اخلاقی جرم
آئینی ترمیم سے یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے مگر حکومت کے پاس آئین میں ترمیم کے لیے مطلوبہ اکثریت نہیں ہے۔
پاکستان ڈیموکریٹ موومنٹ کی تحریک کے اثرات ظاہر ہونے لگے۔ وزیر اعظم نے سینیٹ کے انتخابات کے لیے قواعد و ضوابط کی تبدیلی کا اعلان کیا اور کہا کہ اب سینیٹ کے اراکین مکمل اجلاس میں ہاتھ اٹھا کر اپنے امیدوار کے حق میں ووٹ دیں گے۔
اٹارنی جنرل کہتے ہیں کہ ایسے بیلٹ پیپر استعمال ہوں گے جس پر ووٹ دینے والے کا نام لکھا ہوگا، یوں انتخابی قوانین میں تبدیلی کا فیصلہ ہوا۔ ملک میں رائج قوانین کے تحت بلدیاتی کونسلر سے لے کر صدر تک کا انتخاب خفیہ رائے دہی کے تحت ہوتا ہے۔ سینیٹ کے سابق چیئرمین رضا ربانی نے اس فیصلہ کو غیر قانونی قرار دیا اور کہا کہ الیکشن کے انعقاد کا فیصلہ خودمختار الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے اور حکومت انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ نہیں کر سکتی۔
وفاقی وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم نے اس مسئلہ کا یہ حل تلاش کیا ہے کہ ایک ریفرنس سپریم کورٹ کے سامنے پیش کیا جائے اور سپریم کورٹ سے مشورہ لیا جائے۔ ماہرین قانون کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت قائم ہوا ہے اور انتخابی قوانین پارلیمنٹ نے منظور کیے ہیں۔ اس بناء پر آئینی ترمیم سے یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے مگر حکومت کے پاس آئین میں ترمیم کے لیے مطلوبہ اکثریت نہیں ہے۔
انتخابی دھاندلیوں کی تاریخ تو 50ء کی دہائی سے شرو ع ہوتی ہے مگر دو سال قبل جب متحدہ حزب اختلاف نے سینیٹ چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی اور نیشنل پارٹی کے رہنما میر حاصل بزنجو کو اپنا امیدوار نامزد کیا تو تحریک انصاف اور ان کی اتحادی جماعتوں نے سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین اور پیپلز پارٹی کے رہنما سلیم مانڈوی والا کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی تھی۔
اس وقت پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علماء اسلام اور نیشنل پارٹی وغیرہ اس نتیجہ پر پہنچی تھیں کہ چونکہ سینیٹ میں حزب اختلاف کی جماعتوں کے 64 ووٹ تھے اور حکومت کے حامی سینیٹرز کی تعداد خاصی کم تھی، یوں حزب اختلاف کی جماعتیںاپنے چیئرمین کے امیدوار کو آسانی سے کامیاب کرالیں گی مگر وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے باوجود سینیٹ میں اقلیتی ووٹ ہونے کے اس تحریک کو ناکام بنانے کا عزم کیا اور ڈپٹی چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک سینیٹ سیکریٹریٹ میں جمع کرا دی۔ اس وقت کے ریلوے کے وزیر اور موجودہ وزیر داخلہ شیخ رشید چیخ چیخ کر سنجرانی کی کامیابی کی نوید دینے لگے۔
انھوں نے کہا کہ حکومت کے پاس کچھ تعویز موجود ہیں اور حکومت اتنی بھی کمزور نہیں ہے۔ دیگر وزراء بھی کہتے رہے کہ صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوجائے گی، یوں جب سینیٹ میں چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو 64 ارکان نے قرارداد کے حق میں کھڑے ہو کر توثیق کی مگر جب یہ اراکین پولنگ بوتھ میں گئے تو وہاں کیا ہوا کہ حاصل بزنجو کے حق میں 50 ووٹ نکلے۔ شیخ رشید کی یہ بات ثابت ہوگئی کہ حکومت کے پاس کچھ تعویز ہیں جو استعمال ہوئے مگر یوں تاریخ میں انتخابی دھاندلی کی ایک اور مثال قائم ہوگئی۔ وزیر اعظم عمران خان اپنی قائم کردہ مثال سے خوفزدہ ہوگئے ۔
وزیر اعظم عمران خان بار بار کہتے ہیں کہ حرام کا پیسہ کمانے والوں پر عذاب الٰہی نازل ہوتا ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے خود میاں نواز شریف اور آصف زرداری پر عذاب نازل ہوتے دیکھا ہے۔ کسی ملک کے وزیر اعظم کو ایسا دعویٰ کرنا چاہیے تھا یا نہیں لیکن اس دعویٰ سے یہ حقیقت بھی سامنے آگئی کہ غیر قانونی طریقوں سے دولت کمانا ہی حرام کام نہیں ہے بلکہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے غیر قانونی طریقے استعمال کرنا بھی حرام کاموں کی تعریف میں آتا ہے۔ ظاہر ہے کہ حزب اختلاف کی جماعتوں کے سینیٹروں نے پہلے صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد کی ساری دنیا کے سامنے توثیق کی مگر پولنگ بوتھ میں اچانک ان کا فیصلہ تبدیل ہوا، یوں وہ حرام کام میں ملوث ہوئے۔
اس ملک میں منتخب اراکین کو توڑنے کے لیے جو حربے استعمال ہوتے رہے ہیں، وہ اب ڈھکے چپھے نہیں رہے۔ اگریہ خفیہ طور پر منحرف ہونے والے اراکین اصولی بنیاد پر فیصلہ کرتے تو سب سے پہلے سینیٹ کی رکنیت سے مستعفی ہوتے یا کم از کم ایوان میں پیش کی جانیوالی قراردادکی توثیق نہیں کرتے۔ اب جب حکومت نے سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کے لیے خفیہ رائے دہی کا طریقہ کار ختم کرنے کا فیصلہ کیا تو یہ ایک طرح کا اقبال جرم ہے۔
ملک کی تاریخ بتاتی ہے کہ انگریزوں کے دور سے انتخابی دھاندلیوں اور منتخب اراکین کو زبرستی مؤقف تبدیل کرنے کے حربے استعمال ہونا شروع ہوئے۔ پاکستان بننے کے بعد جب پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہوئے تو لاہور سے کمیونسٹ پارٹی کے امیدوار مزدور رہنما مرزا ابراہیم تھے۔ ان کے مقابلہ مسلم لیگ کے احمد سعید کرمانی تھے۔ مرزا ابراہیم ووٹوں کی گنتی میں کامیاب ہورہے تھے کہ حتمی نتیجہ میں احمد سعید کرمانی کامیاب قرار پائے، یوں کئی کمیونسٹ صحافیوں نے اس دھاندلی کے لیے جھرلوں پھرنے کی اصطلاح استعمال کی تھی جو عام ہو گئی۔ ملک کی تاریخ کی ایک بڑی انتخابی دھاندلی پہلے فوجی صدر جنرل ایوب خان نے کی تھی۔
1964 کے صدارتی انتخابات میں پاکستان کے بانی محمد علی جناح کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کی کامیابی یقینی تھی۔یہ انتخابات بنیادی جمہوریت (BD System) کے تحت منعقد ہوئے تھے۔ اس بی ڈی نظام کے تحت دونوں صوبوں کے عوام نے 80 ہزار بی ڈی ممبر منتخب کیے تھے جس میں سے اکثریت کا تعلق متحدہ حزب اختلاف سے تھا۔ پہلے حکومت کے اہلکاروں نے بی ڈی ممبروں کو مختلف ہتھکنڈے استعما ل کر کے ایوب خان کو ووٹ دینے پر آمادہ کیا تھا، پھر جب بہت سے ممبر حکومت کے دباؤ میں نہیں آئے تو ہر علاقہ کے ڈپٹی کمشنرز کی ذمے داری لگائی ، یوں ایوب خان کامیاب ہوئے۔
ایوب خان کی کامیابی نے مشرقی پاکستان کے عوام کو اسلام آباد کی حکومت سے دور کردیا تھا۔ جب 1970 کے انتخابات میں نیشنل عوامی پارٹی نے بلوچستان اور سرحد سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اکثریت حاصل کی تو نیپ کا جمعیت علماء اسلام سے اتحاد ہوا۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے نیپ اور جمعیت علماء اسلام کو بلوچستان اور سرحد میں حکومت بنانے کی دعوت دی۔ بھٹو حکومت نے نیپ کے میر غوث بخش بزنجو کو بلوچستان اور ارباب خلیل کو صوبہ سرحد کا گورنر مقرر کیا تھا۔
نیپ کے سردار عطاء اﷲ مینگل بلوچستان کے وزیر اعلیٰ اور جمعیت علماء اسلام کے مولانا مفتی محمود سرحد کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔ بھٹو حکومت نے مینگل حکومت کو برطرف کیا۔ میر غوث بخش بزنجو اور ارباب خلیل اور وزیر اعلیٰ مفتی محمود احتجاجاً عہدوں سے مستعفی ہوئے تھے۔ مسلم لیگ کے رہنما اور جام غلام قادر وزیر اعلیٰ بنے۔ حکومت نے کئی مخالف اراکین صوبائی اسمبلی کو گرفتار کیااور بعض نے اپنی وفاداریاںتبدیل کر لی تھیں۔
جنرل ضیاء الحق نے جب ریفرنڈم کے ذریعہ منتخب ہونے کا فیصلہ کیا تو بقول جنرل جہانداد خان لوگ پولنگ اسٹیشن ووٹ ڈالنے نہیں گئے مگر جنرل ضیاء الحق نے 80 فیصد کے قریب ووٹ حاصل کیے۔ جنرل پرویز مشرف کا ریفرنڈم بھی ایسا ہی ہوا۔ میاں نواز شریف جب پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تو انھوں نے صوبائی اسمبلی کے اراکین کو چھانگا مانگا جنگل میں محصور کیا تھا۔ اسی طرح وزیر اعظم عمران خان نے 2013 کے انتخابات میں دھاندلیوں کے خلاف تحریک چلا کر اپنی جماعت کو مقبول کیا تھا مگر 2018 کے انتخابات میں R.T.S نظام بند ہوا ۔
سینیٹ کے عہدیداروں کے انتخاب کے بارے میں نئے قوانین سے ثابت ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت ماضی کی حکومتوں کی پیروی کررہی ہے، اگر عمران خان ایک شفاف نظام قائم کرنے میں سنجیدہ ہیں تو انھیں سینیٹ کے انتخابات میں دھاندلی کے معاملے کی تحقیقات کرانی چاہیے اور ان کے جو معاونین اس دھاندلی میں ملوث ہیں ان کے خلاف فوجداری قوانین کے تحت کارروائی کرنی چاہیے، یوں ایک طرف تحریک انصاف حکومت کا شفاف نظام قائم کرنے کے دعوی کی سچائی سامنے آئے گی اور دوسری طرف پی ڈی ایم رسوا ہوگی، پھر وہ اخلاقی طور پر قوانین کی تبدیلی کے حقدار ہوںگے۔