کیا موروثی امراض سے بچا جاسکتا ہے

پاکستان میں 200 ملین میں سے 29 ملین افراد موروثی امراض میں مبتلا ہیں

پاکستان میں 200 ملین میں سے 29 ملین افراد موروثی امراض میںمبتلا ہیں۔ فوٹو: فائل

پاکستان میں ماہرین کے مطابق ہر 200 ملین اشخاص میں سے 29 ملین افراد 'موروثی امراض' میں مبتلا نظر آتے ہیں۔معالج نے ان کے امراض کو لاعلاج قرار دیا ہے، مگر علامات کی مدافعت میں مختلف ادویہ کا انتخاب کیا جاتا ہے۔

یہ ادویہ مستقل افادیت سے مستفید نہیں کرتیں مگر چندگھنٹوں کے لیے مریض اپنے آپ میں بہتری ضرور محسوس کرتے ہیں۔ موروثی امراض کا ارتقاء ان لوگوں سے ہواجو حاملہ کے حمل کو جاننے کے لیے کہ آیا نر ہے کہ مادہ 'ایکس رے شعاع' کا استعمال کراتے ہیں ۔کیوں کہ اس وقت حمل نہایت نازک مرحلے پر ہوتا ہے، لہذا یہ شعاعیں نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔

سائنس دانوں کے جائزہ کے مطابق موروثیت ، رنگین مادّے (کورموسوم) میں مقید ہوتے ہیں۔ موروثیت کی لمبائی اور رنگین مادّہ میں بندش ایسی ہے کہ اگر پانچ انگریزی حروف جتنی لمبائی والے رنگین مادّے میں موجود موروثیت کو کھولا جائے تو بیس اعشاریہ بارہ میٹر لمبی موروثیت حاصل ہو گی۔

اس موروثیت میں ایک خاص ترتیب سے 'بیسیز'پائی جاتی ہیں ۔ اس ترتیب میں کسی وجہ سے ردّدوبدل ہوجائے تو مخصوص امراض جنم لیتے ہیں ۔ یہ ترتیب گاہے بیس کے مٹ جانے ،گاہے کسی بیس کی جگہ دوسری بیس کے لینے یا بیس کی شکل بدلنے سے خراب ہوتی ہے۔یوں مختلف امراض کی علامات انسان پر آشکار ہوتی ہیں ۔اکثر درج ذیل امراض کو موروثی امراض میں شامل کیا ہے:

1۔ البی نزم: اس مرض میں مریض کی نگاہ کمزور ہوتی ہے۔عینک کسی حد تک مدد دیتی ہے لیکن کچھ اشخاص کو عینک سے بھی فائدہ نہیں ملتا ، جبکہ کچھ کو چمکتی ہوئی روشنی ضرر رساں ثابت ہوتی ہے۔

2۔ اینجل مین سنڈروم: بچہ چھ سے 21 ماہ تک نشونما نہیں پاتا۔اس کے علاوہ بغیر وجہ کے ہنستے رہنا، بہت کم بولنا یا خاموش رہنا، چلنے پھرنے میں دشواری اور عدم توازن ، بچپن میں ہی بہت کم آرام کرنا، کے علاوہ جھٹکے،چھوٹا سر جو پچھلی جانب سے چپٹا ہوتا ہے، دانتوں کے درمیان زیادہ فاصلہ اور بھینگا پن اس امراض کی خاص علامات ہیں۔

3۔ سسٹک فائبروسس: بہت نمکین پسینہ، امراضِ صدر، امراضِ ہضم، نومولود بچوں میں 'ہیل پرک ٹیسٹ' کے ذریعے اس مرض کی تشخیص کی جاتی ہے۔ ان بچوں کی آنتیں چپکی ہوئی اور ان کی دیوار دبیز (موٹی) ہوتی ہے۔

4۔ ڈاؤن سنڈروم : سننے اور دیکھنے میں کوتاہی، امراضِ ہضم، امراضِ قلب، ہڈیوں کے امراض ، دانت کی درست نشونما نہ ہونا ، ان کی قوتِ مدافعت بچپن سے کمزور ہوتی ہے۔

5۔ مسکولر ڈسٹروفی: عضلات میں نقاہت (جسمانی وضع میں کوتاہی) ، مفاصل (جوڑوں) کی حرکت میں خرابی، عضلاتِ قلب کی کمزوری، عضلی کمزوری کے ساتھ ساتھ سانس میں دشواری ہونے لگتی ہے۔


6۔ ہیموفلیا: بغیر وجہ کے خون کا بہنا، معمولی جراحت کے نتیجے میں زیادہ خون بہنا، مادّہ انجماد (بلڈ پلیٹ لیٹس)کی کمی۔

7۔ تھیلے سیمیا: تھکاوٹ، نقاہت،نشوونما میں کمی، سیاہ مائل بول، پیلی جلد، سوجا ہوا شکم، چہرے کی ہڈیوں کی وضع میں خرابی۔

کیا موروثی امراض قابلِ علاج ہیں؟

ربّ تعالیٰ نے موت کے سوا ہر مرض کا علاج دیا ہے۔ موروثی امراض کا علاج دو طریقوں سے کیا جاتا ہے۔ گاہے عارضی علامات کو دفع کرنے کی غرض سے اور گا ہے جدید طرز سے یعنی خاص خراب جین کو معلوم کر کے مختلف طریقوں سے درست کرتے ہیں، مثلاً جس مریض میں کسی خاص جین کی کمی ہے تو ' ویکٹر' یعنی وائرس میں درست جین داخل کر کے مریض میں داخل کیا جاتی ہے۔ یوں جوں جوں وائرس کی تعداد بڑھتی ہے خراب جین بھی تبدیل ہو کر درست ہوجاتی ہے مگر اس امر کے لیے ایسے وائرس کا انتخاب کرتے ہیں جو مضر نہ ہو۔ کچھ امراض ایسے ہیں ، جن میں جین کا کردار نہیں ہوتا مگر موروثی طور پر بچہ کمزور ہوتا ہے، مثلا شوگر ، امراضِ قلب، سرطان کہ ان میں جین کا دخل نہیں مگر جس کے والدین کو ہو ، بچہ کسی نہ کسی عمر میں اِن امراض میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

موروثی امراض سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟

1 ۔ شادی سے پہلے ہی جوڑوں کا لیب ٹیسٹ کرانا چاہیے۔

2 ۔ جس مرض میں مستقبل کے ماں باپ مبتلا نظر آئیں، ان علامات سے نمٹنے والی ادویہ ضرور استعمال کرائیں۔

3 ۔ حمل کے دوران ہمہ قسم کی شعاعوں سے بچائیں۔

4 ۔ سورج اور چاند گرہن کے ایام میں حاملہ کو سورج ،چاند کی روشنی سے بچائیں۔

5 ۔ حاملہ کو دورانِ حمل پُرسکون ماحول دیں اور گھریلو کام کاج نہ کرائیںکہ ذرا سی بے احتیاطی سے حمل ضائع ہوجاتا ہے، جس سے حاملہ کی جان کا خطرہ ممکن ہے۔
Load Next Story