آرگینک لیکوئیڈ فارمولے سے کلر اور سیم زدہ اراضی پر باغات کی کاشت

کلر اور تھور سے متاثرہ زمینوں کو نامیاتی اور غیر نامیاتی دونوں طریقوں سے قابل کاشت بنایا جاسکتا ہے، زرعی ماہرین


آصف محمود December 23, 2020
تھور زدہ زمینوں کو قابل کاشت بنانے کے جدید طریقہ کاشت کو سیلائن ایگریکلچر کا نام دیا گیا ہے فوٹو: ایکسپریس

پاکستان میں آرگینک لیکوئیڈ فارمولے کی مدد سے کلروالی زمین پرباغات کی کامیاب کاشت کا ایک اورتجربہ کیا گیا ہے۔

پنجاب کے علاقہ شاہ کوٹ کے نواحی علاقے میں 16 ایکڑ رقبے پرامرود کا باغ لگایا گیا ہے، زرعی ماہر سید بابر علی بخاری کے مطابق انہوں نے اس سے قبل قصور اور جوہرآباد میں ریتیلے علاقوں میں امردو، لیموں اورکینو کی کاشت کی تھی ، اب شاہ کوٹ کے علاقے میں کلرزدہ زمین جو گزشتہ 100 سال سے غیرآباد اور ویران تھی یہاں پر امرود کا باغ لگایا گیا ہے ، ایک ماہ قبل لگائے گئے امرود کے درخت کافی صحت مند ہیں اور پرورش پارہے ہیں۔



بابر علی بخاری ینے بتایا کہ باغ لگانے کے لئے آرگینک لیکوئیڈ فارمولااستعمال کیا گیا ہے، یہ لیکوئیڈ سمندری جڑی بوٹیوں اورگھاس پھوس سے تیار کیاجاتا ہے۔ جس رقبے کو قابل کاشت بنانا ہو وہاں پانی میں اس لیکویڈ کو شامل کرکے سیراب کیا جاتا ہے جس سے زمین کے اندر کینچوے پیدا ہوتے ہیں، وہ کلروالی مٹی کو کھاتے ہیں اورجو فضلہ خارج کرتے ہیں وہ زمین کی زرخیزی بڑھانا شروع کردیتا ہے۔ روایتی طریقے سے کلر والی زمین کو قابل کاشت بنانے کے لئے کئی سال درکار ہوتے ہیں۔ وہاں پہلے گھاس لگائی جاتی ہے ،پھر جپسم اور مختلف کھادیں استعمال کی جاتی ہیں لیکن لیکوئیڈ فارمولے میں کوئی اضافی کھاد استعمال نہیں کی جاتی ہے۔



سید بابرعلی کے مطابق انہوں نے یہ رقبہ 12 سے 13 لاکھ روپے فی ایکڑ میں خریدا ہے،باغ لگنے کے بعد یہ رقبہ 25 سے 30 لاکھ روپے میں فروخت ہوگا۔ اس سے ناصرف لوگوں کو روزگار ملے گا بلکہ بنجر زمینیں قابل کاشت بنائی جاسکیں گی۔ آئندہ چندروز میں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے ماہرین یہاں کا دورہ کریں گے ،یہاں کی مٹی اوریہاں لگائے گئے باغ کا تجزیہ کیاجائے گا کیونکہ پاکستان میں یہ منفردنوعیت کا کام ہے۔



زرعی ماہرین کے مطابق کلر اور تھور سے متاثرہ زمینوں کو نامیاتی اور غیر نامیاتی دونوں طریقوں سے قابل کاشت بنایا جاسکتا ہے ۔ زرعی سائنسدانوں نے کلر اور تھور زدہ رقبوں پر فصلات کی کامیاب کاشت کے کچھ جدید طریقے متعارف کرائے ہیں جن کے ذریعے کم خرچ سے اچھی پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے۔ تھور زدہ زمینوں کو قابل کاشت بنانے کے جدید طریقہ کاشت کو سیلائن ایگریکلچر کا نام دیا گیا ہے۔ سیلائن زراعت کا مقصد شور زدہ اراضیات اور کھارے پانی کا بہتر طریقہ سے استعمال ہے۔ یہ ایک آسان اور سستا جدید طریقہ ہے جس کے ذریعے کلر اور سیم کے خلاف فصلات اور ان کی بہتر اقسام کا چناؤ کیا جاتا ہے۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں کلر اور تھور سے متاثرہ رقبہ کم و بیش پونے دو لاکھ ایکڑ ہے۔ اس میں سے کچھ رقبہ زیر کاشت لایا گیا ہے جبکہ زیادہ تر رقبہ ویران اور خالی پڑا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں