسیدہ لوگ بھی کسی کے گھر جاتے اور اپنے گھروں میں بھی لوٹتے وقت دروازے کے باہر کھڑے ہو کر کھانستے ہیں یا کھنکار کر اپنے مخصوص انداز سے گھروں میں موجود لوگوں کو اپنی آمد کی اطلاع کرتے ہیں، اس کا مقصد ہوتا ہے کہ اندر موجود لوگ سنبھل جائیں، بسا اوقات مردوں کے گھر پر نہ ہونے سے' لڑکیاں بالیاں کام کرتے وقت اپنے دوپٹے اتار کر رکھ دیتی ہیں۔
ہم اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو سکھاتے ہیں کہ کسی کے بھی کمرے میں جاتے وقت باہر کھڑے ہو کر دروازہ کھٹکھٹا کر اجازت طلب کریں، اسکولوں میں ہم اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو کلاس روم سے باہر کھڑے ہو کر اندر داخل ہونے کی اجازت طلب کرنا سکھاتے ہیں اور اسے بتاتے ہیں کہ اسے تب تک انتظار کرنا ہے جب تک کہ اندر سے ٹیچر کی طرف سے جواب نہ ملے... لیکن کیا ہم بچپن کا سکھایا گیا یہ سبق اتنی جلدی بھول جاتے ہیں؟
مہمان اللہ کی رحمت ہوتے ہیں اور مہمان داری کا بڑا اجر ہے مگر مہمان اور بلائے جان بننے میں بہت معمولی سا فاصلہ ہے، اسے پاٹنے سے گریز کریں۔ اللہ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے، آمین!