اسرائیل کی حمایت میں مہم
مولانا فضل الرحمان اسرائیل کے حوالے سے جن خدشات کا اظہار کرتے تھے وہ حقیقت بن کر سامنے آنا شروع ہوچکے ہیں۔
سورۃ النحل میں اﷲ کریم کا فرمان عالی شان ہے کہ '' اور اس عورت جیسے نہ بنو جو اپنا سوت محنت کے بعد کات کر توڑ ڈالے، کہ تم اپنی قسموں کو آپس میں فساد کا ذریعہ بنانے لگو محض اس لیے کہ ایک گروہ دوسرے گروہ سے بڑھ جائے، اﷲ اس میں تمہاری آزمائش کرتا ہے، اور جس چیز میں تم اختلاف کرتے ہو اﷲ اسے ضرور قیامت کے دن ظاہر کردے گا''۔
جمعیت علماء اسلام کے بزرگ عالم دین، اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی کے اس بیان نے ہلچل مچا کے رکھ دی جس میں انھوں نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کھل کر حمایت کردی۔ اس ''مشن'' پر تو ہمارے ایک نامور اینکرپرسن بھی دکھائی دیے۔
ایک غیر ملکی چینل کو انٹرویو میں انھوں نے کھل کر پاکستان اور اسرائیل تعلقات کی حمایت میں استدلال پیش کیے، یہی نہیں انھوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اگر کوئی پاکستانی حکمران اسرائیل کو تسلیم کرسکتا ہے تو وہ عمران خان ہے کیونکہ وہ انتہا پسند سوچ نہیں رکھتے۔ اس سطح کے لوگوں کے اس نوعیت کے بیانات محض اتفاق نہیں بلکہ ایک منظم مہم کا حصہ معلوم ہوتے ہیں۔
کسی بھی معاشرے میں رائے عامہ بنانے کے لیے سب سے بڑا کردار مذہبی رہنما، صحافی، دانشور اور اساتذہ کرتے ہیں کیونکہ ان کا رابطہ براہ راست عوام سے ہوتا ہے اور عوام ان کی بات کو ناصرف سنتے ہیں بلکہ یقین بھی کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت پاکستان میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی مہم کے لیے انھی طبقات کی کچھ شخصیات کو لانچ کیا گیا ہے۔
ہمیں دلی طور پر افسوس اس بات کا ہے کہ مولانا شیرانی جیسی قد آور شخصیت نے دانستہ یا نادانستہ طور پر اسرائیل کے حوالے سے بات کردی۔ ان کا یہ بیان ان کی اپنی جماعت کی پالیسیوں کے ہی نہیں بلکہ پاکستان کے اصولی اور امت مسلمہ کے اجتماعی موقف کے بھی برعکس تھا۔
مولانا فضل الرحمان اسرائیل کے حوالے سے دو ٹوک اور سخت گیرموقف رکھتے ہیں، وہ تو اسرائیل کے حوالے سے موجودہ حکومت کو ناصرف شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں بلکہ اپنی تقاریر میں حکمرانوں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں کیونکہ اسرائیل ناجائزصیہونی ریاست ہے جس نے ناصرف مسلمانوں کے قبلہ اول پر اپنے استبدادی پنجے گاڑھ رکھے ہیں بلکہ عربوں کی زمینوں پر بھی قبضہ کررکھا ہے، اسے تسلیم کرنے کی باتیں جہاں عالم اسلام کے اجتماعی موقف کی نفی ہے وہاں فلسطینیوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔میری سمجھ سے باہر ہے کہ مولانا شیرانی جیسی صاحب علم شخصیت نے کیوں ایسے متنازعہ اشو کو چھیڑ دیا ۔ ان کے اس بیان کی حمایت نہیں کی جاسکتی۔
کچھ عرصے سے اسرائیل کو مسلم ممالک سے تسلیم کرنے کی مہم نے زور پکڑا ہے اور اسرائیل کے زیر زمین خیرخواہ آہستہ آہستہ بول پڑے ہیں جو بین الاقوامی استعمار کے دباؤ کے ساتھ مل جانے کی وجہ سے بہت سے اسلامی ممالک شدید دباؤ میں ہیں، کئی ممالک اس دباؤ کوبرداشت نہ کرسکے اور انھوں نے صیہونی ریاست کے ساتھ تعلقات قائم کرکے عالم اسلام کی ناراضگی مول لی۔
سعودی عرب اور پاکستان کے حوالے سے بھی باتیں گردش کررہی تھیں، یہاں تک کہا جارہا تھا کہ اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے پر سعودی قیادت ہم سے خفا ہوگئی ہے اور اسی لیے تین ارب ڈالر وقت سے پہلے مانگ لیے تاکہ پاکستان پر دباؤ بڑھایا جاسکے تاہم چند روز قبل وزیراعظم کے خصوصی نمایندہ برائے مشرق وسطیٰ حافظ محمد طاہر محمود اشرفی نے ان خبروں کی تردید کی، خدا کرے ایسا ہی ہو کیونکہ بحیثیت مسلمان ہمیں تو حسن ظن ہی کی تعلیم دی گئی ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ابھی تک پاکستانی حکومت دو ٹوک انداز میں اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کے حوالے سے موقف اپنائے ہوئے ہے، خود وزیر اعظم پاکستان عمران خان یہ بات کہہ چکے ہیں کہ فلسطین کی آزادی تک اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات قائم نہیں ہوسکتے، انھوں ان خبروں کی بھی کھل کرتردید کی کہ کوئی مشیر تل ابیب کے دورے پر گیا۔
وزیر اعظم نے صیہونی ریاست کے حوالے سے جس موقف کا اعلان کیا، یہی موقف پاکستانی عوام کے جذبات کی ترجمانی ہے۔ پاکستان عالم اسلام کا ایک اہم ملک ہے جو کسی صورت اسرائیل کو تسلیم نہیں کرسکتا۔
وزیر اعظم کی یقین دہانی اپنی جگہ لیکن ہم جن حالات سے گزر رہے ہیں اور جس منظم مہم کا شکار ہیں، ہمیں اپنے دل و دماغ ، آنکھیں اور کان کھلے رکھنے ہوں گے کیونکہ مولانا فضل الرحمان اسرائیل کے حوالے سے جن خدشات کا اظہار کرتے تھے وہ حقیقت بن کر سامنے آنا شروع ہوچکے ہیں، ہمیں اسرائیل کے حوالے سے نرم گوشہ رکھنے والوں پر کڑی نظر رکھنا ہوگی، اگر ایسا نہ کیا تو پانی پلوں سے بہہ جائے گا اور ہمیں پتا بھی نہیں چلے گا۔
فلسطینی 1948 سے اپنے وطن کی آزادی کے لیے جدوجہد کررہے ہیں، انھیں اس بات کا ادراک ہے کہ ان کا دشمن عیار، چالاک، مکار اور سنگدل ہے جب کہ دوست غافل، بے نیاز اور چشم پوش ہیں۔ نہ دشمن اپنی کھال میں آتا ہے اور نہ ہی دوست اپنے خول سے باہر نکلتے ہیں۔ جفا کاروں کی جفائیں ہیں کہ بڑھتی جارہی ہیں اور غمخواروں کی بے نیازیاں ہیں کہ ختم ہونے میں نہیں آتیں۔
اسی لیے انھوں نے اپنی جدوجہد کا ایک ایسا راستہ تلاش کیاجس پر کوئی روک نہیں لگا سکتا اور وہ اس راستے پر آج تک چل رہے ہیں۔ صیہونی منصوبہ سازوں نے فلسطینی مسلمانوں پر وہ مظالم ڈھائے جنھیں سن کر پہاڑوں کا سینہ بھی شق ہوجائے۔ اسرائیلی فوج امریکی جہازوں میں بیٹھ کر ان پر آسمان سے آگ برساتی رہی، زمین سے امریکی ساختہ ٹینکوں اور سمندر سے امریکی نیوی کے جہازوں میں بیٹھ کر گولے برساتے رہے تاکہ وہ اپنے وطن کی آزادی کی تحریک سے علیحدہ ہوجائیں۔
یوں محسوس ہورہا ہے جیسے فلسطینیوں کی اسی جدوجہد کی بنیاد پر انسانی تاریخ اس موڑ پر آن پہنچی ہے جہاں سے اسے دوبارہ لکھے جانے کا مرحلہ درپیش ہے، معیار، مثال، علامت اور استعارہ بدل چکا ہے۔ صیہونیوں کے فلسطینیوں پر مظالم اور قتل عام نے چنگیز خان، ہلاکو خان اور ہٹلر کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
دنیا بھر کے دانشور، مفکر اور اہل قلم اس ادھیڑ بن میں مبتلا ہیں کہ خون آشامی کے معیار بدلیں کہ بربریت کی مثالیں، انسانی قتل کی نئی شرح لکھیں یا قتل آمادہ روایات کی توصیف بیان کریں، اسرائیلی جنگی طاقت کو بے گناہ انسانیت کے قتل کے استعارہ کے طور پر استعمال کیا جائے یا اسے جنگل کے قانون کی طرح مجبوری سمجھا جائے۔
دنیا کی مہلک ترین جنگی مشینری کا استعمال نہتے فلسطینیوں اور ان کے معصوم بچوں پر کیا جاتا ہے، عالم اسلام ہی نہیں اقوام متحدہ بھی اس جارح کا آگے بڑھ کر ہاتھ روکنے کو تیار نہیں۔ ایسی صورتحال میں جب ایک ایک کرکے عرب ممالک فلسطینیوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر اسرائیل جیسے عالمی دہشت گرد ملک کے ساتھ کھڑے ہو رہے ہیں ایسے حالات میں دنیا بھر کے مسلمانوں کی نگاہیں اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت پاکستان کی جانب ہیں؟
الحمدللہ پاکستان لمحۂ موجود تک فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا ہے، اس سے پہلے اسرائیل کے حوالے سے کسی طبقے سے نرم گوشہ سامنے نہ آیا لیکن گزشتہ ایک ماہ سے حالات غیر معمولی دکھائی دے رہے ہیں، پہلے نورڈاہری کا انٹرویو چلا ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں وہ ایک عرصے سے پاکستان چھوڑ کر صیہونی طاقتوں کے لیے کام کررہا ہے لیکن ایک دم مولانا شیرانی اور احمد قریشی جیسے لوگوں کا اسرائیل کی حمایت میں نکلنااس بات کی دلیل ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ جب پاکستان جیسے ملک سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں سامنے آئیں گی تو اس سے فلسطینیوں کو مایوسی ہوگی۔
غفلت سے نکل، دین کی دعوت کے لیے اٹھ
اب گنبدِ خضری کی حفاظت کے لیے اٹھ
ظالم کے شکنجے سے چھڑا اہل وفا کو
مظلوم زمانہ کی حمایت کے لیے اٹھ
جو جسم عرب کے لیے ناسور بنا ہے
اس خطۂ موذی کی جراحت کے لیے اٹھ
جمعیت علماء اسلام کے بزرگ عالم دین، اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی کے اس بیان نے ہلچل مچا کے رکھ دی جس میں انھوں نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کھل کر حمایت کردی۔ اس ''مشن'' پر تو ہمارے ایک نامور اینکرپرسن بھی دکھائی دیے۔
ایک غیر ملکی چینل کو انٹرویو میں انھوں نے کھل کر پاکستان اور اسرائیل تعلقات کی حمایت میں استدلال پیش کیے، یہی نہیں انھوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اگر کوئی پاکستانی حکمران اسرائیل کو تسلیم کرسکتا ہے تو وہ عمران خان ہے کیونکہ وہ انتہا پسند سوچ نہیں رکھتے۔ اس سطح کے لوگوں کے اس نوعیت کے بیانات محض اتفاق نہیں بلکہ ایک منظم مہم کا حصہ معلوم ہوتے ہیں۔
کسی بھی معاشرے میں رائے عامہ بنانے کے لیے سب سے بڑا کردار مذہبی رہنما، صحافی، دانشور اور اساتذہ کرتے ہیں کیونکہ ان کا رابطہ براہ راست عوام سے ہوتا ہے اور عوام ان کی بات کو ناصرف سنتے ہیں بلکہ یقین بھی کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت پاکستان میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی مہم کے لیے انھی طبقات کی کچھ شخصیات کو لانچ کیا گیا ہے۔
ہمیں دلی طور پر افسوس اس بات کا ہے کہ مولانا شیرانی جیسی قد آور شخصیت نے دانستہ یا نادانستہ طور پر اسرائیل کے حوالے سے بات کردی۔ ان کا یہ بیان ان کی اپنی جماعت کی پالیسیوں کے ہی نہیں بلکہ پاکستان کے اصولی اور امت مسلمہ کے اجتماعی موقف کے بھی برعکس تھا۔
مولانا فضل الرحمان اسرائیل کے حوالے سے دو ٹوک اور سخت گیرموقف رکھتے ہیں، وہ تو اسرائیل کے حوالے سے موجودہ حکومت کو ناصرف شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں بلکہ اپنی تقاریر میں حکمرانوں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں کیونکہ اسرائیل ناجائزصیہونی ریاست ہے جس نے ناصرف مسلمانوں کے قبلہ اول پر اپنے استبدادی پنجے گاڑھ رکھے ہیں بلکہ عربوں کی زمینوں پر بھی قبضہ کررکھا ہے، اسے تسلیم کرنے کی باتیں جہاں عالم اسلام کے اجتماعی موقف کی نفی ہے وہاں فلسطینیوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔میری سمجھ سے باہر ہے کہ مولانا شیرانی جیسی صاحب علم شخصیت نے کیوں ایسے متنازعہ اشو کو چھیڑ دیا ۔ ان کے اس بیان کی حمایت نہیں کی جاسکتی۔
کچھ عرصے سے اسرائیل کو مسلم ممالک سے تسلیم کرنے کی مہم نے زور پکڑا ہے اور اسرائیل کے زیر زمین خیرخواہ آہستہ آہستہ بول پڑے ہیں جو بین الاقوامی استعمار کے دباؤ کے ساتھ مل جانے کی وجہ سے بہت سے اسلامی ممالک شدید دباؤ میں ہیں، کئی ممالک اس دباؤ کوبرداشت نہ کرسکے اور انھوں نے صیہونی ریاست کے ساتھ تعلقات قائم کرکے عالم اسلام کی ناراضگی مول لی۔
سعودی عرب اور پاکستان کے حوالے سے بھی باتیں گردش کررہی تھیں، یہاں تک کہا جارہا تھا کہ اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے پر سعودی قیادت ہم سے خفا ہوگئی ہے اور اسی لیے تین ارب ڈالر وقت سے پہلے مانگ لیے تاکہ پاکستان پر دباؤ بڑھایا جاسکے تاہم چند روز قبل وزیراعظم کے خصوصی نمایندہ برائے مشرق وسطیٰ حافظ محمد طاہر محمود اشرفی نے ان خبروں کی تردید کی، خدا کرے ایسا ہی ہو کیونکہ بحیثیت مسلمان ہمیں تو حسن ظن ہی کی تعلیم دی گئی ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ابھی تک پاکستانی حکومت دو ٹوک انداز میں اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کے حوالے سے موقف اپنائے ہوئے ہے، خود وزیر اعظم پاکستان عمران خان یہ بات کہہ چکے ہیں کہ فلسطین کی آزادی تک اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات قائم نہیں ہوسکتے، انھوں ان خبروں کی بھی کھل کرتردید کی کہ کوئی مشیر تل ابیب کے دورے پر گیا۔
وزیر اعظم نے صیہونی ریاست کے حوالے سے جس موقف کا اعلان کیا، یہی موقف پاکستانی عوام کے جذبات کی ترجمانی ہے۔ پاکستان عالم اسلام کا ایک اہم ملک ہے جو کسی صورت اسرائیل کو تسلیم نہیں کرسکتا۔
وزیر اعظم کی یقین دہانی اپنی جگہ لیکن ہم جن حالات سے گزر رہے ہیں اور جس منظم مہم کا شکار ہیں، ہمیں اپنے دل و دماغ ، آنکھیں اور کان کھلے رکھنے ہوں گے کیونکہ مولانا فضل الرحمان اسرائیل کے حوالے سے جن خدشات کا اظہار کرتے تھے وہ حقیقت بن کر سامنے آنا شروع ہوچکے ہیں، ہمیں اسرائیل کے حوالے سے نرم گوشہ رکھنے والوں پر کڑی نظر رکھنا ہوگی، اگر ایسا نہ کیا تو پانی پلوں سے بہہ جائے گا اور ہمیں پتا بھی نہیں چلے گا۔
فلسطینی 1948 سے اپنے وطن کی آزادی کے لیے جدوجہد کررہے ہیں، انھیں اس بات کا ادراک ہے کہ ان کا دشمن عیار، چالاک، مکار اور سنگدل ہے جب کہ دوست غافل، بے نیاز اور چشم پوش ہیں۔ نہ دشمن اپنی کھال میں آتا ہے اور نہ ہی دوست اپنے خول سے باہر نکلتے ہیں۔ جفا کاروں کی جفائیں ہیں کہ بڑھتی جارہی ہیں اور غمخواروں کی بے نیازیاں ہیں کہ ختم ہونے میں نہیں آتیں۔
اسی لیے انھوں نے اپنی جدوجہد کا ایک ایسا راستہ تلاش کیاجس پر کوئی روک نہیں لگا سکتا اور وہ اس راستے پر آج تک چل رہے ہیں۔ صیہونی منصوبہ سازوں نے فلسطینی مسلمانوں پر وہ مظالم ڈھائے جنھیں سن کر پہاڑوں کا سینہ بھی شق ہوجائے۔ اسرائیلی فوج امریکی جہازوں میں بیٹھ کر ان پر آسمان سے آگ برساتی رہی، زمین سے امریکی ساختہ ٹینکوں اور سمندر سے امریکی نیوی کے جہازوں میں بیٹھ کر گولے برساتے رہے تاکہ وہ اپنے وطن کی آزادی کی تحریک سے علیحدہ ہوجائیں۔
یوں محسوس ہورہا ہے جیسے فلسطینیوں کی اسی جدوجہد کی بنیاد پر انسانی تاریخ اس موڑ پر آن پہنچی ہے جہاں سے اسے دوبارہ لکھے جانے کا مرحلہ درپیش ہے، معیار، مثال، علامت اور استعارہ بدل چکا ہے۔ صیہونیوں کے فلسطینیوں پر مظالم اور قتل عام نے چنگیز خان، ہلاکو خان اور ہٹلر کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
دنیا بھر کے دانشور، مفکر اور اہل قلم اس ادھیڑ بن میں مبتلا ہیں کہ خون آشامی کے معیار بدلیں کہ بربریت کی مثالیں، انسانی قتل کی نئی شرح لکھیں یا قتل آمادہ روایات کی توصیف بیان کریں، اسرائیلی جنگی طاقت کو بے گناہ انسانیت کے قتل کے استعارہ کے طور پر استعمال کیا جائے یا اسے جنگل کے قانون کی طرح مجبوری سمجھا جائے۔
دنیا کی مہلک ترین جنگی مشینری کا استعمال نہتے فلسطینیوں اور ان کے معصوم بچوں پر کیا جاتا ہے، عالم اسلام ہی نہیں اقوام متحدہ بھی اس جارح کا آگے بڑھ کر ہاتھ روکنے کو تیار نہیں۔ ایسی صورتحال میں جب ایک ایک کرکے عرب ممالک فلسطینیوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر اسرائیل جیسے عالمی دہشت گرد ملک کے ساتھ کھڑے ہو رہے ہیں ایسے حالات میں دنیا بھر کے مسلمانوں کی نگاہیں اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت پاکستان کی جانب ہیں؟
الحمدللہ پاکستان لمحۂ موجود تک فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا ہے، اس سے پہلے اسرائیل کے حوالے سے کسی طبقے سے نرم گوشہ سامنے نہ آیا لیکن گزشتہ ایک ماہ سے حالات غیر معمولی دکھائی دے رہے ہیں، پہلے نورڈاہری کا انٹرویو چلا ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں وہ ایک عرصے سے پاکستان چھوڑ کر صیہونی طاقتوں کے لیے کام کررہا ہے لیکن ایک دم مولانا شیرانی اور احمد قریشی جیسے لوگوں کا اسرائیل کی حمایت میں نکلنااس بات کی دلیل ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ جب پاکستان جیسے ملک سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں سامنے آئیں گی تو اس سے فلسطینیوں کو مایوسی ہوگی۔
غفلت سے نکل، دین کی دعوت کے لیے اٹھ
اب گنبدِ خضری کی حفاظت کے لیے اٹھ
ظالم کے شکنجے سے چھڑا اہل وفا کو
مظلوم زمانہ کی حمایت کے لیے اٹھ
جو جسم عرب کے لیے ناسور بنا ہے
اس خطۂ موذی کی جراحت کے لیے اٹھ