پی ڈی ایم نے شہید بینظیر بھٹو کی برسی سے اُمیدیں وابستہ کرلیں

سندھ میں کورونا وائرس کے حوالے سے صورت حال تشویشناک ہوتی جارہی ہے۔

سندھ میں کورونا وائرس کے حوالے سے صورت حال تشویشناک ہوتی جارہی ہے۔فوٹو:فائل

پاکستان پیپلز پارٹی نے شہید بینظیر بھٹو کی 13 ویں برسی کے موقع پر گڑھی خدا بخش بھٹو میں جلسہ عام کے شیڈول اور انتظامات کا حتمی شکل دے دی ہے۔

بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں شہید بے نظیر بھٹو کے یوم شہادت کے حوالے سے اجلاس میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے رہنماوں کی میزبانی و دیگر انتظامی معاملات کا جائزہ لیا گیا۔اس جلسے کی خاص بات یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن)کے مرکزی نائب صدر مریم نواز بھی اس میں شرکت کریں گی۔ اس جلسہ سے پی ڈی ایم کی دیگر رہنما بھی خطاب کریں گے۔

مریم نواز کا دورے کے دوران سکھر میں مسلم لیگ (ن)کے ورکرز کنونشن سے خطاب بھی متوقع ہے۔ پیپلزپارٹی کی جانب سے شہید بے نظیر بھٹو کی برسی پر جلسے کے اعلان کو سندھ اسمبلی میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت تحریک انصاف کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی نے لاڑکانہ میں جلسہ کرنے کے خلاف قرارداد بھی سندھ اسمبلی میں جمع کرادی ہے۔

پی ٹی آئی رہنما خرم شیر زمان کا کہنا ہے کہ ایک طرف کورونا کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے۔صوبائی حکومت کی جانب سے دکانیں بند کرائی جا رہی ہیں تو دوسری جانب جلسے کئے جا رہے ہیں۔ جو وزیر اعلی ہاتھ جوڑکر لوگوں کو گھروں میں رہنے کا کہتے تھے وہ آج بھاگ گئے ہیں، اور وہی صاحب واپس آکر ہاتھ جوڑ کر کہیں گے کہ لاڑکانہ چلو۔

ادھر پیپلزپارٹی سندھ کے صدر نثار کھوڑو کا پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ گڑھی خدا بخش بھٹو کا جلسہ وفاقی حکومت کے تابوت میں ایک اور کیل ثابت ہوگا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی استعفوں اور سندھ حکومت سمیت ہر چیز کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شہید بی بی کی برسی پر گڑھی خدا بخش بھٹو میں طاقت کا مظاہرہ کرنا پیپلزپارٹی کی روایت رہی ہے۔اس مرتبہ پی ڈی ایم کی تحریک کی وجہ سے یہ جلسہ خصوصی اہمیت اختیارکرگیا ہے۔

پی ڈی ایم کی قیادت کو لاہور جلسے کے بعد ایک بڑے سیاسی شو کی اشد ضرورت ہے اور لاڑکانہ میں شہید بی بی کے برسی کے حوالے سے ہونے والا اجتماع یقیناً اس تحریک کو تقویت دے گا۔ تجزیہ کارو ں کے مطابق پی ٹی آئی کی جانب سے جلسہ کے خلاف سندھ اسمبلی میں قرارداد جمع کرانا سود مند ثابت نہیں ہوگا۔ خود پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر اسد عمر نے سکھر میں عوامی اجتماعات سے خطاب کیا تھا۔

حکومت سندھ نے دینی مدارس میں تدریس پر پابندی کا فیصلہ مدارس کے منتظمین کے ساتھ مشاورت تک موخرکردیا ہے۔صوبائی حکومت نے مدارس سے رابطے کے لیے وزیر مذہبی امور سید ناصر حسین شاہ کو ذمہ داری تفویض کی ہے۔اس سے قبل حکومت سندھ نے صوبے میں دینی مدارس میں تعلیمی سرگرمیوں پر پابندی کے حوالے سے فیصلہ کیا تھا جس کی دینی مدارس کی جانب سے شدید مخالفت سامنے آئی تھی۔

اس ضمن میں سید ناصر حسین شاہ نے تصدیق کی ہے کہ دینی مدارس میں تدریس پرپابندی کے فیصلے پرعملدرآمد فی الحال علما سے مشاورت تک روک دیا گیا ہے۔ تمام دینی مدارس میں کورونا ایس اوپیز کے تحت تعلیمی سرگرمیاں جاری رہیں گی اورجلد ہی مشاورت کے بعد اگلے لائحہ عمل کا اعلان کردیا جائے گا۔اس حوالے سے مدارس کے منتظمین کا کہنا ہے کہ مدرسوں کی صورتحال اسکولوں سے بہت مختلف ہے۔ مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے زیادہ تر طالب علم ان مدارس میں ہی قیام پذیر ہوتے ہیں اور وہ چار دیوار ی کے اندر رہتے ہوئے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔


سندھ میں کورونا وائرس کے حوالے سے صورت حال تشویشناک ہوتی جارہی ہے۔خصوصاً کراچی میں اس مرض کے پھیلاؤ بہت زیادہ تیز ہے۔صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے ضلع وسطی ، غربی اور کیماڑی کے بعد ضلع شرقی میں بھی مائیکرو اسمارٹ لاک ڈاؤن کے احکامات جاری کردیئے گئے ہیں جو31دسمبر 2020تک نافذ رہے گا۔ سندھ حکومت نے کورونا ویکسین کے سلسلے میں انتظامی لائحہ عمل تیار کرلیا ہے۔

سندھ حکومت کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق تمام اضلاع کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ون فوکل پرسن ہونگے، اے ڈی سی ون ہر ضلع میں ہیلتھ افسران کے ساتھ مل کر ویکسین انتظامات کو یقینی بنائیں گے، تمام اسپتالوں میں ویکسین کے لیے علیحدہ جگہ اور طبی سہولیات مختص کی جائیں گی، پہلے مرحلے میں طبی عملے کی ویکسین کے عمل کو مکمل کیا جائے گا، دوسرے مرحلے میں 60 سال تک کی عمر کے افراد کو کرونا سے بچاو کی ویکسین دی جائے گی، مختلف امراض میں مبتلا افراد کی ویکسین کو تیسرے مرحلے میں مکمل کیا جائے گا جبکہ چوتھے اور آخری مرحلے میں عام افراد کو ویکسین لگائی جائے گی۔

سندھ میں گیس بحران شدید تر ہوتا جارہا ہے۔سی این جی اسٹیشنز کو گیس کی بندش کے بعد اب گھریلو کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔وزیر توانائی سندھ امتیاز شیخ نے سند ھ میں گیس بحران پر سوال اٹھایا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ کس کی اجازت سے سندھ کی گیس پر ڈاکا ڈالا گیا؟۔امتیازشیخ کا کہنا ہے کہ گیس کی سپلائی کے معاملے پر سندھ حکومت کو اعتماد میں نہیں لیا جا رہا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صوبے میں گیس کے شدید بحران کے باوجود سوئی سدرن کی گیس سوئی ناردرن کو دینا ایک حیران کن فیصلہ ہے۔اس حوالے سے حکومت سندھ کے تحفظات بالکل درست ہیں۔وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ اس حوالے سے اپنی پالیسی واضح کرے اور ملک کو گیس کے بحران سے نجات دلانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔

پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے اپنے دورہ کراچی میں مختلف دینی مدارس کا دورہ کیا ہے ،جہاں ان کا کہنا تھا کہ دینی مدارس اُمت کے محسن ادارے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے ایک مرتبہ پھر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ صدارتی آرڈیننس بھی آئین تبدیل نہیں کرسکتا، الیکشن کمیشن خود حکومت کا مواخذاہ کرے ۔ سیاسی حلقے مولانا فضل الرحمن کے مدارس کے دوروں کو انتہائی اہم قرار دے رہے ہیں۔ان حلقوں کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کے خلاف تحریک میں ان مدارس کے طالب علم اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

سندھی کلچر ڈے کے بعد اب ایم کیو ایم پاکستان نے بھی ہر سال فروری کے تیسرے اتوار کو مہاجر کلچر ڈے منانے کا اعلان کر دیا ہے۔ سربراہ ایم کیو ایم پاکستان ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا کہنا ہے کہ شناختیں بوجھ نہیں ہوتیں بلکہ اصل حقیقت ہوتی ہیں۔ ہم جس کلچر کی نمائندگی کرتے ہیں اس میں مشرق سے مغرب،شمال سے جنوب کے کلچر موجود ہیں۔تجزیہ کاروں کے مطابق کسی بھی قومیت کے حوالے سے ہونے والی ثقافتی سرگرمی کو مثبت طورپر دیکھا جانا چاہیے۔

ایم کیو ایم پاکستان اگر اپنے کلچر کے فروغ کے لیے اس طرح کا دن مناتی ہے اس میں دیگر قومیتوں کے لوگوں کو بھی شامل ہوکر اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔اسی طرح دیگر قومیتوں کے ایام میں بھی مختلف زبانوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو شرکت کرنی چاہییے اس سے ملک میں رواداری کو فروغ ملے گا۔

میڈیکل کالجز میں داخلوں کے معاملے پر وفاق اور سندھ حکومتوں کے درمیان ایک نیا تنازعہ پیدا ہوگیا ہے۔ سندھ کابینہ کے اراکین ڈاکٹر عذرا پیچوہو، سید ناصر حسین شاہ اور سعید غنی نے پاکستان میڈیکل کمیشن کی زیر نگرانی میڈیکل کالجز میں داخلوں کے انٹری ٹیسٹ کے نتا ئج کو مسترد کر تے ہو ئے کہا ہے کہ سندھ کے طلبہ کے سا تھ نا انصا فی کی گئی ہے اور انٹری ٹیسٹ فیڈرل بورڈ کے نصاب کے تحت لیا گیا ہے۔ انہو ں نے کہا کہ ان انٹری ٹیسٹ کے نتا ئج کے خلاف امیدوارو ں اور انکے والدین نے عدالت میں چیلنج بھی کر دیا ہے۔

 
Load Next Story