مولانا فضل الرحمن کے لیے مشکلات بڑھتی چلی جا رہی ہیں

اگر مولانا ان حالات سے نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر حکومت کے لیے مشکلات میں اضافہ ہو جائے گا۔


Irshad Ansari December 23, 2020
اگر مولانا ان حالات سے نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر حکومت کے لیے مشکلات میں اضافہ ہو جائے گا۔ فوٹو: فائل

پوری دنیا کورونا وائرس کی دوسری لہر کی لپیٹ میں ہے مگر پاکستان میں سیاسی گہما گہمی کم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔

برطانیہ میں کورونا وائرس کی نئی قسم سامنے آنے کے بعد دنیا کے بیشتر ممالک نے برطانیہ سے سفری رابطے منقطع کر دیے لیکن عالمی ادارہ صحت کے ایمرجنسی چیف مائک ریان نے کہا ہے کہ اس وبا کے پھیلاوکے دوران نئی قسم دریافت ہونا معمول کی بات ہے۔ پاکستان نے بھی برطانیہ سے مسافروں کی آمد پر بدھ کی رات 12 بجے سے 29 دسمبر تک پابندی عائد کر دی ہے۔ وہ مسافر جو کسی اور ملک جاتے ہوئے برطانیہ میں فلائٹ تبدیل کریں گے اور ایئرپورٹ سے باہر نہیں نکلیں گے، ان پر اس پابندی کا اطلاق نہیں ہوگا۔

کورونا خطرات کے باوجود اپوزیشن سیاسی سرگرمیوں کو محدود کرنے کو تیار نہیں۔ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ لانگ مارچ میں عوام کو ساتھ لے کر جائیں گے اور اسلام آباد پہنچ کر استعفے چھین کر لیں گے۔لاہور میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ حکومت زمینی حقائق سے واقف نہیں، عوام تاریخی منہگائی اور بیروزگاری کا مقابلہ کر رہے ہیں، پی ڈی ایم کی تمام 11 جماعتیں متحد ہیں، ہم نے طے کر رکھا ہے کہ حکومتی رویے کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ عوامی طاقت کے سامنے وزیراعظم نہیں بچ سکتے۔

چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ پی ڈی ایم کے حکومت سے کوئی مذاکرات نہیں چل رہے، اب مذاکرات تب ہوں گے جب وزیراعظم نہیں ہوں گے۔ اس کے ردعمل میں وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کہتے ہیں کہ مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری تو شو پیس ہیں، فیصلے نواز شریف اور آصف زرداری کو کرنے ہیں۔ وہ اپنے مقدموں سے نکلنا چاہتے ہیں باقی کسی معاملے سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں، بچوں سے مذاکرات کر کے کسی نے کیوں وقت ضائع کرنا ہے۔وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ سیاست واپس معمول پر آگئی ہے، نا تو لانگ مارچ ہو گا اور نہ استعفے دیئے جائیں گے، تمام لوگ اسی تنخواہ پر کام کریں گے۔

نیب نے شہباز شریف کی اہلیہ نصرت شہباز، بیٹے سلیمان شہباز اور بیٹی رابعہ عمران سمیت 6 ملزمان کی جائیدادیں قرق کرلی ہیں۔ لاہور کی احتساب عدالت میں شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف منی لانڈرنگ کیس پر سماعت ہوئی۔ عدالت کے روبرو شہباز شریف کا کہنا تھا '' میں کینسر کا مریض ہوں، میرے معدے اور کینسر کے حوالے سے چیک اپ نہیں ہو رہا، مجھے میری میڈیکل رپورٹس بھی ایک مہینے بعد دی گئیں، زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن یہ صرف سیاسی انتقام ہے اور کسی کے کہنے پر کیا جا رہا ہے''۔ جس پر احتساب عدالت کے فاضل جج نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی بات سن لی ہے، آپ کا جو مسئلہ ہے آپ لکھ کر عدالت کو آگاہ کریں، آپ جب درخواست دیں گے تو اس پر علیحدہ سماعت کروں گا۔

اثاثوں کی قرقی کے حوالے سے ڈی جی نیب نے تفتیشی افسر کے ذریعے عدالت میں رپورٹ پیش کی جس کے مطابق نیب نے شہباز شریف کی اہلیہ نصرت شہباز، بیٹے سلیمان شہباز ، بیٹی رابعہ عمران اور داماد ہارون یوسف کے اثاثے بھی قرق کر لیے ہیں۔ دوران سماعت کمرہ عدالت میں شور شرابے پر فاضل جج نے برہمی کا اظہار کیا، انہوں نے حکم دیا کہ جو لوگ شہباز سے ملاقات کرنے آئے ہیں اب وہ باہر چلے جائیں، آپ لوگوں کے شور سے سماعت میں مشکل آرہی ہے، ایک ایک سوال ملین ڈالر کا ہے، اگر آپ باز نہیں آئیں گے تو میں اٹھ کر چلا جاؤں گا۔ شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ نے نیب کے گواہ پر جرح شروع کی تو گواہ کے بار بار سینے پر ہاتھ رکھ کر جواب دینے پر عدالت نے کہا کہ بار بار سینے پر ہاتھ رکھ کر جواب دیتے ہوئے ارطغرل غازی لگ رہے ہو۔

نیب نے مولانا فضل الرحمن کو پہلے سے طلب کر رکھا تھا لیکن وزیر اعظم نے مولانا کے اثاثے بنانے اور نیب کے سامنے سرنڈر کرنے کا بیان دے کر اسے بھی متنازعہ بنادیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے لئے مشکلات بڑھتی دکھائی دے رہی ہیں۔ ایک جانب نیب کا شکنجہ ہے تو دوسری جانب مولانا شیرانی اور دوسرے ساتھیوں نے مولانا پر کاری ضرب لگائی گئی ہے۔

اگر مولانا ان حالات سے نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر حکومت کے لیے مشکلات میں اضافہ ہو جائے گا کیونکہ سینٹ کے قبل از وقت انتخابات کے بارے میں بھی الیکشن کمیشن کا موقف سامنے آگیا ہے اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات کا شیڈول بھی جاری کردیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ آئین کے تحت 10 فروری سے قبل سینیٹ انتخابات نہیں ہوسکتے۔ الیکشن کمیشن نے ضمنی انتخاب کے پیش نظر ساتوں حلقوں میں سرکاری افسران کے تقرر و تبادلوں پر پابندی عائد کر دی جو کامیاب امیدواروں کے نوٹی فکیشن جاری ہونے تک برقرار رہے گی۔

مولانا محمد خان شیرانی ، مولانا گل نصیب خان اور جمیعت علمائے اسلام کے دیگر رہنماوں کے تازہ بیانات اور مولانا فضل الرحمان کے نیب کے زیرِ حراست بعض قریبی ساتھیوں کے مبینہ اعترافی بیانات کے بعد لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں جے یو آئی بلوچستان اور کے پی کے کے دور دراز علاقوں میں بھی اپنی رہی سہی سیاسی ساکھ اور حمایت بتدریج کھوتی چلی جائے گی۔

جبکہ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حکومت پاکستان بھر کے دینی مدارس کو کمپیوٹر ٹیکنالوجی سے لیس کرنے اور قومی تعلیمی نصاب سے جوڑنے کے لئے پہلے ہی کمر بستہ ہو چکی ہے ایسے میں مولانا فضل الرحمان جیسے سیاسی مذہبی رہنماؤں کی پریشانی سمجھ میں آتی ہے کہ اِن کی سیاست کا ایندھن تو یہی مدارس کے طلبہ تھے اب وہ اگر دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر پر بیٹھ کر ورچوئل اسٹنٹ کی جاب کرنا اور مدرسے میں بیٹھے بٹھائے ڈالر کمانا شروع کر دیں گے تو ان طلبہ کے پاس احتجاجی جلسوں میں پہنچنے کے لئے وقت کہاں بچے گا۔

حال ہی میں وزارت داخلہ کا قلمدان سنبھالنے والے شیخ رشید پر دہشتگردوں کی سہولت کاری کے حوالے سے ابھی اپوزیشن کے الزامات کی دھول بیٹھی نہیں تھی کہ شیخ رشید نے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سمیت سیاستدانوں کی جانوں کو خطرے کا بیان دیدیا۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حالات کسی ایڈونچر کی جانب جاسکتے ہیں۔ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے سر پر جنگی جنون سوار ہے اور سرجیکل سٹرائیک کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ایسے میں جنوبی ایشیاء فالٹ لائن بنا ہوا ہے۔ یہاں ایک چنگاری دینا کو تیسری عالمی جنگ میں دھکیل سکتی ہے۔

وزیر داخلہ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ انکی تنبیہہ خود ان کے گلے پڑ رہی ہے۔ سینیٹ انتخابات کے بارے میں شیخ رشید نے یقین ظاہر کیا کہ حزب اختلاف کا اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لے گا، جبکہ بھارت کے ساتھ موجودہ صورتحال پر انہوں نے کہا کہ پاکستان بھارت کی کسی بھی مہم جوئی کا منہ توڑ جواب دے گا، پاکستان امن کا خواہشمند ہے تاہم وہ اپنی خودمختاری پر ہرگز سمجھوتہ نہیں ہوگا۔

پاک، ایران، ترکی کارگو ٹرین سروس 2021 میں شروع ہو رہی ہے۔ اسلام آباد سے کارگو ٹرین ایران سے ہوتی ہوئی استنبول تک جائے گی۔ پاکستان ریلویز نے ایکسپورٹ کارگو ٹرین کی فزیبلٹی تیار کر لی ہے۔ سہہ ملکی ایکسپورٹ کارگو ٹرین سے پاکستان کی ایران اور ترکی سے تجارت میں کئی گنا اضافہ ہو گا۔ ترک وزیر ٹرانسپورٹ عادل کارا اسماعیل اولو نے کہا کہ پاکستان، ایران اور ترکی نے ایکسپورٹ کارگو ٹرین سروس جلد شروع کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔

وہ اکنامک کو آپریشن آرگنائزیشن (ای سی او) کے ٹرانسپورٹ اور مواصلات کے وزرا کے دسویں اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔ انکا کہنا تھا کہ اسلام آباد، تہران، استنبول کارگو ٹرین کی بحالی کی تمام بنیادی ضرورتیں پوری کر لی گئی ہیں۔ ترک وزیر ٹرانسپورٹ نے کہا کہ نئی کارگو ٹرین سروس کو "ای سی او کنٹینر ٹرین کا نام دیا گیا ہے۔ کارگو ٹرین 6500 کلومیٹر کا فاصلہ 13 دن میں طے کرے گی۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں